عہد مغلیہ کا طرز معاشرت: ہم ویسے کے ویسے ہی رہے

419

صغیر میں مغلیہ خاندان کی تاریخ کے مطالعہ کے بعد ایک تاریخ کا طالب علم اس نتیجے پہ پہنچتا ہے کہ رعایا کے حقوق، باعزت روزگار، معیارِ زندگی اور  شخصی حقوق کے تحفظ، فراہمی اور استحکام کے لیے مستقل بنیادوں پہ نہ تو کوئی ادارے قائم کئے گئے اور نہ ہی اس طرف توجہ دی گئی۔

برصغیر پہ جارحیت و فتوحات کے ذریعے بادشاہت، سلطنت قائم کرنے والوں نے ایسا کوئی اہتمام نہ کیا یا انہیں اس کا شعور نہ تھا۔

دوسری طرف اپنی بادشاہت قائم کرنے اور رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کردیا گیا جس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔

ہم پڑھتے ہیں تحت نشینی سے لے کر شاہی امتیازات تک، دربار سے رسومات تک، باشاہ کے روز مرہ کے معاملات سے مختلف شہروں کے اسفار تک، تقریبات سے تفریحات تک، تہواروں سے خطابات تک، انعامات سے خیرات تک کروڑں، اربوں روپے پانی کی طرح بہا دئیے جاتے تھے۔ بادشاہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔ بادشاہ کے مقررکردہ امراء، وزراء کی طرز معاشرت، شاہانہ اخراجات، ملازم و غلام کی تعداد، بیگمات اور ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے لشکر کا پڑھ کر انسان حیران و ششدر رہ جا تا ہے۔ مثلاً مرزا عزیز کوکہ (جہانگیر کے امراء میں سے تھا) جس کی ایک ہزار پانچ سو بیگمات تھیں جن سے چار ہزار بچے تھے ۔اسماعل قلی خاں (اکبر کے زمانے کا امیر تھا) اس کے حرم میں ایک ہزار دو سو عورتیں تھیں؛ جب وہ دربار میں جاتا تو ان کے کمر بندوں پہ مہر لگا کر جا تا تھا۔ راجہ مان سنگھ ایک ہزار پانچ سو عورتیں رکھتا تھا اور ہر ایک سے دو تین بچے تھے۔

دولت خان (اکبر کےزمانے کا امیر تھا) مرنے کے بعد دس کروڑ اشرفیاں ترکہ میں چھوڑ کر گیا۔ دس کروڑ جواہرات سونا اور چاندی کے برتنوں کے علاوہ ہے جس کی قیمت چھ کروڑ بنتی تھی۔

شاہ جہاں کے امیر اعظم خان کے 500ملازم اور 400غلام تھے جب وہ باہر نکلتا 300کا دستہ سپاہیوں کا ساتھ ہوتا تھا۔ یہ صرف امراء تھے۔ اگر انسان بادشاہانِ مغلیہ کی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کے بارے میں پڑھتا ہے تو ملک کی غربت و مفلسی کی سمجھ آتی ہے جب کہ میں نے آغاز میں لکھا ہے کہ باقاعدہ رعایا کی فلاح و بہبود اور کفالت کا کوئی نظام نہیں بنایا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ عوام بادشاہوں اور امراء کے رحم کرم پہ تھے۔ گزشتہ صدیوں میں تاریخ بادشاہوں کے فتوحات اور کارناموں تک ہی محدود تھی۔ تاریخ صرف بادشاہوں، سلاطین کے احوال ہی کا نام تھا۔ اس لئے عوام کی حالت زار اور ان کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا۔ اب تاریخ کا تصور اور نظریہ بدل چکا ہے ۔اب ہر قرن، زمانے اور خطے میں رہنے والے عوام اور رعایا کے احوالِ زندگی، معیشت، مالی حیثیت، روز گار اور معیارِ زندگی بھی تاریخ کہلاتی ہے۔

جمہوری اور شعوری دور میں تو ہم رہ رہے ہیں؛ لیکن عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ادارے قائم نہ کر سکے

جب ایک معاشرے میں شاہوں، امراء اور وزراء کا لائف سٹائل وہ ہو گا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ واضح بات ہے، دوسری طرف عوام کا حال بدتر و ابتر ہو گا۔ اُس زمانے میں عام ملازمین کی تنخواہ 3سے چار روپے ماہانہ ہوتی تھی۔ یہ تنخواہ کبھی نقد ملتی اور کبھی پرانے برتن اور کپڑوں کی صورت میں ملتی تھی۔ ایسے ملازمین اپنے امراء اور مالکوں کے ساتھ بے ایمانی کرتے یعنی اُن کے لیے خریداری کرتے تو اُس میں سے کچھ رقم رکھ لیتے؛ اِسے ’’دستور‘‘ کہتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ملازمین اپنی تنخواہ میں ایمانداری سے گزر اوقات نہیں کر سکتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے آج بھی بر صغیر خصوصاً انڈیا پاکستان میں یہی کلچر قائم ہے۔ایک طرف اشرافیہ کی شاہ خرچیاں دوسری طرف ملازمین کی کم تنخواہیں اور ساتھ ہی رشوت کا بازار بھی گرم ہے جس نے اشرافیہ کے ساتھ غریب عوام کا جینا بھی دو بھر کر رکھا ہے۔

