شہید سمیع مینگل: منشیات کے خلاف مہم میں نئی صبح کی نوید

1,071

گزشتہ سال 13 فروری کے دن نوشکی سے تعلق رکھنے والا طالب علم سمیع اللہ مینگل اپنے خاندان سمیت نوشکی و گرد و نواح کے لیے دل خراش یادیں چھوڑ کر چلا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں زولوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھنے والے یہ طالب علم کورونا وائرس کے باعث یونیورسٹی بند ہونے پر گھر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں اپنی ماں کی گود میں لیں اور پھر ہمیشہ کے لیے درد و الم کی داستان چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ واقعہ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کیونکہ سمیع اللہ مینگل کا قتل کسی ذاتی یا قبائلی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ نوشکی میں منشیات فروشی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں ہوا۔ اس کے بعد بلوچستان میں منشیات کے کاروبار کے خلاف عوامی غم و غصے میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ سمیع اللہ مینگل کا قتل بلوچستان اسمبلی میں بھی زیر بحث آیا جبکہ خود نوشکی میں تمام سیاسی و سماجی تنظیموں نے بھرپور احتجاج کیا جس کے بعد کمشنر کو اس سلسلے میں متعلقہ ڈی آئی جی کو مراسلہ بھیج کر صورتحال سے آگاہ کرنا پڑا۔

در اصل اس واقعے سے ڈیڑھ ماہ قبل نوشکی کے علاقے کلی قاضی آباد کے مکینوں نے اس وقت کے کمشنر رخشان ڈویژن ایاز مندوخیل سمیت دیگر افسران کے سامنے باقاعدہ کھلی کچہری کے دوران منشیات فروشی کے بڑھتے رجحان اور اس میں چند مقامی پولیس اہلکاروں کے کردار کو آشکار کیا تو اس گھناؤنے دھندے کے کردار چراغ پا ہوگئے۔ چونکہ کمشنر ایاز مندوخیل ایک سخت مزاج افسر تھے جنہوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے مقامی افسران پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالا اور دوسری جانب کمشنر کی روانگی کے بعد منشیات فروش گروہ نے کلی قاضی آباد نوشکی کے چند شکایت کنندہ مکینوں کو مجبور کیا کہ وہ باقاعدہ پولیس کو حلفیہ بیان جمع کرکے اپنی بات سے مُکر جائیں جس کے سبب چند لوگوں نے دباؤ میں آکر مقامی پولیس تھانے میں حلفیہ بیانات بھی جمع کروائے۔ لیکن سمیع اللہ مینگل اور اس کا خاندان اس مسئلے پر ڈٹ کر کھڑا رہا جس کے بعد تحقیقات کی روشنی میں ایک پولیس اہلکار کو منشیات فروشی میں ملوث ہونے پر نوکری سے برخاست کردیا گیا. سمیع اللہ کے ماموں حافظ محمد قاسم کے مطابق منشیات فروشی کا اڈہ ان کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر تھا جو مقامی پولیس کے ایک حاضر سروس اہلکار کی سرپرستی میں چل رہا تھا۔ ان کے مطابق وہاں دن رات نشے کے عادی افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا جس کے باعث چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے سے اہل محلہ تنگ آگئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف اقسام کی اسلحے سے لیس منشیات فروشوں کو مقامی پولیس کے افسران کی بھرپور مگر غیر اعلانیہ حمایت حاصل تھی جس کی بدولت وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور کھلے عام یہ دھندہ چلاتے تھے۔

منشیات کی روک تھام کے لیے 1990ء سے عالمی برادری نے پاکستان سمیت کئی ممالک کی مدد شروع کی تھی لیکن نائن الیون کے بعد دنیا کی توجہ انسداد منشیات سے انسداد دہشت گردی کی جانب چلی گئی

حافظ محمد قاسم کے مطابق کمشنر کی کھلی کچہری میں شکایت کے بعد با اثر منشیات فروش سمیع اللہ مینگل کے خاندان کے دشمن بن گئے جنہوں نے متذکرہ واقعے سے ایک دن قبل ان کے بھائی نجیب اللہ پر تشدد کیا۔ محمد قاسم جب یہ رپورٹ لکھوانے مقامی تھانے گئے تو نوشکی پولیس کے عدم تعاون اور سرد مہری نے انھیں مایوس گھر لوٹنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد اگلے روز کچھ منشیات کے عادی افراد نے ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر منشیات کا مطالبہ کیا جس کے چند لمحوں بعد منشیات فروشوں نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران ان کی فائرنگ سے سمیع اللہ مینگل شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد قاتل آسانی سے فرار بھی ہوگئے جس نے لوگوں کے غم و غصے میں اضافہ کردیا اور پھر نوشکی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج کی ایک لہر اٹھی جس نے نوشکی پولیس کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر سے لے کر کئی افسران اور اہلکاروں کا تبادلہ کیا گیا جبکہ سمیع اللہ مینگل کی قتل میں ملوث اہلکار کو برطرف کردیا گیا تھا۔

