مطلق العنانیت کا تاریخی پس منظر

ہنا آرنٹ

1,388

ہنا آرنٹ جرمن نژاد امریکی فلسفی اور ماہرِ سیاسیات ہیں۔ زیرِ نظر مضمون ان کی کتابThe Origins of Totalitarianismکا خلاصہ ہے جس میں وہ مطلق العنانیت کی تعریف، اساسی خصوصیات اور تاریخی پس منظر کو زیربحث لاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مطلق العنانیت آزادفکری وآزاد سماج کی مخالف ہوتی ہے، جب جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور وہ عوامی مطالبات اور تقاضوں کو صحیح معنوں میں پورا نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں مطلق العنانیت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ماضی میں مقتدر قوت کے طور پر کئی بار ظہور کرچکی ہے اور وہ متعدد مثالوں کی بنا پر یہ مقدمہ قائم کرتی ہیں کہ جدید تاریخ میں بھی ایسی مطلق العنان ریاستیں موجود رہی ہیں۔

ہم سالہا سال سے زندگی کے سفر پہ چلتے ہوئے کامیابیوں کی بہت سی منازل دیکھ چکے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہم ابھی تک دنیا کی تباہ کن جنگ سے محض چند نسلیں ہی آگے پہنچے ہیں۔ یہ سوچ بہت پرسکون ہے کہ ہم ماضی کی بربریت سے گزر آئے ہیں تاہم اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے حادثات پیش نہ آئیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ کس طرح ایک جمہوری ملک اچانک سے اپنے ہی شہریوں کے لیے دشمن بن سکتا ہے۔ ہنا آرنٹ خوش قسمت تھیں کہ وہ نازیوں کے زیر انتظام قید خانے سے زندہ بچ گئیں۔ ان کی یہ شہرہ آفاق تصنیف اپنی اشاعت کے فوری بعد متنازعہ ہوگئی تھی۔ جب یہ کتاب پہلی بار شائع ہوئی تو دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے چند سال ہی گزرے تھے۔آرنٹ نے یورپ میں ایسے واقعات کی جانچ کی ہے جنہوں نے جرمنی اور سوویت یونین میں مطلق العنانیت کو فروغ دیا اوران غیرمؤثر جمہوریتوں کا کردار بیان کیا ہے جنہوں نے ایسی ظالمانہ حکومتوں کا قیام ممکن بنایا۔ ہنا آرنٹ کی زندگی اور تحریر سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں سماج میں سوچ اور فکر کے ضابطے آزاد رکھنے ہوں گے اور اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ لوگ سماج کے ان رخنوں میں نہ جاپڑیں جہاں سے برائی پھوٹ پڑتی ہے۔

مطلق العنانیت انسانی تاریخ کے طویل دور میں مختلف مقامات اور اوقات میں عروج پاتی رہی ہے۔ تاہم یورپ میں بیسویں صدی کے دوران اس کی بنیاد سامیت دشمنی پر رکھی گئی۔ سامیت دشمنی کی اس تحریک کی وجوہات پیچیدہ ہیں اور اگرہم انہیں سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں وقت کے پہیے کو واپس گھمانا ہوگا تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ زمانی ارتقا کے ساتھ ساتھ یورپی سماج میں تفریق کس طرح وجود پذیر ہوئی۔

سترہویں صدی عیسوی کا یورپ جاگیرداری نظام کے زیر اہتمام چل رہا تھا۔ سماج بنیادی طور پر دو طبقات میں تقسیم تھا۔ مزارعین اور اشرافیہ، اس نظام میں روایتی طور پر یہودی مذہب کو ماننے والے بنیے تھے۔ وہ اشرافیہ کے طبقے کے لیے محاسب کا کام کرتے تھے۔ ان کی رقموں کا حساب کتاب رکھتے تھے۔ ان کے قرضوں کا حساب رکھتے ان کے سود کا حسا ب رکھتے۔ اس کے کام کے بدلے انہیں رقم اور دیگر مراعات ملتی تھیں جو سماج کے باقی لوگوں کومیسرنہیں تھیں۔

