کیلاش قبیلے کی ثقافت و تاریخ

2,067

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع چترال میں کوہ ہندوکش کے بلندو با لاپہاڑوں اور ہرے بھرے درختوں کے بیچ میں محصور کیلاش قبیلے نے کئی صدیوں سے اپنی منفرد ثقافت، زبان اور مذہب کو زندہ رکھا ہو ا ہے۔کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔اگر چہ دنیا نے بہت ترقی کرلی، دنیا میں بسنے والی اقوام نے اپنے رہن سہن کے طریقے بدلے، اپنی روایات میں جدید دورکے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کیں لیکن اس تہذیب کو ماننے والوں نے نہ ثقافت کو مرنے دیا نہ اپنے طور طریقوں کو۔ یہ لوگ اپنی معاشرت اور رسم ورواج کے اعتبار سے نہایت قدیم تمدن کی یاد دلاتے ہیں اور اپنے انہی رسوم و رواج کی بدولت موجودہ زمانے میں منفردحیثیت رکھتے ہیں۔

چترال کی وادی کیلاش میں آباد تہذیب کے باسیوں کی ابتداء سے متعلق حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں اوریہاں کے لوگوں کے نسلی اجداد کاتعین بھی کرنا مشکل ہے تاہم اس ضمن میں دو نظریات ہیں۔ پہلے تصور میں کیلاش قبیلے کے بارے میں کہا جاتاہے وہ افغانستان کے راستے سکندر اعظم کے ساتھ آئے تھے اور یہاں کے ہوکر رہ گئے۔ چترال سے تعلق رکھنے والے استاد، دانشور اور تاریخ دان محمد عنایت اللہ اپنی تحقیقی کتاب اشپاتا میں کیلاش زبان وادب، ثقافت، رسم ورواج اور یونانی زبان وادب، ثقافت اور رسم ورواج میں موجود مماثلت پر تفصیل سے تحقیق کی ہے اور وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ کیلاش یونانیوں کے نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

نئی تاریخِ چترال کے مصنف مرزامحمد غفران لکھتے ہیں کہ ’’اس قوم کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں کہ وہ باشگل کے اصل باشندے تھے دسویں صدی میں وہ اس ملک چترال میں آئے اور یہاں کے ہوگئے۔ وہ خود یقین رکھتے ہیں کہ یہ لوگ سیام سے آئے ہیں، وہ یقین سے یہ بیان نہیں کرسکتے ہیں کہ سیام کہاں ہے۔ بعض مورخین نے یہ بیان کیا ہے کہ سکندراعظم یا دوسرے جرنیلو ں کے سپاہ کے پسماندہ لوگوں کی اولاد ہیں جو باشگل(کنڑاور نورستان۔افغانستان) کی وادیوں میں رہ گئے تھے۔ مگر اس کا بھی کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا ‘‘۔

اس کے برعکس ماہرین آثارقدیمہ کی جدید تحقیق کے مطابق کیلاش کے لوگ آریائی نسل سے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق سربراہ پروفیسراسرارالدین جو خود چترال سے تعلق رکھتے ہیں اپنی کتاب’’تاریخِ چترال کے بکھرے اوراق‘‘ کہتے ہیں کہ چند سال پہلے چترال میں آرکیالوجی کی ٹیم کے سروے کے دوران گندھارا تہذیب کی قبروں کے چند ثبوت بھی دریافت کیے ہیں جن کی روشنی میں کیلاش قبیلے کے بارے میں آریائی نسل سے ہونے کے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس منصوبے کے سرپرست نامور ماہر آثاریات و مردان یونیورسٹی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی کا حوالہ دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دریافت ہونے والی قبریں تقریباَ تین ہزار سال پرانی قبریں ہیں جو ساؤتھ ایشین آرکیالوجی کی نئی اطلاعات سے مشابہت رکھتی ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ کیلاش آریائی ہے یا یونانی یا کوئی اور نسل لیکن تحقیق اوردریافت ہونے والے باقیات اور آثارکے مطابق یہ قوم مسلم حملہ آوروں کی آمد سے پہلے چترال پر حکمران تھی جس کو کیلاش دور کہا جاتا ہے۔ دورحاضر کے بعض جدیدمحققین نے لداخ کے دور دراز پہاڑی سلسلوں میں ایک ایسی نسل دریافت کی ہے جس کے رہن سہن کے طور طریقے، رسم و رواج، ثقافت اور زندگی کے بیشترمعمولات چترال کے کیلاش سے ملتے جلتے ہیں جس کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی جاتی ہیں کہ شاید زمانہ قدیم میں چترال سے لیکرگلگت، سکردواورلداخ تک کا علاقہ کیلاش تہذیب کے زیرسایہ رہاہو او جس کی باقیات اب بھی چترال کی وادی کیلاش اور سکردوسے ملحق لداخ میں موجود ہیں۔

