خلیجی ریاستوں میں تبدیلی کے آثار اور مسلم معاشرے

1,540

21 سال پہلے، امریکا میں ہونے والے نائن الیون کے حملوں نے مسلم معاشروں میں سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے ایک سلسلے کی بنا رکھی تھی۔ مشرق وسطیٰ اُس وقت نقطہِ اشتعال پہ تھا، کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ القاعدہ کے نظریے کی جڑیں دراصل یہاں کے سیاسی تنازعات اور اِس خطے میں رائج مذہبی فکر میں پیوست ہیں۔ بعد کے سالوں میں اٹھنے والی ‘عرب بہار’ کی لہر خطے میں جمہوری تبدیلی لانے میں ناکام رہی۔ اب، خلیجی ریاستوں کی بادشاہتیں ازخود اپنی کوششوں کے ذریعے ان تبدیلیوں کو متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہیں جن سے متعلق بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ وہ جمہوری عمل کے توسط سے آسکیں گی۔

خلیجی بادشاہتوں نے جس تبدیلی کی بنا رکھی ہے اس کی مالی اور سیاسی قیمت اگرچہ کم ہے لیکن محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اثرات دُور رس ثابت ہوں گے۔ یہ عمل دنیا بھر کے مسلم معاشروں پر اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بہت سے لوگ اندازہ لگا رہے ہیں کہ سعودی عرب میں اعتدال پسندی کی کوششیں ہوں، مذہبی اصلاحات ہوں، یا اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والا ’ابراہیمی معاہدہ‘، اس طرح کے اقدامات مسلم معاشروں میں ان بنیادپرست گروہوں کو کمزور کریں گے جو طویل عرصے سے خلیجی ریاستوں کی مالی و سیاسی حمایت کے بل بوتے پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ اگرچہ اس دعوے کے حق میں کوئی عملی شواہد موجود نہیں ہیں، تاہم ’تبدیلی کے عمل‘ کی رفتار اور نتائج اس دعوے کی توثیق کو ممکن بنائیں گے۔

مشرق وسطیٰ کے واقعات اور وہاں ہونے والی پیشرفت پاکستان میں نظریاتی اور سیاسی رجحانات کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی واپسی، ایران میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور بھارت میں فرقہ وارانہ منافرت کے عروج پر بھی تشویش لاحق ہے۔ ان سب معاملات کے ساتھ دیگر بیرونی عوامل اور ان پر ریاست کا ردعمل، آہستہ آہستہ ملک کے سماجی سیاسی اور نظریاتی خدوخال کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی، جس کے مظاہر کو حقیقت کا رُوپ دھارنے میں کچھ وقت لگے گا، یہ نہ صرف مذہبی فکر کو از سرِنو تشکیل دے گی بلکہ مستقبل میں سماج کے اندر انتہا پسندی کے رجحانات کی نوعیت کو بھی طے کرے گی۔ غیرریاستی عناصر، مذہبی گروہ، اور مقتدر اشرافیہ اب تک خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے مطابق اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔

خلیجی ریاستوں پر پاکستان کا بڑھتا ہوا مالی انحصار نہ صرف اس کے جیوپولیٹیکل اور سٹریٹجک مفادات و فیصلوں پر اثرانداز ہوگا بلکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ قریبی فرقہ وارانہ وابستگی کے حامل مذہبی گروہوں کے بارے میں ریاست کے رویے کو بھی متأثر کرے گا۔

سعودی عرب میں ہونے والی مذہبی اصلاحات نے پاکستان میں قدامت پسند سلفی اور دیوبندی مذہبی گروہوں کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کیا ہے، جن کے لیے راتوں رات اپنا نقطہ نظر بدلنا مشکل ہے۔ پرتشدد دیوبندی فرقہ پرست گروہوں کے علاوہ، تقریبا 20 سے زیادہ سلفی گروہ اور جماعتیں ایسی تھیں جو خلیجی ریاستوں کے تعاون کے بل بوتے پھل پھول رہی تھیں۔ ان میں سے بعض گروہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس تبدیلی کو جیسے تیسے ہضم کرلیا جائے اور اس پر احتجاج نہ کیا جائے تاکہ خلیجی ممالک سے ملنے والی مالی امداد کو جاری رکھا جاسکے۔ تاہم، کچھ گروہ مزاحمت کرتے ہوئے غیر ملکی فنڈنگ ​​کے متبادل ذرائع تلاش کرنا چاہتے ہیں یا مقامی سطح پر اپنے امدادی وسائل کا حلقہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔

مذہبی گروہ راتوں رات تبدیل نہیں ہوں گے، لیکن مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیاں ان پر آہستہ آہستہ اثر انداز ضرور ہوں گی

وقت کے ساتھ پاکستانی ریاست نے بھی بعض عسکریت پسند اور بنیاد پرست مذہبی گروہوں کے بارے اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کیا جنہیں کبھی ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔ ریاست نے یہ اقدام بیرونی دباؤ، خاص طور پر ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کے بعد اٹھائے، جن کے سبب اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی گئی۔

