چینی کھانے، امریکہ،دہشت گردی اور قرضے

1,147

“پاکستانی سیاسی و مذہبی رہنما امریکہ کے خلاف تو بڑھ چڑھ کر تقریریں کرتے ہیں لیکن دہشت گرد، جن کے متعلق دعویٰ ہے کہ ان کی کمر توڑ دی گئی ہے، ان کے بارے میں آج بھی خاموش ہیں یا  بہت محتاط زبان استعمال کرتے ہیں۔” یہ الفاظ ہمارے ایک چینی دوست کے تھے ، جو بیجنگ کے پالیسی ساز حلقوں میں خاصے بارسوخ ہیں۔ہم نے ان کی بات ہنسی میں ٹالنا چاہی لیکن انہوں نے راہِ فرار نہ دی۔وہ اس رویے کے محرکات جاننا چاہتے تھے۔جب بات بڑھی تو ہم پر کھلتا گیا کہ وہ ہماری ذہنی و نفسیاتی ساخت کا تجزیہ  کررہے ہیں۔ہمارے فوجی پسِ منظر کے دوستوں نے تاریخی اسباب اور امریکی بےوفائی کے قصے کرنا چاہے۔پاکستان کے سرکردہ تزویراتی ماہرین نے دنیا اور خطے کی اتھل پتھل سیاست کے تناظرمیں توجیہ کرنے کی کوشش کی اور امریکہ و بھارت کے بڑھتے یارانے سے انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی لیکن وہ مصر رہے کہ دہشت گردوں کے خلاف  سیاسی و مذہبی قیادت اور رائے  ساز اداروں کی زبانیں محتاط کیوں ہو جاتی  ہیں؟ ہم نے انہیں حالیہ “پیغامِ پاکستان ” کا واسطہ بھی دیا کہ کس طرح اٹھارہ سو علماء نے دہشت گردوں کے خلاف موثر بیانیہ کھڑا کیا ہے۔اس کی انہوں نے تعریف تو کی لیکن ضمناً یہ بھی پوچھ لیا کہ اس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ اور یہ بھی کہ ان اٹھارہ سو کے علاوہ  علماء بھی  اس پیغام کو مانتے ہیں اور اس کی تشہیر کریں گے؟

ہمیں حیرت تھی کہ آج اس چینی بابے کو کیا ہوا ہے کہ امریکہ کی خیر خواہی میں دیوانہ ہوئے جارہا ہے۔کیا کہیں چینیوں نے امریکہ سے سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی دوستی کرنے کا فیصلہ تو نہیں کر لیا؟ اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا بنے گا کالیا؟ یہ وہم چند لمحوں کے لیے ہمارے ذہنوں میں آیا تھا۔پھر ہمیں خیال آیا کہ چونکہ یہ چینی بابا کافی عرصے سے پاکستان آ جا رہا ہے اور اپنے آپ کو پاکستان کا ماہر بھی سمجھتا ہے ۔ یقیناً اسے اردو بھی آتی ہے اورکھانے کی میز پر  ہمارے چند دوست چینی کھانوں پر ناک بھوں چڑحا رہے تھےاور چینی مہمان نوازی پر سوال اٹھا رہے تھے، وہ گفتگو انہوں نے سن لی ہے اور اب اس کا بدلہ لینا چاہتےہیں۔چینیوں نے اپنی طرف سے مہمان نوازی  کی پوری کوشش کی تھی اور ایک بڑی گول میز کھانوں سے بھر گئی تھی، لیکن نت نئے کھانے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ہمیں پتہ تھا کہ محض کھانوں (اور  بعض کے نزدیک روکھے پھیکے کھانوں ) سے یہ ہمارا دل نہیں جیت سکتے۔

کھانے کا مسئلہ بھی عجیب ہے، پاکستان کا کوئی بھی وفد چین جائے، خواہ وہ سرکاری ہو یاغیر سرکاری،  انہیں کھانے کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔حلال کھانے کی چینیوں کو بھی سمجھ آتی ہے اور اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص پاکستانی وفد کی حلال ریسٹورنٹ میں تواضع کی جائےیا خصوصی طور پر حلال کھانوں کا اہتمام کیا جائے۔لیکن وہاں جا کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں حلال کے سوا بھی کچھ چاہیے اور وہ گھی میں لتھڑے کباب بوٹی یا لہسن پیاز ، ہلدی اور گرم مصالحے کا سالن ، جس میں حسبِ منشاکچھ بھی ڈال دیں ، سبزی یا گوشت وغیرہ۔

