افغان طالبان کا نیا رُوپ کیا ہوگا؟

1,130

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین اور مذہبی سیاستدان مولانا محمد خان شیرانی نےامکان ظاہر کیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کرے گا، بلکہ محض اپنی افواج میں کمی لائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسےجزوی انخلا کو امریکہ کی شکست سے بھی تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ اگر یہ بات درست ہے کہ غیرملکی افواج مکمل طور پہ باہر نہیں نکلتیں اور اس کے ساتھ طالبان ریاستی امور میں شریک بھی ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد تحریکِ طالبان ممکنہ طور پرتین دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ممکنہ معاہدے اورشراکتِ اقتدار پر آمادہ طالبان گروہ ایک طرف ہوگا، دوسرا گروپ ان طالبان پر مشتمل ہوگا جو افغان حکومت کے اتحادی ہوں گے، جبکہ تیسری جماعت خطے کی دو بڑی عالمی طاقتوں روس اورچین کاساتھ دے گی۔

اگرچہ اس طرح کی پیشین گوئی قبل ازوقت ہے لیکن امریکہ کے افغانستان سے جزوی یا مکمل انخلا اور جنگجو قوتوں کے ساتھ معاہدے کے اثرات بہرحال ضرور مرتب ہوں گے۔ طالبان پربہت دباؤہے اوراس کے موقف میں بار بار تبدیلی اس کا اظہاربھی ہے۔ طالبان کے بنیادی مطالبات میں سے ایک مکمل امریکی انخلا ہے جبکہ امریکہ جزوی انخلا پر اصرار کر رہا ہے۔ طالبان کے لیے سب سے بڑامسئلہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی ہے۔ اگر امریکی فوج کا مکمل انخلا ہو تاہے تو پھر طالبان تحریک ایک نئی شکل میں سامنے آئے گی۔ طالبان کی موجودہ شکل ایک بیرونی قابض قوت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی ہے۔ لیکن امریکی افواج کی غیرموجودگی میں یہ ایک اور  رُوپ میں سامنے آئے گی، اس صورت  میں یہ فاتح ہونے کے تو دعویدارہوں گے ہی مگراس کا مقابلہ اب کسی بیرونی قابض فوج سے نہیں بلکہ مقامی افغان قوتوں سے ہوگا۔ جزوی امریکی انخلا اورطالبان امریکہ معاہدے سے طالبان میں تقسیم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جوطالبان گروہ معاہدے کی پاسداری اورملک میں قیامِ امن کے نام پر امریکہ کے ساتھ ہوں گے وہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں سے فاصلے پر رہیں گے اور یہی امریکی اتحادی طالبان خطے میں داعش کے خلاف لڑسکتےہیں۔ طالبان  پہلے ہی اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں  کہ داعش کاخاتمہ اس کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ داعش پاکستانی سرحد کے قریبی علاقوں، خاص کرصوبہ ننگرہار میں زیادہ منظم  ہے۔ یہ طالبان کے اندرسے اس وقت ابھری جب شام میں شکست  کے بعد  بچ جانےوالے گروہ نے عراق اورشام کے کچھ علاقوں کو ملا کر اپنی خلافت کا اعلان کردیا تھا، تب کچھ طالبان بھی اس سے متأثر ہوئے اور اس کا حصہ بن گئے۔

جزوی امریکی انخلا اورطالبان امریکہ معاہدے سے طالبان میں تقسیم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جوطالبان گروہ معاہدے کی پاسداری اورملک میں قیامِ امن کے نام پر امریکہ کے ساتھ ہوں گے وہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں سے فاصلے پر رہیں گے اور یہی امریکی اتحادی طالبان خطے میں داعش کے خلاف لڑسکتےہیں

