ہم خلیج فارس میں ایک اور جنگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں؟

ایلکس وتانکا

585

خلیج فارس میں حالیہ دنوں کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ کسی جنگی تنازعے میں تبدیل نہیں ہوگی۔ بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ایران اور امریکہ دونوں ہی کھلی جنگ نہیں چاہتے۔ ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چند مشیروں سے خفا ہیں جو انہیں ایران کے ساتھ براہ راست جنگ میں جانے پر رضامند کررہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے مشیران کے مشورے خود ان کی اپنی حکمت عملی کے خلاف ہیں، جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ کامیاب ہوگی اور ایران مذاکرات کی میز پہ آنے کے لئے رضامند ہوجائے گا۔ اسی اثنا میں ایرانی سپریم کمانڈر سید علی خامنہ ای نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں ہوگی۔ تاہم انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ایران امریکہ کے ساتھ کسی مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو زہر یلے امکانات قرار دیا۔

گزشتہ دنوں میں ایرانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ سال 2015 کی جوہری ڈیل سے جزوی طور پر انحراف کرے گی۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے یورپ، چین اور روس کو 60 روز کی مہلت دی کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کیا وہ ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی پاسداری کی صورت میں اس کی جائز خواہشات پوری کرنے پہ رضامند ہیں یا نہیں؟

ایران کی خواہشات کیا ہیں؟

ایران چاہتا ہے کہ یورپ اور دیگر عالمی خریدار اس کا خام تیل خریدتے رہیں۔ عالمی دنیا امریکی پابندیوں کو نظر انداز کرے اور ایرانی بنکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھے۔ اگر ایران کی یہ خواہشات پوری نہ کی گئیں تو ایران اس کے بعد اپنی معطل شدہ جوہری سرگرمیاں جزوی طور پر بحال کردے گا۔ یورپی ممالک نے ایران کی جانب سے اس الٹی میٹم کو مسترد کردیا ہے۔

گزشتہ دنوں خلیج میں متحدہ عرب امارات کی فجیرہ پورٹ کےپاس نامعلوم حملہ آوروں نے اماراتی اور سعودی آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا۔ خلیجی میڈیا نے اس کا الزام ایران پر لگایا جبکہ ایران نے اس کاروائی سے لاتعلقی کا اظہارکیا

ایرانی توقعات میں آتی ہوئی تبدیلیاں

عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین تاریخی جوہری ڈیل سے امریکی صدر ٹرمپ کے انخلا کے فیصلے کے ٹھیک ایک سال بعد ایران نے اس پر اپنا جواب دیا ہے۔ دراصل پہلے پہل ایرانی قیادت اس امر کا انتظار کرتی رہی کہ ٹرمپ کی مدت صدارت کے چار سال کسی نہ کسی طریقے سے گزار لئے جائیں تاہم اب ان کے لئے یہ مدت گزارنا بہت خطرناک ہورہا تھا۔ امریکہ کے داخلی حالات کو دیکھا جائے تو بہت حد تک ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ سال 2020 میں آئندہ مدت صدارت کے لئے بھی منتخب ہوجائیں۔ ایرانی حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے بھی لائحہ عمل تیار کررہی ہے۔ ایرانیوں کو یقین تھا کہ اگر انہوں نے اپنی جوہری سرگرمیاں معطل رکھیں تو سال 2030 تک عالمی دنیا ان پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لئے ان کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ ایران کے مطابق عالمی دنیا نے ان پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان تو کیا مگر یہ محض لفظوں تک محدود رہا۔

ایران اس وقت شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ اگر امریکہ کی جانب سے عائد حالیہ اقتصادی پابندیوں اور اس سے پہلے ایرانی تیل کی  عالمی منڈیوں میں فروخت کا تقابلی جائزہ لیں تو اسے حالیہ اقتصادی پابندیوں کے سبب روزانہ 105 ملین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ یورپی ممالک نے اس معاملے پر اقدامات بہت سست روی سے اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی پابندیوں کو نظرانداز کرنے کے لئے جو لائحہ عمل آئی این ایس ٹی ای ایکس (انسٹرومنٹ آف سپورٹ فار ٹریڈ ایکسچینج) کے نام سے تیار کیا گیا تھا اسے تاحال نافذ نہیں کیا گیا۔ ایرانیوں کے مطابق اگر اس لائحہ عمل کا نفاذ ہو بھی گیا تو وہ صرف ایران کے لئے ادویات اور خوراک کی خرید کے لئے رعایت کا اہتمام کرسکے گا کیونکہ یہی دو شعبے ایسے ہیں جنہیں امریکی پابندیوں سے ممکنہ استثنا مل سکتا ہے۔

