قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی(نیکٹا) سے امیدیں

1,851

سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی کو رد انتہاپسندی بیانیہ تیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ان کے جانشین احسن اقبال نے حال ہی میں اتھارٹی ہیڈ کواٹر کے پہلے دورےکے دوران نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے صوبوں کے ساتھ مشاورت سے ایک مربوط حکمت عملی وضع کرنے کا کام بھی سونپ دیا ۔اتھارٹی کے قیام سے اب تک اسے ان کے علاوہ بھی کئی کام تفویض کیے گئے  ۔

شاید  حکومت کا خیال ہے کہ نیکٹا کے پاس جادو کی چھڑی ہے  اور وہ حیران کن امور سرانجام دے سکتا ہے۔اس لیے کہ سابق وزیر داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والی اس ہدایت کے بعد سے اب تک نیکٹا سیکیورٹی ایجنسی کی زیرنگرانی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک  قومی بیانیہ دینے میں مصروف رہا ہے۔ مبینہ طور پر نیکٹا نے ایک ابتدائی مسودہ تیار کر لیا تھا جسے پبلک نہیں کیا گیا،یہ بھی یقینی نہیں کہ نیکٹا نے یہ مسودہ وزارت داخلہ کو پیش کیا تھا یا نہیں۔

جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کا تعلق ہے تو وزیر داخلہ کو معلوم ہو گا کہ انہیں نیشنل ایکش پلان پر عملدرآامد  کے لیے بنائی گئی  سولہ میں سے ۱۳ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اپنے پیشرو سے وراثت میں ملی ہے۔سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی  دہشتگردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے کے لیے بہت پرجوش تھے  اور انہوں نے نیپ عملدرآمد کی اکثرکمیٹیوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔بعد میں انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں  اور رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں نیکٹا کو سونپ دیں۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نیکٹا کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے  وژن،صلاحیت اور انسانی وسائل کی کمی ہے۔ اسی خلا کو پر کرنے کے لیے سیکیورٹی اداروں نے معامعلات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ جس میں صوبائی سپریم کمیٹیوں کی فعالیت و قیادت،ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا آغاز اور  فوجی عدالتیں وغیرہ چلانے کا عمل شامل ہے۔

ظاہر ہے اس عمل نے نیپ  پر ملٹری اجارہ داری قائم کردی  اور سویلین اداروں کے لیے  جگہ سکڑ گئی۔ ملک کے اندر دہشتگرد حملوں کی بڑی لہروں نے بھی سیکیورٹی اداروں کو نیپ پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیےکئی میکانزم  تشکیل دینے پر مجبور کیا۔ اور آخری ذمہ داری  قومی سلامتی کے مشیر  ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو تفویض کی گئی۔

نیپ کو انسداد  دہشتگردی کے عمل کو درست اور ایک ضابطے  میں لانے کے لیے وضع کیا گیا تھا لیکن حکومت نے اسے فعال بنانے کے بجائے متوازی نگرانی کے ادارے بنانے کو ترجیح دی۔ بین الاقوامی ایجنسیوں(ڈونرز) نے بھی ایسی سرگرمیوں کے لیے تجرباتی یا ابتدائی مالی امداد  کی فراہمی کے ذریعہ ایسی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی۔

اسی قسم کی کمزور نبٹ کاری  نے نیکٹا کو ایک ناکارہ عضو   بنا کر رکھ دیا ہے۔ اتھارٹی پر اب تک اپنا صحیح کردار واضح نہیں ہے کہ آیا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رابطہ کاری اس کا کام ہے یا حکومت کو پالیسی ویژن فراہم کرنا۔نیکٹا ایکٹ کے مطابق:ڈیٹا جمع کرنا معلومات کی پروسیسنگ(عمل کاری) اور متعلقہ حکام تک ان کو پہنچانا اس کے بنیادی کام ہیں،یہی شق سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان اس کی رابطہ کاری کے بنیادی وظیفے کو بھی بیان کرتی ہے۔

بظاہر نیکٹا نے  ایم آئی،آئی ایس آئی اور دیگر اداروں و محکموں  کے ۴۱۳ افسران پر مشتمل ایک مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ  قائم کیا ہے۔باوجودیکہ جے آئی ڈی نیکٹا کا سب سے زیادہ بجٹ استعمال کر رہا ہے مگر اس کی سرگرمیوں اور اب تک حاصل ہونے والے اہداف سے متعلق کم ہی معلوم ہے۔مزید براں یہ بھی ممکن نہیں دکھائی دیتا کہ یہ سولین نگرانی کے تحت کام کرے گا اس کے باوجود  ابتدائی طور پر  جے آئی ڈی کو وزیراعظم سیکٹریٹریٹ  کے ماتحت تجویز کیا گیا تھا۔یہ ایک قابل عمل خیال تھا۔پارلیمانی نگرانی کو اس اقدام کی شفافیت اور  کامیابی کو یقینی بنانا ہو گا۔

