سندھ کے سکھ

نشرِ مکرر۔ یہ تحریر پہلی مرتبہ فروری 2021 میں تجزیات میں شائع ہوئی تھی۔

503

سندھ میں سکھ، ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم سے قبل ایک بہت بڑی تعداد میں آباد تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد سندھ میں آباد ہندو اور سکھ فسادات کے بعد انڈیا منتقل ہو گئے، لیکن ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی سندھ میں آباد ہے لیکن سکھوں کی آبادی اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ گو کہ اب بھی ان کے سندھ بھر میں گرودوارے موجود ہیں اور ایسے ہندو بھی بے شمار تعداد میں آباد ہیں جو گرو نانک کے پیروکار ہیں۔ یہ سکھ صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ حیدآباد، میرپور خاص اور شکارپور میں بھی آباد تھے۔ ان کے اپنے تعلیمی ادارے تھے جو ان کی زیرِ سرپرستی چلتے تھے۔ ان اداروں میں ہندوؤں، سکھوں کے علاوہ مسلمان بھی خاصی تعداد میں تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن چوں کہ اساتذہ کا تعلق سکھ مت سے ہوتا تھا اس لیے درس وتدریس کے دوران ان کے مذہبی خیالات ان پر حاوی رہتے تھے اور وہ اس کا برملا پرچار بھی کرتے تھے۔

اس حوالے سے سندھ کے معروف دانش ور، مورخ اور ادیب علی احمد بروہی اپنے ایک مضمون میں جو رفیع الزمان زبیری کی زیرِ ادارت ہمدرد فاؤنڈیشن پریس کراچی کی جانب سے 1991 میں ’’میرے بچپن کی دنیا‘‘ نامی کتاب میں شائع ہوا تھا، کے صفحہ نمبر 48 پر اپنے بچپن کی یادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ہمارے گھر میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے تھے اور کبھی کوئی کسی امتحان میں فیل نہیں ہوا تھا، مگر میں ایک بار ششماہی امتحان کے ایک پرچے میں فیل ہوگیا۔ اس کی مجھے شرمندگی تھی اس کی بنیادی وجہ جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ہمارے گھر میں کبھی بھی کوئی فیل نہیں ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی، اے-کے بروہی ہمیشہ اوّل آتے تھے۔ وہ پڑھائی میں سب سے آگے تھے۔ وہ بڑے ہوکر بیرسٹر ہوئے۔ میری بہن کو ایم اے میں اوّل آنے پر سونے کا تمغہ ملا تھا۔گھر میں اگر بڑا بچّہ حد سے زیادہ ذہین ہو تو دوسروں کو اور زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہم بھی بہت محنت کرتے تھے تاکہ ان سے بہت پیچھے نہ رہیں۔

ہمارا اسکول سکھوں کا اسکول تھا۔ اس کا نام گرو نانک اکیڈمی تھا۔ سندھ کے سکھ پنجاب کے سکھوں سے بہت مختلف تھے۔ کرپان یاکڑا وغیرہ ان کے لیے لازمی نہیں ہوتا تھا، البتہ ان کی داڑھی ضرور ہوتی تھی۔ یہ دراصل سندھی سکھ تھے۔ میں جس پرچے میں فیل ہوا وہ تاریخ کا مضمون تھااور تاریخ کے ایک استاد جو سکھ تھے مسلمان بادشاہوں کی بہت برائیاں کرتے تھے۔ خصوصاً ٹیپو سلطان، صلاح الدین ایوبی، اورنگزیب وغیرہ کی۔ ہم مسلمان ان کی برائیاں نہیں سن سکتے تھے۔ ہمیں غصہ آجاتا تھا اور ہمارا خون جوش مارنے لگتا تھا۔ اس وقت غصہ بھی بہت آتا تھا اور اکثر میں اپنے غصے اور جوش کا اظہار بھی کردیتا تھا۔ سکھ استاد میری یہ بات بلکل پسند نہیں کرتے تھے اور مجھے اکثر سزا دیتے تھے۔ میں نے تاریخ کے پرچے میں خوب محنت کی تھی، مگر اس کے باوجود میرے سکھ ماسٹر نے مجھے اس مضمون میں فیل کردیا۔ مجھے اپنے فیل ہوجانے کا بہت افسوس ہوا اور جی چاہا کہ میں گھر سے چلا جاؤں۔ میں سوچ رہا تھا کہ گھر والوں کا سامنا کیسے کروں گا۔ میں شرمندہ شرمندہ سا گھر آیا۔ گھر والوں کو پہلے ہی پتا چل چکا تھا، انھوں نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا۔ اس طرح میری پریشانی کچھ کم ہوئی اور میں نے زیادہ محنت کرنے کا عزم کیا۔‘‘