سماجی طور پر طالبان نچلی دیہی پرت ہے اگرچہ اس میں مڈل کلاس کے کاروباری طبقات سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ بھی شامل ہیں۔ دیہی غریب سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکی قبضہ کے خلاف ہیں۔ لیکن مڈل کلاس طبقہ کی اکثریت ممکنہ معاہدہ کی وکالت کرتی نظرآتی ہے۔ یہ گروہ امریکہ اور افغان حکومت کا اتحادی بن سکتا ہے، یہ تعلیم اورترقی کامخالف بھی نہیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ امریکہ اورافغان حکومت سے مل کر دیہی پرتوں کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ معاہدے کے بعد امریکی اڈوں کی موجودگی کو چین اور روس پسندگی کی نظرسے نہیں دیکھیں گے۔ امریکہ درپردہ ان ممالک کے مفادات کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرے گا جس کی ایک صورت چین کے خلاف اسلامی جماعتوں کامتحرک ہونا بھی ہوسکتی ہے۔ چین کے کاشغری علاقے سیانگ کیانگ میں امریکہ کے اسلامی تحریکوں سے روابط اور ان کی مدد چین کیلئے مشکلات کا باعث ہوں گے۔ ان حالات میں چین اورروس خاموش نہیں بیٹھیں گے۔وہ جواب میں ان طالبان گروہوں سے تعلق استوار کرسکتے ہیں جوامریکی موجودگی میں جہاد کوجاری رکھنے پر زور دیتے ہیں۔

بظاہر لگتاہے کہ پاکستان اور ایران بھی مکمل امریکی انخلاکے حق میں نہیں ہیں۔ پاکستانی وزیرداخلہ شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں کہ ‘بغیر کسی موزوں انڈرسٹینڈنگ اور انتظام کے اچانک انخلا خطرناک ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں کوئی بھی افراتفری، بدنظمی اور خانہ جنگی نہیں چاہتا ہے‘۔ بعض ماہرین امریکی موجودگی کے لیے یہ دلیل نکالتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں امریکہ نے افغانستان میں روسی شکست تک خود کو باقی رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی، طالبان اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظمیں مضبوط ہوئیں۔ اب ایک مرتبہ پھرافغانستان میں ایسی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ معاہدہ کے بعد تحریکِ طالبان  کی تقسیم پاکستان کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گی۔  پاکستان بہرصورت افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ اور بھارتی اثرونفوذ کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ افغانستان سے جزوی امریکی انخلا اورامریکہ طالبان ممکنہ معاہدے کے بعد بھی افغانستان سے جنگ کاخاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ بلکہ اب اس جنگ کے کسی دوسری شکل میں سامنے آنے کے امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ حالات کس رُخ پرجاتے ہیں اورطالبان کی ممکنہ حکمت عملی کیاہوسکتی ہے، یہ مختلف سماجی طبقات کے اپنے حالات، تحریک اورخطے میں موجود عالمی قوتوں کے مفادات وحکمت عملی پربھی منحصرہے۔

افغان عوام 17 سالہ جنگ کے بعد انتشار اور بدامنی سے بے زار ہوچکے ہیں۔ ان کے اندر شدید نفسیاتی مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ مذاکرات کے بعد بھی اگر امن کو جگہ نہ مل سکی تو سماج میں شکستگی اور بڑھ جائے گی

افغان مسئلہ کے حل اور پورے خطے میں امن کے لیے اولین شرط افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا اور اس کے اندرونی معاملات میں بیرونی اثرو رسوخ کاخاتمہ ہے۔ افغانوں کو خود اپنے طور پر معاملات طے کرنے اور فیصلہ کرنے کا اخیتار دیاجائے۔ مسلسل بیرونی مداخلتوں سے افغانستان میں دہشت گردی کو فروغ ملا ہے اور اس کا استحکام متأثر ہوا ہے۔ افغان عوام 17 سالہ جنگ کے بعد انتشار اور بدامنی سے بے زار ہوچکے ہیں۔ ان کے اندر شدید نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ مذاکرات کے بعد بھی اگر امن کو جگہ نہ مل سکی تو سماج میں شکستگی اور بڑھ جائے گی۔ ایک پرامن ،آزاد اورخودمختار افغانستان سب کے مفاد میں ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...