ایک طرف انٹیلی جنس ایجنسیاں  نیکٹا کے ساتھ تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف تنظیم کا افسر شاہی  ڈھانچہ  اسے  پالیسی سازی کے لیےبھی  نااہل بناتا ہے۔یہ بدقسمتی ہی ہے کہ  حکومت ایک غیر فعال انسداد دہشتگردی تنظیم کے بطن سے ایک قومی بیانیہ  جنم لینے کی توقع کر رہی ہے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ  نیکٹا اپنے بنیادی امور سرانجام دینے میں ناکام ہو گیا ہے تو پھر اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنا غیرحقیقی ہے۔خوش قسمتی سے پولیس کے انسداد دہشتگردی کے صوبائی محکمے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے اور اور معلومات اکٹھی کرنے میں مستحسن کردار ادا کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے محکمہ انسداد دہشتگردی نے  قابل قدر کام کیا ہے۔اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں احتساب اور شفافیت کی چند اصلاحات متعارف کروادیں اور اپنی صلاحیت کو مزید بہتر بنائیں تو یہ محکمے اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔اب تک یہ محکمے روایتی پولیس لائینز پر کام کرتے آ رہے ہیں جس کا مطلب یہی ہے کہ انہیں بھی پولیس کی تمام ادارتی خرابیاں ورثہ میں ملی ہیں۔

نیکٹا کا دعوی ہے کہ اس کی بڑی کامیابیوں میں  سے ایک یہ ہے کہ اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈیول میں شامل افراد کی فہرست کو اپڈیٹ کرنا پولیس اور  اس کی  سی ٹی ڈیز کی کاری گری تھی۔صرف نیکٹا نے یہ فہرست سٹیٹ بنک آف پاکستان کو بھیجی تھی تاکہ بعد میں ان افراد کے اثاچہ جات منجمد کیے جا سکیں۔وزارت داخلہ کے ایک سیکشن آفیسر بھی یہ کام سرانجام دے سکتے تھے۔

نیکٹا سی ٹی ڈیز کے ساتھ تعاون پر مجبور کرنے کے قانونی اختیارات تک کا  حامل نہیں،کسی  بھی عملی اور رابطہ کاری کے کردار کی عدم موجودگی  میں یہ محض ایک تھنک ٹینک  کے طور پر کام کر سکتا ہے۔بہرحال حکومت پہلے ہی اسلام آباد میں  ایک درجن سے زائد  غیرمعمولی تھنک ٹینکس کو پال رہی ہے اور نیکٹا کا اضافہ اس بوجھ میں کوئی زیادہ اضافہ نہں کرے گا ۔

ابھی تک بہت سے پالیسی ساز نیکٹا کو قابل عمل سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ امریکا کے ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی طرح کا ایک مرکزی انسداد دہشتگردی کا ادارہ بن جائے جو کہ وطن کی سلامتی اور تحفظ کو ہر صورت یقینی بناتا ہے اور دہشتگردی اور دیگر خطرات کا رخ موڑ دیتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس طرح کے ایک آزاد ادارے کا قیام  خواب ہی رہے گا۔

بہرحال نیکٹا کو برطانیہ کے قومی سلامتی سکٹریٹریٹ کے طرز پر بنایا گیا تھا جو کہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے معاملات  پر حکومت کی سطح پر تعاون  کرتا ہے اور قومی سلاتی کے امور کا جائزہ لیتا ہے۔اس تناظر میں نیکٹا  کو سٹریٹیجک رہنمائی فراہم کرنے اور تمام انٹیلی جنس اداروں میں مرکز و محور کی حیثیت سے کام کرنے کی پوزیشن میں ہونا چاہیے تھا۔لیکن ان بیان کردہ وجوہات کی بنا پر اس طرح کی تنظیم پاکستان میں کام نہیں کر سکتی۔

نیکٹا کی قانونی پوزیشن پر بھی سوالیہ نشان ہے  دریں حالیکہ  وزارت داخلہ اسے اپنی ایک ذیلی تنظیم کی طرح چلا رہی ہے۔قانونی طور پر بہرحال  اس کی رپورٹ وزیراعظم کو جانی چاہیے جیسا کہ اصل میں سوچا گیا تھا۔میں   دوٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں نیکٹا انسداد دہشتگردی کے لیے مرکزی تنظیم کی حیثیت سے کام کرنے میں ایک ناکام تجربہ ثابت ہوا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان دہشتگردی کے خلاف قوم کے اجتماعی فیصلے کا اظہار تھا اسے بشمول ناکارہ نیکٹا کے کسی بھی صورت ناکام نہیں ہونا  چاہیے ۔حکومت کو چاہیے کہ  نیپ کے بہتر نفاذ کے لیے منصوبہ بندی کرے،اور اسے نیکٹا کی قسمت کا فیصلہ بھی کرلینا چاہیے کہ آیا اسے بہتر بنانا ہے یا بند کرنا ہے۔ انسداد دہشتگردی کا ایک موثر ادارہ  ہی بالآخر  نئے بیانیوں کو جنم دے گا۔

(بشکریہ:ڈان، ترجمہ:عاطف ہاشمی)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...