پاکستان میں شناخت کی بحث

1,789

 یہ مضمون حال ہی میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ ’میں کون ہوں؟‘ کے نتائج و حاصلات کی بنیاد پر تحریر کیا گیا ہے

شناخت کا سوال بظاہر بہت سادہ ہے۔ میں کون ہوں،یا ہم کون ہیں؟ کا جواب اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے لیے کچھ لوگ مل بیٹھیں اور سوچ بچار کی ضرورت محسوس کریں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تویہ سوال اس قدرمتنوع جہتیں اور تہہ در تہہ پرتیں رکھتا ہے کہ تشخص کاتعین ایک پہیلی بن جاتا ہے۔خصوصاً ایسے عہد میں کہ جب فرد، سماج اور قوم کی تعریف ہر لمحہ بدل رہی رہو، اقدار کے پیمانے لگے بندھے نہ ہوں اور جدیدیت اور مستقبل کوئی ایک چہرہ نہ رکھتے ہوں۔

شناخت کا تذبذب اگرچہ صرف عالم اسلام، تیسری دنیا یا پاکستان کو ہی لاحق نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی بحران کی اسی قطار میں شامل ہیں۔البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ پاکستان اور ترقی پذیر ممالک میں عالمگیریت کے عمل کی وجہ سے یک بیک تبدیلیاں اور شناخت پر اس کے اثرات کسی حد تک غیرمانوس ہیں۔ خاص سماجی ہیئت اور سیاسی نظم انہیں اور پیچیدہ کردیتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں جب یہ سوال دہرایا جاتا ہے کہ ہم کون ہیں تو اس کا جواب طے کرنا آسان نہیں رہتا اور سمت کا تعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ امن،معیشت، آئین، رہن سہن، حقوق، سیاست، غرض ہر شعبے میں ایک بحران محسوس ہوتا ہے جو اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ پہلے تشحص کی سمت متعین کی جائے۔

پاکستان میں شناخت کی تاریخی اور فعال بحث ریاستی شناخت(State-Centric Identities)کے حوالے سے رہی ہے کہ آیابطور ریاست پاکستان کا قومی تشخص مذہبی ہے یاسیکولر۔ان دونوں بحثوں کا نقطہ نظر اگرچہ مختلف ہے لیکن دونوں کے مابین قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں نچلی سطح کی صوبائی، نسلی اور لسانی شناختوں (Sub-Identities)کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایک طرف مذہبی تشخص پر زور ہے تو اس کے بالمقابل دوسرا حلقہ پاکستانیت کے تشخص پر اصرار کرتا ہے۔ نچلی شناختیں اگرچہ شناخت کی بحث کا حصہ رہی ہیں اور اپنے آزاد وفعال اظہار کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہیں لیکن انہیں بہرطور دبا دیاگیا اور ان کو اتنی جگہ نہیں مل سکی کہ وہ بطور شناخت خود کو تسلیم کراسکیں اور اس بنیادپراپنے حقوق حاصل کرسکیں۔حالانکہ یہ شناختیں دونوں مرکزی شناختوں کے مقابل کھڑی ہوتی ہیں نہ ان کا متبادل ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں بلکہ انہی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا اظہار کرسکتی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں نظر انداز کیے جانے کا سبب سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اس سے طاقت اور وسائل کی مرکزیت ختم ہوتی ہے اور ریاست کی بالادستی کمزور پڑتی ہے۔ لہٰذا یہ شناخت کا مسئلہ ہونے کی بجائے اصل میں حقوق کی فراہمی اور ریاست وسماج کے مابین توازن کا مسئلہ ہے۔اِس وقت ملک میں شناخت کی جوتحریکیں چل رہی ہیں وہ حقوق کی تحریکیں ہیں۔ یہ تحریکیں مذہبی نیشنلزم کی مخالف ہیں نہ ہی سیکولر نیشنلزم کو مسترد کرتی ہیں بلکہ صرف سماجی مساوات اور حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں۔

پاکستان میں شناخت کے بحران کا مسئلہ یک جہت ہے نہ یہ محض کسی ایک تاریخی مرحلے کا پیدا کردہ ہے۔یہ ایک ایسا پھیلا ہوا مسئلہ ہے جسے اس حد تک پہنچانے میں متعدد عوامل کار فرما رہے ہیں۔ ہماری شناخت فطری نہیں، بلکہ مصنوعی ہے۔ سماج اور اس کے تشخص کے مابین تعلق اجنبی ہے۔ پاکستان میں شناخت کی تشکیل کا عمل ایک تو دیر سے شروع ہوا۔ آئین آزادی کے بہت بعد وجود میں آیا۔ سیاسی نظم اور سیاسی کلچر نے کوئی صحت مند کردار ادا نہیں کیا۔ گورننس کی نوعیت نے مزید الجھن پیدا کی۔ سماجی ہیئت جاگیردارانہ رہی۔ سیاسی وغیرسیاسی قوتوں میں اقتدار کی کشمکش سے حقیقی مسائل نظرانداز ہوئے۔ اس طرح کے عوامل نے سماج میں کنفیوژن کو جنم دیا۔ اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مخصوص گروہ اور مافیا طاقتور ہوگئے.اس کے بعد ہم معتدل، تکثیریت پسند مذہبی نیشنلزم کو پروان چڑھا سکے نہ سیکولر نیشنلزم کو، بلکہ دنیا میں ہماری شناخت ایک دہشت گرد ریاست اور سماج کی بن گئی۔ اب ہم اس تشخص سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایسے طریقوں کے ساتھ کہ پھر اسی منزل پر جا کھڑے ہوں جہاں سے ہم نے آزادی کے بعد سفر شروع کیا تھا۔ ہم اب بھی شناخت اور حقوق کے مابین ربط پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے۔