جب ہمارے چینی دوست پاکستان آتے ہیں ، ہمارے تکے کباب، کڑاہی، حلیم، بریانی اور دال، سب چٹ کرجاتے ہیں تو ہمارا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہےکہ کھانوں کی تہذیب تو اپنے عروج پر گوالمنڈی کی فوڈ اسٹریٹ میں ہی پہنچی ہے اور اس کی معراج پشاور میں چرسی کے ہاں ہوئی ہےلیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ چینی ہمارے کھانے ہم سے انتقام لینے کے لیے کھارہے ہوتے ہیں اور جب ہم بیجنگ، شنگھائی ، کن منگ، چھندو وغیرہ وغیرہ جاتے ہیں تو ایک بہت بڑی  میز اپنے رنگ برنگے کھانوں سے بھر دیتے ہیں اور اس کے بعد غور سے ہمارے چہروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ہمارے چہروں پر جاری مدوجزر سے  محظوظ  ہوتے ہیں اور آگے بڑھ بڑھ کر ہماری پلیٹوں میں ابلی سبزیاں اور نچڑے چاول ڈال رہے ہوتے ہیں اور ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کے کھانوں کی اسی طرح تعریف کریں جیسے وہ پاکستان میں ہمارے کھانوں کی تعریف کریں۔لیکن ہمارا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہےجب وہ اسی کھانے  سے ہماری پلیٹ بھر دیتے ہیں، جس کی ہم ازراہِ مروت  بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں۔وہ کھانا ہمیں  جیسے زہر مار کرنا پڑتا ہے  اس کے بارے میں چین پلٹ کسی سرکاری بابوسے پوچھیں ۔

چینیوں کو سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب جب ان کی مہمان نوازی کا تقابل کسی اور سے کیا جائے،خصوصاً امریکہ سے۔چونکہ ہماری امریکہ سے دوستی نما دشمنی یا دشمنی نما دوستی بہت پرانی ہے اور ہمارے سول ملٹری افسر شاہی کے تعلقات بھی اسی حساب سے پرانے ہیں۔جب ایسے افسران بیجنگ جاتے ہیں ، خصوصاً پہلی مرتبہ، تو ہوتا کیا ہے، ناشتہ دنیا بھر میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔دنیا بھر  کی اشرافیہ جس طرح ایک ہی انداز میں سوچتی ہے، اسی طرح ان کا ناشتہ بھی یکساں ہوتا ہے۔ اشرافیہ میں بس رات کے کھانے کا ہی فرق ہوتا ہے، سو ناشتہ خیر سے گزرجاتا ہے۔دن بھر میٹنگ کی مصروفیات  اتنی گھمبیر اور زیادہ ہوتی ہیں کہ دوپہر کے کھانے پر ہماری نظر نہیں پڑتی، جو بھی سامنے آئے، ست بسم اللہ۔

مسئلہ شام کا ہے، ایک تو چینی شام کو پانچ چھے بجے ہی بھوجن کر لیتے ہیں، جو ہمارے لاہور اور کراچی کے دوستوں کی نازک طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور چینی شام کے کھانے پر دیر بہت لگاتے ہیں۔شام کا کھانا ان کے لیے کیا ہے، ایک تفریح ہے۔آرام آرام سے کھانا کھاتے ہیں، چائے کی چسکیاں لیتے رہتے  ہیں یا حسبِ ذوق جو میسر ہو، پہلے چاول کی شراب  کا چلن تھا، پھر مغربی مشروب بھی چلنے لگے۔لیکن جب سے صدر شی جی پنگ اقتدار میں آئے ہیں، انہوں نے شراب پر پابندی تو نہیں لگائی لیکن یہ کہ شراب کا بل سرکار کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ پہلے چینی میزبان مہمانوں کے نام پر پیتے تھے، اب ان کے ساتھ صرف کھانا کھاتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ چین کے کھانے ویسے ہی  ہیں، جیسے ہمارے تخیل میں ہیں۔جتنا بڑا ملک ہے، اتنا ہی تنوع ان کے کھانے میں  ہے۔جن کی زبان کے مسام کھلے ہیں، وہ چینی کھانوں کے متوالے ہیں لیکن چونکہ بات سرکاری وفود کی ہو رہی ہے اور سرکاری بابو باہر جا کر بھی اپنے آپ کو بابو ہی سمجھتا ہے ۔ خواہ لاکھ اسے سمجھائیں کہ ادب آداب اور فنِ سفارت کاری کیا ہے اور باہر جا کر ہم سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اپنے ملک کے سفارت کار ہوتے ہیں۔ مگر آج تک کوئی بابو سمجھا ہے کیا؟

پاکستانی وفود کے لیے دورہِ چین سہہ روزے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔تین دن میں ہی وہ گھر بیگم کو بار بار فون کر کے  اسے اپنے ائیر پورٹ آمد سے پہلے ہی ان مرغن کھانوں کی تیاری کا حکم صادر کر چکے ہوتے ہیں جو انہوں نے سالہا سال نہیں کھائے ہوتے۔ان کا ارادہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں ائیر پورٹ پر اترتے ہوئے  کھانا شروع ہوں گے اور گھر پہنچنے تک سب چٹ کر کے بستر پر گریں گے اور لمبی تان کر سو جائیں گے۔دورہ اگر تین سے زیادہ کا ہو جائے تو ان پر ایک ایسا دورہ پڑتا ہے جس کا کوئی نام تو نہیں لیکن ہوتا بہت خوفناک ہے۔اس کی صرف ایک جھلک ہی دکھائی جا سکتی ہے۔

