کوئی سچائی خوبصورتی کے بغیر نہیں ہوتی: خدا، قرآن اور حقوقِ نسواں

963

جدید دنیا میں خواتین کی مساوی حیثیت اور ان کے حقوق کا مسئلہ اگرچہ کافی حد تک تسلیم شدہ ہے، لیکن یہ مکمل طور پہ غیرمتنارعہ کہیں بھی نہیں ہے۔ اگر مسلم دنیا کی بات کی جائے تو یہ مسئلہ بنیادی مفروضات کے حوالے سے بھی کافی اختلافی ہے، عوامی سطح پہ اور فکری حلقوں میں بھی۔ کچھ اثر اس میں تہذیبی اقدار کی الجھنوں کا بھی ہے جنہیں سلجھانا آسان نہیں، اور اس کے اپنے عوامل ہیں۔ تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ اب محض نظری نہیں رہا بلکہ تیزرفتار تبدیلیوں نے کئی عملی مشکلات کھڑی کردی ہیں، اور اس حوالے سے روایتی نقطہ نظر کو بہت زیادہ چیلنج کا سامنا ہے۔ زیرنظر مضمون میں رشاد بخاری نے ایک کتاب کے تناظر میں اس مسئلے کی مختلف جہات کا جائزہ لیا ہے، جوکہ ایک خوشگوار پیش رفت ہے۔ رشاد بخاری ایک سماجی کارکن، ادیب اور لکھاری ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری کے ساتھ ساتھ کئی سماجی تنظیموں سے وابستہ رہ کر فلاحی و شہری مسائل پر کام کرتے رہے ہیں۔(مدیر)

بہت سی خواتین کا اعتراض ہے کہ یہ دنیا مردوں کی ترجیحات کے مطابق چل رہی ہے، یہ ایک پدرسری معاشرہ ہے جہاں عورتیں ہزاروں سالوں سے محکومی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ کہیں انہیں کچھ اختیار ملتا بھی ہے تو مردوں کے انگوٹھے کے نیچے ملتا ہے۔ سارے فیصلے مرد کرتے ہیں، نتیجے میں زیادہ تر فائدے بھی مرد حاصل کرتے ہیں، مفادات بھی ان کے پورے ہوتے ہیں اور حکمرانی بھی انہی کی رہی ہے۔ آئین، قانون، مذہب، معاشرہ، رواج سب مردوں کی ہی طرف داری کرتے آئے ہیں۔ خواتین بالکل مردوں کی طرح عقل و فضیلت کا مظاہرہ کرنے کی اہل تھیں لیکن انہیں تعلیم سے دور رکھا گیا، اور ایسی تربیت دی گئی جس سے وہ اپنے جذبات کی محکوم ہوجائیں اور خود کو مرد کی خوشی اور راحت کا ذریعہ سمجھیں۔ صدیوں کی ایسی تربیت، رسوم و رواج، ترجیحی اور متعصبانہ قوانین اور خاص طور پر مذہبی احکامات کی من چاہی تشریح کے ذریعے سے انہیں یقین دلا دیا گیا ہے کہ گھر اور خاندان کی بہبود اور معاشرتی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ مردوں کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بچوں کی پرورش، گھر کی دیکھ بھال یا گھر سے باہر زیادہ سے زیادہ ایک استثنا کے طور پر چند مخصوص شعبوں مثلا تعلیم اور صحت وغیرہ تک جہاں ان کی ناگزیر ضرورت ہے، خود کو محدود رکھیں۔ وہ بھی اس طرح کہ اس سے ان کی دیگر گھریلو ذمہ داریاں متأثر نہ ہوں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خواتین آج کی اس جدید دنیا میں، صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ مسلم ریاستوں میں بھی اب تمام شعبوں میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کررہی ہیں، قانونی اور سیاسی میدانوں میں بھی انہوں نے کافی حقوق حاصل کرلیے ہیں لیکن انہیں ابھی مردوں کی برابری کی سطح پر لانے کے لیے بہت کام اور جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ کسی نہ کسی شکل میں ان کا اسی طرح استحصال ہوتا رہے گا۔ زیادہ تر ایسے خیالات عورتوں کی آزادی کی عالمگیر تحریک یا تحریک نسواں سے وابستہ خواتین کی طرف سے سامنے آتے ہیں۔