وسیع رقبے پر پھیلی بلوچستان کی طویل اور غیر منتظم سرحد ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ لگتی ہے۔ اقوام متحدہ کی منشیات اور جرائم کے متعلق رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دنیا کے مختلف ممالک کو منشیات کی 80 فیصد سپلائی کی جاتی ہے جبکہ چاغی اور نوشکی کے پاک افغان سرحدی علاقے منشیات کے اسمگلنگ کی بین الاقوامی گزرگاہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چاغی سمیت ضلع واشک اور کیچ کے کچھ علاقوں میں زمینی راستے بھی اسی گزرگاہ کا حصہ ہیں جو پاک ایران سرحد کے ساتھ لگتے ہیں۔ افغانستان سے منشیات کی پاکستان، ایران اور ترکی کے راستے یورپی، خلیجی اور وسطی ایشیائی ممالک کو اسمگلنگ زمینی اور بحری راستوں سے کی جاتی ہے جس کے لیے بلوچستان کی 700 کلومیٹر طویل بحری پٹی کے حامل مکران ڈویژن کے مختلف علاقے بھی اسی گزرگاہ میں آتے اور استعمال ہوتے ہیں۔ مکران میں تربت سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی سیاسی رہنماء امام بھیل کے بیٹے یعقوب بزنجو کو 2009ء میں امریکی حکومت نے صدر بارک اوبامہ کے دور میں ان چار خطرناک بین الاقوامی منشیات اسمگلروں کی فہرست میں شامل کیا تھا جن پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کی ہلمند صوبے کے رہائشی حاجی جمعہ خان محمد حسنی کا نام بھی اسی فہرست میں تھا جو در اصل بلوچ ہیں اور چاغی میں کافی اثر رسوخ رکھتے تھے۔ ایم این اے کی نشست پر کامیاب ہونے والے یعقوب بزنجو تو سیاست اور اقتدار میں آنے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی سے محفوظ رہے لیکن حاجی جمعہ خان محمد حسنی نے اپنی گرفتاری کے بعد کئی سالوں تک گوانتاناموبے میں جیل کاٹی اور دو سال قبل رہا ہوگئے۔

امریکی حکومت کی فہرست میں درج باقی دونوں بین الاقوامی منشیات اسمگرز کا تعلق کولمبیا اور وینزویلا سے تھا۔ افغانستان میں منشیات بالخصوص افیون کی کاشت ہلمند اور قندھار کے صوبوں میں زیادہ ہوتی ہے جس سے افغان طالبان کے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں جبکہ اس کے علاوہ تمام متذکرہ ممالک کی سرحدوں پر تعینات سیکیورٹی فورسز بھی اس دھندے سے کسی نہ کسی طرح مستفید ہوتی آرہی ہیں جس کی وجہ سے یہ گھناؤنا کاروبار چلتا چلا آرہا ہے۔

اقوام متحدہ کی منشیات اور جرائم کے متعلق رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دنیا کے مختلف ممالک کو منشیات کی 80 فیصد سپلائی کی جاتی ہے جبکہ چاغی اور نوشکی کے پاک افغان سرحدی علاقے منشیات کے اسمگلنگ کی بین الاقوامی گزرگاہ کے طور پر جانے جاتے ہیں

