مستعار الفاظ اور خطرے سے نبردآزما زبانوں جیسے توروالی میں ترجمہ کرنا

561

یہ ایک عمومی مظہر ہے کہ ایک زبان دوسری زبان سے اثر لیتی ہے۔ یہ اثرات کئی طرح کے ہوتے ہیں تاہم ان میں نمایاں اثرات ایک زبان کا دوسری زبان سے الفاظ کو مستعار لینا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ فطری عمل تو ہے مگر ایک ایسی قوم کی زبان کسی دوسری قوم کی زبان سے زیادہ اثر لیتی ہے جب، یہ دوسری قوم علمی، معاشی اور سیاسی طور پر زیادہ طاقت ور ہو، یا جب پہلی قوم اپنی زبان کو کمتر سمجھے اور دوسری زبانوں کو عزت اور سماجی رتبے کا باعث سمجھے۔ یوں اس فطری عمل میں سیاسی، معاشی اور علمی عوامل بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جب کسی قوم کے پاس مذہبی، علمی، سیاسی اور معاشی بالادستی موجود ہو تو اس کی زبان و ثقافت کو دوسری قومیں لاشعوری یا شعوری طور پر نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ اس عمل پر اتراتے بھی ہیں۔
جب خطرے سے نبردآزما زبانوں جیسے توروالی، گاؤری، شینا، کھوار وغیرہ کو تحریر میں لانا ہوتا ہے یا دوسری زبانوں سے ان میں ترجمہ کرنا ہوتا ہے تو ایک بڑا مسئلہ جو ہر صاحب قلم کو درپیش رہتا ہے وہ ان مستعار الفاظ سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اردو کو بھی درپیش ہے۔ اس استعار و اختصاص میں کسی خاص شناخت اور نظریے کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ مثلاً اردو اپنی بنیادی لسانی فطرت میں ہندوستانی زبان ہے اور اپنی بنیادی صوتی ، صرفی،معنیاتی اور نحوی خاصیتیں ہندوستان سے ہی لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ بالی ووڈ کی ساری ہندی فلموں کو پاکستان میں بھی بہ آسانی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم جہاں مستعار الفاظ میں اختصاص اور چناؤ کی بات آجائے تو اردو کو خاص سیاسی شناخت کی علامت بنانے کے لئے عربی اور فارسی سے الفاظ لائے جاتے ہیں اسی طرح اب ہندی میں زیادہ سے زیادہ سنسکرت کے الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
پہلے اردو کو ہندی سے الگ کرنے کی خاطر عربی /فارسی رسم الخط کو اپنایا گیا۔ اس کے بعد اس سے ہندی الفاظ کو خارج کرنے کا عمل تیز کردیاگیا اور ان کی جگہ عربی سے الفاظ لائے گئے۔ فارسی نے اردو پر گہرے اثرات اس لئے چھوڑے ہیں کہ یہاں ہندوستان کی سرکاری زبان کئی صدیوں تک فارسی رہی۔ اردو زبان کے فروغ کے لئے جو سرکاری ادارہ پاکستان میں بنایا گیا اس نے نئے اصطلاحات کے ترجمے کے لئے دانستہ طور پر عربی کا سہارا لیا ۔
کئی صورتوں میں مستعار لینے کا یہ عمل بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ کیوں کہ کئی زبانیں مستعار الفاظ کو اپنے رنگ میں رنگتی ہیں اور ان کو اپنی صوتی صورت دیتی ہین۔ مثلاً انگریزی لفظ cotton لے لیں۔ یہ لفظ ہمیں انگلش ہی کا لگتا ہے کیوں کہ انگلش نے اصل لفظ ”کاتن“ جو کاتنا سے مشتق ہے، کو اپنے صوتی رنگ میں رنگا ہے۔ اسی طرح لاطینی لفظ Chemistry ہے جو اصل میں عربی لفط ”الکیمیا“ سے بنا ہے اور لاطینی سے ہوکر انگلش میں مستعمل ہوچکا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ عربی نے الکیمیا کہیں قدیم یونانی سے تو نہیں لیا کیوں کہ یونانی فلسفہ و سائنس عربی سے ہوکر یورپ گیا ہے اور اس کے بڑےشارح عربی بولنے والے فلسفی و علماء ہی رہ چکے ہیں۔