جبکہ مسلمانوں کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے خواتین کے حقوق کی بات کی، انہیں جائیداد میں حصہ دیا، مخصوص حالات میں کاروبار کرنے کی اجازت دی، ان کی شادی میں ان کی مرضی معلوم کی، ان کے ساتھ زبر دستی کی حوصلہ شکنی کی، کچھ شرائط کے ساتھ انہیں باہر نکلنے، ملازمت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت دی۔ ان کو گھر میں عزت دی، ان کی عفت کو مقدم جانا، ان کے تحفظ اور نان نفقے کی ذمہ داری لے کر انہیں معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کردیا، ان کو اپنے گھر کی ملکہ بنایا۔ مسلمانوں نے ماں کے روپ میں عورت کو جو توقیر دی، بہن کے روپ میں جو تحفظ اور مان دیا، بیٹی کے روپ میں جو عزت اور پیار دیا، بیوی کے روپ میں جو محبت دی، جو اعتماد دیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

لیکن بہت سی خواتین ایسی ہیں جو سمجھتی ہیں کہ ممکن ہے یہ درست ہو، اگرچہ زیادہ تر گھروں میں پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان رشتوں کے باوجود عورتوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی پہلے اصل سوال یہ ہے کہ ہمیشہ ان کا ذکر ان چند رشتوں کے حوالے سے ہی کیوں ہو، انہیں بطور انسان کیوں نہ مانا جائے، بطور انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، ادیب، مصنف، کلرک، استاد، دکاندار، کاروباری شخصیت، سپاہی، محقق، مزدور، کاریگر ان کی عزت کیوں نہ کی جائے؟ انہیں صرف چند رشتوں میں قید کر کے رکھنا، چاہے اس دائرے میں مفروضہ طور پر ان کا کتنا بھی احترام کیوں نہ کیا جائے، کتنا بھی خیال کیوں نہ رکھا جائے، یہ درحقیقت ان کی صلاحیتوں، ان کے شعور، ان کے حقوق کا انکار ہی ہے۔

مسلمان معاشروں میں کسی بھی شے کے مقام کا تعین کرنے کے لیے آخری اور حتمی معیار قرآن و حدیث کو مانا جاتا ہے۔ رشتوں اور ہر دو اصناف (مرد و عورت) کے مطلوبہ کردار اور حقوق کے حوالے سے بھی ان مصادر کو ہی آخری معیار مانا جاتا ہے، جس کے بعد مسلمانوں کے نزدیک کسی سوال کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ لیکن تحریک نسواں سے متعلق مسلمان خواتین کی طرف سے اس بات کی نشاندہی کی جارہی ہے کہ قران کی آیات، ان کے سیاق و سباق، شان نزول، اور ان سے مشتق احکامات کی تشریح اور تفسیر کا استحقاق آج تک صرف مرد مفسرین اور شارحین کے پاس رہا ہے۔

دوسرا یہ کہ انہوں نے، یعنی مرد مفسرین نے، خاص طور پر خواتین کے بارے میں، آیات کی تشریح کرتے ہوئے اپنے زمانے کے مروجہ مقامی رسوم و رواج اور مصالح کو فطری طور پر اہمیت دی ہے، جنہیں وہ بطور مسلمان مرد مسلمان معاشرے کی تشکیل میں اپنے مقامی پدر سری سماجی پس منظر کے تحت ناگزیر خیال کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کی حیثیت معاشرے میں ایک تابع فرمان صنف ہی کی رہی جس کے کردار کو جس حد تک ممکن تھا چادر اور چار دیواری کے تصور کے اندر محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔

تاہم اگر قرآن کے ان احکامات کو مردوں کے بجائے عورتوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور قرآن کے مجموعی معانی اور منشا کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جائے، جس کا مقصد انسانی آزادی، انسانی تکریم، ہر قسم کے استحصال اور ناانصافی کا خاتمہ ہے اورجس کی تشریح یہ حقیقت مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے کہ جنسی یا صنفی تفریق سے قطع نظر عورت اور مرد دونوں انسان ہیں اور ایک ہی مٹی سے ایک ہی خدا کے حکم سے پیدا کیے گئے ہیں، دونوں بطور انسان خدا کی اشرف اور اعلی ترین تخلیق ہیں جن کی صلاحیتوں کے بے شمار امکانات موجود ہیں تو قران کی ان آیات کی ان کے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ سمجھتے ہوئے ایک بالکل مختلف تشریح ممکن ہے جسے ہمارے سماجی اثرات اور رسوم و رواج نے اب تک دھندلا رکھا ہے۔

چنانچہ یہ سوال پیدا ہونا اچنھے کی بات نہیں کہ اگر خواتین کو قرآن کے ترجمے، تشریح اور تفسیر کرنے کا موقع ملے تو کیا وہ اس کو اسی طرح سمجھیں گی جیسے مرد مفسرین نے سمجھا اور اس سے وہی رہنمائی، نتائج اور احکامات اخذ کریں گی جیسے مرد مفسرین اور شارحین نے سمجھایا ہے؟

حال ہی میں ایک خاتون کی تصنیف کردہ ایسی ہی کتاب ’ای۔ بُک‘ کے طور پر شائع ہوئی ہے جس میں خواتین کے مقام اور کردار سے متعلق قرانی آیات کی تشریح حقوق و آزادی نسواں سے ہمدردی رکھنے والوں کے نقطہ نظر سے کی گئی ہے۔ یہ برقی کتاب (ای۔بک) انٹرنیٹ کے ذریعے مفت دستیاب ہے۔ ’کوئی سچائی خوبصورتی کے بغیر نہیں ہوتی۔۔۔ خدا، قران اور عورتوں کے حقوق‘ (No Truth Without Beauty: God, the Qur’an, and Women’s Rights)کے عنوان سے یہ کتاب ایک لبنانی نژاد مصنفہ لینا العلی نے لکھی ہے۔ اس کا دیباچہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے ایک ممتاز مسلمان پروفیسر ڈاکٹر خالد ابو الفضل نے تحریر کیا ہے جبکہ کتاب کے بارے میں کئی معروف مغربی اور مسلمان مفکرین نے تعریفی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر ابولفضل کے بقول ’مصنفہ نے قران کے مثبت عمل کے طریقہ کار کو بخوبی وا ضح کیا ہے جس میں خواتین کے تحفظ، ترقی اور شمولیت کی حمایت موجود ہے۔ لیکن جیسا کہ لینا العلی نے تسلیم کیا کہ مردوں کی برتری پر مبنی اسلام کی تعبیری روایت نے قرآن کے اس مثبت عمل کے طریقہ کار کو اکثر غیرمؤثر کیا ہے اور خواتین کی صلاحیتوں اور خودمختاری کے بارے میں الوہی ارادے کو زیادہ تر ہمدردی اور توجہ سے نہیں دیکھا۔‘

