آزادی کی ڈائمنڈ جُوبلی، پارلیمنٹ کے 75 سال

546

قیامِ پاکستان کی ڈائمنڈ جُوبلی مناتے وقت جہاں ایک طرف اُمید کے درجنوں چراغ منور ہیں جو پاکستانیت کے ارتقاء کی پرعزم کہانی سناتے ہیں، اچھے مستقبل کی آس جگاتے ہیں، تو دوسری طرف امسال یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ دنیا میں آبادی کے اعتبار سے پانچویں بڑے ملک کا سیاسی نظام کتنا کمزور ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ 1972ء میں پاکستان کی سلور جُوبلی مناتے وقت بھی ہم ایک المیہ سے گزر کر کرچیاں چُن چُن کر نیا پاکستان بنانے کی تگ و دو میں تھے۔ 1997ء میں پاکستان کی گولڈن جُوبلی کا جشن آیا تو سیاسی نظام ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کے بھنور میں تھا اور کنٹرولڈ انتخابات کے بعد کئی راہوں کا متلاشی تھا۔ 2022ء میں پاکستان کی ڈائمنڈ جُوبلی کا سال بھی سیاسی ہلچل سے عبارت ہے۔ گویا ہم ابن خلدون کے ’سائیکل آف ہسٹری‘ کے مصداق ہر 25 سال بعد مختلف النوع چیلنجز کا سامنا اورمقابلہ کرتے ہیں۔ ہر نسل ایک جہدِ مسلسل میں نظر آتی ہے اور ان کی سعی اور قربانیوں کے اپنے اپنے نتائج ہیں۔ دائروں کا یہ سفر کب تھمے گا اور پاکستان کے سیاسی نظام کو استحکام، معیشت کو ٹھوس بنیادیں اور سماج کو اچھی تعلیم، تحفظ اور خوشیاں نصیب ہوں گی۔ شاید یہ اچھا موقع ہے کہ سوچا جائے اور مستقبل کے لیے دوراندیش منصوبہ بندی کی جائے۔

قیامِ پاکستان کے وقت ملک میں دو جامعات تھیں اور ان کے وائس چانسلر دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے۔ آج دو سو کے قریب پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں ہیں لیکن پاکستان پر زیادہ تر تحقیق اور تبصرہ دیگر ممالک کے اسکالرز کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ گزشتہ 75 سالوں میں سرزمین پر حقائق اچھے خاصے بدل چکے ہیں۔ اور ہمیں پاکستان کی حقیقت کی تفہیم کے لیے تجزیہ اور تحقیق کے نئے زاویے درکار ہیں۔

اس مختصر مضمون میں پارلیمنٹ کے 75 سالوں کی تحقیق حاضر ہے۔

قیامِ پاکستان بلاشبہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ تاہم اس جدوجہد کے تمام کامیاب لمحات سیاسی اور خالصتاً پارلیمانی مظاہر ہیں۔ 1946ء کے انتخابات نے تاریخ کا دھارا موڑا۔ مسلم لیگ کے اراکین نے ابتداء میں متحدہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کیا لیکن بعدازاں عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ لیاقت علی خان وزیرِخزانہ بنے تو اپنے ویژن اپروچ کی دھاک ’تمام آدمی کا بجٹ‘ پیش کرکے بٹھائی۔آئی آئی چندریگر کامرس، غصنفر علی خان صحت، جوگیندرا ناتھ منڈل قانون، اور سردار عبدالرب نشتر ریلوے اور کمیونیکشن کے وزیر بنے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اِن میں سے اکثر افراد کابینہ کا حصہ اور نوابزادہ لیاقت علی خان وزیراعظم بنے۔

تقسیمِ ہند کے 3 جُون 1947ء کے منصوبہ کے بعد پاکستان اور انڈیا میں کون کون شامل ہوگا، یہ طے کرنے کے لیے تین طریقے اپنائے گئے۔ بٹوارا فقط پنجاب اور بنگال کا ہوا اور اس کا فیصلہ بھی بظاہر وہاں کی قانون ساز اسمبلیوں نے کیا۔ ہجرت کے عذاب اورکشت وخون کے بازار بھی زیادہ تر یہیں تھے۔ خیر، بات پاکستان تک محدود رکھیں تو پنچاب، بنگال اور سندھ کی اسمبلیوں نے پاکستان میں شمولیت کے لیے ووٹ دیا۔ برٹش بلوچستان میں یہ فیصلہ شاہی جرگہ نے کیا۔ سلہٹ اور اُس وقت کے صوبہ سرحد(اور آج کے خیبرپختونخوا) میں ریفرنڈم ہوا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ رقبہ اور وسائل بلوچستان کی ریاستیں قلات، لسبیلہ، مکران اور خاران، پنجاب سے بہاولپور، سندھ سے خیرپور اور میرپور، سرحد سے سوات، دیر، چترال وغیرہ ’’الحاق کے مجاہدوں‘‘ کی صورت میں لائیں۔ یہ تمام تر سیاسی و پارلیمانی عمل تھا۔ 14 اگست 1947ء کو انتقالِ اقتدار بھی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں ہوا جوکہ سندھ اسمبلی کی کراچی میں واقع عمارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک سیاسی اور پارلیمنٹری پراڈکٹ ہے۔ پاکستان کے بانیان کی کہانی پڑھیں تو قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر علامہ محمد اقبال تک درجنوں قائدین نوآبادیاتی نظام کے تحت قائم ہونے والے پارلیمانی اداروں کا حصہ تھے۔

