ڈسکہ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ کیا پیغام دے رہا ہے؟

801

پچھلے دنوں ڈسکہ میں خواتین کے ایک کالج کے سامنے واقع چوک پر مجسمہ نصب کیا گیا تھا جس میں ایک بچی کتابوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے ہاتھ کتاب پر رکھے ہوئے ہے، اور ساتھ ایک استاد ہے جس نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ اس مجسمے کو گزشتہ روز نامعلوم افراد نے توڑ دیا۔ اس میں بچی کا سر کاٹا گیا اور استاد کے ہاتھ توڑ دیے گئے۔

ڈسکہ کے چوک پر ایستادہ کیا گیا مجسمہ ملک میں تعلیم کی حوصلہ افزائی کی بطور ایک علامتی نشان کے شاید اس نوع کی پہلی ایسی خوبصورت کوشش تھی جسے بہت سارے لوگوں نے سراہا اور کہا گیا کہ ہمیں اپنے چوکوں چوراہوں پر ایسے علاماتی پیغامات دینے کی ضرورت ہے جس سے بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان خاندانوں اور افراد کو ذہنی طور پہ تیار کیا جاسکے جو ان کے تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اسے اس طرح توڑ دیا جائے گا۔ مگر اس واقعے کے بعد یہ ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ سماج میں تنگ نظری کی فکر کس حد تک بڑھ گئی ہے۔

ملک کے چوکوں چورواہوں پر مہنگے اور خطیر رقم خرچ کرکے جانوروں اور دیگر اشیاء کے بنائے گئے مجسمے نصب کیے جاتے ہیں، مگر معاشرے میں تنگ نظری کی سوچ کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے علامتی پیغامات کی صورت میں ڈسکہ جیسے مجسمے نہیں بنائے جاتے۔ حالانکہ دنیا میں صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے عوامی مقامات پر اس طرح کے خاموش پیغامات دیے جاتے ہیں جس سے لوگوں کی ذہن سازی آسان ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ڈسکہ کا مجسمہ بھی نجی سطح پر ایک شہری نے خود بنوایا تھا حالانکہ حکومت کو چاہیے کو اس جانب خصوصی توجہ دے کیونکہ کوئی پیغام دینے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے یہ ایک عام فہم اور مؤثر طریقہ ہے۔ بلکہ الٹا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں متعد چوکوں چوراہوں اور سڑکوں کے پرانے نام بدل کر اسلامی بنائے گئے ہیں۔ یہ بالکل بھی مذہبی یا غیرمذہبی فکر کے تقابل کی بحث نہیں ہے، مگر دوسرے ناموں کو تبدیل کردینے کا عمل یہ واضح کرتا ہے کہ ملک میں ایک غیرروادار طبقہ مذہب کے نام پر سماج میں ایک مخصوص سوچ کو تھونپنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے جو ایک منفی سعی ہے، اور ریاست اس کو روک نہیں رہی۔

ڈسکہ مجسمے کو نقصان پہنچانے والے مجرموں کو پکڑنا اور انہیں سزا دینا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ اس مجسمے کو حکومت دوبارہ بنوا کر اسی جگہ پر نصب کرائے۔ یہ ایک چھوٹا سا کام تنگ نظر سوچ کو پیغام دے گا کہ ریاست اس کے اقدام کو مسترد کرتی ہے ورنہ لوگ اس جیسے مجسمے دوبارہ نصب کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...