لینا العلی لبنان میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، پھر برطانیہ سے اقتصادیات کے مضمون میں ڈگری لی، کئی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی اداروں میں مالیات کے علاوہ، انسانی حقوق، مساوات، تنازعات کے تصفیے، انسانی ترقی جیسے موضوعات پر کام کیا اور آج کل امریکہ میں اپنا ایک ادارہ چلارہی ہیں جو انہی موضوعات پر کام کرتا ہے۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں خاص طور پر خواتین کے حوالے سے اسلام کا ایک ترقی پسند اور آزاد خیال تصور پیش کیا ہے جس میں صنفی مساوات کے جدید تصورات کی پوری پوری گنجائش موجود ہے اور اسلام میں عورت کے مقام اور کردار پر مغرب کے ان تمام اعتراضات کو بھی رفع کرنے کی سعی کی گئی ہے جن کے ذریعے مسلم معاشروں کو بدقسمتی سے پسماندہ، قدیم اور فرسودہ روایات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ان کا مرکزی پیغام یہ سامنے آتا ہے کہ عورتیں ہر حوالے سے مردوں کے مساوی ہیں، جو کام مرد کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں تو اتنا ہی کام عورتیں بھی کرسکتی ہیں، بلکہ ان میں بعض حوالوں سے صبر، برداشت اور حوصلہ زیادہ نظر آتا ہے، خاص طور پر اگر یہ مدنظر رکھا جائے کہ تاریخی طور پر ان کو کس طرح کمزور اور پسماندہ رکھنے کی کوششیں ہوئی ہیں اور وہ کس قدر استحصال کا شکار رہی ہیں۔

کتاب میں تقریبا ان تمام مسائل کو اٹھایا گیا ہے جن کی روایتی تعبیر مسلمان معاشروں میں صنفی اختیار و کردار کی صورت گری کرتی آئی ہے اور جن کے بارے میں الزام ہے کہ انہوں نے مسلم معاشروں کو تاریخ کے برف خانے میں منجمد کردیا ہے۔ مثال کے طور پرعورت کا مرد سے کمتر اور کمزور ہونا کیونکہ وہ مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ بیوی کا اپنے شوہروں کا مکمل تابع فرمان ہونا (مرد کی قوامیت)، مردوں کو یہ اجازت کہ وہ بیویوں کو عملا جسمانی سزا دے سکتے ہیں، مردوں کی کثیر الازدواجی، طلاق کا حق، وراثت کا حق، قیادت کا حق، پردہ، مرد و خواتین کی علیحدگی، عورتوں کی گواہی، وغیرہ۔

کتاب میں تقریبا ان تمام مسائل کو اٹھایا گیا ہے جن کی روایتی تعبیر مسلمان معاشروں میں صنفی اختیار و کردار کی صورت گری کرتی آئی ہے اور جن کے بارے میں الزام ہے کہ انہوں نے مسلم معاشروں کو تاریخ کے برف خانے میں منجمد کردیا ہے

لینا العلی کا کہنا ہے کہ قرآن کے ترجمہ اور تفسیر میں سب سے اہم مسئلہ کسی ایک آیت کے درست سیاق و سباق کو سمجھنا ہے۔ ان کے مطابق اس سے مراد صرف یہ نہیں کہ کون سی آیت کب نازل ہوئی اور اس کا اس سے پہلے آنے والی آیت اور فوری بعد والی آیت سے کیا تعلق ہے۔ درحقیقت ہمیں کسی ایک موضوع پر قرآن کے مجموعی مطمح نظر کو سمجھنا ہوتا ہے اور کسی ایک خاص آیت کو سمجھنے کے لیے قران کے مرکزی پیغام کی جامعیت کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک چیز کونہایت غور سے دیکھنے کے لیے اس کو اس کے باقی ماحول سے علیحدہ کر کے جیسے ایک محدب عدسہ لگا کر یا خوردبین کے ذریعے دیکھتے ہیں حالانکہ ضرورت ہوتی ہے کہ مجموعی تصویر کو نظر سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق ہم ایک درخت کو غور سے دیکھتے ہوئے پورے جنگل کو نہیں دیکھ سکتے۔