پاکستانی وفد کا چین میں پانچواں روز ہے اور اس وفد میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو کئی مرتبہ امریکہ یاترا کر چکے ہیں۔شام اتر چکی ہے اور اس وفد کی نظروں کے سامنےچینی کھانوں سے بھری میز کا منظر گھوم رہا ہے،  چینی میزبان ان کی پلیٹیں کھانوں سے بھر رہے ہیں، جن کا تخیل ذرا تیز ہے ،وہ دیکھ رہے ہیں کہ چینی میزبان ان کے منہ میں زبردستی کھانا ٹھونس رہے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں۔ کچھ اپنے آپ کو افریقہ کے آدم خور قبیلے میں گھرا محسوس کر تے  ہیں، جن کے گرد انسانی کھوپڑیوں  کے جام اٹھا کر جھومتے قبائلی “ہالالا ہو۔۔۔ہالالاہو” کے نعرے لگاتے گھوم رہے ہیں۔ریسٹورنٹ جاتے ہوئے گاڑی نے کسی اشارے پر بریک لگائی توایک وفدی بڑبڑا کر اٹھا اور سیدھا میزبان کے پاس پہنچا کہ بس ہو گیا ، اب کسی عربی یا پاکستانی ریسٹورنٹ پر لے جایا جائے۔چینی میزبان مسکراتا ہے اور اسے اطمینان  دلانے کی کوشش کرتا  ہے کہ آج کا کھانا کل کے کھانے سے مختلف ہو گا۔اور آج خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ ذائقہ پاکستانی ذائقے کے قریب ہو۔چینی میزبان ویسے بھی اپنے پروگرام کے غلام ہوتے ہیں، جو انہیں تحریری طور پر پروگرام دیا جائے اس پر سو فیصد عمل کرواتے ہیں۔لیکن یہ سرکاری وفدی پھٹ پڑا کہ امریکہ میں تو یہ ہوتا ہے کہ جاتے ہی ہمیں کسی پاکستانی ہوٹل لے جایا جاتا ہے اور جتنے دن کا ہمارا قیام ہو اتنے دن کا کھانا پیک کروا دیتے ہیں ۔ نہ بھی کروائیں تو وہاں میکڈونلڈ ہے، کے ایف سی ہے، پیزا ہٹ ہے۔

جو ہوئی سو ہوئی، کھانے کی میز پر ان صاحب کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی ۔ پلیٹ میں مرغے کی ایک بوٹی تھی جو دیکھنے میں پاکستانی لگ رہی تھی لیکن ان صاحب کا دعویٰ تھا کہ نہیں یہ کھانے میں  بالکل چینی لگتی ہے۔اسی کیفیت میں وہ میزبان کے پاس گئے اور  تقریباً ہیجانی کیفیت میں چیخے کہ”تم یہ جوکھاتے ہو کیا تمہیں دل کادورہ نہیں پڑتا۔” شکر ہے سرکاری وفدی کی اپنی انگریزی بھوک کی وجہ سے کمزور ہو چلی تھی اور چینی بھی اردو کی آمیزش والی انگریزی سمجھ نہیں سکا  ورنہ سی پیک کو ایک جھٹکا  تو ضرور لگتا۔

خیر وجہ کوئی بھی ہو، چینی بابا ہمارا امتحان لینےپر تلا تھا۔ کریدتے کریدتے وہ ہمیں سی پیک منصوبے کی ادائیگیوں تک لے آیا۔ایک سرکاری پاکستانی ماہرمعاشیات نے تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان یہ قرضوں کا بار آسانی سے اتار پھینکے گا، چین کو اس میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔لیکن وہ بار بار ایک فرضی منظرنامے میں پوچھ رہا تھاکہ بالفرض نہ ادا کر سکے تو؟ ہم سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ امریکہ، دہشت گرد اور چین، ان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟لیکن ہم نے اپنے ذہنوں پر زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں سمجھااور بیجنگ کے گوشت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل پاکستانی دکھتا ہے۔ چینی بابا مسکرا کر بولا ، لیکن اس کا ذائقہ خالصتاً بیجنگ کا ہے اور اس ذائقے تک پہنچنے میں سینکڑوں برس لگے ہیں۔ہمارے وفد کے سربراہ نے اپنے نیپکن کو سمیٹے ہوئے کہا ” آلو گوشت کی ثقافت ہر ملک میں اپنی ہوتی ہے۔”اس پر وہ چینی بابا سر پر ہاتھ مار کر بولا” اچھا! ثقافتی تبدل (Cultural Difference) ” جیسے اسے کسی بات کی سمجھ آگئی ہو۔وہ مسکرایا، ہم بھی ا س کے ساتھ مسکرائے۔وہ ہنسا، ہم بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے اور یہ ہنسی قہقہوں میں بدلنے لگی۔ایک بڑے قہقہے کے بعد ڈکار آئے اور چینی کھانا ہضم ہو چکا تھا۔اب ہمیں انڈین ریسٹورنٹ کی تلاش میں نکلنا تھا کہ اپناکھاناکھائے پانچ دن سے زیادہ ہو چکے تھے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...