پھر1648 میں ویسٹ فیلیا کا معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد بھی بہت سے معاہدے ہوئے جس کے نتیجے میں یورپ کے بہت سے علاقوں میں جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ اس نظام کے خاتمے کی راکھ سے حکمرانی کا ایک نیا نظم پیدا ہوا جس میں جاگیرداروں کی بجائے سرکار کا راج تھا۔ اس نظام کے تحت مختلف قومیتی گروہ مختلف طرز معاشرت میں ڈھلنے لگے ، یہ معاشرت ایک دوسرے سے جزوی طور پر مختلف تھی جس کی بنیادیں ایک خاص قومیتی شناخت پہ رکھی جارہی تھیں۔ یوں ہر ایک قوم کی منفرد شناخت زور پکڑنے لگی اور یورپ کے مختلف علاقے قومیتی ریاستوں میں تبدیل ہونے لگے۔نظام کی اس تبدیلی کے بعد جب جاگیرداری ختم ہورہی تھی تو یہودی لوگ جو پہلے جاگیرداروں کے لیے محاسب کا کام کرتے تھے اب ریاستو ں کے محاسب کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ تاہم جلد ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ نیا نظام کافی پیچیدہ ہے اور اس میں کام کی مقدار بہت زیادہ ہے۔وہ یہودی جو جاگیرداری نظام میں زیادہ متمول نہیں تھے اب ان کے پاس کام اور دولت دونوں زیادہ تھے اور ان کا سماجی مقام بدل رہا تھا۔

حکومت کے نظام کے لیے ان کی خدمات کے سبب وہ اشرافیہ کے قریب تو ہوگئے تھے اور انہیں اعلیٰ سطح کی حکومتی دعوتوں اور تقریبات میں بھی مدعو کیا جارہا تھا جس کے سبب متوسط طبقے کو یہ لگا کہ یہودیوں کے لیے سماج میں ترقی کے مواقع غیر منصفانہ طور پر بڑھ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے یورپی سماج میں یہ سازشی نظریہ زور پکڑنے لگا کہ یہودی کسی عظیم منصوبے کا حصہ ہیں اور وہ پورے یورپی سماج پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

یورپ کے حکمران طبقے نے بھی کبھی یہودیوں کو اپنا نہیں سمجھا۔ وہ انہیں اپنا ’’نائب‘‘ سمجھتے تھے۔ ایک ایسی قوم جسے ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا۔ اگرچہ بعض یہودیوں کو ان کی انفرادی کامیابیوں کے سبب سماجی قبولیت مل رہی تھی تاہم وہ لوگ جو ان کی خدمات سے مستفید ہورہے تھے وہ انہیں اپنے آپ سے کم تر سمجھتے تھے۔

نسل پرستانہ استعماریت اور پان-نیشنلزم نئے مگر کمزور بنیادوں پر قائم قومیتی ریاست کے تصور سے پھوٹا۔ قومیت پر مبنی ریاستی تصور کے احیا کے ساتھ یہ امید کی جارہی تھی کہ جدید سماج مضبوط اور منصفانہ بنیادوں پر قائم کیا جائے گا۔ تاہم یہ امیدیں جلد ہی دم توڑ گئیں جب طاقت اور اختیار کی جنگ نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ جاگیر داری نظام کے دوران بورژوا طبقہ عروج پارہاتھا اور کم ہوتا ہوا اشرافیہ طبقہ معاشی طور پر طاقتور گروہ بن رہا تھا۔ تاہم نئی قائم ہونے والی سرکار نے محض ان کی سرمایہ دارانہ خواہشات کی حوصلہ افزائی کی۔ لہٰذا کاروبار کی ترقی کے لیے لازم تھا کہ تاجر طبقہ اپنی ریاستی سرحدوں کے باہر بھی سرگرم ہو۔ اسی کے سبب استعماریت عروج پانے لگی۔

فطری طور پر استعماریت کے سامنے آئینی اور اخلاقی سوالات بھی موجود تھے۔ چونکہ عمومی طور پر یہی تھا کہ ایک ملک کے وسائل میں لوٹ کھسوٹ کی جائے اور انہیں دوسرے ملک لے جایاجائے۔اور اس دوران وہ ملک جس نے کسی ملک کو کالونی بنایا ہے اس کے قوانین کو نظرانداز کیا جائے لہٰذا استعماریت کے سہارے کے لیے نسل پرستی کا استعمال کیا گیا۔