حالیہ دنوں میں لیکن شناخت کی بحث تاریخی نہیں رہی، قومی تشخص کی مرکزی بحث کمزور ہوئی ہے۔ نظرانداز کی گئی شناختیں حقوق کے مطالبے کے ساتھ ایک بار پھر سامنے آئی ہیں۔امن اور معیشت کے شدیدمسائل نے تشخص کے قضیے کو ایسی معقول اور فطری جہت دی ہے جسے مسترد کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ اب عام آدمی کی ذات اور اس کے احترام کے مطالبے کا مسئلہ ہے۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد نے مسئلے کی اس حساسیت واہمیت کے پیش نظر مختلف شہروں میں چھ مکالماتی نشستوں کا انعقاد کیا۔ جن میں چاروں صوبوں سے متنوع شعبوں کی نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔ ان نشستوں میں جو آرا ونتائج سامنے آئے ان میں سے بعض غیر متوقع اور نئے تھے۔ ان مباحث سے قدرے الگ جو عموما ًملک کے علمی وفکری حلقوں میں زیربحث لائے جاتے ہیں۔اس بات چیت کے کچھ کلیدی حاصلات ونتائج یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

سیاسی نظم
مغرب اور ترقی یافتہ دنیا میں شناخت کا مسئلہ سیاسی نظم سے متعلق نہیں ہے۔ یعنی کہ نظام بطور سیکولرازم یا مذہب زیربحث نہیں آئے گا۔ مغرب میں نظام کا تعین پہلے سے موجود ہے اور اس کی صحت یا عدمِ صحت پر کوئی کلام ہوسکتا ہے نہ ہی اصل میں اسے شناخت کے بحران کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ وہاں یہ سوال بھی غیر فطری اور لایعنی ہے کہ کسی سے یہ کہا جائے کہ آپ کی شناخت سیکولر ہے یا مذہبی؟ لیکن پاکستان کے تناظر میں شناخت بطور نظم ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ یہاں ابھی تک بھی علمی، فکری اور صحافتی حلقوں میں یہ مباحث اٹھائے جارہے ہیں کہ ہمیں کیسی ریاست چاہیے، یا یہ کہ قائد اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے یا مذہبی تشخص کی حامل ریاست؟ یہ پاکستان میں شناخت کے بحران کی پہلی اور مسلسل شکل ہے۔ اس پر پاکستان بننے سے اب تک بحث جاری ہے۔ شناخت کی اس نوعیت کو مرکزِ گفتگو بنانے والے تین کردار رہے ہیں۔ ریاست، مذہبی طبقہ اور لبرل جمہوری اقدار کا مطالبہ کرنے والا مختصر گروہ۔ شناخت کے بحران کی یہ شکل خالص عوامی سطح پر کسی تحریک کی صورت سامنے نہیں آئی۔

لیکن شناخت کی بحث کا دائرہ اب یہاں تک نہیں محدود نہیں رہا۔ یہ پھیلتا جا رہا ہے، اور اس کی مزید کئی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ اور ان جدید صورتوں کا تعلق براہ راست سماجی پرت کے ساتھ ہے۔ ان میں نظام کے کسی مخصوص ڈھانچے کی بجائے اقدار،حقوق ، معیشت اور زندگی سے وابستہ مسائل کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ ان مسائل کے ساتھ شناخت کا تعلق گروہی اور طبقاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ یہ تعلق نسلی اور لسانی بھی ہے، یہ صوبائی درجہ بندی میں بھی نظر آتا ہے اور اسٹیٹس ا ور پروفیشن کے اختلافات کی صورت میں بھی پایا جاتا ہے۔پاکستان میں گروہی وطبقاتی شناختیں اس کے علاوہ دیگرکئی شکلوں میں بھی ظہور کرتی ہیں جو بظاہر تو شناخت یا شناخت کے بحران کی بحث سے کوئی ربط نہیں رکھتیں لیکن غور کیا جائے تو وہ بھی شناخت کی ہی حیثیت میں اثرانداز ہوتی اور عمل کرتی ہیں۔