قران پاک کا ترجمہ، تفسیر اور تشریح کرتے ہوئے، مصنفہ کے خیال میں دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ مسلم مفکرین، اور فقہا کا زیادہ زور قوانین کے استخراج، تعین اور نفاذ پر رہا ہے تاکہ معاشرے میں افراد کی زندگیوں کومکمل طور پر منظم کیا جاسکے۔ بلکہ قران کو زیادہ تر سمجھنے کی کوشش قانونی اور فقہی نقطہ نظر سے ہی کی جاتی ہے۔ مصنفہ کا خیال یہ ہے کہ ’قرآن کا صرف پانچ فیصد حصہ قوانین اور ضوابط سے متعلق ہے۔ قران صرف الہٰیات یا دینیات کی کتاب بھی نہیں ہے۔ اس کا قریب دو تہائی حصہ عبرانی پیغمبروں کی زندگیوں کے حالات اور قصائص سے عبارت ہے اور حضرت عیسی اور حضرت مریم کو روحانیت کے اظہار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ باقی ایک تہائی میں اپنے وقت میں نئے مذہب کے پیروکاروں کو اپنے رویوں کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی اصول واضح کیے گئے ہیں۔ اس میں بھی دو پہلو غالب ہیں: ایک یہ کہ انسان کا اپنی ذاتی، سماجی اور خانگی زندگی میں کیسا برتاؤ ہونا چاہیے اور دوسرا ماضی اور حال کے واقعات کے بارے میں خصوصی تبصرہ جات‘۔

قرانی آیات کے معانی اور جوہر کو سمجھنے میں تیسرا چیلنج، اس کتاب کی مصنفہ کے نزدیک، ذخیرہ احادیث کی بہت سی متنوع روایتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ احادیث کی تدوین میں دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اور اس پر مشکل یہ ہے کہ خود احادیث کی تدوین کرنے والوں نے ان کی درستی کے معیار کے مختلف درجے مقرر کر دیے ہیں۔ لینا العلی لکھتی ہیں کہ ’فقہا نے کسی مخصوص قانون کا تعین کرنے کے لیے کمزور احادیث کو [حوالے یا ثبوت کے طور پر] استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، اگر ان کے خیال میں ایسا کرنا [مسلمانوں کی اجتماعی] بہتری کے لیے مصلحت کے طور پر ضروری ہو، یہاں تک کہ انہیں یقین تھا کہ موجودہ رواج کی ان کے معاشرے میں قانونی گنجائش موجود ہے‘۔

اس کتاب کے پانچ حصے ہیں۔ پہلا حصہ حدیث کی تدوین اور طریقہ کار کے بارے میں ہے اور باقی چار حصوں کے سترہ ابواب میں سترہ موضوعات پر بات کی گئی ہے جن سب کا تعلق اسلام میں خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کے مقام سے ہے۔ ہر باب ایک مکمل موضوع کا احاطہ کرتا ہے جس میں تمام متعلقہ آیات اپنے مروج ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ درج ہیں جس پرمصنفہ نے تبصرہ کرتے ہوئے، ان کے اپنے مطابق، درست سیاق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے بالکل غیر روایتی اور بعض صورتوں میں بالکل مختلف معانی اخذ کیے ہیں، چاہے مسئلہ عورت کی وراثت کا ہو یا گواہی کا، اپنے شوہروں کے تابع فرمان ہونے کا ہو یا عورت کے پردے اور سماجی ربط کا، تعلیم کا یا کاروبار کا۔ ان کے مطابق عورت پر کہیں کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی گئی یا ان سے مردوں سے مختلف ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا جس سے ان کی آزادی یا صلاحیتوں کے اظہار کا دائرہ محدود ہوتا ہو۔

مصنفہ کی اپنی مادری زبان عربی ہے اور ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی عربی بولنے والے ملک لبنان میں ہوئی جہاں سے وہ پھر برطانیہ اور امریکہ جا کر آباد ہوئیں۔ عربی کے علاوہ ان کو انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ مزید براں وہ فرانسیسی اور ہسپانوی زبانیں بھی جانتی ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے متعدد بار قران کے عربی متن اور انگریزی ترجمہ کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ مصنفہ نے اپنے ابتدائیہ میں اپنے ’روحانی سفر‘ پر بات کرتے ہوئے معروف جدت پسند مسلمان مفکر سیدی ابی بکر یا ابو بکر سراج الدین کے نام سے معروف مارٹن لنگز سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے جن کی اسلام کے بارے میں تمام کتابوں کا انہوں نے مطالعہ کررکھا ہے اور ان کے مکتبہ فکر کے دیگر مصنفین کو بھی پڑھ رکھا ہے۔

