کیا حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں گے؟

682

پختون تحفظ موومنٹ سے مذاکرات کے لیے 13 فروری کو صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی نے باضابطہ طور پر پی ٹی ایم کے رہنماؤں سے 26 مارچ کو مذاکرات کا اعلان کیاتھا۔ یہ اعلان وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اجمل وزیر نے ایک پریس کانفرنس میں کیاتھا۔ مذکورہ کمیٹی میں ایوان بالا اور قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ حزب اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے اراکین اسمبلی کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔

اس سے قبل بھی پختون تحفظ موومنٹ سے مذاکرات کیلئے مختلف اوقات میں دو کمیٹیاں قائم کی جاچکی ہیں۔ پہلی کمیٹی اس وقت قائم کی گئی تھی جب کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف کئی دنوں تک دھرنا دیا گیاتھا، اس کمیٹی نے مذکورہ دھرنا ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے پاک فوج کی قیادت کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی جنہوں نے مطالبات پورے کیے جانےکی یقین دہانی کرائی تھی۔ دھرنے ختم ہونے کے بعد پی ٹی ایم کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کے دوران ریاستی اداروں پر تنقید اور متنازعہ نعروں کے بعد دوبارہ مذاکرات کے لیے رکن قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل آفریدی کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں موجودہ گورنر شاہ فرمان اور حالیہ وزیراعلیٰ کے مشیر اجمل وزیر سمیت اراکینِ صوبائی و قومی اسمبلی اور قبائلی عمائدین شامل تھے۔ تاہم مذاکرات کا یہ عمل بھی اس وقت ناکام  ہوگیا جب پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے مذکورہ جرگہ کو باقاعدہ قانونی شکل دینے کیلئے اس کا نوٹفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ جرگہ اراکین نے پی ٹی ایم کے اس مطالبے پر خاموشی اختیار کرلی، جس پر پی ٹی ایم نے جولائی 2018ء میں جرگے سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم اس مرتبہ قائم کردہ یہ مذاکراتی کمیٹی پی ٹی ایم کے تحفظات دور کرنے اور انہیں منانے کے لئے پر امید ہے۔

پختون تحفظ تحریک کو وجود میں آئے ہوئے ایک سا ل کا عرصہ ہو چکاہے۔ حکومتی ادارے بالخصوص قانون نافذ کرنے والے ادارے پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں پر ملک دشمنی اور غیر ملکی قوتوں کے ساتھ رابطوں کا الزام لگاتے ہیں اور ان کی اس تحریک کو ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار ( fifth generation hybrid warfare ) قراردے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پختون تحفظ تحریک کے رہنما عائد کردہ الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کے تمام مطالبات آئین و قانو ن کے دائرہ کار میں ہیں، وہ پختون قوم کے لیے جو مطالبات کررہے ہیں وہ سب دیگر قومیتوں کو پہلے ہی حاصل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر اجمل وزیر کہتے ہیں کہ یہ کمیٹی مذاکرات کامیاب کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ پی ٹی ایم کی لیڈرشپ کو ماضی کے جرگوں اور کمیٹیوں پر اعتراض اس لیے تھا کہ ان کی نہ قانونی حیثیت ہے اور نہ اختیارات لیکن موجودہ کمیٹی کے تمام اراکین پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور یہ سب قبائلی اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ کمیٹی قبائلی اضلاع کے عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے۔ مذکورہ کمیٹی کو صوبائی حکومت کا مکمل تعاون اور اعتماد حاصل ہے۔ تاہم پی ٹی ایم رہنماؤں کو اب بھی مذاکرات شروع ہونے سے قبل کچھ تحفظات ہیں، تحریک کے رہنما اورجنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کہتے ہیں کہ ابھی تک ان کو پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی باضابطہ دعوت یا اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پختون تحفظ تحریک کو کمیٹی کے اختیارات سے آگاہ کیا جائے کیونکہ ماضی میں اس قسم کے مذاکرات بغیر کسی نتیجے اسی وجہ ختم ہوئے تھے کہ کمیٹی یا جرگوں میں شامل ممبران کے پاس فیصلہ سازی کیلئے کسی قسم کا کوئی اختیارات ہی نہیں تھے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور باجوڑ سے ممبر قومی اسمبلی گل ظفر خان کا کہنا ہے پی ٹی ایم کے ساتھ باضابطہ طور پرمرکزی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہو چکاہے اور مثبت جواب کا انتظار ہے۔ اختیارات کے سوال پر اُنہوں نے کہاکہ پی ٹی ایم کے ساتھ پہلی بار مذاکرات کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی  ہےجس کا 12 ممبران قوامی اسمبلی و سینٹرز،گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی حصہ ہونگے جو پی ٹی ایم کے جائز، قانونی اور آئینی مطالبات حکومت  سےمنوائیں گے۔ اُنہوں نے کمیٹی کے بے اختیار ہونے کے موقف کی سختی سے تردید کی۔