دنیا میں ہر جگہ شناخت کی بحث امن اور معیشت کے ساتھ جڑے مسائل کے پسِ منظر میں کی جاتی ہے۔ اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیںکہ شناخت کا بحران کسی طوروجود رکھتا ہے نہ اس پر بات چیت کا فائدہ ہے۔ اگر ان مسائل کو حل کردیا جائے تو یہ بحث خود بخود تحلیل ہوجاتی ہے۔پاکستان میں بھی شناخت کی بحث کے جدید رجحانات کا پس منظر امن اور معیشت کے شدید مسائل ہیں۔ نوجوان جب شناخت کے بحران پر بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں امن و معیشت کے ابتر حالات ہوتے ہیں۔ پاکستان اور مغربی دنیا، دونوں جگہ پس منظر اگرچہ ایک ہے لیکن ان کو دیکھنے کی نوعیت میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ مغرب میں امن ومعیشت کے مسائل کا پس منظر الگ ہے۔جبکہ پاکستان میں امن ومعیشت کے مسائل مقامی ہیں اور اس میں ریاست یا دیگر سماجی طبقات کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

کیا ریاست شناخت کے کسی بحران کو تسلیم کرتی ہے؟ ریاست کے نزدیک اب بھی شناخت کا مسئلہ طے شدہ ہے،اس کے نزدیک اس مسئلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے نہ ہی وہ سماج کے کسی طبقے کو اس کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔ریاست کے مطابق تمام شہریوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی تمام باقی شناختوں کو ثانوی درجہ دیں،وہ پاکستانیت کے نعرے کے تحت ایک قوم بن کر رہیں۔پاکستانیت کی تعریف کیا ہے اور قوم کیا ہوتی ہے،یہ بھی ریاست نے طے کیا ہے۔اس کا اختیار سماج کو حاصل نہیں ہے۔اس تناظر میں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج کی تعریف اور اس کی جوہری وفطری ہیئت بدل جاتی ہے۔ سماج ایک آزاد اجتماعیت نہیں رہتابلکہ ریاست کے تابع اور اس کا فرمانبراد گروہ بن جاتا ہے۔یہ معاشرتی ڈھانچے کی ایسی تبدیلی ہے جو اس کے کردار کو محدود اور متعین کردیتی ہے۔ اس کے بعد ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو فطری ہوتاہے نہ نارمل۔گویا بحران کے چہار جانب کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ریاست کا کرداربنیادی اور وسیع بن کر ابھرتا ہے۔ اس طرح بحران کے حوالے سے بڑی مشکل یہ بن جاتی ہے کہ ریاست اورسماج آمنے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔اس صورتِ حال سے جنم لینے والے مسائل یک جہت ہوتے ہیں نہ ہی آسانی سے حل ہونے والے کیوں کہ یہ طاقت اور زیادہ بااختیار ہونے کی جنگ بن جاتی ہے ۔

ریاست کبھی بھی شناخت کی بحث سماجی سطح پر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست اگر اس بحث کو اٹھائے گی تو اس کی بالادستی کی بات بھی زیربحث آئے گی۔اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں عملاََ ریاست کی بالادستی موجود ہے۔ لہٰذا ریاست نہیں چاہے گی کہ ایک ایساگروہ اس موضوع پر اظہار خیال کرے جسے وہ اپنا مقابل خیال کرتی ہے،یا جس کی مضبوطی سے اس کی بالادستی متأثر ہوگی۔

مذہب
شناخت کے بحران اور اس میں مذہب کے کردار کے حوالے سے بحث کے تین رُخ سامنے آتے ہیں، ایک تو یہ کہ ریاست نے ایک ایسے مذہبی بیانیے کا استعمال کیا جس نے اضطراب اور تقسیم کو جنم دیا، دوسرا یہ کہ ریاست کے ساتھ اشتراک سے ہٹ کر خود مذہبی طبقے کا ذاتی کردار کیا رہا ہے،اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ کیا مذہب بطور دین کوئی ایسے اثرات رکھتا ہے جس سے شناخت کا بحران پیدا ہو؟

ملک میں شناخت کے بحران کی موجودگی سے متعلق مذہبی طبقے کے افراد کا ماننا ہے کہ واقعتاًملک میں شناخت کا بحران پایا جاتا ہے لیکن شدت پسند مذہبی آئیڈیالوجی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی اکثریت اس کا ذمہ دار خود کی بجائے ریاست کو ٹھہراتی ہے۔ان کے مطابق مذہب کے ایک مخصوص بیانیے کی تشکیل ریاست کا مطالبہ تھا اور اسی کی خواہش وکاوش سے اس کا فروغ ممکن ہوا۔اگرچہ مذہبی حلقے میں ایک ایسی تعداد بھی ہے جو اس کشمکش کو راست اور فطری قرار دیتی ہے اوراسے حق وباطل کی شناخت کا قضیہ شمار کرتی ہے۔

