ہیگل کا تصور نفی

428

ہیگل کے نزدیک نفی کوئی ثانوی شے نہیں ہے بلکہ شے کے اندر ہی immanently موجود ہوتی ہے۔ پہلے پہل ہم شے کی نفی (تجرید) کے روپ میں کرتے ہیں یعنی اس کو باہر موجود تمام اشیا سے کاٹ کر دیکھتے ہیں دوسری نفی ہم شے سے باہر موجود دوسری شے سے کر کے کرتے ہیں لیکن اس دوسرے مرحلے میں بھی یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ پہلے پہل یہ سلسلہ identity کے روپ میں وارد ہوتا ہے پھر اپنے سے دوسرے کے روپ میں جب یہ دوسرا اپنا دوسرا پیدا کرتا ہے تو یہ دوسری نفی واقع ہوتی ہے جہاں ہم شے سے باہر موجود دوسری شے سے پہلی شے کی نہ صرف نفی کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ اسے متعین اور ادراک کے قابل بھی بناتے ہیں یعنی ایک شے کو دوسری شے سے ممیز کرتے ہیں (یھاں یہ عمل اسی لئے کرتے ہیں تا کہ other کے other کا ادراک ہو سکے تبھی ہم کہتے ہیں کہ ہم نے نفی کی) اب نفی بھی reality کے ساتھ ہی ابھرتی ہے۔ جہاں reality فوری identity ہے وہیں نفی ثالثی ہے ۔

اس طرح پہلی نفی محض نفی ہے دوسری نفی reaity اور negation کی وهدت ہے یعنی being اور nonbeing کی کلیت لیکن یہ نفی پہلی نفی کی طرح نہیں ہے جو کہ ہمیں شے کی کسی خصوصیت کا ادراک کروانے کے قابل ہی نہ ہو بلکہ یہ (دوسری) نفی ہمیں شے کا متعین ادراک کرواتی ہے ۔ (میرے لحاظ سے کچھ لوگ اسی کو نفی کی نفی که دیتے ہیں لیکن در اصل یہ نفی کی نفی نہیں ہے)

تیسری نفی ایک کلیت کا اظہار ہے کہ جہاں دوسری نفی اپنے سے باہر شے کے ارتباط کے نتیجے میں اپنی نفی کرتی ہے وہیں یہ تیسری نفی خارج کے داخل میں (جو کہ دراصل داخل ہی کے خارج – کا – ‘داخل‘ ہے) کی نفی کی نفی کرتی ہے یعنی یہ نفی یہ ادراک کرواتی ہے کہ میں کوئی بھی قدم اٹھاتا ہوں در اصل نفی کے مماثل ہے ۔ جہاں دوسری نفی میں other کے other کا ادراک ہوتا ہے تیسری نفی میں دوسرے کا دوسرا اپنے دوسرے میں بدل جاتا ہے اور یہ نفی باہر سے وارد نہیں ہوتی بلکہ یہ نفی داخلی immanently طور پر ہوتی ہے ۔

• ایک مثال
اب ایک سیب کی مثال لے لیتے ہیں اور اوپر موجود تینوں نفی کا اس پر اطلاق کرتے ہیں ؛ پہلے آپ ایک سیب کو اس سے باہر موجود تمام اشیا سے کاٹ دیں یعنی نفی کر دیں تو وہ محض ایک تجرید رہ جائے گا یک رخی حقیقت ، لیکن جب اب ہم نے اس کی یہ تجرید ختم کرنی ہے تو اس کا ارتباط باہر موجود شے سے کرواییں گے جو کہ در اصل متعین نفی ہو گی یہ ارتباط reality – negation کا ارتباط ہے ۔لیکن جب ہم نے سیب پر نفی کا مقولہ وارد کر کے اسے اس سے باہر موجود شے سے ممتاز حیثیت دلوائی تو وہ اپنی شناخت حاصل کر گیا کہ وہ ایک شے ہے شے میں بھی سیب ہے کیونکہ وہ امرود اور آم نہیں ہے لیکن جب یہ سلسلہ چل رها ہوتا ہے اور دوسرا دوسرے کا ادراک کرتا ہے تو دراصل جس دوسرے کی نفی کی بدولت ہم نے اس کے دوسرے کا ادراک کیا در اصل یہ خود اپنی نفی ہے یعنی دوسرے کا دوسرا دراصل اپنا دوسرا ہے یعنی اب تیسری نفی میں نفی کا مقولہ باہر سے وارد نہیں ہوتا بلکہ immanent ہوتا ہے کہ سیب دراصل خود نفی کی نفی ہے یعنی سیب کا ایک چھوٹے سے چھوٹا زرہ اپنی کلی حیثیت میں پورے سیب کی نفی کر رہا ہے یعنی کل جز پر منحصر ہے اور کل کا ادراک جز کی نفی کے بغیر محال ہے اب جنہوں نے ہیگل کی لاجک دیکھی ہے وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ ارے ہم تو اب پھر سے پہلی نفی کی طرف پھر واپس آ گئے لیکن یہ نفی اس پہلی نفی سے زیادہ فوری ہے۔

آپ ایک magnet کی مثال لیں magnet میں ایک positive pole ہے اور ایک negative pole ہے (یہ بات یاد رھے کہ چونکہ ہم ایک متعین magnet کی بات کر رھے ہیں تو پہلی دو نفیوں کا اطلاق اس پر ہو چکا ہے) ہم اس کا مطالعہ تیسری نفی کی رو سے کریں گے یہ magnet در اصل نفی کی نفی کا پیکر ہے کیونکہ یہ مگنٹ اپنی نفی خود اپنے خصائص کی وجہ سے کر رہا ہے یعنی مگنٹ میں موجود منفی اور مثبت پہلو نہ صرف ایک کلی وجود (مگنٹ) کی خصوصیات ہیں اس کی نفی باہر موجود دوسری اشیا سے کر رہی ہیں اور اس کی شناخت ہو رہی ہے بلکہ یہ منفی اور مثبت پہلو اس کلی وجود (مگنٹ) کے اندر بھی برسر پیکار ہیں کیونکہ یہ مثبت اور منفی poles ایک دوسرے کو نہ صرف خارج میں دھکیل رھے ہیں بلکہ یہ تضاد اس magnet کے کلی وجود کی بنیاد بھی ہے یعنی مگنٹ کے اپنے اندر یہ نفی وارد ہوئی جسے ہم (نفی کی نفی) یا identity in difference بھی که سکتے ہیں۔

کہ سیب کا ہر ایک ایٹم نہ صرف اپنی نفی کر رها ہے بلکہ پورے سیب کی بھی نفی کر رها ہے کہ اب میں اگر کوئی بھی معاملہ کرتا ہوں نفی کے مماثل ہے (یہ رشتہ کل کے جز کے ساتھ اور جز کا کل کے ساتھ لازم ہے یہ ایک وهدت ہے یہ رشتہ one and many کا ہے) یہ مسلہ افلاطون کو بھی پیش تھا ، فلاطینوس کو بھی پیش رها اور پروکلس کو بھی لیکن اس کا جواب ہیگل نے دیا ۔ ہیگل نے بس جواب دئے ہیں سوال بھی پہلے ہو چکے تھے اور بنیادیں بھی رکھی جا چکی تھیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...