ایران کے تجارتی شراکتداروں کے لئے یہ خبر کوئی زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ بین السطور روسی حکومت ایران کےلئے حالیہ مشکلات میں خوش نظر آرہی ہے کیونکہ امریکی پابندیوں کے سبب گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور توانائی کا یہ بحران روسی حکومت کے لئے معاشی فائدے کا باعث ہے۔ روس قدرتی گیس کا بڑا ذریعہ ہے۔ یورپ میں گھریلو صارفین کے زیر استعمال گیس کا 60 فیصد روس سے درآمد ہوتا ہے۔ معاشی طور پر کمزور ایران روس کے لئے شام میں بھی فائدہ مند ثابت ہوگا کیونکہ شامی خانہ جنگی کے تقریباََ خاتمے اور شامی حکومت کے زیر اہتمام ریاستی انفراسٹرکچر کی بحالی کے منصوبے  پر روس ایران سے سبقت لے سکے گا۔ دریں اثنا خیال کیا جارہا ہے کہ چین امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعے پر متوقع مذاکرات میں ایران کو ایک کارڈ کی طرح استعمال کرے گا اور یہ چین کے لئے ایران محض ایک ثانوی ضرورت ہے۔

ایران کا طویل فاصلے تک مار کرنے والا سجیل میزائیل، جو اسرائیلی شہروں تک پہنچ سکتا ہے

ایران کون سے مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے؟

جوہری معاہدے سے جزوی انخلا  کے ذریعے ایران کیا مفادات حاصل کرسکتا ہے؟ سب سے پہلے تو ایران یورپ کے ساتھ تجارت چاہتا ہے۔ ثانیاََ ایران کسی بھی قسم کی جنگ سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے تجارت نہ صرف معاشی ضرورت ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ فوجی تنازعے سے بھی محفوظ رہنا چاہے گا۔ ایران کے مطابق اگر جوہری ڈیل باقی رہی تو وہ اپنی سفارتی طاقت کے سبب امریکہ کو اس کے خلاف کسی بھی قسم کے یکطرفہ فوجی حملے سے باز رکھنے میں کامیاب رہے گا۔ اسی لئے ماہرین کی رائے میں ایران  ابھی بھی، اور بعد میں بھی جوہری معاہدے کی پاسداری کرے گا اور جوہری توانائی کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل رہے گا۔ جوہری ڈیل سے جزوی انخلا کی دھمکی محض امریکہ اور یورپ کے ساتھ آئندہ ہونے والی کسی بھی بات چیت کے دوران اپنی طاقت کا اظہار ہے۔

جہاں تک ان تین ممالک کا تعلق ہے جن کے متعلق ایران کو خدشہ ہے کہ وہ امریکہ کو اس کے خلاف جنگ پر اکسا رہے ہیں، اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، تو ماہرین کے مطابق ایرانی خدشات جنگ کے متعلق کچھ زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں جب فلسطینوں اور اسرائیل کےمابین غزہ کی سرحد پر جھڑپیں زیادہ ہونے لگیں تو ایرانی حکومت نے اشارہ دیا کہ وہ فلسطینی لڑاکا گروہ حماس کو اسائیل میں زیادہ دور تک نقصان پہنچانے کے لئے طویل رینج کے میزائیل اور راکٹ فراہم کرسکتے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں ایرانی میڈیا میں اسرائیل فلسطین جھڑپوں پر کھلے عام فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کی حمایت کا اظہار کیا گیا اور ان کے پاس موجود میزائیل صلاحیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اس سے پہلے ایرانی میڈیا میں فلسطینی گروہوں کے ساتھ محض سیاسی حمایت کا اظہار کیا جاتا تھا اور کبھی بھی ان کے ساتھ فوجی تعلقات کا برملا اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔ حالیہ واقعات کے تناظر میں فلسطینی جہادی تنظیموں کی حربی صلاحیتوں پر ایران میں خوشی کا سماں اسرائیل کے خلاف دباؤ بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔

ایرانی عوام صدر ٹرمپ کے متعلق ایسی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں کہ انہیں ان کی زیادہ پروا ہوگی۔ ان کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ حکمت عملی کو اسرائیلوں  نے ترتیب دیا ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے میزائیلوں کا رخ اسرائیل کی جانب کر رکھا ہے کہ ممکن ہے ان کے اس خوف کےسبب اسرائیل امریکہ کو مجبورکرے کہ وہ ایران سے کوئی جنگ شروع کرنے سے باز رہے۔ شائد یہی ایک صورت ہے  جس کو استعمال میں لاکر ایران امریکہ کی مشرق وسطیٰ حکمت عملی پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

 

حماس کے جنگجو سرحد پر تنازع کی صورت میں اکثر اسرائیل پر راکٹ فائر کرتے ہیں ۔ اسرائیلی فوج کا آئرن ڈوم دفاعی نظام ان راکٹو ں کو فضا میں ہی تباہ کردیتا ہے

تناؤ کے خاتمے کی حکمت عملی کو درپیش چیلنج

اسی طرح کی سخت گیر حکمت عملی ایرانی حکومت کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف بھی نظر آنے لگی ہے۔ بہت سے ایرانی عہدیداران کھلے عام ایسے بیانات جاری کررہے ہیں کہ تہران کے مفادات کےخلاف اقدمات کے جواب میں ایرانی فوج کو خطے میں سعودی اور اماراتی مفادات اور ان کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہیے۔ اس طرح کے اقدامات کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ابوظہبی اور ریاض کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاملے پر محض نفسیاتی دباؤ کی حکمت عملی ہی رہے گی کوئی براہراست تصادم کا امکان موجود نہیں ہے۔

12 مئی کو اماراتی ساحلوں کے پاس فجیرہ کے مقام پر خلیج میں اماراتی اور سعودی تیل کنیٹرز پر حملے اسی ایرانی  نفسیاتی حکمت عملی کی ایک شکل ہیں۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود میں کافی اندر جا کر ایک حوثی ڈرون حملے میں تیل کی ایک تنصیب کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے سعودی اور اماراتی حکام کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ایران کے خلاف کوئی جنگ مسلط کی گئی تو محض ایرانی سرزمین تک محدود نہیں رہے گی۔ اگر ایران اور امریکہ مخاصمت جاری رہی تو امکان ہے کہ ایران کی جانب سے خلیج میں مخالف ریاستو ں کے خلاف نفسیاتی مہم جاری رہے گی۔

یہ واضح ہے کہ ایران کھلی جنگ نہیں چاہتا۔ تاہم اس نے اپنے سیاسی اور فوجی پر اس طرح پھیلائے ہیں کہ اس کے مخالفین اس کے خلاف دونوں محاذوں پر نبرد آزما ہیں۔ یہ صورت حا ل ایران اور اس کے مخالفین دونوں کے لئے خطرناک ہے۔ لہذا جب ہر طرف سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے تو بھی جنگ کے خطرات کسی بھی غلط فہمی کی صورت میں موجود ہیں۔

اسی لئے ٹرمپ انتظامیہ کے لئے لازم ہے کہ وہ حالیہ خطرے کے دوران مکمل محتاط رہے۔ ایسی صورت میں کہ جہاں مختلف کھلاڑی ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے نفسیاتی حربے استعمال کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے اندازے ترتیب دینے کی چالیں چل رہے ہیں، کسی بھی محتاط اندازے کی ذرا سی غلطی خطے میں جنگ بھڑکا سکتی ہے۔ واشنگٹن کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی بھی طرح جنگ کے بغیر ایران کو اپنی شرائط پر مذاکرات کی میز پر بلایا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ اطراف جانب سے داخلی سطح پر حکومتیں اس مسئلے پر  شدید اندرونی دباؤ کا شکار ہیں۔

مترجم:شوذب عسکری

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...