آئیڈیالوجیکل بیانیے کے علاوہ خود مذہبی طبقے کا کردار کیا رہا ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ فرقہ واریت نے بھی سماج میں شناخت کے مسائل پیدا کیے۔ اس نے سماج میں ایک ہی مذہب کے مختلف مکاتبِ فکرکو تو تقسیم کیا ہی، لیکن اقلیتی شناخت کے خلاف معاندانہ شدت پیدا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس عنصر نے ایک ایسی عمومی فضا ہموار کی کہ کسی بھی مختلف مذہبی رائے کوبرداشت نہ کیا جائے۔ جب ایک مذہب کے اندر رہ کر لوگ باہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کریں گے تو دوسرے مذاہب کے لیے کس قسم کے جذبات پروان چڑھیں گے اور کس قدر باہمی احترام و رواداری باقی رہیں گے۔لوگوں کے غیرصحت مند مذہبی تشخص کی وجہ سے عناد اور عداوت کے جذبات کو مہمیز ملی ہے۔فرقہ وارانہ نفسیات نے اقلیتوں کے خلاف فضا کو زیادہ خطرناک بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔فرقہ واریت نے عداوت کی جس فضا کی پرورش کی ہے اس سے اقلیت کی شناخت اور غیرمحفوظ ہوگئی۔

مذہب اور یکساں شناخت کے مابین لزومی تعلق کی نفسیاتی تحلیل کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ مذہبی طبقات کی فکری ساخت کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں ایک مخصوص پیمانہ ہے جس پر وہ سماج اور سماجیات کو پرکھتے ہیں۔ ان کے ہاں عقیدہ توحید انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہ تقریباً ہر قضیے کو اسی پیمانے پر تولنے کے عادی ہوتے ہیں۔ انتظامی ومعاشرتی حوالے سے توحید کے درس کا خلاصہ اجتماعیت کے ساتھ انسلاک ہے۔ لہٰذا ان کے ہاں فرد اور اس کی آزادی کی کوئی حیثیت ہوتی ہے نہ ہی کسی نوع کا انتظامی ومعاشرتی اختلاف ان کے ہاں جائز سمجھا جاتاہے۔

مذہبی طبقے اور شناخت کے بحران کا پہلو صرف آئیڈیالوجی اور بیانیے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا ایک سماجی پہلو بھی ہے جو انفرادی شخصیت کے طاقتور اظہار سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جہادی اور مسلح تنظیموں میں شامل ہونے والے سبھی نوجوان انتہاپسند بیانیے یا آئیڈیالوجی کے زیراثر نہیں ہوتے بلکہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو بیانیے کو محض چھتری کے لیے استعمال کرتی ہے، اگرچہ انجام کار اور نتیجے کے اعتبار سے دونوں طرح کے افراد میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔یہ وہ افراد ہیں جن سے ان کی صحت مند شناخت چھین لی گئی ہوتی ہے اور وہ نفسیاتی طور پر ہیجان وناہمواریت کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کو منوانے یا ظاہر کرنے کے لیے تشدد کی جانب مائل ہوجاتے ہیں ۔ جہادی مسلح بیانیے میں ایک خاص کشش اور جاذبیت بھی موجود ہے کہ اس کو ریاست اور سماج میں کئی سطح پر ہیروازم سے جوڑا گیا ہے۔ لہٰذا یہ پلیٹ فارم ان کی متشدد ذہنیت کی درست ترجمانی کرسکتا ہے جہاں وہ کسی مخصوص بیانیے کا سہارا لے کر خود کو مقامی یا عالمی سطح پر منوانے کی سعی کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ صرف اپنی ذات کا طاقتور اظہار چاہتے ہیں۔

سماج
شناخت کے بحران کی بحث میں ریاست کے کردار کو تو زیربحث لایا جاتا ہے اور اس پر تنقید بھی ہوتی ہے لیکن خود سماج کا طرز عمل اور کردار اس حوالے سے کیساہے، یہ سوچنا انتہائی اہم ہے۔ کیا پاکستانی سماج کا اپنا مزاج ایسانہیں ہے جو تفریق اور اونچ نیچ کے جذبات کو فروغ دیتایا انہیں پسند کرتا ہے؟ ہمارے مشاہدے و مطالعے میں یہ چیز آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں بھی ایسے عناصر پختہ ہیں۔

سماج پر ایک ایسے عمومی عنصر کا غلبہ نظر آتا ہے جس کا ربط مذہبی بیانیے یا اس کی نفسیات سے جڑتا ہے۔ مثال کے طور پر سماج میں آئیڈیالوجیکل ذہنیت غالب ہے۔یہ ذہنیت کم ازکم پاکستان میں مذہبی تحریکات اور مذہبی حلقوں سے وارد شدہ ہے۔ کیونکہ اس میں تقدیس کا وہی عنصر پایا جاتا ہے جو کسی بھی مذہبی آئیڈیالوجی کا جزو ہے۔دوسری مثال سماج میں موجود دیگر مذاہب پر غلبے کی عمومی خواہش ہے۔ یہ نفسیات واضح طور پر دینی چہرہ رکھتی ہے،اس نفسیات کے حامل لوگ یہ چاہتے کہ ان کا مذہب ہر جگہ غالب نظر آئے۔ جب ہم میں سے کوئی شخص ہندو یا مسیحی کو دیکھتا ہے تو سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ کاش یہ شخص اپنا مذہب تر ک کرکے اسلام قبول کرلے۔ اس کامطلب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ خود سماج بھی مذہبی شناختوں کے پہلو سے غیر روادار،بلکہ شدت پسند ہے۔