یاد رہے کہ مارٹن لنگز یا ابو بکر سراج الدین ایک معروف نومسلم شاذلی صوفی اسکالر ہیں جومذہب، مابعدالطبیعیات، فلسفہ، صوفی طرق وغیرہ پر کئی کتب کے مصنف ہیں۔ سیرت پر ان کی ایک انگریزی تصنیف ’محمد، ابتدائی ماخذ کی بنیاد پران کی زندگی‘ بہت مشہور ہے جس پر پاکستان نے قومی سیرت کانفرنس میں’سیرت طیبہ پر بہترین انگریزی کتاب‘ کے طور پر انعام کا حق دار ٹھہرایا تھا۔ ابو بکر سراج الدین کی ڈاکٹریٹ الجزائری صوفی احمد العلاوی پر ہے اور وہ انہی کے صوفی طریقہ کا حصہ ہیں جس کے نمایاں ناموں میں ایف شوان اور رینے گینوں جیسے بلند پایہ مصنفین شامل ہیں۔

مجھے ایسا علمی پس منظر یا وہ استعداد رکھنے کا دعوی نہیں کہ اس کتاب میں مصنفہ نے خواتین سے متعلق قرانی آیات کی جو تعبیر و تشریح کی ہے اس کے بارے میں کسی خاص علمی بنیاد پر کوئی مکمل یا حتمی رائے دے سکوں۔ تاہم ان کے مطالعہ نے مجھ میں مزید جاننے کا تجسس ضرور پیدا کیا ہے کہ اس موضوع پر متبادل نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کروں جو ہماری جدید حسیات کے لیے پیچیدگی اور اکثر اوقات تنازع یا کشمکش کا سبب بنا رہا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں حقوق نسواں کے بارے میں مروجہ مسلم نقطہ نظر پرتنقید کی بنیاد خود اسلام یا قرانی دانش کے رد پر نہیں رکھی گئی، جیسا کہ اس حوالے سے اسلامی ماخذ پر اعتراضات کی صورت میں زیادہ تر مغربی مصنفین، مستشرقین یا مغربیت زدہ اور آزاد خیال سیکولر مفکرین کرتے ہیں۔ اس میں قرآن کو اسلامی جوہراور کردار کا حتمی معیار اور ماخذ مانتے ہوئے، اس کی چند آیات کی تعبیر و تشریح نئے زاویوں سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بہر حال یہ واضح ہے کہ معاشرے میں، جس کی اکائی خاندان ہے، زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کے بھرپور کردار کو تسلیم کیے بغیر اور ان کے تمام حقوق کی ادائیگی کے بغیر، انہیں ایک مساوی شراکت دار سمجھے بغیر سماجی اور تہذیبی سطح پر کسی ترقی کا خواب دیکھنا محال ہے۔ میرے خیال میں اس کتاب کے مندرجات پر زیادہ تفصیل سے بات ہونی چاہیے، تعلیمی اداروں اور دیگر سماجی اور مقامی، ملکی اور غیر ملکی فورمز پر اہل علم اگر ان مسائل پر گفتگو کریں اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے مثبت اور دلیرانہ بحث و تبادلہ خیال کریں تو خاص طور پر مجھ جیسے عام طالب علموں کو واضح نقطہ نظر اختیار کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے اور خواتین کے حوالے سے جو اعتراضات مغربی یا جدید دنیا کے طرف سے مسلمان معاشروں اور علمی روایت پر کیے جاتے ہیں ان کو اگر مکمل نہیں تو کسی حد تک رفع کیا جاسکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...