طالبان کی ممکنہ واپسی، اِس بار مختلف کیا ہے؟

1,545

گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے شمال مغربی صوبے، خصوصاً خوب صورت وادی سوات میں طالبان کی موجودگی اور سرگرمیاں پاکستان کی مرکزی میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر بحث رہیں۔ جب طالبان نے سوات کی تحصل مٹہ کی چپریال وادی میں پہاڑوں پر ڈیرے جمائے اور پولیس رپورٹ کے مطابق تین فوجیوں اور ایک پولیس ڈی ایس پی کو چند ساتھیوں سمیت یرغمال بنایا تو ابتدا میں سوات کے بعض مقامی صحافی ایسی کسی موجودگی سے انکاری تھے۔ تاہم چپریال وادی میں ذرائع کے مطابق پولیس رپورٹ درست تھی جس کی تصدیق بعد میں سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے ایک فوجی اہلکار اور مذکورہ ڈی ایس پی کی ویڈیوز نے کی، جو مبینہ طور پر وہاں کے طالبان نے جاری کی تھیں۔ اس موجودگی کی تصدیق ان طالبان کی طرف سے سوات کے ایک مقامی صحافی کے ساتھ فون پر گفتگو سے بھی ہوئی۔

جوں ہی یہ خبریں عام ہوئیں تو پوری سوات وادی میں خوف و ہراس پھیل گیا بلکہ سوات سے زیادہ ملک کے دیگر حصّوں میں خوف زیادہ پھیل گیا اور نتیجتاً کئی سیّاحوں نے سوات آنے کا ارادہ ترک کردیا بلکہ یہاں بالائی سوات میں موجود کئی سیّاح راتوں کو ہی واپس چلے گئے۔

سوات جہاں اپنی خوب صورتی اور کلتوری تنوع اور تاریخ کے لیے مشہور ہے وہیں بدقسمتی سے اس وادی کے ساتھ طالبان کا ٹھپّہ بھی لگا رہتا ہے۔ 2018ء میں لاہور شہر میں کئی پرھے لکھے دانشور دوستوں کو جب سوات انے کی دعوت دی تو ان کا جواب تھا ’مروانا چاہتے ہو‘۔ ان کے ہاں سوات میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خوف اس تباہ کن دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو 2004ء تا 2009ء کے اواخر تک سوات میں جاری رہی تاآں کہ مئی 2009ء کو ان کے خلاف آپریشن شروع ہوا جس کو کامیاب بنانے کے لیے نہ صرف سوات سے دیڑھ ملین سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی بلکہ یہاں کا انفراسٹرکچر بھی بری طرح تباہ ہوگیا۔ دہشت گردی میں شدّت اس وقت آئی جب طالبان نے دسمبر 2008ء کو اعلان کیا کہ ائیندہ سال جنوری 15 تک لڑکیوں کے سارے سکول بند کردیے جائیں گے۔ 2008ء کے اخری مہینے اور 2009ء کے شروع کے مہینے سوات میں قیامت لے کر آئے۔ آئے روز منگورہ شہر کے مرکزی چوک ’گرین چوک‘ میں کھمبوں اور درختوں پر انسانوں کی لاشیں الٹی لٹکائی جاتی تھیں۔ ایک قتل گاہ بن جانے کے باعث اس جگہ کو ’خونی چوک‘ کہا گیا جو پوری دنیا میں مشہور ہوا۔

دس سال سے زیادہ کی اس مدّت میں راقم نے سوات پر انگریزی و اردو اخباروں کے لیے لکھا اور ایک لحاظ سے اس وقت کے حالات کو اپنی رائے کے ساتھ قلمبند کرتا رہا۔ جب فروری 2009ء کو سوات میں امن معاہدہ ہوا تو اس کے نتیجے میں امن تو کیا آتا، الٹا طالبان سوات کے باقی ماندہ علاقوں جیسے بحرین اور کالام کی وادیوں پر بھی قابض ہوگئے۔ اِس امن معاہدے کی اس وقت جس نے مخالفت کی اس کو غدّار کہا گیا۔ مگر مخالفت کرنے والے صحیح ثابت ہوئے کہ اس معاہدے نے طالبان کو دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کی شہ دی اور وہ بادشاہ بن کر من مرضی کی ریاست قائم کرنے لگے۔ اپنی عدالتیں قائم کیں اور وہاں سزائیں بھی دینے لگے۔ آخر کار ریاست کو عوامی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے سوات میں آپریشن کرنا پڑا جو کامیاب رہا۔ کامیاب اس طرح کہ یہاں سے طالبان قیادت بھاگ گئی اور عام طالبان کو یا تو ماردیا گیا یا پھر گرفتار کرکے جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔

سوات کی یہ کہانی طویل اور گھمبیر ہے۔ آئیے موجودہ حالات کی بات کرتے ہیں۔

جب سن 2000ء کے بعد طالبان آہستہ آہستہ ابھرنے لگے تھے اور پھر ایک دہائی کے اندر انہوں نے سوات پر قبضہ کرلیا۔ البتہ تو اُس وقت کے حالات اور موجودہ منظرنامے میں سماجی، سیاسی، ابلاغی اور خارجی عوامل کے لحاظ سے بڑا فرق ہے۔