آئیڈیالوجی صرف ایک نظریہ ہی نہیں، ایک ذہنیت بھی ہوتی ہے اور ایسی ذہنیت میں ہر وہ شے خودبخود آئیڈیالوجیکل شکل اختیار کرلیتی ہے جس پر فرد یقین رکھتا ہے۔پاکستان میں یہ مزاج پختہ ہے۔ معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی ہر بات پر عقیدے کی حد تک ایمان رکھتی اور اس پر اصرار کرتی ہے۔ ایسی ذہنیت شناخت کے تناظر میں زیادہ خطرناک بن جاتی ہے۔ یہ ایسی نرگسیت ہے جو استحصال پر یقین رکھتی ہے۔ہر وہ تشخص جس کا اپنی ذات کے ساتھ تعلق ہو وہ برتر خیال کیا جاتا ہے اوراس کے علاوہ ہر تشخص کو زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ذہنیت نے سماج کے اندر لوگوں کو ایک دوسرے کا اس حد تک مخالف بنا دیا ہے کہ ان میں ہم آہنگی کے عناصر روز افزوں کم ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستانی سماج مذہبی پہلو سے ہٹ کر بھی شناخت کے حوالے سے صحت مند رویہ نہیں رکھتا۔پاکستان کی شناختیں چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، ان کے اندر عموماََنرگسیت موجود ہوتی ہے جس کے تحت ہر فرد اور طبقہ خود کو بالاتر خیال کرتا ہے اور دیگر تمام شناختوں کو کم درجہ دیتا ہے۔ ذات برادری میں امتیازی فرق اس کی مثال ہے۔پاکستان کے ہر صوبے میں برادریوں اور قبائل کا نظم مضبوط ہے۔ یہ تشخص صرف اظہاریے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس پر سیاست کی جاتی ہے اور اس کی اساس پر ووٹ لیے جاتے ہیں۔یہ عمل پاکستان کے قیام سے اب تک چلا آرہا ہے۔پاکستان میں جمہوری عمل کی کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انتخابی عمل میں حقوق اور شہریت کی بجائے اپنے قبیلے اور برادری سے وفاداری کو ترجیح دی جاتی ہے۔

صوبوں کے مابین شناخت کی ناہمواری میں فرق کی بات کی جائے تویہ معلوم ہوا ہے کہ پنجاب میں شناخت کا ہیجان اور ناہمواریت کم ہے۔ بعض پنجابی اپنی برادریوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اندر کسی خاص ثقافت پر بہت زیادہ اصرار نہیں ملتا۔ ان کے خیال میں ان کی پہچان پاکستانیت ہے۔اس کے علاوہ دیگر شناختیں قابل احترام تو ہیں لیکن ان پر اتنے اصرار کی ضرورت نہیں اور اگر اصرار ہے بھی تو اس کی وہ نوعیت نہیں ہے جو بلوچستان یا باقی صوبوں میں نظر آتی ہے۔پنجابی شناختوں کے اندر تشدد نہ ہونے کی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ انہیں اپنی شناخت کے حوالے سے کوئی خطرہ لاحق ہے نہ ہی کبھی تاریخی طور پران کا اس اساس پر بہت زیادہ استحصال کیا گیاہے۔ اس کی وجہ ریاست کا رویہ ہے کہ اس نے باقی صوبوں کی طرح اس کو مسلسل استحصال یا بدامنی کی زد پر نہیں رکھا۔ پنجاب اور پنجابی عوام میں تقویت کے احساس کی وجہ سے شناخت کا بحران پیدا نہیں ہوا۔ان کے خیال میں اگر پاکستانیت کو ترجیح دی جائے تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی پہچان کے بارے میں حساس نہیں ہیں یا انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ صرف امن اور حقوق کا مسئلہ ہے۔

تاہم بعض نوجوان پنجاب میں شناخت کی حساسیت میں شدت نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں تسلیم کرتے کہ وہاں زیادہ امن ہے یا مکمل حقوق دیے جارہے ہیں۔ان کے خیال میں پنجاب کے چند بڑے شہروں سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو خصوصاً حقوق کے شدید مسائل موجود ہیں اور لوگوں کا استحصال ہوتا ہے، وہ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ان نوجوانوں کے خیال میں پنجاب کے شہری اپنی مقامی شناختوں اور حقوق کو پاکستانیت پر قربان کرتے آئے ہیں۔ وہ اسے قربانی جیسے مفہوم سے تعبیر کرتے ہیں۔اِن نوجوانوں کے نزدیک گویا شناخت امن وحقوق سے متعلق نہیں ہے بلکہ الگ وجود رکھتی ہے۔

البتہ پنجاب میں مذہبی تعصباتی رویے زیادہ طاقتور ہیں۔ بین المذاہب تعصب کے تحت غیرمسلموں کو وہاں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب میں اس بنیاد پر افسوسناک حادثے وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد بھی باقی صوبوں کی بنسبت زیادہ ہے۔