دونوں تصورات سے یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کیلاش تہذیب قبل از مسیح سے آباد چلی آرہی ہے۔ کیلاش قبیلے کی زبان کیلاشہ یا کلا شوارکہلاتی ہے۔کیلاش پاکستان کی واحد قو م ہے جو سال میں سب سے زیادہ تہوار مناتے ہیں، کیلاش کے لوگ دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں، جس میں چلم جوش اور چوموس شامل ہے۔ چوموس سب سے اہم اور مشہورتہوار ہے جو 14 دن تک جاری رہتا ہے۔ یہ تہوار ان کی عبادت بھی ہے اور ثقافت بھی۔ یہ تہوار دسمبر میں منایا جاتا ہے۔

چوموس جس کو چھترمس بھی کہاجاتا ہے ایک سالانہ مذہبی تہوار ہے جوکہ ہر سال کی طرح اس سال بھی دسمبر میں منایا گیا۔ یہ تہوار کیلاش تہذیب میں سب سے اہم تہوار ہے جو عباد ت بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اس لیے یہ تہوار ان کیلئے روحانی تازگی کے ساتھ ساتھ جسمانی مسرت بھی ہے۔ یہ ان کے سال کا اخری تہوار ہوتا ہے جو 8 دسمبر سے شروع ہوکر 22 دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ حسب روایات یہ تہوار تینوں وادیوں میں انتہائی پرامن ماحول میں منایا گیا۔ دنیا کو کیلاش قبیلے کی قدیم روایات سے روشناس کرانے کیلئے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کیلئے چوموس تہوار میں شرکت کا اہتمام کیا۔ اس تہوار میں یہ لوگ سردیوں سے بچاؤ اور سخت کٹھن حالات سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔اس تہوار میں کیلاش کے لوگ اپنے رب کے لیے، اپنے مرئے ہوئے لوگوں، رشتہ داروں اور اپنے مال مویشیوں کیلئے عبادت کرتے ہیں اور انکی سلامتی کے لیے دعاکرتے ہیں۔

چوموس فیسٹیول میں مختلف قسم کے تہوار جس میں شیشہ، جیسنوک،چانجہ، بون فائر، منڈاہیک اور شارا بیرایک سمیت مختلف رسومات شامل ہیں ادا کی جاتی ہے۔

شیشہ کی رسم میں وادی کی تمام عورتیں اپنے کپڑوں اور برتنوں کو صاف کرتی ہیں اور مرد اور عورتیں پاکیزگی میں رہتے ہیں۔ کیلاش کے لوگ تین دن کیلئے روپوش ہوجاتے ہیں، مرد تین دن مویشی خانے میں گزارتے ہیں اور اس دوران مرد کم از کم پانچ (آٹے اور اخروٹ) روٹیاں بناتے ہیں جو رسم ختم ہونے کے بعد وادی میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اسی دوران کسی مسلمان کو ان کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ان کے بقول ان کے خدا ان دنوں میں وادی سے گزرتے ہیں اور ان کی عبادت کو لے کر جاتے ہیں۔ان دنوں میں یہ لوگ قربانیاں بھی کرتے ہیں جس کا خون جاسٹک عبادت گاہ(ٹیمپل)اور اپنے چہروں پر چڑکتے ہیں تاکہ یہ لوگ صاف ہو۔ ان کے بقول یہ وہ وقت ہے جب ان کے خدا وادی میں آتے ہیں۔

جیسنوک رسم بھی اس تہوار میں ادا کی جاتی ہیں۔ اس رسم میں پانچ سے سات سال کے بچوں کو کیلاش کے نئے کپڑے پہنا کر ان کو بپتسمہ دیا جاتا ہے۔ اس تہوار کے آخری تین دونوں میں، جس میں یہ لوگ قربانی کرتے ہیں اور ساری رات عبادت کرتے ہیں اور ناچتے ہیں، مسلمانوں سے دور رہتے ہیں۔ان دنوں میں مسلمانوں کو نہ اپنے گھروں میں گھسنے دیتے ہیں اور نہ چھونے دیتے ہیں اور نہ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں۔

اس تہوار میں مرداور عورتیں شراب پیتے ہیں اور تین دن کی روپوشی کے بعد یہ لوگ اپنی جگہوں سے باہر نکل آتے ہیں اور جس کے بعد یہ لوگ ساری رات ایک  جگہ پر جمع ہوکر رقص کرتے ہیں اور گیت گاتے ہیں۔ یہ انُ کا سا ل کا اخری دن ہوتا ہے۔