اگر چہ علی وزیر کہتے ہیں کہ پختون تحفظ تحریک ہر وقت مذاکرات کیلئے تیار ہے اور سمجھتی ہے کہ مذاکرات ہی کے ذریعے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ بد گمان بھی ہے جس کی بنیادی وجہ ماضی میں ہونے والے دعوے اور وعدے ہیں اس کے علاوہ ان کے مطابق کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو غلط فہمیاں پیدا کرکے مذاکرات کی کاوشوں کو ناکامی سے دوچارکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت نے اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس کے ٹی او آر بنانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے بعد پی ٹی ایم کی قیادت سے مذاکرات کریں گے لیکن ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی حکومت نے ٹی او آرز پر کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علی وزیرکہتے ہیں کہ وہ پی ٹی ایم مذاکراتی کمیٹی کے سے توقع رکھتے ہیں کہ یہ جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالہ، معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ آئینی اور قانونی حوالہ سے جو مسائل ہیں انہیں حل کرانے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں گے۔

ایک جانب حکومت پی ٹی ایم سے کامیاب مذاکرات کی خواہش مند ہے تو دوسری جانب طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نقیب اللہ محسود کی برسی کے موقع پر بلوچستان میں پی ٹی ایم کے کارکنان کے احتجاج کے موقع پر پولیس نے مبینہ طور پر نوجوان پروفیسر ارمان لونی کو قتل کردیا تھا، بلکہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو ارمان لونی کی نماز جنازہ میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی گئی اور ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ ان کے قتل کی ایف آئی آر کے اندراج کے لیے مظاہرہ کرنے والے کارکنوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں گرفتار بھی کیا گیا ۔

حکومت کو پی ٹی ایم کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ایک جانب انہیں دشمن ممالک کا ایجنٹ قراردینا اور پرامن کارکنوں پر طاقت کا استعمال کرنا اور دوسری طرف مذاکرات کیلئے کمیٹیاں قائم کرنا، دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ اپنے جائز مطالبات کے لیے پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، لیکن اگر حکومت شہریوں سے یہ حق سلب کرنے کی کوشش کرے تو عوام کی جانب سے سخت ردعمل آنا فطری عمل ہے۔ دوسری جانب پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی ہوگی اور سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈے کی بجائے قبائلی اضلاع کے عوام کی فلاح و بہود کیلئے سوچنا ہوگا۔ اب جبکہ پاک آرمی پورے قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کرچکی ہے اور وہاں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے، اس کے بعد سے زیادہ تر بے گھر ہونے والے قبائلی اپنے اپنے علاقوں میں جاچکے ہیں اور معمولاتِ زندگی بحال ہوچکے ہیں تو ان کو حکومت کے ساتھ چلنا چاہیے اور اپنے اپنے علاقوں میں ترقی و خوشحالی کے لیے  نہ صرف یہ کہ خود  اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ جلسوں میں متنازعہ تقاریر اور نعرہ بازی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بگڑتے ہیں ۔ یہ ملک ہمارا ہے، فوج بھی ہمارا معزز ادارہ ہے اور قبائلی اضلاع کے عوام بھی ہمارے ہیں۔ پی ٹی ایم رہنماؤں کو چاہئے کہ ان لوگوں کو اپنی صفوں سےنکالیں جو اپنے مقاصد کیلئے ہماری فوج کو اور ہمارے ملک کو گالیاں دیتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں۔ دونوں جانب سے اگر تحمل ، برداشت اور دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو نقصان ”پاکستان ” اور ”پاکستان کی عوام” کا ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...