عشروں سے بڑے پیمانے پر جاری منشیات اسمگلنگ کے کاروبار کا جہاں بہت سارے حلقوں کو غیرقانونی معاشی فائدہ پہنچا وہیں بین الاقوامی گزرگاہ بننے والے بدقسمت بلوچستان کی کئی نسلوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی جو ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان میں منشیات کی آسان اور سستے نرخوں دستیابی کی وجہ سے جگہ جگہ منشیات کے اڈے کھل گئے ہیں جہاں نوجوان نسل کی بڑی تعداد اس لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں خواتین نے گھروں سے نکل کر منشیات کے کئی اڈے اس لیے جلا ڈالے کیونکہ ان کے گھروں میں موجود اکثر مرد افیون، ہیروئن، شیشہ اور دیگر نشہ آور اشیاء کی لت میں مبتلا ہوکر گھریلو معاملات سے لاتعلق ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ رواں سال فروری میں خضدار سے 8 نوجوانوں نے منشیات کے خلاف کوئٹہ تک 300 کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کرکے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے میں منشیات فروشی کا دھندہ بند کیا جائے۔ اسی طرح صوبے کے مختلف علاقوں میں مقامی سطح پر منشیات فروشی کی اڈوں کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبات پر مبنی احتجاج وقتاً فوقتاً ہوتے رہے جن پر حکومتی سطح پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا لیکن گزشتہ سال فروری میں نوشکی میں منشیات فروشوں کے ہاتھوں سمیع اللہ مینگل کے قتل اور ستمبر میں بلیدہ میں خواتین کی جانب سے منشیات کے اڈے نذراتش کرنے کے بعد عوامی سطح پر انسداد منشیات کی آگاہی مہم میں غیر معمولی تیزی آگئی اور پھر مظاہروں کا سلسلہ مکران سے ہوتے ہوئے قلات اور رخشان ڈویژن کے بیشتر علاقوں تک پھیل گیا جس کے بعد کچھ علاقوں میں لیویز فورس نے منشیات کے اڈوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں بند کردیا۔ تاہم بہت سارے علاقوں میں یہ دھندہ ہنوز جاری ہے جس نے ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی لاکھوں افراد کو اپنا  شکار بنا رکھا ہے۔

گزشتہ سال 26 جون کو انسداد منشیات کی عالمی دن کے مناسبت سے چاغی کے صدرمقام دالبندین میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انسداد منشیات فورس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر خالد رشید کا کہنا تھا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس منشیات کے مسئلے کے تدارک، متاثرہ افراد کی بحالی اور منشیات کے خلاف آگاہی پھیلانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ ان کے مطابق منشیات فروشی اور دہشت گردی کا باہمی گٹھ  جوڑ بھی ہے اور اس ناسور نے پاکستان میں لگ بھگ 90 لاکھ افراد کو اپنا شکار بناکر ان کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ منسلک سینکڑوں کلومیٹر طویل غیر محفوظ سرحد کی وجہ سے منشیات اسمگلنگ کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہوتا ہے تاہم جہاں تک ممکن ہو اے این ایف اور دیگر فورسز منشیات اسمگلنگ کی روک تھام کرتے ہیں جس کے دوران نہ صرف اربوں روپے مالیت کی منشیات پکڑ کر ضائع کی جاتی ہیں بلکہ اسمگلرز کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپریشنز میں ان فورسز کے جوان اپنی جان کی قربانی بھی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انسداد منشیات کے لیے 1990ء سے عالمی برادری نے پاکستان سمیت کئی ممالک کی مدد کی لیکن نائن الیون کے بعد دنیا کی توجہ انسداد منشیات سے انسداد دہشت گردی کی جانب چلی گئی۔

منشیات فروشی کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں جان گنوانے والے نوشکی کے نوجوان سمیع اللہ مینگل کی شہادت کے بعد بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے ان کا پولیس فورس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہونے کے لیے دیے گئے تحریری امتحان کا رزلٹ جاری کیا جس میں وہ پاس ہوگئے تھے لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ وہ جس ادارے کا حصہ بننا چاہتا تھا اس میں شمولیت سے قبل ہی اسی ادارے کا ایک سابق اہلکار ان کی جان لے لے گا۔ سمیع اللہ مینگل کا اصل قاتل تاحال مفرور ہے تاہم اس واقعے میں ملوث ایک ملزم گرفتار ہوچکا ہے۔ نوشکی میں اس واقعے کے بعد مؤثر عوامی احتجاج کی نتیجے میں جہاں پولیس میں تبادلے و تقرریوں کی غیر معمولی لہر آئی وہیں پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے اکثر اڈے بند کیے گئے جس کی وجہ سے علاقے میں جرائم میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم سمیع اللہ مینگل کا خاندان جس کرب و الم کا شکار بن چکا ہے اس کی شاید کوئی تلافی نہ ہو۔ سمیع اللہ مینگل نے جس مقصد کے لیے قربانی دی وہ ہماری نسل نو کے لیے نئی صبح کی نوید ثابت ہوگی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...