سندھ میں سکھ تقریباً تمام ہی شہروں میں آباد تھے، بروہی صاحب نے جس گرو نانک اکیڈمی کا ذکر کیا ہے وہ سندھ کے موجودہ ضلع شکارپور کی تحصیل گڑھی یاسین میں واقع تھی۔ ہم نے بڑی کوشش کی کے اس اکیڈمی کا کچھ حال احوال معلوم ہو سکے لیکن بدقسمتی سے اس میں ناکام رہے۔ ہم میرپور خاص کے بھان سنگھ اور اس کی حویلی کا بھی ذکر کرچکے ہیں، لیکن کراچی میں بھی ایک خالصہ اسکول تھا جس کا نام اب تبدیل ہو کر’’کیمپس اسکول، تعلیم گاہِ نسواں گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول‘‘ہو گیا ہے۔ اسکول کا بیرونی حصہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے لیکن، اسکول کے پچھواڑے کی عمارت قدیم طرز کی ہے۔ بیرونی حصے پر گیٹ کے ساتھ ایک تختی لگی ہوئی ہے، جس پر اب یہ نہیں معلوم کہ یہ زبان ہندی ہے یا گرمکھی، اس میں ایک تحریر درج ہے لیکن نچلے حصے پر انگریزی میں بھی ایک تحریر ہے جو کچھ یوں ہے:

sikhs in sindh

SRI GURU SINGH SABHA KARACHI
KHALSA HIGH SCHOOL
———
FOUNDATION STONE LAID BY
SETH ISHARDAS RAMCHAND
PRESIDENT
SRI GURU SINGH SABHA KARACHI
ON
SRI GURU NANAK’S BIRTHDAY
6TH NOVEMBER ,1930
اس تحریر کا اردو ترجمہ ہمارے خیال میں کچھ یوں ہونا چاہیے:
شری گروسنگھ سبھا کراچی
خالصہ ہائی اسکول
——–
اس کا سنگِ بنیاد سیٹھ ایشر داس رام چند صدر شری گروسنگھ سبھا کراچی نے شری گرو نانک کی سالگرہ کے موقعے پر 6 نومبر 1930 کو رکھا۔

ہمیں ایسا لگتا ہے کہ بروہی صاحب نے سکھوں کے حوالے سے اپنی کہانی بیان کی لیکن ہمدرد فاؤنڈیشن کے جریدے میں چھپنے سے پہلے یا چھپنے کے بعد یہ کہانی کسی اور نے سن لی۔ انھوں نے بروہی صاحب کے ساتھ سکھوں نے جو کچھ کیا تھا اس کا انتقام بہت ہی خوبصور ت انداز میں لیا، یعنی کہ خالصہ اسکول کا نام تبدیل کرکے’’کیمپس اسکول، تعلیم گاہِ نسواں گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول‘‘ رکھ دیا گیا۔ ہم نے خالصہ اسکول کا دورہ کیا تو اسکول کی پرنسپل نے بتایا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ اسکول کسی زمانے میں سکھوں کا اسکول تھا، لیکن پھر بھی انھوں نے ہم پر مہربانی کرتے ہوئے اسکول کی پرانی خاکروب لیلا کو بلوایا۔لیلا نے بتایا کہ اسکول کی نئی عمارت کی تعمیر سے قبل یہاں جالیوں پر ’اوم‘ کا نشان نُمایاں تھا، لیکن جب نئی عمارت تعمیر کی گئی تو ’اوم‘ کے ساتھ پرانی بلڈنگ کو منہدم کرکے نئی عمارت تعمیر کی گئی۔

