مابعد جدیدیت: چند منشتر خیالات

854

مابعد جدیدیت کی اصطلاح مابعد جدید زمانے کی شاید سب سے زیادہ غلط سمجھی گئی اصطلاحات میں سے ایک مانی جاسکتی ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب مابعدجدیدیت کی اصطلاح فلسفہ کے ساتھ ساتھ مصوری، موسیقی، تعمیرا ت کے فن اور ادب میں بھی نئے طرز احساس کے اظہار کے لیے استعمال میں آنے لگی تو اس کے خلاف عالمی سطح پر مزاحمت کا رویہ بھی موجود رہا۔ چوں کہ یہ طرز فکر قدامت سے بیر رکھتی ہے اور ہر اس شے کو ہدف تنقید بناتی ہے جس کا تعلق ماضی سے ہو اور جو حتمیت کی دعویدار ہو، اس لیے کلاسیکی اقدار سے وابستہ سوچنے والوں کے ایک بڑے حلقے کی مخالفت بھی اس نے مول لی۔ کچھ یہ وجہ بھی اس کی تفہیم کی راہ کھوٹی کرنے میں سرگرم رہی۔

یہ رویہ ہمارے ہاں بھی موجود ہے، اور غیر معمولی طورپر توانا اس لیے بھی ہوا کیوں کہ اس اصطلاح کی تفہیم کا کام زیادہ تر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہا جو باقاعدہ طورپر فلسفہ کے طالب علم نہیں ہیں اور ان اصطلاحات کے سماجی یا فنی و ادبی مفاہیم تک محدود آگاہی رکھتے ہیں۔

ہمارے ہاں سائنسز میں فکر و تحریر کی روایت کبھی درخشاں نہیں رہی، اور نہ ہی ان علوم سے متعلق اصطلاحات کی ہی درست تفہیم کی راہ ہموار ہوئی، نہ ہماری تحریری زبان میں سائنسی اور فکری مزاج پیدا ہوسکا۔ سوشل سائنسز سے متعلق گزشتہ دہائیوں میں سامنے آنے والی بیشتر تحریروں میں زبان کی سطح عامیانہ ہے اور یہ فکری اور سائنسی درجے تک نہیں پہنچتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فکری و علمی اصطلاحات کسی موافق زبان کی عدم موجودگی میں کسی حد تک نادرست مفاہیم کے ساتھ رائج ہوئیں۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر اقبال آفاقی کی کتاب ’مابعد جدیدیت‘ کی اشاعت اردو میں ایک خاص واقعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

بہت اعتماد کے ساتھ یہ بات کی جاسکتی ہے کہ ایک زمانے کے بعد اردو میں اس کتاب کی صورت میں ایسی دستاویز سامنے آئی ہے جو فکری مزاج کی حامل زبان کا ایک درست ترین اور مثالی خاکہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اصطلاحات کا ترجمہ سلیس، نثر رواں، بیان بہت گٹھا ہوا، اور کوئی جملہ بھی اضافی معلوم نہیں ہوتا، جیسے لکھنے والے کو واضح طورپر معلوم ہے کہ اس نے کہاں کیا بات نہیں لکھنی۔

دوسری اہم بات کتاب کا موضوع ہے۔ اردو میں خاص طورپر اس اصطلاح سے متعلق اتنی ہی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جیسے یورپ میں یوایف اوزاور ای ایس پی مظہر وغیرہ سے متعلق۔ ایک طرح سے یہ ایک توہم کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ کہ جس کے بارے میں ہر کسی کے پاس سنانے کو ایک جدا واقعہ ہے۔ ہمارے ادب میں ایسے شعر کا درجہ زیادہ بلند سمجھا جاتا ہے جس کے ایک سے زائد یا غیر متعین مفاہیم ہوں۔ ادب میں یہ مزاج جیسا ذی وقار ہے سائنس کے میدان میں ویسا ہی غیر وقیع اور غیر سائنسی ۔جب کہ ہم نے اسی سانچے میں سماجی علوم کے بیان کو بھی ڈھالنے کی کوشش کی۔

مابعد جدیدیت کا ایک احسان خاص طورپر لکھنے پڑھنے والوں پر بہت یادگار ہے۔ اس نے ادب میں حتمی سانچوں کو چیلنج کیا۔ ایک طرف اس نے لفظ کے حتمی مفہوم کو چیلنج کیا اور دوسری طرف لفظ کے خالق یعنی لکھاری کی اتھارٹی کو

سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو مابعد جدیدیت، جدیدیت پر اعتراض یا اس کی رد کی صورت میں سامنے آئی۔ اس لیے جدیدیت سے آگاہی مابعد جدیدیت کی تفہیم کے لیے ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی نے اپنی کتاب میں ایک ترکیب ’علمیاتی تاریکی‘ استعمال کی ہے جو نہایت توجہ طلب ہے۔ یہ انگریزی ترکیب ‘Epistemic Darkness’ کا ترجمہ ہے۔ جدیدیت اصل میں اسی تاریکی کے خلاف ایک جہاد یا احتجاج تھی۔ اسطوریات، پاپائیت، اور جاگیرداریت کی صورت جیسی اتھارٹی کی سبھی صورتیں ماقبل جدید زمانے کے اجزائے ترکیبی تھیں جن کا مقابلہ عقل، سائنس اور فہم عامہ پر مبنی نئی سوچ کے ذریعے کیا گیا۔ اسے جدیدیت کا نام دیا گیا لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی جدیدیت نے ایک اور طرح کی کروٹ لینی شروع کی اور عالمی سطح پر انسانی فکر میں لہریں واضح ہوئیں۔ بیسویں صدی کے وسط تک مابعد جدیدیت اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہوچکی تھی۔ یہاں ایک وضاحت اور بھی ضروری ہے کہ مابعد جدیدیت ایک فلسفیانہ مکتبہ فکر نہیں ہے جیسے فلاطونیت، رواقیت، یا مارکسیت۔ نہ ہی یہ ادبی و تخلیقی تحریک کے طورپر آغاز ہوئی جیسے علامتیت، فطرتیت، رومانویت وغیرہ۔ یہ ایک رویہ ہے جو تاریخی جبر کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اس کا ظہور اتفاقی نہیں تھا، نہ ہی یہ عارضی یا محدود تھا۔ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے سب سے گہرے گھاؤ انسان کے اپنے ماضی اور اس سے جڑی ہر شے پر اس کے بھروسے کے جسم میں ڈالے۔ تب دنیا بھر میں سوچنے والے اذہان جدیدیت سے بے زاری کے شدید غبار میں گم تھے۔

مابعد جدیدیت کا ایک احسان خاص طورپر لکھنے پڑھنے والوں پر بہت یادگار ہے۔ اس نے ادب میں حتمی سانچوں کو چیلنج کیا۔ ایک طرف اس نے لفظ کے حتمی مفہوم کو چیلنج کیا اور دوسری طرف لفظ کے خالق یعنی لکھاری کی اتھارٹی کو، اور سب سے بڑھ کر قاری کی اتھارٹی کو بھی۔ لفظ کا مفہوم مختلف قارئین کے لیے اور مختلف ماحول میں مختلف ہوتا ہے۔ جب کہ قاری ایک طرح کے حالات میں جس متن کو جیسا سمجھتا ہے، اس سے مختلف حالات میں وہ متن ہوسکتا ہے اس سے قطعی مختلف مفہوم ظاہر کرے۔ دریدا نے تو متن میں قاری کو بھی شامل کیا اور اس کے عصر اور اس کی داخلی جسمانی و ذہنی کیفیت کو بھی۔ ہر شے متن کا حصہ ہے اوریہ سب عناصر مل کر متن کو مکمل کرتے ہیں یعنی لکھاری، قاری، لفظ اور وہ خاص ماحول میں جس میں یہ تمام عوامل وقوع پذیر ہورہے ہوں۔

ڈاکٹر اقبال آفاقی نے کتاب میں جدیدیت اور ماقبل جدیدیت پر علیحدہ علیحدہ ابواب میں سیر حاصل گفتگو کی ہے اور کتاب کا تقریباً پچاس فیصد سے زیادہ حصہ اس کے لیے وقف کیا ہے۔ یوں جو قاری مابعد جدیدیت کے بارے میں کچھ پڑھنے کے لیے کتاب کھولے، اسے طویل انتظار کرنا اور اس اصطلاح کو جامع طور پر ہضم کرنے کے لیے تربیت کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم ایک بار اس تفصیل سے گزر کر آپ ایسی تفہیمی روشنی سے معمور ہوجاتے ہیں کہ جو پھر کسی طرح کے علمیاتی اندھیرے کو باقی نہیں رہنے دیتی اورآپ مابعد جدیدیت کی تفہیم میں موجود گرے ایریاز کو فوراً شناخت کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں۔

کتاب کے آخر میں ڈاکٹر اقبال آفاقی نے ایک مبسوط مقالہ ’’مابعدجدیت: تبصرہ و تنقید‘‘ کے عنوان سے بھی پیش کیا ہے جس میں اپنے نقطہ نظر کی نہایت واضح انداز میں تفصیل بیان کی ہے۔ آپ سرمایہ دار نظام کی خرابیوں سے ظاہر ہونے والی ایک بھیانک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ہمیں دنیا بھر میں دکھائی دے رہی ہے۔ اس تصویر نے جیسی مکروہ حقیقتوں کو پیچھے ہٹا کر ان کی جگہ لی ان کا بیان اگرچہ کتاب کے ابتدائی ابواب میں ہمیں ملتا ہے، تاہم اس طرف پھر سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نشتر سے ڈرتے ہیں تو پھر زخم سے لطف اندوز ہونے کے لیے تیار رہئے۔ آپ جس نظام کی مخالفت کر رہے ہیں، اس کے بدلے میں کس کی آپ حمایت کریں گے، اور اگر ایسا کوئی نظام پیش نظر نہ ہو، جس کی آپ متبادل کے طورپر حمایت کرسکیں تو پھر انتظار کریں یا کوشش کریں کہ خود ہی کوئی متبادل تیار کیا جائے، اور جب تک ایسا ہونہیں جاتا، دیکھئے رنگ آسماں کیا ہو۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...