تاریخی دستور یہ تھا کہ جب کوئی ملک کسی ملک پر قبضہ کرلیتا تھا تو اس ملک اور اس کے عوام پر اپنے قوانین نافذ کر دیتا تھا۔ تاہم یہ چلن استعماریت کے لیے نقصان دہ تھا کیونکہ قانون کے مطابق تو یہ سارا عمل آئینی طور پر ہونا چاہیے تھا اور قانون کی نگاہ میں مقامی لوگ بھی برابری کے مقام پہ فائز تھے۔ لہٰذا یہ قوانین استعماریت کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ تھے جو طاقت اور اختیار کے پھیلاؤ پر یقین رکھتے تھے۔
ایسے قوانین کے نفاذ کی بجائے جو اپنے دیس میں نافذ تھے نوآبادیاتی طاقتوں نے مقبوضہ علاقوں کو بیوروکریسی کے نظام کے تحت چلانا شروع کیا۔ یہ نظام حقوق انسانی کی پامالی کے عوض بڑا منافع کمانے کا آسان ذریعہ تھا۔ اس نظام کے جواز کے لیے نسل پرستی پر مبنی تصورات کو پھیلایا گیا جو یہ تجویز کرتے تھے کہ مقبوضہ علاقوں کے مقامی افراد کم تر نسل کے انسان ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے وہ قوانین روا نہیں ہوسکتے جو کہ قومی ریاستوں کے مہذب اور ترقی یافتہ انسانوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ بعدازاں استعماریت کے یہی اصول ان افراد پر بھی لاگو کیے گئے جو نوآبادیاتی طاقتوں کے اپنے ممالک میں پان – نیشنلزم کے تصورات کو مانتے تھے اور اس کے حق میں تحریکیں چلا رہے تھے۔

جیسے جیسے انیسویں صدی آگے بڑھی حکومتوں کی سامراجیت اور عالمی قوم پرستی کی تحریکوں کے سامنے گرفت کمزور پڑتی گئی۔ قومی ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جا رہی تھی جس کی وجہ سے یہودیوں کو شدید تکالیف سے گزرنا پڑنا تھا اگرچہ پہلے پہل انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ صورت حال کس قدر خراب ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں حکومت کی طاقت کم ہوتی جا رہی تھی وہیں یہودیوں کے استحصال میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ ان یہودیوں کے ساتھ ہو رہا تھا جو ابھی تک نسبتاً مالدار تھے اگرچہ حکومتی مالیات میں ان کا بہت کم کردار تھا۔

اس کے نتیجے میں یہ ان لوگوں کے لیے آسان شکار تھے جنہیں ایک قربانی کا بکرا چاہیے تھا جو یہ ثابت کرے کہ قومی ریاست کا تصور ختم ہو رہا ہے اور حکومت عملی طور پر معطل ہے۔ درحقیت ان لوگوں پر طفیلیے ہونے کا لیبل لگایا جا رہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی خاص وجہ سے حکومتی سرمایہ حاصل کر رہے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں جبکہ حقیقتاً یہ لوگ غیر مقامی ہیں اور باہر سے ہمارے معاشرے کا حصہ بننے ہیں جبکہ درحقیقت یہ معاشرے سے مکمل طور پر کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔

جب کہ حقیقت یہ تھی کہ یہ لوگ کئی نسلوں سے محنت کر کے معاشی طور پر خوش حال ہوئے تھے جب کہ دوسرے لوگ اپنے عہد کے معاشی اور سیاسی اتار چڑھاو کی وجہ سے مسائل کا شکار تھے۔اس کے باوجودکہ ایسے سازشی نظریات موجود تھے کہ یہودی پوری دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں اگرچہ غیر مستحکم حکومتوں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی تھی کہ یہودیوں کا اس وقت کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں تھا۔

سنہ 1894میں وہ ٹرائل جو ڈریفس افیئر کے نام سے مشہور ہے، شروع ہوا۔ یہ واقعہ الفریڈ ڈریفس نامی فرانسیسی یہودی فوج کے کپتان سے متعلق ہے جس کو فوجی راز جرمنی کو دینے کا غلط طور پر مرتکب ٹھہرایا گیا۔ ٹرائل کے آغاز ہی سے یہود مخالف گروہوں نے کھلے عام یہ الزام لگانے شروع کر دیے تھے کہ ڈریفس اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام یہودی فرانسیسیوں کے دشمن ہیں۔

بالآخر بارہ سال کے عرصے کے بعد ڈریفس کو الزام میں بیگناہ قرار دے دیا گیا مگر اس عرصے کے دوران اس افیئر کی بنیاد پرعوام میں پھیل چکی تفریق کو اتنی آسانی سے ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کیس کو دوبارہ سے کھولا جائے جبکہ کچھ لوگ ایسا مانتے تھے کہ ڈریفس کا یہودی النسل ہونا ہی اس کے مجرم ہونے کا کافی ثبوت ہے اور اس کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں زیادہ سے زیادہ لوگوں نے غیر طبقاتی ہجوم میں شامل ہو نا شروع کر دیا جو مطلق العنانیت کے لیے مثالی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔

سیاسی جماعتیں امیر اور درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتی تھیں جب کہ غریب طبقے اور کہیں بھی شمار نہ ہونے والے طبقے کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا جس کا یہ خیال تھا کہ سیاسی جماعتیں ان کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ یہ لوگ غیر طبقاتی ہجوم کہلائے اور ان کی تعداد میں اضافہ صرف عالمی جنگ عظیم اول کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کی وجہ سے ہوا۔ جنگ کے نتیجے میں امیر طبقے نے بھی معاشرے کے بڑے ہجوم کی طرف داری شروع کر دی اور آزاد فکری اور برداشت جیسے لبرل نظریات کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس نظریے سے بغل گیر ہو گئے کہ اسٹیبلشمنٹ کو توڑنا ہے اور اسٹیس کو کا خاتمہ کرنا ہے۔

معاشرے سے الگ تھلگ اور ناراض لوگ تیزی سے غیر طبقاتی ہجوم کا حصہ بن گئے جن کو جنگ عظیم اول کی بیداری کے نتیجے میں اٹھنے والی مطلق العنانیت کی تحریکوں میں شامل کیا جا سکتا تھا۔یہ بکھرے ہوئے لوگ سماج سے الگ تھلگ تھے اور کسی بھی قسم کے سماجی اور معاشرتی نقطہ نگاہ اور مقصد کو کھو چکے تھے اور ان کے پیش نظر صرف ان کا ذاتی مفاد تھا۔ ان کی اس صورت نے پان- نیشنلزم کے فلسفے کے لیے یہ صورت آسان بنا دی کہ وہ انہیں اپنی تحریک میں جذب کرلے جس کا کسی قوم یا طبقے سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم اس تحریک نے ایسے لوگوں کو زندگی کے معنی اور تعلق کی صورت فراہم کی۔

پان-نیشنلزم کی حامی تحریکوں کے لیے اگلا قدم مطلق العنانیت تھا کیونکہ انہو ں نے عوام کو جمہوری نظام کی کوتاہیاں ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ وہ لوگ جو ابھی تک بھی جمہوری سیاست کررہے تھے انہوں نے یہ سمجھنے کی غلطی کی کہ عوام کوئی فیصلہ کن کردار نہیں کریں گے۔ جہاں تک ان کی تشویش کی بات ہے تو ان کا خیال تھا کہ یہ عوامیت پسند کوئی زیادہ فرق پیدا نہیں کرسکتے کیونکہ ان میں سے اکثریت نے انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں کیا اگرچہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ تاہم زیادہ عرصہ نہ گزرا اور ان کے یہ تصورات خوفناک حد تک غلط ثابت ہوئے۔

حیران کن حد تک مطلق العنانیت کی تحریک کے رہنمائوں نے یورپ میں عوام کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا کہ وہ ان کے ووٹرز بن گئے اور عوام نے انہیں اس قدر بڑی سیاسی قوت بنادیا کہ ان کے پاس جمہوریت کے نظام کو ہی ختم کردینے کی صلاحیت آگئی اور انہوں نے کسی بھی نئے سیاسی مخالف کے ابھرنے کے امکان کو ہی ختم کردیا۔

اس خامی کی نشاندہی کرنا اہم ہے جس نے اس اقدام کو ممکن بنایا۔ جب جمہوریت نے عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی نہیں کی تو یہ صورت مطلق العنانیت کو کھلی دعوت کے جیسی تھی۔ لہٰذا اگر عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو غیر متعلق محسوس کرنے لگے اور سیاسی طور پر اس قدر غیر دلچسپی کا مظاہر ہ کرے وہ ووٹ دینے ہی نہ نکلیں تو اس صورت میں یہ کوئی حیران کن امر نہیں ہوگا کہ کوئی شخص اٹھ کھڑا ہو اور انقلاب لانے کی آواز بلند کرکے لوگوں کو دعوت دینے لگے۔ایسی صورت میں عوام مطلق العنانیت کے پروپیگنڈے کو قبو ل کرنے کے لیے تیار تھے۔

جب بھی کبھی مطلق العنانیت سماج میں در آئے تو سمجھ لیجیے کہ عوام سیاسی اور تجزیاتی سمجھ بوجھ سے بہت دور جا چکے ہیں۔ مطلق العنانیت سے متاثر سماج میں اگر کوئی ایک معاملہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے تو وہ مطلق العنان رہنما کا مستقبل کا تصور ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس صورتحال میں حقیقت پہ مبنی کوئی بات کہے یا اس مطلق العنان حکمران کے مقابلے میں کوئی متبادل بیانیہ تشکیل دینے کی کوش کرے تو عوام میں یہ تاثر پھیلایا جا تا ہے کہ یہ دشمنوں کی سازش ہے جس کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا ہے۔