طاقت کے ساتھ تعلق
شناخت کا طاقت کے احساس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ہر قسم کی انفرادی واجتماعی شناختیں قوت کے انجذاب یا حصول کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ البتہ پاکستانی سماج میں اگر شناخت کا حوالہ مذکور ہو تو اس میں طاقت کے ساتھ خوف کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔یہاں کچھ شناختیں برتری کے اظہار کی کوشش کرتی ہیں۔کیونکہ انہیں اس بات کا خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر انہیں طاقت میسر نہ ہوئی تو ان کی آزادی اور بڑھوتری پر قدغن لگ جائے گی۔اس لیے مختلف گروہ خصوصاً کمزور تشخص رکھنے والے عدمِ تحفظ کے احساس کے تحت طاقت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بھی ایک فطری طرزعمل کہلاسکتا ہے کیونکہ باقی دنیا میں بھی شناخت کو طاقت کے ساتھ جوڑا جا تا ہے، لیکن پاکستان میں خوف کے عنصر کی وجہ سے اس کی نوعیت ذرا اس لحاظ سے مختلف ہے کہ جو شناخت طاقت کے ساتھ مربوط نہیں ہوتی اس کا استحصال کیا جاتا ہے، جبکہ مہذب دنیا میں ریاست کمزور شناخت کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے اور اسے بقا کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔پاکستان میں شناخت کو جس نوع کی طاقت کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے وہ سیاسی بھی ہے اورسماجی وطبقاتی بھی ۔ یہ ربط بعض اوقات برتری کے حصول کے علاوہ تفاخرانہ بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی تاکہ مسائل کے حل میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔

اقلیت
اقلیتی برادری کے نمائندہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ان کی شناخت محفوظ نہیں ہے۔آئین میں کئی ایسی شقیں موجود ہیں جن کی وجہ سے ہمیں عدمِ تحفظ کا احساس لاحق ہے۔ ہمیں ہر سطح پر اپنی شناخت چھپانی پڑتی ہے۔ ہم اپنی شناخت کا اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ستر کی دہائی سے قبل ہم اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا نہیں تھالیکن اس کے بعد سے ہم اپنا تشخص چھپانے پر مجبور ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہم جدید اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی اپنی شناخت کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے۔

صوبوں کی سطح پر پنجاب کے مقابلے میں اقلیتی شناخت خیبرپختونخوا میں زیادہ محفوظ ہے۔سابقہ قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کے مطابق ان کے علاقے میں کبھی شناخت کی بنیاد پر قبائل ایک دوسرے کے ساتھ نہیں لڑے، اگر کبھی مسائل پیدا ہوئے ہیں تو یہ تنازعے ریاست کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں اور قبائل کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیا جاتا ہے۔ان علاقوں میں اتنا امن تھا کہ میرانشاہ میں بہت سارے چرچ تھے جنہیں کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایاگیا۔کبھی کبھاربازار اور آفس بند کروائے جاتے تھے لیکن اس دوران مسیحی برادری کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا، وہ اپنا کاروبار جاری رکھتے تھے،دکانیں اور آفس کھلے رکھتے تھے۔اورکزئی ایجنسی میں سکھوں کی بڑی تعداد ہے جو محفوظ ہیں ، آزاد ہیں۔

ساؤتھ وزیرستان میں بھی مسیحی ہیں،وہاں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ان علاقوں میں لڑائی جب بھی ہوئی سیاسی مفادات کے تحت وارد ہوئی۔پاڑا چنار میں زیادہ تر شیعہ ہیں، وہاں شیعہ اور سنی عرصے سے اکٹھے پرامن رہتے تھے لیکن درمیان میں پانچ سال ایسے آئے کہ طرفین کا بے تحاشا خون بہا لیکن اس کی بنیاد مذہبی وابستگی نہیں تھی بلکہ یہ سب سیاسی مسائل ہیں۔ان علاقوں میں عوام اپنی سطح پر ایک دوسرے کی شناختوں کو تسلیم کرتے ہیں اور امن سے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ریاست اقلیتی شناخت کو تحفظ دینے کے لیے اگرچہ کچھ اقدامات اٹھاتی ہے لیکن اس نے کئی ایسے خلا بھی چھوڑ رکھے ہیں جن کی وجہ سے اقلیتوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔مثلاََ آخری مردم شماری میں جو فارم بنائے گئے تھے ان میں مذہب کے خانے میں ایک آپشن ’’دیگر‘‘ کے عنوان سے موجود تھا۔ یعنی جو اقلیتیں زیادہ تعداد میں ہیں ان کے تو نام درج کیے گئے تھے لیکن جن کی تعداد بہت کم ہے اور وہ طاقتور بھی نہیں ہیں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا،ان سب کو دیگر میں رکھا گیا۔ گویا چھوٹی شناختوں کو یہ جاننے کا حق بھی نہیں کہ ان کی تعداد پاکستان میں کتنی ہے۔ جب انہیں اپنی تعداد کا ہی علم نہ ہوگا تو وہ اپنے حقوق کے لیے آواز کیسے اٹھاسکتے ہیں اور اقلیتوں کے نام پر کوٹہ سسٹم میں ان کی حیثیت کیا ہوگی؟ پختونخوا میں کیلاش وغیرہ جیسی چھوٹی شناختیں عدم ِ تحفظ کا شکار ہیں۔انہیں یہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے مکمل شہری نہیں ہیں۔ وہ اپنے علاقوں میں جہاں وہ سینکڑوں سالوں سے رہتے آئیں ہیں، اجنبی بنتے جارہے ہیںاور مسلسل خوف کی حالت میں زندہ ہیں۔