آئیے اب ذکر کرتے ہیں کراچی میں آباد سکھوں کا جو تقسیم کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندوستان منتقل ہو گئے۔ ان کی ہندوستان منتقلی کے اسباب میں ایک بنیادی وجہ کراچی میں تقسیم کے بعد ہونے والے ہندو مسلم فسادات تھے۔ ان فسادات کے متاثرین میں سکھ برادری بھی شامل تھی۔ نامور محقق زاہد چوہدری اپنی کتاب ’’سندھ مسئلہ خود مختیاری کا آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’رتن تلاؤ کراچی کے سکھ گرودوارے میں بد امنی کی افسوس ناک واردات ہوئی۔ جہاں اڑھائی سو سکھ مرد ،عورتیں اور بچے بمبئی جانے کے لیے مُقیم تھے۔ گرودوارے کو آگ لگادی گئی، تقریباً 70 لوگ زخمی ہوئے۔ ‘‘

رتن تلاؤ کے علاقے سے ہم بہ خوبی آگاہ ہیں ۔لیکن ہمیں اس گرودوارے کا سراغ نہیں مل پارہا تھا۔ جس کاذکر زاہد چوہدری صاحب نے اپنی کتاب میں کیا تھا۔ ہم اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ یہ گرودوارہ ٹیمپل روڈ نامی کسی سڑک پر ہے لیکن تقسیم کے بعد کراچی میں سڑکوں کے نام اس تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں کہ ٹیمپل روڈ کو تلاش کرنا بھی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ ٹیمپل روڈ لاہور میں خاصا مشہور ہے۔ اس روڈ پر بھٹو صاحب کے ذاتی دوست اور ان کی حکومت کے وزیر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب بھی رہتے تھے۔ اسی دور کے ایک اور وزیر ملک غلام نبی کی رہائش بھی اسی روڈ پر تھی۔ اس پر کوئی مندر یا گرودوارہ ہے یا نہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، یہ بات ہمیں ہمارے محسن ،حسین نقی نے بتائی۔ لیکن ہم جس ٹیمپل روڈ کا ذکر کر رہے ہیں وہ کراچی میں موجود ہے۔ اس روڈ پر مندر بھی ہے لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں۔

sikhs in sindh

بات ہورہی تھی ٹیمپل روڈ پر گرودوارے کی۔ اس سے پہلے کہ ہم گرودوارے کے بارے میں مزید بات کو آگے بڑھائیں، پہلے تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں سکھوں کی آبادی اور دیگر گرودواروں اور رہائشی علاقوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ محمودیہ رضویہ اپنی کتاب’’کراچی: ملکہ مشرق‘‘ کے صفحہ نمبر 34 پر لکھتی ہیں کہ:

’’پنجابی سکھ 1930 سے کراچی آنا شروع ہوئے اور بہت جلد ترقی کر گئے۔ وہ ترکھان، بڑھئی، لوہار کا کام کرتے تھے اور الیکٹرک فٹنگ بہ خوبی جانتے تھے۔ مکانات کی تعمیر میں لکڑی کا کام بھی یہی کرتے تھے ،یعنی دروازے کھڑکی وغیرہ کی مرمت و ٹھیکے داری، یہ اونٹ گاڑی کا کام بھی سنبھالنے لگے تھے۔ لیکن یوپی اور پنجاب میں سکھوں اور مسلمانوں کے تعلقات بد سے بد تر ہوگئے۔ اس وجہ سے اگست 1947 سے یہ کراچی چھوڑ کر پنجاب جانے لگے۔‘‘

ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل سکھ کراچی کے کن علاقوں میں آباد تھے اس بارے میں عثمان دموہی صاحب اپنی کتاب ’’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘‘ کی دوسری اشاعت میں لکھتے ہیں:

’’یہ لی مارکیٹ کے علاقے میں آباد تھے، نانک واڑہ کا نام ان ہی کا رکھا ہوا ہے۔ کراچی میں انھوں نے اپنا ایک اسکول اور کئی گرودوارے تعمیر کرائے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ تمام ہندوستان چلے گئے تھے۔‘‘