جنگ عظیم اول کے اختتام کے بعد جب نازی پارٹی قائم ہوئی تو اس دوران اس نے لوگوں کو مسلسل تجزیاتی فکر سے دور کرنے کی کوشش جاری رکھی اور اس جھوٹی کہانی میں الجھائے رکھا کہ یہودی سازش کررہے ہیں اور ان کی موجودگی ان کے طرز حیات کے لیے خطرہ ہے۔ بار بار لوگوں کو یہ تلقین کی جاتی رہی کہ یہودیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جانے لازم ہیں ورنہ ایک تاریک اور ظالمانہ مستقبل جلد ہی ہمیں تباہ کردے گا۔ اور چونکہ نازیوں کے مطلق العنان سماج میں صرف ایک ہی تصورکی گنجائش تھی لہٰذا یہی لمبی کہانی عوامی حقیقت کی شکل میں پنپنے لگی۔ فطری طور پر اس کہانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نازی پارٹی کے رہنما مستقبل کے ایسے ہیرو بن کر سامنے آئے جو مستقبل کے لیے تہذیب کی جنگ جیت رہے تھے۔ اس کہانی کو پھیلا کر اور آریائوں کو یہودیوں کے خلاف جنگ میں عوام کا مسیحا ثابت کرکے نازی اپنی حیثیت کو مضبوط بنا رہے تھے۔

اس میں بھی حیران کن امر نہیں کہ سوویت یونین کے آمر حکمران جوزف اسٹالن جس نے1943ء سے لے کر1953ء تک حکومت کی اس نے بھی سوویت یونین کے سلاوک خطے میں طاقت کے حصول کے لیے یہی حربہ استعمال کیا۔ اس کی گھڑی ہوئی کہانی کے مطابق وہ اپنے ملک کے محنت کش مزدور طبقے اور سوویت یونین کے کیمونسٹ نظام کو ٹراٹسکی کے سازشیوں سے بچانے کے لیے کوشش کررہا تھا۔ وہ ایک حربہ جس کا ہر ممکن استعمال تمام مطلق العنان نظام کرتے ہیں وہ پروپیگنڈہ کہلاتا ہے جو اس خلا کو پُرکرنے کے لیے کیا جاتا ہے جو ایک ناکام جمہوریت کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ ایک بار پھر سوویت یونین اور جرمنی کے لوگ پروپیگنڈے کا شکار ہوچکے تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قومی ریاست کے اندر اپنی شناخت اور تفاخر کے معنی گم کردیے تھے۔ اور جب لوگ اپنی حکومت کی جانب سے یہ محسوس کرنے لگیں کہ اس نے انہیں شرمندہ کردیا ہے اور وہ ان کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتی اور جب وہ بے روزگاری، لاتعلقی، بے گانگی اور غصے کا شکار ہوجائیں تو وہ نازی ازم اور سٹالن ازم جیسے کسی نظام کے لیے تیار ہوجاتے ہیں جو انہیں کم از کم کوئی مقصد حیات مہیا کرتا ہے۔ جب عوام ایسی ذہنی کیفیت کا شکار ہوں تو ایسا پروپیگنڈہ جس میں غیر ملکی تصورات شامل ہوں اسے بہت جلد قبولیت ملنے لگتی ہے اور جب حقیقت اور سچ پروپیگنڈے سے شکست کھاجائے تو وہ اپنے رہنما کی پیروی بغیر سوچے سمجھے کرنے لگتے ہیں۔

مطلق العنانیت کی قیادت میں ایک نظریہ جنم لیتا ہے جو تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے اپنی مرضی کی تشریح کرتا ہے۔ مطلق العنانیت کی ایک اور نشانی بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ نظریہ اور پروپیگنڈہ دونوں مل کر تاریخ کی ایسی تشریح لکھتے ہیں کہ جس میں مطلق العنان قیادت کے اقدامات درست لگنے لگتے ہیں۔ جرمنی کے معاملے میں ایسا تھا کہ نازیوں نے اپنی گھڑی ہوئی تاریخ میں ثابت کیا کہ آریائی نسل دنیا کی سب سے اعلیٰ نسل ہے اور تاریخ کے تمام اشارے اسی جانب ہیں کہ اسے ہی حکمرانی کا حق ہے۔ اور1930ء کی دہائی میں وہ لمحہ آنے ولا ہے جب جرمنی دنیا پر قبضہ کرکے تاریخ کے مقدر کا فیصلہ کرے گا۔

اس طرح کی یک رخی کہانی میں منطق کا تڑکا لگانے کے لیے لازم ہے کہ مطلق العنان جماعت آزادانہ سوچ اور فرد کی رائے کی حوصلہ شکنی کرے اور ایک زمانے تک سیاسی عمل سے لاتعلق رہنے والی عوام کو اپنے رہنما کی خواہشات کے مطابق کام کرنے والی مشین میں تبدیل کردے۔ جب ایسی صورتحال ممکن ہوجائے گی تو تاریخ کا ایک ہی حوالہ منطقی محسوس ہوگا جو پارٹی کی حکمت عملی سے مطابقت رکھتا ہو۔