صو رت حال آج بھی وہی ہے ۔جمہوری اور شعوری دور میں تو ہم رہ رہے ہیں؛ لیکن ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ادارے قائم نہ کر سکے۔

ایک عام شخص باعزت روزگار کے ساتھ خودداری اور سہولت سے زندگی گزارے، اُسے تنگ دستی اور پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ اُس کی تنخواہ اتنی ہو کہ وہ باآسانی اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔

مغرب اپنے ہاں ایسا نظام کئی صدوں پہلے قائم کر چکا ہے۔ وہاں بھیک مانگنا، جھولی پھیلانا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔طبقاتی تقسیم وہاں بھی ہے لیکن عوام بدحال اور پریشان حال نہیں ہیں۔

روزگار، رہائش، علاج اور تعلیم کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ مغرب میں گھر کے لیے ملازم، گاڑی کے لیے ڈرائیور رکھنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ ہر شخص افورڈ نہیں کرسکتا۔ ہمارے ہاں آج بھی دورِ مغلیہ کی طرح ملازم رکھنا بہت آسان ہے بلکہ ایک نہیں کئی ملازم رکھے جاسکتے ہیں۔

انہیں معمولی تنخواہ دی جاتی ہے۔ اُن کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ پاکستان میں ملازم کی تنخواہ کم از کم 25ہزار طے کی گئی ہے لیکن مہنگائی جس حساب سے بڑھتی ہے25000 کی کوئی بھی وقعت (Value) نہیں ہے۔

عرض کر نے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا نظامِ زکوٰۃ، صدقات و خیرات معاشرے سے غربت ختم کرنے کے لیے تھا. اس لیے نہیں تھا کہ استحصالی نظام کے ذریعے غربت و مفلسی کو قائم رکھتے ہوئے, پیدا کردہ غریبوں میں صدقات و خیرات بانٹی جائے۔ یہ سب کچھ ایک نظام میں لا کر معاشرے سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے یعنی کفالت کا نظام بھی وضع کیا جا سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے لیے ایساخودکفیل نظام بنایا جائے کہ ادارے ان کی کفالت کریں۔ یہ لوگ کسی شخص اور خاندان کے محتاج نہ ہوں۔ خاندانوں کے لیے اپنے گھروں میں ملازمین کا رکھنا مشکل ہو۔ ان کی کفالت و سہولت کی سرکاری سطح پہ نگرانی کی جائے۔ جب تک ہم ایسا نظام اپنے ملک میں نہیں لاتے۔ اس وقت تک غریب کی انا، خودداری پامال ہوتی رہے گی۔ پاکستانی معاشرے میں معیشت و دولت کی بنیاد پہ پیدا ہوتی تفریق کسی بڑے طوفان اور فساد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اس تفریق کو اس طرح ختم کیاجا سکتا ہے کہ عوام کو ایک ایسے نظام کے ذریعے سرپرستی میں لیا جائے کہ جس سے واقعی “ریاست ماں جیسی” کا تصور حقیقی روپ اختیار کرے۔ شخصی حقوق ہوں یا بنیادی حقوق اُن کا تحفظ اور نگرانی بہت ضروی ہے۔ ریاستیں ہوں یا ملک، حکومتیں ہوں یا جمہوری نظام؛ ان کی سالیمت و حقیقت اسی وقت تسلیم کی جاتی ہے جب اِن میں رہنے والے شہریوں کی زندگی، عزت، جان اور کاروبار محفوظ ہوں۔ اکیسوی صدی میں بھی ہم نے ملوکیت و بادشاہت کا استحصالی نظام قائم کرنا اور رکھنا ہے تو پھر ہمیں اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیئے۔ ماضی سے، اس کی غلطیوں سمیت چمٹے رہنا تباہ کن ہوسکتا ہے۔ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے اپنے حال کو سنوارا جائے تو اس سے مستقبل بھی روشن اور پُر امید ہو تا ہے۔ اگر “پدرم سلطان بود” کی ذہنیت کے ساتھ حال میں رہنا ہے تو پھر نقارہ خدا بھی سنائی نہیں دیتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...