ایک اتوار کی صبح ہم جلدی بیدار ہوگئے۔ حلوہ پوری کھانے کے لیے ٹیمپل روڈ پر مندر کی دیوار کے ساتھ واقع دکان سے ناشتہ کیا اور صدر کے ریگل چوک کی طرف چل پڑے ۔ اچانک ایک کالج پر نظر پڑی جس کا نام گورنمنٹ کالج نبی باغ ہے۔ خوش قسمتی سے کالج کا گیٹ کھلا ہوا تھا، ہم نے سوچا چلو اندر ہو آئیں ،سابقہ تجربات کی روشنی میں ہمیں یہ گمان تھا کہ ہوسکتا ہے اس کالج کا نام بھی تبدیل ہوگیا ہو۔ اندر مکمل سناٹا تھا، کالج کی باہر والی بلڈنگ کے ساتھ ایک راستہ بھی تھا جو بلڈنگ کے پچھلے حصے کی طرف جارہا تھا۔ ہم اس راستے پر چل دئیے، ایک قدیم عمارت کے آثار نظر آئے جو بلکل ویران تھی۔ چھت گری ہوئی، کھڑکیاں ناپید، ایک صاحب وہاں کھڑے ہوئے تھے اور اس عمارت کے اندر خودرو جھاڑیاں کاٹ ، کاٹ کر اپنی بکریوں کو کھلا رہے تھے۔ انھوں نے سوالیہ نظروں سے ہماری جانب دیکھا، ہم نے کہا کہ کیا یہ کالج کی پرانی عمارت ہے ؟ وہ نفی میں سرہلاتے ہوئے بولے نہیں یہ گرودوارہ ہے۔ پھر انھوں نے پوچھا ’آپ کون ہیں؟‘ ہم نے جواب دیا ’شوقیہ فوٹو گرافر ہوں، اگر اجازت ہوتو کچھ تصویریں بنالیں!‘ انھوں نے کہا ،شوق سے۔ ہم نے جلدی جلدی تصویریں بنائیں، جلدی اس لیے کہ تصویریں بنانے کے حوالے سے ہمارے پچھلے تجربات خاصے تلخ ہیں۔

sikhs in sindh

اب ہمارے ذہن میں کالج اور گرودوارے کی حقیقت معلوم کرنے کا پورا جوش اُمنڈ آیا تھا۔ اگلا دن پیر کا تھا، ہم تقریباً 11 بجے کالج پہنچے۔ پرنسپل صاحب سے ملنے کے لیے ان کے کمرے میں پہنچ گئے ۔ ہم نے انھیں بتایا کہ ہم قدیم تعلیمی اداروں پر لکھتے ہیں، اگر ان کے کالج کی تاریخ مل جائے تو اس پر بھی لکھیں گے۔ ہمارے اس سوال کے بعد پرنسپل صاحب کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں ہو گئے، انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا کہ ہم ایک ہفتے بعد ان سے ملیں تو شاید کچھ مواد مل جائے۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے، تعارف کے بعد انھوں نے سندھی لہجے میں بتایا کہ وہ کالج میں اردو ادب پڑھاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کیا کہ کالج پر تو لکھیں نہ لکھیں، اس کے عقب میں موجود گرودوارہ بہت قدیم ہے اس پر ضرور لکھیں۔ پرنسپل نے غصیلے انداز میں اپنے ساتھی کی جانب دیکھا اور کھڑے ہوکر ہم سے ہاتھ ملایا ’اس کے معنی صاف تھے کہ اب ہمیں چلنا چاہئے۔‘

ہمارے ایک سکھ دوست سردار رمیش سنگھ جو اکثر پریس کلب چکر لگاتے ہیں، ہم نے گردوارے کی حقیقت جاننے کے لیے اُن سے رابطہ کرنا چاہااوران کا نمبر اپنے موبائل میں تلاش کیا جو نہیں ملا۔ اس کے بعد چار بار منتخب اقلیتی مسیحی ایم پی اے آنجہانی مائیکل جاوید (مائیکل جاوید بھی ایک خوبصورت شخصیت تھے، خاص طور پر پاکستان کے قیام میں مسیحوں کے کردار کے بارے میں انھیں ایک ایک لفظ زبانی یاد تھا، وہ جب بھی گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی تاریخ بول رہی ہو۔) سے ان کا نمبر لیا اور یوں رمیش سنگھ جی سے رابطہ ہوپایا۔ رمیش نے بتایا کہ وہ ڈہرکی آئے ہوئے ہیں، ایک ہفتے بعد کراچی لوٹیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ گرودوارے کی تصاویر بھی ان کے پاس ہیں۔ ہم نے انھیں بتایا کہ تصاویر ہم نے بھی بنالی ہیں۔ میرے لیے یہ ایک ہفتہ ایک سال کے برابرتھا۔ خیر، رمیش سنگھ کراچی واپس لوٹے، مائیکل جاوید کے ساتھ ملاقات ہوئی، طے پایا کہ اگلی اتوار کو ہم سنگھ صاحب کے ساتھ دوبارہ گرودوارے جائیں گے۔