تاہم عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ تمام کہانیاں، نظریات، اور پروپیگنڈہ اس حقیقی مقصد کو چھپانے کے لیے گھڑے جارہے ہوتے ہیں جس کے حصول کے لیے یہ تحریک کام کررہی ہوتی ہے اور وہ مقصد اپنی تحریک کا پھیلائو اور مزید طاقت کا حصول ہوتا ہے۔ یہی سب کچھ جرمنی کی نازی پارٹی کی تحریک کی اس کہانی کے پیچھے بھی تھا کہ یہودی سازشیں رچا رہے ہیں اور محض آریائی ہی دنیا میں حکمران نسل ہیں۔

یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ نازی پارٹی کے چوٹی کے رہنما اس پروپیگنڈے اور جھوٹ سے واقف تھے جو آریائی نسل کے اعلیٰ اور برتر ہونے کے نام پر عوام کو بتایا جا رہاتھا۔ وہ اس سچ سے بھی آگاہ تھے کہ جو کہانی اس متعلق گھڑی جارہی ہے کہ ہمارا رہنما عام انسانوں سے بڑھ کر کسی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے یہ بھی سراسرجھوٹ ہے۔

تاہم وہ اس تصور سے بالکل متفق تھے کہ وہ لوگ ایسا سماج تشکیل دے رہے ہیں جو دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ اور وہ اس تصور کی سچائی اس صورت میں دیکھ رہے تھے کہ عوام ان کے احکامات کو من و عن تسلیم کررہے ہیں اور انہیں یقین تھا کہ نازی پارٹی کا ا صل مقصد، یعنی طاقت اور اختیار کا پھیلائو، ان کی مٹھی میں آچکا ہے۔

نازیوں نے یہودیوں کو مشترکہ دشمن اس لیے قرار دیا تاکہ عوام کو اپنی جانب گامزن کیا جاسکے اور انہیں متحرک کیا جائے۔ علاوہ ازیں انہیں ایک ایسے دشمن کے وجود کی بھی ضرورت تھی جس کے خلاف وہ اپنی عوام کی تربیت کرسکیں۔ لہٰذا اگر نازی پارٹی دنیا میں موجود آخری یہودی کو بھی قتل کرلینے میں کامیاب ہوجاتی تو یہ لازم تھا کہ اس کے بعد بھی انہیں کسی دشمن کے وجود کی ضرورت پیش آتی۔

مطلق العنان ریاست کا ایک ہی قانون ہوتا ہے اور وہ اس کی تحریک کا مرکز ہے۔ اور اس کے نظریے کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو جوڑے اور اس مرکزی مقصد کے حصول کے لیے متحرک کرے اور کسی بھی ایسے دیگر نظریات کو اپنے ساتھ ملا لے جو سماج میں پھیلنے کے لیے موثرہو۔ آخرکار جو چیز اہم رہ جاتی ہے وہ محض یہ تحریک اور اس کا پھیلائو ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو مقاصد کے حصول میں معاون نہیں ہوتی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور اس کے علاوہ ہر چیز مقصد کے لیے کام کررہی ہوتی ہے۔

عوام میں موجود ہر وہ شخص جو مطلق العنانیت کی تحریک کا حصہ بنتا ہے وہ انسان کم اور مشین کا ایک پرزہ زیادہ بن جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی مشین کا حصہ بن جائے تو اس میں انسانی خصوصیات مثلاً آزادانہ فکر اور عمل ختم ہوجاتا ہے۔ ایک اہم طریقہ جس کو استعمال کرکے مطلق العنان حکومتیں انسانوں سے ان کی خصوصیات چھین لیتے ہیں وہ جان بوجھ کر ان میں برجستگی کو ختم کرنا ہے۔ برجستگی کا حقیقی مطلب اپنی خواہشات بنانا اور اپنی من مرضی کرنا ہے۔ مطلق العنان ریاستوں میں فرد اپنے مفادات کے حصول کے لیے کام نہیں کرتا بلکہ اس کی زندگی کے تمام کام اس ایک مقصد کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مطلق العنان ریاست میں افراد اپنی من مرضی اور آزادی و شعور سے اپنی زندگیوں پہ اختیار نہیں رکھتے بلکہ ان کی زندگیاں ان کے رہنما کی خواہشات کے مطابق چل رہی ہوتی ہیں۔

