پانی کے بحران پر مجرمانہ غفلت

541

مقتدر حلقوں نے آنے والے دنوں میں  پانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے متوقع بحران پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جبکہ سابقہ دور حکومت میں انڈیا کو ”پسندیدہ ملک“ کے طور پہ چنا گیا جس نے باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت آبی جارحیت کا محاذ کھول کر عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے پانی پر مستقل طور پر قبضہ جمانے اور وطن عزیز کو بنجر کرنے کے لیے ان دریاؤں پر ڈیمز بنانے کا سلسلہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے، جن دریاؤں کے پانی سے ہمارے کھیتوں کی شادابی و ہریالی قائم ہے۔ تاہم اب صورت حال یہ ہے کہ آنے والے کچھ برس اس حوالے سے ہمارے لئے تباہی کا پیش خیمہ ثابٹ ہو سکتے ہیں کیونکہ ہماری غفلت، کا ہلی، سستی اور بھارتی آبی جارحیت کے تسلسل کے سبب یہ مناظرخدا نخواستہ قحط کی شکل میں سامنے آنے والے ہیں۔ ماضی میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے بہت سے منصوبوں کو دانستہ نظر انداز کیا گیااور جنوبی پنجاب خاص طور پر اس زد میں رہا ہے۔

ڈیرہ غازیخان جنوبی پنجاب کی سرحد کو بلوچستان اور سندھ کے ساتھ ملانے والے مغربی اضلاع میں شمار ہو تا ہے جس کا رقبہ 11922 مربع کلومیٹر ہے جو دو حصوں میں تقسیم  ہے، مغرب میں کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی چوٹیاں سطح سمندر سے 2800 سے 3000 میٹر بلند ہیں، اس کی آبادی 24 لاکھ 96 ہزار جبکہ اس کا زرعی رقبہ 9 لاکھ 36 ہزار ایکڑ ہے۔ یہ ضلع تین تحصیلوں ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور ٹرائبل ایریا پر مشتمل ہے۔ پہاڑوں کی کوکھ سے سینکڑوں ندی نالے نکلتے ہیں جن سے تقریباً ایک لاکھ 79 ہزار 15سو کیوسک پانی کا اخراج ہوتا ہے یہ پانی مختلف مقامات سے ہوتا ہوا سیدھا دریائے سندھ میں تونسہ بیراج کے مقام پر جا کر گرتا ہے۔ تونسہ بیراج ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو سے مغرب کی طرف چھ کلومیٹر جبکہ تونسہ شہر سے مشرق کی طرف دو کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک عرصہ سے ان پہاڑوں کے پانی سے بجلی پیدا کرنے اور اسے زرعی مقاصد کے لیے زیر استعمال لانے کیے لیے مختلف سکیمیں اور تجاویز حکومت کو دی گئیں مگر ان میں سے کسی ایک تجویز پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ایک انگریز انجنیئر نے 1901 میں تونسہ بیراج کے گردونواح اور کوہ سلیمان کے پہاڑی علاقوں کا سروے کیا تھا۔ اس نے گہرے مطالعے اور تجزیے کے بعد ان پہاڑوں سے نکلنے والے رود کوہی کے پانی کو ذخیرہ کرکے تونسہ بیراج کے مقام پر ڈیم بنانے کی تجویز دی تھی۔ اگر انگریز انجنیئرکی تجویز پر عمل کیا جاتا تو یہ علاقہ آج پاکستان کا مِنی یونان ہوتا اور جہاں پاکستان یوں بجلی اور پانی کے بحران سے دوچار نہ ہوتا جس طرح آج ہے۔ وہاں رود کوہیوں کی شکل میں آنے والے تیز پانے کے سبب مشرقی جانب دریائی کٹاؤ سے نشیب کی کثیر آبادی محفوظ رہتی۔

ہماری حکومتیں ہر کام ہنگامی حالات کو پیش نظر رکھ کر کرتی ہیں۔ حکومتی پالیسی ساز یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ مستقبل میں صورت حال کیا ہو گی۔ دس یا بیس سال بعد کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ نئے پاور پراجیکٹس لگانے کی تجاویز مرتب کی جارہی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے پانی کے بحران کے خاتمے کیلئے کوئی عملی اقدام اور سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ موجودہ لوڈ شیڈنگ اسی کا شاخسانہ ہے سابق وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں دیرینہ ہمسایہ ملک اور دوست چین کا دورہ کیا تھا اور بیجنگ میں تونسہ بیراج سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے آغاز کے لیے چین اور پنجاب کے درمیان معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ جس کے مطابق پاک چائنا تعاون سے شروع ہونے والے اس منصوبے پر 26 ارب لاگت آنا تھی اور 120 میگا واٹ بجلی پیدا ہونا تھی۔ اس منصوبہ سے جہاں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا وہاں پانی ذخیرہ کرنے کا یہ بہت بڑا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ تین برسوں میں مکمل ہونا تھا۔ معاہدے پر پنجاب کی جانب سے پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کے چیئر مین بابر ندیم اور چین میں 30 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والی سرکاری کارپوریشن کے چیئر مین وانگ شاؤفینگ نے دستخط کیے تھے۔