خدا خدا کرکے اتوار کا دن آہی گیا،ہم اپنے فوٹو گرافر دوست رضوان کے ہمراہ گرودواے پہنچے۔ رضوان کو ساتھی فوٹو گرافر سوسائڈر کہتے ہیں۔یعنی کہ ’خودکش‘ فوٹو گرافر۔ رمیش سنگھ کالج کی گیٹ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہم رمیش سنگھ کے ہمراہ کالج کے اندر داخل ہوے۔ وہاں بچے کرکٹ کھیل رہے تھے ،ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گرود وارے میں داخل ہوئے۔ اس موقعے پر رمیش سنگھ نے ہمیں بتایا کہ اس گرود وارے کا نام گرودوارہ ’رتن تلاؤ‘ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گرودوارہ دوبارہ بحال کروانا چاہتے ہیں، لیکن کمشنر آفس میں اس کا ریکارڈ نہیں مل رہا ہے۔ (آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ ریکارڈ کیوں نہیں مل رہا۔) ابھی ہم بات چیت کر ہی رہے تھے ایک نوجوان پتھر کے ایک ٹکڑے پر بنا ہوا ایک نقش لے کر آیا۔ جس کے بارے میں ہمیں رمیش نے بتایا کہ یہ سکھوں کا مقدس مذہبی نشان ہے، یہ نشان عمارت کے چاروں جانب لگا ہوا تھا۔ لیکن بعد میں توڑ دیا گیا۔ اس موقع پر رضوان دھڑا،دھڑ تصویریں بنارہا تھا۔اس کو تصویریں بناتے دیکھ کر رمیش سنگھ خاصا پریشان تھا اور بار بار ہمیں کہہ رہا تھا کہ بہت تصویریں بن گئی، اب ہمیں واپس جانا چاہیے، لیکن رضوان کو سمجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔اس عمارت میں ایک سیاسی پارٹی کا دفتر بھی تھا جو بند تھا، لیکن رمیش سنگھ کا کہنا تھا کہ پارٹی کے چاہنے والے عمارت میں رہائش پذیر ہیں، اور کسی وقت بھی ہماری موجودگی کی اطلاع پارٹی عمائدین کو دے سکتے ہیں،جنھیں یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ان کی اطلاع کے بغیر کوئی شخص عمارت میں داخل ہو۔

پھر رمیش سنگھ نے عمارت کی چھت کی طرف اشارہ کیا، وہاں پر ایک خاتون کا چہرہ نظر آیا جومشتبہ نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہیں تھیں۔ ہم نے صورتحال کا اندازہ لگا لیا اور رضوان کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے عمارت سے باہر لے آئے۔ ہمیں عقب میں قدموں کی چاپ بھی سنائی دی۔ افراتفری کے عالم میں جب ہم گیٹ پر پہنچے تو رمیش سنگھ کو دوڑتے پایا۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ صورتحال کنٹرول سے باہر ہے، ہم نے اپنے اسکوٹر کا لاک کھولنے کی کوشش کی، جس دوران چاپی نیچے گر گئی، چابی دوبارہ اٹھائی اور جیسے تیسے لاک کھول کر رضوان کو پیچھے بٹھایا اور پریس کلب پر آکر دم لیا۔

گرودوارے کے شکستہ آثار اب بھی نبی باغ کالج میں موجود ہیں، لیکن باہر سے نظر نہیں آتے، کیوں کہ بیرونی حصے پر کالج کی عمارت اور عقبی حصے کے ساتھ ایک سہ منزلہ خوب صورت سی مسجد ہے اس پر مسجد کا پتہ ’رتن تلاؤ ‘لکھا ہوا ہے۔ مسجد اور کالج کی عمارتوں کے بیچ گرودوارہ غائب ہوگیا ہے۔

sikhs in sindh

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...