نصاب اور تعلیمی نظام
ایک نارمل شناخت کی تشکیل میں نصابِ تعلیم کاکردار اہم ہوتا ہے۔ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتیں منفی جگہ پر خرچ نہ ہوں تو تعلیمی اداروں اور نصاب کی اصلاحات پر توجہ دے۔ نوجوانوں میں نصاب اور تعلیمی نظم کی کمزوریوں کی وجہ سے تنقیدی شعور نہیں پنپ سکتا۔اس سے ان کے اندر چیزوں کو پرکھنے اور جانچنے کا عنصر ختم ہوگیا ہے اور وہ بہت جلد ہر شے سے متأثر ہوجاتے ہیں۔اس لیے وہ کسی ایک شناحت کے ساتھ شعوری طور پر منسوب نہیں رہ سکتے اور کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی معیار کی کمزوری کی وجہ سے بحران پیدا ہوا ہے۔ تعلیم کا معیار اس سطح کا نہیں ہے جو شفاف اور بے غبار پہچان کا تعارف کراسکے۔ ایک ایسی پہچان جوبامعنی ہو اور عصرِحاضر کے ساتھ بھی ربط پیدا کرے۔

متنوع شناختوں کی قبولیت کا جذبہ خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا راستہ تعلیمی نصاب اور تربیت ہے۔ لیکن ہمارے نصاب اور تربیت کے ماحول میں ایسی کسی سعی کے مظاہر نظر نہیں آتے ہیں۔ نصابِ تعلیم میں اقلیتوں کے بار ے میں جو تصور دیا جاتا ہے اس میں کمتری کی جھلک ملتی ہے اور جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس پر اقلیتیں تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔ نصاب میں مذاہب اور ثقافتوں کے مابین برابری کا تصور موجود نہیں ہے۔

آئین اور سماجی معاہدہ
پاکستان کاآئین ایک نظریاتی ریاست کی نمائندگی کرتا ہے،قومی ریاست کی نہیں۔ایک قومی ریاست کے خدوخال شہریت وحقوق کی اساس پر ترتیب پاتے ہیں نہ کہ مذہبی تعبیر یا لسانیت کی بنیاد پر، مخصوص مذہبی تعبیر اور اردو زبان کوریاست کے تشخص کی بنیاد بنایاگیا اور انہی دو بنیادوں کی وجہ سے ملک میں بڑے بحران پیدا ہوئے جن میں ایک مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی تھی۔

سوال یہ ہے کہ آئین کس حد تک شناختوں کو تحفظ دیتا ہے؟ بعض نوجوان سمجھتے ہیں کہ آئین شناختوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے لیکن اصل مسئلہ انتظامی سقم اورعملدرآمد کاہے۔ مثال کے طور پر سندھ میں قانون ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی تبدیلی ِمذہب کا اعتبار نہیں ہوگا لیکن اگر لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کا واقعہ رونماہوجائے تو اس پر آئین وعمرانی معاہدے کو تو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ یہ خالصتاً انتظامی عملداری کی کمزوری ہے۔اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پنجاب کے وزیراطلاعات نے حال ہی میں ایک اقلیتی مذہب پر طنز کیا تو اس کو عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ یہ اس لیے ہوا کہ آئین وعمرانی معاہدہ مذہبی اقلیتوں اور کمزور شناختوں کو تحفظ دیتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں آئینی تحفظ کے بعد careکا مرحلہ ہوتا ہے جس کا تصور ہمارے ہاں موجود نہیں ہے ، اسی لیے ہمیں لگتا ہے کہ شاید آئین میں کمزوریاں ہیں اور یہ سب طبقات کی شناحت کی حفاظت نہیں کرتا۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ آئین وعمرانی معاہدہ شناختوں کی حفاظت نہیں کرتا،اس کے مطابق اس کی ایک وجہ تو مذہبی درجہ بندی ہے،جسے آئین وسماجی معاہدہ دونوں یقینی بناتے ہیں۔ سماجی معاہدہ اصل توقراردادِ لاہور تھا۔ ہم نے 1940ء کے سماجی معاہدے کو بعد میں قراردادِ مقاصد کے ساتھ کاؤنٹر کیا تو مسائل پیدا ہونے شروع ہوئے۔قراردادِ لاہور میں انصاف اور مساوات کی بات کی گئی تھی۔ مسلمان اقلیت میں تھے تو خصوصی طور پر اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی اور انتظامی حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد یہ سماجی معاہدہ بھلا دیا گیا اور ہم نے ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میجورٹی از اتھارٹی۔یہ آئین کا حصہ ہے اور اس کی تشکیل پر لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ یہ آزادی کے بعد سب سے بڑی کامیابی ہے۔