وادی سندھ اپنے وسائل، تہذیب، ثقافت، زبان اور دلکش لینڈ سکیپ کی وجہ سے پورے برصغیر میں اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ دریائے سندھ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی زندگی کا ضامن ہے اور رہے گا۔ اس کو لوگ زمانہ قدیم میں آمدورفت کے لیے استعمال کرتے تھے اور کالا باغ سے دادو تک اپنے مال و اسباب لے جاتے تھے۔ اس روایت کی ایک مثال سندھ کے سپوت کہیل، موہانے اور لوری ہیں جن کی زندگیاں ہمارے غیر متوازن ریاستی نظام کی نذر ہو گئیں، وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم نے انکی فلاح و بقا کے لیے کبھی سوچا تک نہیں۔ سندھ کنارے کے باسی آج کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہیں سیلاب، دریا بردی اور بے گھر ہونے کا عمل جاری ہے۔ آج جب ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں اور ہم سندھ کے بے رحم پانی سے لوگوں کو بچا سکتے ہیں تو پھر کالا باغ ڈیم بنانے میں دیر کیسی؟ جنوبی پنجاب کی معیشت اور اسکی تہذیب کے ارتقاء میں جو کردار اہل نشیب کا ہے اسے کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان لوگوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ہمیشہ سخت محنت کی اور مصائب جھیل کر اہل جنوبی پنجاب کو خوشحال زندگی عطا کی۔

اس استحصال کا ذمہ دار وہ مقتدر طبقہ ہےجو جنوبی پنجاب کی محرومیوں اور پسماندگی میں پیش پیش رہا۔ جس طبقہ کے پاس جنوبی پنجاب سے کلیدی نشستیں رہیں لیکن نشیبی علاقہ کو اپنے دور اقتدار میں وہ بری طرح نظر انداز کرتے رہے۔ زراعت میں اہم کردار اہل نشیب کا ہے، یہی لوگ اناج اگاتے ہیں لیکن ان کے اندر جھانکیں تو ہڈیوں کا پنجر بنتے ان کے جسم، لہو سے خالی چہرے، ویران آنکھیں، سردیوں میں ٹھٹھرتے اور گرمیوں میں جھلستے بدن ان کی زندگیاں ہیں۔ سندھ کی تباہی میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اس سے بچنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی۔ دریائی کٹاؤ کی وجہ سے یہاں کی زمین مختصر ہوتی جا رہی ہے۔  نشیبی علاقہ کے عوام کے گھر دریائے سندھ کے پانی کی موجوں کی نذر ہو گئے۔ ان کے مال مویشی تک نہ رہے یا بے رحم موجوں میں بہہ گئے۔ سندھ کے کنارے جنوبی پنجاب کی یہ دھرتی، سندھ ساگر کے کلچر کی تباہی اور یہاں کی شناخت کا ختم ہونا سب سے تشویش کن بات ہے۔ وہ لوگ جو وسیع اراضی کے مالک تھے آج اپنی عزت نفس بیچ کر شاہراہوں پر بھیک مانگ رہے ہیں۔ اہل اقتدارنے ہر بار نشیب کے حق خود ارادیت کو چھیننے کے بعد اہل نشیب کیلئے کچھ نہ کیا، بلکہ ان کے اجڑنے کا تماشا دیکھتے رہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں مصر نے نہر سویز کھود لی، سمندر میں نیا ملک ہالینڈ بس گیا، چین نے اپنے دریاؤں کو کھود کر سیلاب کا خطرہ ختم کر دیا، ہمیں کہا جا رہا ہے دریا کا کٹاؤ روکنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

دریائے ستلج اور بیاس کے پانیوں کو 830 بلین روپے میں فروخت کیا گیا۔ دریائے ستلج کی ریچارجنگ کیلئے دو مجوزہ نہریں آج تک تعمیر نہ ہو سکیں۔ جبکہ دنیا کے کسی بھی قانون میں دریاؤں کی ٹیل پر آباد انسانوں کے ہیومن اور ڈومیسٹک کنزمپشن کے لیے پانی فراہمی کو یقینی بنانا انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ لیکن اس حق کو یکسر ختم کر دیا گیا جس سے اس علاقہ کی عوام ہیپاٹائیٹس، گردوں، پیٹ اور جلدی بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ لاکھوں ٹربائنوں کے دن رات چلنے سے میٹھے پانی کی ریزروائر خطرناک حد تک گرتی جارہی ہے۔ اگر دریائے ستلج کی ری چارجنگ کا بندوبست فوری طور پر نہ کیا گیا تو ایسی صورت میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا کیا بنے گا۔ بہاولپور کی نہروں کو تین کیوسک پانی فی ہزار ایکڑ فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ مظفر گڑھ کینال 8 کیوسک فی ہزار ایکڑ پر چلائی جارہی ہے۔ اگر ٹیکنیکل جائزہ لیا جائے تو جنوبی پنجاب کی بعض نہروں کو اس سے بھی کم پانی دیا جا رہا ہے۔ برسات کی اوسط ایک سے ڈیڑھ انچ سالانہ ہے، جبکہ لاہور اور اپر پنجاب میں تیس انچ سالانہ ہوتی ہے ان حالات میں جنوبی پنجاب کی نہروں میں پانی کی کمی لمحہ فکریہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...