اس لیے مطلق العنانیت کے ماحول میں موجود ایک فرد سے اس نظریے کے متعلق بامعنی گفتگو اور بادلیل مکالمہ بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے آزادانہ فکر اور سمجھ بوجھ کا ہونا لازمی ہے۔ اور جب لوگ کسی باشعور فیصلے تک پہنچنے کی بجائے اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں، تو اپنے فیصلوں کو تنقیدی طور پر پرکھنے کی قوت سے محروم ہوجاتے ہیں یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اس سے واقف نہیں رہتے کہ درحقیقت وہ کیا ہیں اور وہ کیا کچھ کرسکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

جب آپ اپنی زندگی اپنے اختیار اور مرضی سے گزار رہے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ آپ دیکھ سکیں کہ آپ کیا کررہے ہیں اورآ پ کیا کچھ کر چکے ہیں اور ایساکیوں ہوا ہے۔ اور یہ بھی کہ کیا اگلی مرتبہ آپ کو ایسا ہی کچھ کرنا چاہیے یا اس سے مختلف۔ اگر کچھ بھی کرنے کے لیے آپ کا ارادہ حقیقی معنوں میں آپ کا اپنا نہیں تھا تو آپ کے پاس کوئی بامعنی مقام نہیں رہے گا جہاں کھڑے ہوکر آپ اپنا سجائزہ لے سکیں۔

خوف اور کسی بھی عمل کا بار بار مسلسل دوہرایا جانا بھی آزادانہ خواہش اور برجستگی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تشدد کا بارہا اور عمومی استعمال نہ صرف لوگوں کو نظریے سے جڑے رہنے کے لیے خوفزدہ کرتا ہے بلکہ انہیں تشدد اور ہلاکتوں کے متعلق بے حس بنادیتا ہے۔ اور جب تشدد اور ہلاکتوں کا استعمال ایک مستقل مشینی اور غیر جذباتی عمل بن جائے تو دونوں فریق چاہے وہ متاثرہ ہویا ظالم دونوں ہی اس کے متعلق بے حس ہوجاتے ہیں۔ جب یہ صورت حال بن جاتی ہے تو دونوں اطراف غیر انسانی رویے کے حامل ہوجاتے ہیں اس کے نتیجے میں ظلم کا پہیہ مزید چلتا رہتا ہے۔ ہم ان عقوبت خانوں کو دیکھ سکتے ہیں جو مطلق العنان ریاستوں نے تعمیر کیے جہاں غیر انسانی انتہا تک پہنچنے کے لیے سفاکی کا بے باک استعما ل ہوتا تھا۔

یہودی افرادکو غیر انسانی رویے کی طرف دھکیلنے کے لیے بہت پروپیگنڈہ کیا گیا اور ایک مخصوص بیانیہ گھڑا گیا، میڈیا میں انہیں حشرات الارض اور کیڑے مکوڑوں سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اور جب عقوبت خانے کام کرنے لگے تو تشدد کا انتہائی عمل جس کے دوران لوگوں کو ہلاک کیا جاتا تھا تو و ہ اس قدر مشینی اور خودکار طریقے سے انجام دیا جاتا تھا کہ شائد ہی کسی فرد کو کچھ سوچنے یا کوئی اور فیصلہ کرنے کا موقع ملے۔ اس عمل کے دوران قاتل اور مقتول دونوں ہی انسانیت کے بنیادی خواص سے محروم ہوچکے تھے۔ ان عقوبت خانوں کا چلتا ہوا مسلسل مشینی انداز مطلق العنانیت کے مقاصد کی مکمل پیروی کا عملی نمونہ تھا۔

تاریخ انسانی میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ جب مطلق العنانیت کے خون آشام درندے نے اپنا سر اٹھایا ہو اور ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم یہ یقین رکھ لیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہم اس کے ظہور کی چند نشانیوں سے آگاہ ہوگئے ہیں اور ان میں سے سب سے اہم اور نمائندہ نشانی جس کے سبب یہ زور پکڑتی ہے، وہ تنہائی ہے۔

جب بھی لوگ تنہا ہوتے ہیں اور انہیں لگتاہے کہ وہ اپنے سماج سے جدا ہوگئے ہیں تو وہ مطلق العنان تحریک کا آسان نشانہ بن جاتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ اپنے سماج سے جدا ہوتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے جدا ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ سماج نے آپ کو پھینک دیا ہے یا آپ سماج میں ان چاہے ہوتو امکانات ہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ بامعنی تعلقات کھودیں۔ یہ صورت اس وقت بھی جنم لیتی ہے جب آپ کو لگے کہ اب سماج میں میرے لیے کوئی جگہ باقی نہیں ہے تو میں اس میں شرکت کے متعلق کیوں فکر مند رہوں؟