اِس بار مقامی سطح پر طالبان کے لیے کوئی حمایت موجود نہیں ہے

اُس وقت سوات کے مقامی باشندے ابہام کا شکار تھے۔ یہاں پہ، بلکہ پورے ملک میں کئی لوگ طالبان کے بارے میں ایک رومانوی تصور رکھتے تھے۔ کئی لوگ پس پردہ ان کے نظریے کے حامی تھے۔ حتی کہ مرکزی میڈیا پر بھی ان کے حامی نظر آتے تھے۔ سوات میں سوشل میڈیا اس قدر نہیں پھیلا تھا۔ مین سٹریم میڈیا میں طالبان کے حامی دن رات رائے ہموار کر رہے تھے۔ اسی طرح کئی لوگ طالبان شورش کو مقامی جاگیرداری نطام کے خلاف مزاحمت سمجھ رہے تھے اور اس کشکمش کو طبقاتی رنگ بھی دے رہے تھے۔ سوات کے اپنے عوام کی طرف سے اجتماعی مزاحمت نہیں تھی۔ سول سوسائٹی کے ایک ادھ گروہ کے علاوہ یہاں سے طالبان کی مخالفت نہیں کی جاتی تھی۔ عام لوگوں کو معلومات تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ اس شورش کو صرف ایک زاویے یعنی کہ یہ مقامی ہے اور ازخود ہے، کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔ اس کے تزویراتی پہلوؤں سے ناواقفیت نظر آتی تھی۔ ابتدائی سالوں میں سوات کے اندر دینی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت تھی جو کہ طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ بعدازاں یہاں جب عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت آئی تو طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی اور انہوں نے اس جماعت کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اے این پی کی اُس وقت کی حکومت سوات امن معاہدہ پر راضی ہوگئی۔ افغانستان میں اور پاک افغان سرحد پر امریکی حکومت طالبان کے خلاف لڑ رہی تھی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ لوگ امریکا کو افغانستان میں چونکہ ایک غاصب کے طور پر دیکھتے تھے تو نتیجتاً طالبان سے ان کی ہمدردیاں تھیں۔

ایک دوسرا پہلو پاکستان کا امریکا کے ساتھ طالبان شورش کے خلاف اتحادی ہونے کا بھی تھا۔ اس کی اہمیت معاشی بھی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی جانب سے فنڈز مل رہے تھے۔ کئی ماہرین کے نزدیک دونوں اتحادی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور یوں ایک دوسرے کو چکمہ بھی دے رہے تھے۔ جبکہ اِس بار ایسا کوئی اتحاد موجود نہیں ہے اور اگر کہیں طالبان ابھرتے ہیں تو پاکستان نے وہ جنگ خود ہی لڑنی ہوگی۔ اب کابل میں بھی پاکستانی حمایت یافتہ حکومت ہے، ایسے میں کسی بھی مہم جوئی کا اثر وہاں بھی پڑسکتا ہے۔

لہذا اِس بار حالات کئی حوالوں سے مختلف ہیں۔ سوات میں ہر خاص و عام طالبان کی آمد یا ابھرنے کو ایک تو تزویراتی (strategic) چال سمجھ رہا ہے۔ یہاں لوگوں کا اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی گیم کا حصّہ ہیں۔ اس لیے اب عام لوگ ان کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں۔ کئی لوگ برملا اداروں کو بھی مورد الزام ٹھراتے ہیں۔ اب طالبان کو نظریاتی نہیں، بلکہ تزویراتی اثاثہ سمجھا جا رہا ہے۔ عام ریڑھی والے سے لے کر سیاستدان تک سب اس پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس لیے مقامی سطح پر طالبان کی حمایت میں اضافہ ممکن نہیں۔

دوسری طرف سوشل میڈیا اس قدر مؤثر اور وسیع ہوچکا ہے کہ بہ مشکل ہی کوئی چیز مخفی رہ سکتی ہے۔ اس کو استعمال کرکے ریاستی اداروں اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات کی ایک دورافتادہ وادی میں چند طالبان کے نمودار ہونے کی خبر اس قدر تیزی سے پھیلی اور پورے ملک میں اس کی آواز گونجی، ریاستی اداروں سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم ابھی تازہ خبر کے مطابق سوات میں ان کے خلاف کاروائی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے، کیونکہ ذرائع کے مطابق وہ لوگ سوات چھوڑ کر جارہے ہیں۔

طالبان کی اس حالیہ رونمائی کے بعد دِیر اور سوات میں عوام کی جانب سے سوشل میڈیا کے علاوہ جلسوں کی صورت میں احتجاج اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ مقامی لوگ اب کسی طرح ایسی کاروائیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ اور اگر کہیں ایسی کاروائیاں ہوتی ہیں تو مقامی لوگوں کی  بڑی تعداد اس کو تزویراتی گیم سمجھ کر حکومت اور اداروں کو موردالزام ٹھرائیں گے۔

یہی وجوہات ہیں کہ اس بار ایسی کسی شورش کے امکانات کم ہیں۔ خوش آئند خبر یہ ہے کہ بعض ذرائع کے مطابق طالبان واپس غائب ہورہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حالیہ نموداری ٹیسٹ تھا کہ مقامی لوگ اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔ البتہ یہ بات کہ طالبان پاکستان سے مستقل طور پر منظرنامے سے غائب ہوں گے یا نہیں، تو اس کا پتہ آنے والے وقت میں ہی چلے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...