تاریخی اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی طرز کے نمائندہ پارلیمانی ادارے جوکہ منتخب لوگوں کے ووٹ کے حق کے ساتھ قائم ہوئے تھے ہمیں آزادی کے پیکج میں بطور ورثہ نصیب ہوئے تھے۔ اپنی روح اور عمل کے اعتبار سے کیونکہ یہ ادارے قانون سازی کے ساتھ ساتھ ملک کی انتظامیہ کو جنم دے کے اُسے عوام کی ایماء پر حقِ حکمرانی سونپتے تھے اس لیے انہوں نے باقاعدہ آزادی سے چار دن پہلے، یعنی 10 اگست 1947ء سے پاکستان میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا گزٹ نوٹیفکیشن پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ بٹوارا پارلیمانی اداروں کا بھی ہوا تھا۔ یہاں یہ بات دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے کہ دستورساز اسمبلی کے اراکین کا انتخاب صوبائی اسمبلیاں کرتی تھیں اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح یہاں پنجاب سے منتخب ہوکر آئے تھے، جبکہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بنگال سے منتخب ہوئے تھے۔

پاکستان کی ڈائمنڈ جُوبلی موقع ہے کہ ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور مستقبل کی جمہوری راہیں تلاش کریں۔ اس کے لیے جمہوری کلچر اہم ہے جس کے بیج آج کے پاکستان میں معدوم نہیں تو نایاب ضرور ہیں۔ لیکن یہ واحد حل ہے۔

یہ بھی ایک تاریخی سچ ہے کہ گورنرجنرل کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح دستورساز اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے اس موقع پر 11 اگست 1947ء کا تاریخی خطاب کیا جسے پاکستان کا ’میگنا کارٹا‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ افسرشاہی نے اس تقریر کو سنسر کیا، تاہم آج یہ تقریر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی کاوش کی بدولت پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداری میں آویزاں ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے اراکین کی تعداد 69 تھی جسے بعد میں 79 تک بڑھا دیا گیا تھا تاکہ مہاجرین اور الحاق کرنے والی ریاستوں کو نمائندگی مل سکے۔ میری تحقیق کے مطابق اس اسمبلی میں 1954ء تک، کہ جب اسے انتظامی کلہاڑے سے غلام محمد نے قتل کردیا، 100 معزز اراکین نے حلف اٹھایا، یہ خالی ہوجانے والی نشستوں کی وجہ سے تھا۔ اسمبلی کے اراکین کے رجسٹر پرسب سے پہلے قائم مقام چیئرمین جوگیندرا ناتھ منڈل اور دوسرے نمبر پر بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دستخط کیے۔ آج پاکستان میں یہ رجسٹر غائب ہے۔ کہا جاتا ہے جب ایوب خان نے ملک کا پارلیمانی دارالحکومت ڈھاکہ کو بنایا تو سارے پارلیمانی ریکارڈ وہاں بھیج دیے گئے اور آج تک کسی نے اُس کی کاپی تک نہیں مانگی۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں آج بھی پارلیمانی آرکائیوز کا شعبہ قائم نہیں ہوسکا۔ پارلیمنٹ ہاؤس بھی وہیں بن رہا تھا جو آج بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ ہے۔ جب اسلام آباد کو دارالحکومت بنایا گیا تو یہاں پارلیمنٹ ہاؤس کے لیے کوئی جگہ مختص نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1971ء کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ میں ہوئے اور جو جگہ پارلیمنٹ ہاؤس کو نصیب ہوئی اسے ایک طرف سے ایوانِ صدر اور دوسری طرف سے سپریم کورٹ نے جکڑ رکھا ہے اور اس میں توسیع کی گنجائش نہیں۔