اس تہوار کے آخری روز لویک بیک کا تہوار ہوتا ہے جس میں کیلاشی قبیلے کے مرد،خواتین، بزرگ اور بچے  نئے کپڑے پہن کر مل کر رقص کرتے ہیں اور نئے سال کی خوشیاں مناتے ہیں۔

ان تہواروں میں عورتیں اونی سوتی کپڑوں کی لمبی قمیض پہنتی ہیں جسے سنگچ کہتے ہیں۔ انکے لباس میں دلچسپ پہناوا ان کی ٹوپی ہے جو کمرتک لٹکی ہوئی ہوتی ہے، اس پر مونگے سیپیوں کا خوبصورت کام کیا گیا ہوتا ہے جسے پِھس کہتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پرآٹھ لڑکے اور لڑکیاں رسم کے مطابق بھاگ کر دوسری وادی میں چلے گئے جو بعد میں آکر شادی کا اعلان کرتے ہیں۔ اس رسم کو مقامی زبان میں اڑاشنگ کہاجاتا ہے۔ لوگ ان کے گھروں پر جاکر مبارک باد دیتے ہیں۔

کیلاش قبیلے کا دوسرا بڑا تہوار چلم جوش ہے جو سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے اعلان کے ساتھ سردیوں کے تکلیف دہ حالات کو رخصت کیا جاتا ہے اور بہار کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یہ شکرانے کی ایک رسم ہے اور عبادت بھی جو سردیاں گزرنے کے بطورشکرانہ منایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے بقول جب ارد گرد سخت سردی ہو اور برف باری پڑی ہو اور کٹھن حالات ہوں، جس میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے، اس میں جب اللہ آپکو بہار کا موسم دیکھنے کا موقع دیتاہے تو کیونہ شکرانے کا تہوار منایا جائے۔

وادی میں تین دن تک رقص وموسیقی، پینے پلانے اورلذیزکھانوں کا بندوبست کیاجاتا ہے۔ تہوارمیں جیسنوک کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے جبکہ گل پاریک کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے، جس میں گاؤں کے تمام زچہ و بچہ پر ایک نوجوان دودھ چھڑکتا ہے اور خواتین اس نوجوان کو چیہاری کا ہار پہناتی ہیں۔ اس تہوار میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے جیون ساتھی چُنتے ہیں اور ان کی شادیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔

یہ تہوار کیلاش قبیلہ تین وادیوں رامبور،بمبورت اور بریر میں ادا کیا جاتا ہے، جس کے لیے ملک سمیت بیرونی ممالک سے بھی سیاح شرکت کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہونے والے اس دو ہفتہ چوموس فیسٹیول کے لیے بھی انتہائی کٹھن اور دشوارگزار راستوں کے باوجودپاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔

لیکن کیلاش قبیلے کے لوگ اپنے منفرد ثقافت اور مذہب کو درپیش چیلنچز کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ اس کی آبادی میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ پچھلے سال ہونے والی مردم شماری کے مطابق ان تین وادیوں میں بسنے والے کیلاشیوں  کی تعداد چار ہزار ہے جو چند سال پہلے سات ہزار سے متجاوز تھی۔ دوسرے طرف یہاں پر آباد مسلمانوں کے تعداد 19 ہزار تک چاپہنچی ہیں اور یہاں پر کئی مساجد اور مدارس آباد ہوچکے ہیں جو یہاں پر مسلسل تبلیغ کررہے ہیں۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے کلچر کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے، جس طرح یونان کی حکومت نے انکی نسل اور زبان محفوظ کرنے کیلئے بمبوریت میں  ایک بڑا میوزیم تعمیر کیا ہے۔ کیلاش قیبلے سے پہلے منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی وزیر زادہ نے کہا کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کیلاش کی ثقافت کو قومی ورثہ قرار دے کر ان کا تحفظ یقینی بنائے۔

صوبائی حکومت نے کیلاش کے لیے 16 کروڑ روپے منظور کیے ہیں، جس میں چھ کروڑ سے ان کیلیے قبرستان بنایا جائیگا اور باقی رقم ان کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے کیلاش قبیلے کی سورج بینی کی رسم کو عالمی ثقافتوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

یہاں کے لوگوں کی کمزور معاشی حالت کی وجہ قبیلے کے چندافراد  کا اسلام قبول کرنا  بتائی جاتی ہے، قبیلے کے ایک فرد کے انتقال پر تیس چالیس بکرے ذبح کیے جاتے ہیں جس پر پندرہ سولہ لاکھ خرچہ آجاتاہے جو عام لوگ برداشت نہیں کرسکتے۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انسفراسٹرکچر کو بہتر کرے، ہو م بیس گیسٹ ہاؤسز بنائے اورکیلاش لوگوں کیلئے انڈونمنٹ فنڈ بنایا جائے جس کے چھوٹے چھوٹے قرضے انہیں دیے جائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...