ہمارے توروالی لوگ جب مسلمان ہوئے تو ان کو اسلام پشتو زبان میں سیکھایا گیا کیوں کہ پشتو عام لوگوں کی زبان تھی اور زبانی کلامی مستعمل تھی اگرچہ اس وقت اس پورے خطے یعنی برصغیر میں فارسی کو تحریرو ادب کی زبان کا رتبہ حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو کی پہلی تصانیف ”خیرالبیان“ ، ”مخزن الاسلام“ یا پھر ”تواریخ حافظ رحمت خانی“ کو گو کہ پشتو میں مانا جاتا ہیں لیکن ان تصانیف میں فارسی کا غلبہ ہے۔
مذہب کی تعلیمات پشتو میں پانے کہ وجہ سے ہماری مساجد میں عیدین و جمعوں کے خطبے حالیہ سالوں تک پشتو میں ہی ہوا کرتے تھے اور اب بھی ہمارے لوگوں کی اکثریت نماز کی نیت پشتو میں ہی باندھتی ہے اگرچہ ان کو نیت کے ان پشتو الفاظ کا مفہوم شائد سمجھ بھی نہ آئے۔
ہمارے علاقے میں تعلیم جب عام نہ تھی، سیٹلائٹ ٹی وی عام نہیں تھا، اخبارات نہیں اتے تھے اور سوشل میڈیا کا دور ابھی نہیں آیا تھا تو ہماری ”دوسری“ زبان پشتو ہی ہواکرتی تھی کہ سب کو اسے بولنا سیکھنا پڑتا کہ سوات میں کلامی زبانی مارکیٹ کی اور مسجد کی زبان بھی پشتو ہی تھی۔ لیکن جب سے تعلیم عام ہوئی، ٹی وی اور دیگر میڈیا آگئے تو اب ہماری نسلوں کی ”دوسری“ زبان براہ راست اردو ہی ہوگئی ہے۔ آج سات سال کے بیٹے سے جب لفظ جھوٹا کا معنی پوچھا تو بلاتعمل ”لوال“ بتایا۔ جب دروغجن پوچھا تو وہ میرا منہ دیکھتے رہ گیا!
بات بنیادی طور پر مستعار الفاظ اور ترجمے کی ہورہی تھی۔ اسی پر واپس آتے ہیں۔
زبانوں کے ایک دوسرے میں ترجمہ نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس سے دونوں زبانوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ تاہم جب ترجمے کی بات کی جاتی ہے تو عموماً یہ خیال ذہین میں آتا ہے کہ کسی دوسری زبان کے مواد کو اپنی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ یہ بھی بہتر ہے تاہم اس سے عمل یک طرفہ ہوجاتا ہے اور اگے جاکر سورس لینگویج (وہ زبان جس کا ترجمہ کیا جائے) دوسری زبان پر غلبہ حاصل کرتی ہے۔ اردو زبان کے پاکستانی عاشقوں میں یہ روایت چل پڑی ہے کہ وہ انگریزی سے یا یورپی زبانوں سے مواد کو اردو میں ترجمہ کریں گے لیکن ان کو یہ خیال کم ہی آیا کہ پاکستان کی دیگر زبانوں سے بھی ادب کو اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ یوں اردو زبان بیرونی اثرات لینے کے لئے تیار ہے تاہم اندرونی اثرات سے اس کو دور رکھا جاتا ہے۔
الفاظ صرف علامات نہیں ہوتے بلکہ کئی الفاظ اپنے ساتھ ایک پورا پس منظر، سیاق و سباق اور تصوّرات لیے ہوتے ہیں۔ ایسے مجرد الفاظ کا ترجمہ کرتے وقت بہت احتیاط برتنی چاہے۔ ٹھوس اشیاء جو اپنی مقامی ثقافت میں معلوم ہو ان کا ترجمہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے تاہم جہاں ایسے الفاظ سے واسطہ پڑے جو مجرد تصّورات کے حامل ہو یا ان الفاظ سے سورس لینگویج کی ثقافتی پش منظر وابستہ ہو تو وہاں ان الفاظ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جیسے کہ وہ ہیں۔ یہ الفاظ شاعری، نثر اور ادب میں بھی پائے جاتے ہیں تاہم زیادہ احتیاط اسلامی تعلیمات کو ترجمہ کرتے وقت ضروری ہوتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا اردو میں ترجمہ کرتے وقت ایسی کئی غلطیاں کی گئی ہیں تاہم ان کی طرف اتنی نظر نہیں جاتی کیوں کہ ہماری تعلیم اردو میں ہے اور اس کی وجہ سے اس کو قبول عام حاصل ہے۔ ہمارے لئے اردو بھی ایک ”اعلی“ درجہ رکھتی ہے اس لئے اس طرف کسی کی تنقیدی نظر نہیں جاتی۔ اس کے برعکس ہماری نفسیات میں اپنی زبانوں کے بارے میں اب بھی کچھ اچھا خیال نہیں اور اس لئے ہم اپنے اردگرد سیاسی، سماجی اور ثقافتی درجہ بندیوں کی وجہ سے کئی الفاظ کو کم تر سمجھتے ہیں۔ مثلاً لفظ محبوب لوگوں کو اینگولا سے زیادہ قابل قبول ہوگا کیوں کہ محبوب لفظ فارسی سے ہے اور ان تعلیم یافتہ لوگوں نے ساری اردو شاعری میں فارسی کے ان اصطلاحات کو سنا ہے۔ مثلاً فقرہ ”اللہ سی محبوب“ استعمال کر سکتے ہیں تاہم ”اللہ سی اینگولا“ شاید استعمال نہیں کرسکتے! اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری زبانوں میں کئی الفاظ ابھی تک مقامیت میں گوندھے ہوئے ہیں اور ان کو وسیع معنی نہیں دیے گئے ہیں۔
یہی مسئلہ دیگر علوم کو توروالی میں ڈھالنے میں پیش آتا ہے کہ ابھی تک ان اصطلاحات کو وہ تصّورات نہیں دیے گئے اور ان کو ان معانوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔ مثلاً انگریزی لفظ prosperity ہے جس کااردو میں اکثر ترجمہ ”خوشحالی“ کیا جاتا ہے۔ توروالی میں اسکا متبادل ”خیرأزی“ ہوسکتا ہے تاہم اس کو یہ وسعت دینے کے لئے فی الوقت بیریکیٹس میں انگلش لفظ بھی لکھا جانا ہوتا ہے۔
اکثر اوقات لوگ ترجمے کا ترجمہ کرتے ہیں۔ مثلاً اردو میں نطشے کے فلسفے کو جب کوئی ترجمہ کرتا ہے تو وہ نطشے کے فلسفے کے انگریزی ترجمے کا سہارا لیتا ہے۔ اس میں دوہرا نقص کا احتمال ہوتا ہے۔
یہی صورت حال قرآن مجید کے تراجم کا ہے۔قرآن حکیم کے بیشتر اردو ترجمے عربی تراجم وتفاسیر سے ہیں۔ ہماری زبانوں میں اکثر ان اردو تراجم کے ترجمے کیے جاتے ہیں۔ یہی سے خطرہ دوچند ہوجاتا ہے۔ ایک تو اپنی زبان کا بنیادی لسانی و ثقافتی پس منظر سامی زبانوں سے بلکل مختف ہے دوسری جانب ابھی تک غیرمذہبی مواد کے وافر تراجم نہیں کیے گئے کہ کوئی اچھا پس منظر مل سکے۔ کئی مواقع پر دوسری زبان کے استعارات، تمثیلات، تشبہات اور علامت کو لغوی لیا جاتا ہے جس سے سارا مفہوم بگڑ جاتا ہے۔ ابلاغ کے اس عمل کو انگریزی میں implicature کہا جاتا ہے جس کے دوران الفاظ، فقروں اور جملوں کے ظاہری صورت ان میں مخفی مفہوم سے اکثر الٹ ہوتی ہے۔
مختصراً یہ کہ ٹرانسلیشن تھیوریز (Translation theories) یعنی اصول ترجمہ کو سمجھے بغیر ترجمہ کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح دونوں زبانوں (source language یعنی وہ زبان جس سے ترجمہ کیا جاتا ہے) اور (Target language یعنی وہ زبان جس میں ترجمہ کیا جاتا ہے) کی لسانی و ادبی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہے۔ بہ حثیت طالب علم اور محقق میں تو ترجمے کے عمل کو سراہوں گا کہ ان باریکیوں کا طالب علم ہوں اور اپنی زبان میں علم کی ترویج کو بہت احسن کام سمجھتا ہوں تاہم کئی لوگ صرف نکتہ چینی کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس سے وہ دوسروں کے کام کی وقعت کو گھٹانے اور اپنے آنا کو تسکین کی کوشش کرتے ہیں۔
نوٹ: توروالی میں مستعار لئے ہوئے الفاظ ایک وسیع مضمون کا تقاضا کرتے ہیں کہ آیا جو الفاظ توروالی نے مستعار لیے ہیں اور ان کے ساتھ اپنا لسانی تعلق پیدا کیا ہے انکے ساتھ کیسےنمٹا جائے۔ اس پر روشنی کسی اور مضمون یا کتاب میں ڈالیں گے

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...