عزیربلوچ کے ایرانی انٹیلی جنس سے مراسم

1,094

2003ءمیں مخالف گینگ کے سربراہ ارشد پپو کی جانب سے رحمان ڈکیت کے قریبی سمجھے جانے والے مامافیضو کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اپنے والد کی ہلاکت کے بعد عزیر دووجوہات کی وجہ سے رحمان ڈکیت کے گینگ میں شامل ہوئے.

لیاری گینگ وار کے اہم کردار اورکالعدم پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو فوج نے غیر ملکی خفیہ اداروں کو ملکی راز فراہم کرنے کے الزام کے تحت اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے منگل کو رات گئے ٹوئٹر پر شائع پیغامات میں بتایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی تحویل میں لیا گیا جبکہ ان پرملک کی جاسوسی یعنی غیر ملکی خفیہ اداروں کو حساس حفاظتی معلومات کی فراہمی کا الزام ہے۔ البتہ فوج کے ترجمان کی جانب سے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

عزیربلوچ کراچی کی جرائم کی دنیا کا مرکزی کردارہے۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے عزیر بلوچ پر کراچی کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور پولیس پر حملوں سمیت مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں لگ بھگ 35 مقدمات درج تھے۔ البتہ ستمبر 2013 ءمیں کراچی میں رینجرزکی سربراہی میں آپریشن شروع ہونے کے بعدعزیربلوچ بیرون ملک فرارہونے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کے بعد حکومت نے کئی مرتبہ ان کے سر کی قیمت مقرر کی تھی۔ تقریباً سوا سال تک منظر سے غائب رہنے کے بعد وہ دسمبر2014ءکے اواخر میں اچانک دبئی میں نمودار ہوئے جہاں انٹرپول کے ذریعے ان کی گرفتاری کی خبریں منظر عام پر آئیں۔البتہ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں مذیدمعلومات نہیں آئیں۔ بعد میں جنوری 2016ءمیں سندھ رینجرز نے ایک مختصر پریس ریلیز میں عزیربلوچ کو کراچی کے مضافاتی علاقے سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ عدالت نے عزیر بلوچ کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا اور ان پر عائد الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

اگست 2009ءمیں پولیس افسر چودہری اسلم کی جانب سے ایک مقابلے میں لیاری گینگ کے سربراہ عبدالرحمان عرف رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد عزیربلوچ گینگ کی دنیا میں مرکزی کردار کے طورکرابھرکرسامنے آئے اورتمام گینگ کمانڈروں کے اتفاق سے کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ البتہ گینگ کی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل وہ اپنے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ رہے تھے۔ ان کے والد فیض محمد عرف ماما فیضو لیاری کے ایک مشہورسماجی رہنما تھے جو کراچی سے ٹھٹہ کی بس سروس چلاتے تھے۔ مشرف دورمیں متعارف کردہ بلدیاتی انتخابات میں لیاری کی سنگولین یونین کونسل سے آزاد امیدوارکے حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا مگرپاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوارکے ہاتھوں ہارگئے۔

2003ءمیں مخالف گینگ کے سربراہ ارشد پپو کی جانب سے رحمان ڈکیت کے قریبی سمجھے جانے والے مامافیضو کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اپنے والد کی ہلاکت کے بعد عزیر دووجوہات کی وجہ سے رحمان ڈکیت کے گینگ میں شامل ہوئے۔ اوّل والد کے قتل کے کیس کی عدالت میں پیروی کرنے کی وجہ سے ارشدپپو کے گینگ سے بچنے کے لئے اوردوم اپنے والد کابدلہ لینے لئے۔ رحمٰن ڈکیت کی جانب سے پیپلزامن کمیٹی تشکیل دینے کے بعد گروہ کے سماجی کام کی ذمہ داریاں عزیرکوسونپی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ رحمان ڈکیت کے مارے جانے کے بعد گروہ کے تمام کمانڈروں نے نورمحمد عرف بابا لاڈلہ کے بجائے عزیربلوچ کو رحمن ڈکیت کے صاحبزادے کبیرکے بالغ ہونے تک گروہ کا نیا سربراہ نامزدکیا۔

غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عذیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی اوران کے پروگراموں میں اس وقت کے وزیراعلٰی سید قائم علی شاہ اورفریال تالپور سمیت مرکزی قیادت شرکت بھی کرتے رہی مگرآصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفرعرف ٹپی کی جانب سے لیاری سے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش کوعزیربلوچ کی جانب سے مستردکئے جانے پر ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں چودہری اسلم کی قیادت میں پولیس آپریشن شروع کردیا گیا جو بری طرح ناکام ہونے پرایک ہی ہفتے میں ختم کردیا گیا۔ پیپلزامن کمیٹی کی جانب سے پی پی پی قیادت پردباﺅڈال کر 2013 کے عام انتخابات میں پی پی پی کی لیاری کی ایک قومی اوردوصوبائی اسمبلی کی نشستوں پراپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دلواکر انہیں پارلیمنٹ بھجوادیا۔ مارچ 2013ءمیں عزیربلوچ نے اپنے والد کے قاتل ارشد پپوکو بے دردی سے قتل کیا جس پرسپریم کورٹ کی جانب سے بھی نوٹس لیاگیا۔

کراچی آپریشن شروع ہوتے ہی پیپلزامن کمیٹی میں تقسیم پیدا ہوگئی جس کی وجہ تنظیم کے ترجمان ظفربلوچ کا قتل تھا۔ ظفر بلوچ کے قتل میں پیپلزامن کمیٹی کے آپریشنل کمانڈر نورمحمد عرف بابالاڈلا کے ملوث ہونے کی اطلاعات کے بعد پیپلزامن کمیٹی میں پیداہونے والے اختلافات کھل کرسامنے آگئے  اور عزیربلوچ اوربابالاڈلا گروپس کے مسلح کارندوں کے مابین جنگ شدت اختیارکرگئی۔ آپریشن شروع ہوتے ہی عزیربلوچ فرارہوگئے تھے جبکہ بابالاڈلہ چند ہفتے لیاری میں رینجرزکے ساتھ ایک مقابلے میں ہلاک ہوگئے۔

روزنامہ ڈان میں مئی 2016ءمیں شائع عزیر بلوچ سے متعلق تحقیقات کے حوالے سے ایک خبرکے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جن میں سندھ پولیس، رینجرزاورانٹیلی جنس اداروں کے افسران شامل تھے) نے مبینہ طور پر ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے پر عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ ملک میں آرمی کی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران کے انٹیلی جنس افسران کو فراہم کرتا تھا، جو کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ (سرکاری خفیہ ایکٹ) 1923 کی خلاف ورزی ہے۔ رپورٹ میں عزیر بلوچ کے اقبالی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ‘‘ وہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے آغاز کے بعد ایران فرار ہوگیا تھا جہاں وہ چابہار میں اپنے دوست مالک بلوچ کے ہمراہ رہتا تھا اور وہیں اس کی ملاقات دوہری شہریت رکھنے والے حاجی ناصر سے ہوئی۔ ناصر نے عزیر بلوچ کو مستقل طور پر تہران منتقل ہونے اور بغیر پیسے خرچ کیے ایرانی شہریت دلانے کی پیشکش کی، کیونکہ اس کے ایرانی انٹیلی جنس افسران سے اچھے تعلقات تھے اور وہ عزیر کی ان سے ملاقات کرا سکتا تھا’’۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے ناصر کی پیشکش پر رضا مندی ظاہر کی جس کے بعد اس کی ایرانی انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار سے ملاقات کرائی گئی، جس نے عزیر کو شہریت دلانے کے بدلے کراچی کی سیکیورٹی صورتحال اور مسلح افواج کے عہدیداران سے متعلق مخصوص معلومات فراہم کرنے کو کہا۔

(مضمون نگارکراچی میں مقیم ایک صحافی اورمحقق ہیں اورکراچی میں بدامنی پرایک کتاب کے مصنف بھی ہیں)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...