اگر تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو پہلی دستورساز اسمبلی آئین نہ بناسکی تو بیوروکریٹ غلام محمد گورنر جنرل بنے تو انہوں نے پہلی اسمبلی کو چلتا کیا۔ اِس اقدام سے پہلے صوبائی الیکشن ہوئے تو تبدیل شدہ کمپوزیشن کی حامل اسمبلیوں نے قراردادیں پاس کیں کہ دستورساز اسمبلی اپنا نمائندہ گروپ کھوچکی۔ نیز پارلیمانی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے ملک میں ذہانت کی کابینہ کا تصور آچکا تھا اور آرمی چیف وزیرِدفاع ٹھہرے۔ مزید یہ کہ نظریاتی اعتبار سے بھی بھنور گہرے ہوچکے تھے۔ اور قراردادِ مقاصد منظور ہوگئی۔ دستور بنا تو 1956ء میں لیکن اِس جمہوریہ کو نظر لگ گئی اور اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے وزیراعظم فیروز خان نون کو لکھا کہ ملک اور آئین اکٹھے نہیں چل سکتے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم کے انتخاب اور گھر بھیجے جانے میں اسمبلیوں کا صفر کردار تھا۔ اسمبلیوں کے اسپیکر مولوی تمیزالدین ہوں یا عبدالوہاب، یہ بنگالی تھے۔ مولوی تمیزالدین نے تو اسمبلی کی حرمت کا مقدمہ لڑا اور وہ جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت کے سامنے ہار گئے۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان کے اولین آزمائشی دور میں قائداعظم کے علاوہ سبھی اسپیکر مشرقی پاکستان سے آئے اور سات میں سے تین وزرائے اعظم بھی وہیں سے آئے۔ چار میں سے دو  گورنرجنرل بھی وہیں سے تھے۔ پہلے صدر اسکندرمرزا کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ کیا یہ ساری نمائندگی صرف نمائشی تھی۔

1958ء میں پہلا مارشل لاء لگانے کا اعزاز بھی اسکندر مرزا کو کو نصیب ہوا۔ پھر کیا تھا، اکتوبر 1958ء سے لے کر جُون 1962ء تک ملک میں اسمبلیاں ہی نہ تھیں۔ ایوب خان بنیادی جمہوریت کا نظام لائے۔ 1972ء تک وزیراعظم کا عہدہ تک موجود نہ تھا۔ ایوب خان بھی اپنا مصنوعی نظام اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ 1973ء کے وفاقی پارلیمانی دستور کی عمر بھی مختصر رہی، پھر 5 جولائی 1977ء کا مارشل لاء آگیا۔ اس کے بعد غیرجماعتی جمہوریت کے تجربات کیے گئے۔ ہائبرڈ نظام پر بھی b(2)58 کا کلہاڑا رہا جو کئی اسمبلیاں کھا گیا۔ اکتوبر 1999ء میں ایک بار پھر جمہوریت اور پارایمنٹ کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اگر اسمبلیوں اور جمہوریت کی گمشدگیوں کا حساب کیا جائے تو یہ ہماری قومی زندگی کا 29 فیصد وقت بنتا ہے۔ اگر ملک کو بدن کے استعارے میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آئین اُس کی روح  ہے۔ ہم عرصہ دراز تک بھٹکی ہوئی روح رہے۔ جمہوریت اس کا لہو ہے، ہمارا سیاسی خُون دھاندلی اور سیاسی انجیئنرنگ کے کینسر کا شکار ہوگیا۔ پارلیمنٹ کو دماغ کہا جائے تو ہم اتنا عرصہ دماغ کے بغیر رہے۔ اب اگر فالج ہے اور سیاسی طور پر ہم بھٹکی ہوئی روح تو شکوہ کیسا۔

جب ہم اکیسیوں صدی میں داخل ہوئے تھے تو ہم جمہوریت سے محروم تھے۔ اسمبلیوں پر تالے لگے تھے اور آئین سویا ہوا تھا۔ لیکن آج اُمید کے کئی چراغ جل رہے ہیں۔ سبھی ادارے اور مقتدر قوتیں آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی۔ لیکن کیا پاکستان کی جمہوریت استحکام کی پٹڑی پر چڑھ گئی ہے۔ غالباً نہیں۔ ایک منقسم سماج میں سیاست اور پبلک سروس اچھی خاصی مشکل بات ہیں۔ زمینی حقائق بھلے جو بھی ہوں، راستہ ایک ہی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت۔ سبھی کو آئین کی چھتری تلے آنا ہوگا، تبھی آگے بڑھ سکیں گے۔

پاکستان کی ڈائمنڈ جُوبلی موقع ہے کہ ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور مستقبل کی جمہوری راہیں تلاش کریں۔ اس کے لیے جمہوری کلچر اہم ہےجس کے بیج آج کے پاکستان میں معدوم نہیں تو نایاب ضرور ہیں۔ لیکن یہ واحد حل ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...