پاکستان کا ایک بڑا سلفی گروہ کالعدم ’جماعت الدعوۃ‘ اوراس کی مسلح شاخ ’لشکر طیبہ‘ تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اس کایاپلٹ سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیاں اور ریاستی اداروں کی پالیسیاں مل کر پاکستان میں بنیاد پرست قوتوں کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔ اِس وقت تنظیم کے اندر تین مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ پہلا نقطہ نظر وہ ہے جو عسکریت پسندی کا راستہ ترک کرنے اور صرف تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے حق میں ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامی افراد سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پالیسیوں اور ’معاہدہِ ابراہیمی‘ کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

انتخابی سیاست کا راستہ اپنانے کے لیے بھی گروپ کے اندر ایک مضبوط رائے موجود ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران جماعت الدعوۃ نے بھی حصہ لیا تھا اور بھاری وسائل لگائے تھے، لیکن اس کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ نوجوان قیادت تنظیمی سرگرمیوں کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے اپنے حلقے کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے، سیاست کو ایک معقول و محفوظ راستے کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ نقطہ نظر اگرچہ مرکزی قیادت میں مقبول نہیں ہے، لیکن جماعت الدعوہ کے کارکن اور حامی اس کی طرف شدید میلان رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی طاقت کا بریلوی مسلک کی ’تحریک لبیک پاکستان‘ سے موازنہ کرتے ہیں، ان کے خیال میں جماعت الدعوۃ نے جو خلا چھوڑا تھا اسے تحریک لبیک نے پُر کیا۔ ان دو نقطہ ہائے نظر کے علاوہ اس گروہ کے اندر ایک ایسا دھڑا بھی ہے جو اب بھی جہاد پر اصرار کرتا ہے، وہ عسکریت پسندی کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہتا اور ریاستی اداروں کی حمایت کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے پر آمادہ ہے۔

جماعت الدعوۃ کے مرکزی کارکنان ابہام کا شکار ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی جماعت کے لیے وقف کر رکھی تھی بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی تنظیمی دائرے میں لے آئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کارکنان جماعت الدعوۃ کی طرف سے فراہم کی جانے والی مالی مدد پر گزراوقات کرتے تھے، لیکن اب وہ مسائل میں ہیں اور انہیں فوری طور پر کسی اور مصرف کی تلاش ہے۔ ریاست نے ان کارکنان کی بحالی کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے۔ یہ افراد دولتِ اسلامیہ خراسان (IS-K) جیسے گروپوں کے لیے آسان ہدف ہیں۔ دیگر کالعدم گروہوں کو بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بنیاد پرستی کے مختلف پرتشدد اور غیرمتشدد مظاہر سے داغدار دامن کے حامل سلفیوں کے پاس انتخاب کے لیے بہت محدود راستے باقی رہ گئے ہیں۔ ان کے ایک طرف محمد بن سلمان ہیں اور دوسری طرف داعش۔ انہیں اِن دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے، کوئی درمیانی راہ تقریباً موجود نہیں ہے۔

دیوبندی بھی ہمیشہ کی طرح تقسیم کا شکار ہیں، لیکن ان کی نمایاں اکثریت، بشمول متشدد فرقہ وارانہ گروہوں کے اب بھی خود کو سعودیوں کے ساتھ ہم آہنگ محسوس کرتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے نے بھی ان میں فتح کا احساس جاگزیں کیا ہے۔ سعودیوں کو ملک میں سماجی اور ریاستی دونوں سطحوں پر ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ان دیوبندی عناصر کی حمایت جاری رکھنے میں دلچسپی ہوگی۔ مستقبل کی سیاسی ضرورتوں کے لیے بھی ان تنظیموں کی افادیت ریاستی اداروں کے پیشِ نظر ہوگی۔ تاہم، وہ دیوبندی مدارس کو عسکریت پسندوں کی ایک اور نسل پروان چڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے جس سے بالآخر ریاستی اداروں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔

منطقی اعتبار سے خلیجی ریاستیں پاکستان میں سول سوسائٹی کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کرسکتیں، کیونکہ مؤخرالذکر جمہوری رجحانات کی حامل ہیں، لہذا وہ مذہبی جماعتوں سے ہی اپنے پرانے اتحادیوں پر انحصار کرتی رہیں گی۔ یہ یقینی نہیں ہے کہ خلیجی ریاستیں مذہبی گروہوں پر کوئی تبدیلی مسلط کرنے کی کوشش کریں گی جب تک کہ وہ ان کے کام آتے ہیں۔ ایران کو بھی پاکستان میں اپنے شیعہ اتحادیوں کو چھوڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مذہبی گروہ راتوں رات تبدیل نہیں ہوں گے، لیکن مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیاں ان پر آہستہ آہستہ اثر انداز ضرور ہوں گی۔

بشکریہ: روزنامہ ڈان، مترجم: شفیق منصور

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...