اس حالت کے عین مرکز میں یہ گنجائش موجود ہوتی ہے کہ اس خلا کو کسی اور ذریعے سے پْر کرلیا جائے۔ اس خلا کو بھر لیجیے اور لوگوں کو یہ احساس دلائیے کہ وہ ایک بار پھر سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ صورت لوگوں کو مطلق العنان تحریک کا شکار بنانے کے لیے بہت سودمند ہے جو ہمیشہ ایسے بہت سے وعدے کرتی ہے کہ اب تم کسی بڑے مقصد سے جڑ گئے ہو۔ چونکہ تنہائی دنیا بھر کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ لہٰذا ہمیں مطلق العنانیت سے متعلق ہمیشہ ہی خبردار رہنا ہوگا اور اس خطرے سے آگاہ رہنا ہوگا جو اس کی جانب سے انسانی حقوق کو درپیش رہتا ہے۔ پر امید بات یہ ہے کہ ہمیشہ ہی وہ صورت موجود رہتی ہے جس کی مدد سے ہم مطلق العنانیت کو جڑ پکڑنے سے روک سکتے ہیں۔ اس کی کلید یہ ہے کہ اس انسانی صفت کو زندہ رکھیے جسے یہ تباہ کردینے پہ تلی رہتی ہے اور وہ ہے انسان کی برجستگی۔

اگرچہ مطلق العنان ریاستوں نے انسانوں کی برجستگی کا قتل کرکے کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے مگر یہ برجستگی ہی تھی جس نے پہلی بار مطلق العنانیت کے نظم کو پروان چڑھایا۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا لازم ہے کہ نتائج کو سوچے سمجھے بغیر برجستہ فیصلوں کے نتیجے میں بے یقینی پر مشتمل حکومت قائم ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں حقوق انسانی پامال ہوں گے۔ ایسی صورت میں مطلق العنان رہنما اقتدار میں آسکتے ہیں جو خود کو خدا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا یہ لازم ہے کہ ہم اپنے ماضی سے سیکھیں اور اپنے انسانی خواص بشمول برجستگی اور آزادانہ فکر کو استعمال میں لائیں تاکہ ہمارا سماج مطلق العنانیت سے محفوظ رہ سکے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے سماج کی ایسی تعمیر میں پرزور حصہ لیں جو اجتماعیت کو فروغ دیتا ہو اور اس میں دراڑ نہ ہو۔ اوراس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ سماجی تنہائی کی لعنت سماج کو اپنی لپیٹ میں نہ لے سکے ہمیں ایسی حکومتیں قائم کرنا ہوں گی جن کی موجودگی میں تمام لوگوں کو اپنی نمائندگی محسوس ہو۔

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ہمیں اپنی حکومتوں پر نگرانی رکھنا ہوگی تاکہ اس کی قیادت مطلق العنان خواہشات نہ اپنا لے اور جمہوری حکومتوں کو آمریت میں نہ بدل دے۔ اگر درست قوانین موجود ہوں تو ہم اپنے انسانی خواص بشمول برجستگی کو یہ موقع دے سکتے ہیں کہ وہ مطلق العنانیت کی نشانیاں ظاہر ہونے پر ایسی حکومت کے خلاف فوری عمل میں آجائے اس سے پہلے کہ اسے روکنا اختیار میں نہ رہے۔

سماج میں اس لمحے مطلق العنانیت کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے جب اکثریت اپنے آپ کو سیاسی طور پر لاتعلق سمجھنے لگے اور اس کو یہ یقین ہوجائے کہ جمہوریت ایک ناکام نظام حکومت ہے۔ جب یہ لاتعلقی جنم لیتی ہے تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ لوگ مطلق العنان تحریکوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ مطلق العنان تحریک لوگوں کو وہ اتحاد مہیا کرتی ہے جس کے خلاف وہ ایک ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں اس دوران وہ انسانوں کی آزادانہ خواہش اور برجستگی کا بھی خاتمہ کردیتی ہے۔ یہ سب ایک بار بار دہرائے جانے والے نظریے کے سبب ہوتا ہے جس کے دوران پروپیگنڈے اور خوف کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ عوام الناسمطلق العنان رہنما کی خواہشات پر عمل کرتی رہے اور اپنے آزادانہ فیصلے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ انسانو ں کے خواص جن میں آزادانہ فکر اور برجستگی شامل ہے ان کے تحفظ اور عوامی خواہشات کی نمائندہ حکومتوں کے قیام سے ہم مستقبل میں مطلق العنان حکومتوںسے انسانیت کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
(مترجم: شوذب عسکری)

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...