1949ء کی قراردادِ مقاصدکے بعد جب پاکستان کو مسلم ریاست سے اسلامی ریاست کردیا گیااور اقتداراعلیٰ اللہ تعالیٰ کے نام کیا گیا تو اس کی وجہ سے کچھ ابہام پیدا ہوئے جو ابھی تک حل نہیں ہوسکے۔اس سے ایک تو عوام اور پارلیمان کی طاقت کم ہوگئی۔اس کے علاوہ تقسیم کا عمل بھی شروع ہوگیا جس نے سماج کو کئی طرح کے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ مذہبی طبقہ یہ خیال کرنے لگا کہ چونکہ اقتدار اعلیٰ خدائے تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ چونکہ مذہب کی شرح کرنے کے اہل ہیں لہٰذا اس بنیاد پر ان کو یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے کہ وہ سیاست میں نہ صرف یہ کہ عملداری کا مطالبہ کریں بلکہ اس میں راہنما کاکردار بھی ادا کریں۔اس تصور نے مزید کئی شناحتوں پر قدغن لگادی۔

ایک رائے کے مطابق آئین وعمرانی معاہدہ اس لیے حفاظت نہیں کرتے کیونکہ ان میں شہریت اور آزادی کا تصور مفقود ہے۔ اگرشہریت و آزادی کا تصور موجود نہ ہو اور ایک دوسرے سے جوابدہی کی سوچ غالب ہو تو پھر سماج میں بحران پیدا ہوتا ہے اور کچھ شناختیں غیرمحفوظ ہوجاتی ہیں۔ اس رائے کے حامل افراد کے مطابق جب فرد یا طبقہ شہریت کی اساس پر اپنی زندگی کو استوار کرتا ہے تو پھر واحد وحتمی شناخت ناکافی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ زندگی، اس کے تقاضے اور اس کی جہتیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں اور جتنا ان کے متنوع ہونے کی حقیقت کا احساس ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ ایک موم شناخت کا وجود ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یہ موم شناخت تغیر کے احساس کے بغیر خودبخود متغیر ہوتی رہے،ورنہ تناؤ زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔گویاکوئی بھی شناخت بحران کو جنم نہیں دیتی۔ ایسا اُس سماج میں ہوتا ہے جہاں آزادی کا تصور مفقود ہے۔ اس کے بعد’ ہم‘ اور ’غیر‘ کی حدبندیاں بنا دی جاتی ہیں۔ یہ تقسیم آسان اس لیے بھی ہوجاتی ہے کہ ہماری شناختوں میں جذباتیت کا عنصر زیادہ ہے۔ایک حد تک جذباتیت بھی بری شے نہیں ہے البتہ جب اس سے معقولیت ختم کردی جائے تو پھر اس کی منفی جہت زیادہ طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے۔

ایک نقطہِ نظر کے مطابق آئین میں تو کسی حد تک شناختی تنوع کوتحفظ ہے لیکن سماجی معاہدہ بالکل بھی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ بازاروں میں جائیں تو بعض دوکانوں پر لکھا ملتا ہے کہ یہاں قادیانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔اس سے سماجی معاہدے کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک شخص دنیا میں نوبل انعام حاصل کرکے انتہائی معزز اور قابل احترام ہوتا ہے لیکن وہ جب انارکلی بازار سے گزرتا ہے تو تحقیر سے انگلی اٹھا کر کہا جاتا ہے کہ وہ دیکھو مرزائی جا رہا ہے۔

نوجوانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد میں آئین سے متعلق یہ احساس جنم لے چکا ہے کہ اس کی تشکیل میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے جس کے باعث وہ اس کا مطالعہ نہیں رکھتے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمیں اس میں کشش نظر نہیں آتی۔ مذہبی طبقے میںسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اس کے باوجود ریاست کوان افرادسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی ممکن نہیں بنائی جاتی۔ جب یہ صورت ِ حال ہوگی تو سماج میں تمام شہری خود کو مساوی کیسے محسوس کریں گے۔کیونکہ بعض تو حقوق طلب کرنے پرقابل ِ گرفت قرار پاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ آئین کو تسلیم نہ کرکے بھی آزاد رہتے ہیں۔ہمارا سماجی معاہدہ اس نوعیت کا ہے کہ یہ ہمیں اکٹھا کرنے کی بجائے تقسیم کرتا ہے اور باہم متصادم رہنے پر مجبور کرتا ہے۔خصوصاََ اگر مذہبی پہلو سے دیکھا جائے تو اقلیت کے ساتھ اس کا تعلق صحت مند نہیں ہے۔ اکثریت کو اس پر بالادستی و برتری اور زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ اس تناظر میں معاشی قوت بھی غیراہم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ہندو ارب پتی بھی بن جائے تب بھی اس کو سماج میں عدم ِتحفظ کا احساس رہتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک درجہ کم شہری ہے۔

شناخت کی بحث اور اس کے بحران سے متعلق یہ وہ بعض کلیدی حاصلات ہیں جن پر پاکستان میں آج کے نوجوان غور کر رہے ہیں۔اس سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ نوجوان کن سوالات کے جوابات مانگتے ہیں وہیں اس کے ساتھ یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں ؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...