یوم آزادی اور پاکستان کے قابل افتخار مسیحی

1,113

14اگست 2017 کو پاکستان کا 71واں یوم آزادی منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر ہم نے مناسب سمجھا کہ اپنے قارئین کی خدمت میں پاکستان کے چند قابل افتخار مسیحیوں کا تعارف پیش کریں۔ نیز پاکستان کی مسیحی برادری کے ساتھ اپنی ہم آہنگی اور محبت کا اظہار کریں۔ پیش نظر سطور ہماری اسی فکر اور اسی جذبے کی غماز ہے۔
پاکستان کے مسیحیوں کو ہی نہیں بلکہ سب پاکستانیوں کو ان نامور مسیحی شخصیات پر افتخار ہے کہ جن کے نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔ ان میں پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس، پاکستان کی انتظامیہ کے اہم سپوت سمیوئیل مارٹن برق، آئی جی کے منصب تک پہنچنے والے دلشاد نجم الدین کے علاوہ عاشر عظیم، ذیشان لبھا مسیح، پروفیسر سلامت اختر، فادر عنایت برنارڈ، رولینڈ ڈیسوزا، نذیر فقیر، کولن ڈیوڈ، وائس متھائس، موہنی حمید، آئرن پروین، ایڈووکیٹ عمانویل ظفر، گلوکار سلیم رضا جیسے معروف نام شامل ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج میں بھی مسیحی فرزندوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور داد شجاعت پائی ہے۔ ان میں ائیر کموڈور نذیر لطیف کا نام نمایاں ہے، وہ 1965اور 1971کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ ان میں دو دفعہ ستارۂ جرأت پانے والے پاکستان ایئر فورس کے مارون لیسلے مڈل کوٹ کا نام بھی آتا ہے۔ 5مسیحی افسر پاک فوج میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں۔ 22 مسیحی افسر بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے۔ ان میں سے ۔بہت سوں نے مختلف معرکوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے

 

۔ 1971کی جنگ میں دفاع پاکستان کے لیے لاہور،قصور اور سیالکوٹ سیکٹر پرتعینات 18یونٹوں میں سے 9یونٹوں کی کمان کرنے والے مسیحی افسران تھے۔ کئی مسیحی افسر مسلح افواج کی اکیڈمیوں میں مختلف ادوار میں اعزازی شمشیر حاصل کر چکے ہیں

 

۔ 7مسیحی افسروں نے ستارۂ جرأت، 3نے تمغہ جرأت،9نے ستارۂ بسالت اور 9نے تمغۂ بسالت مادر وطن کا دفاع کرنے کے اعتراف کے طور پر حاصل کیا۔ کئی ایک مسیحی افسر اور جوان مادر وطن پر اپنی جان بھی قربان کر چکے ہیں۔
پاکستان کی عدلیہ میں سے چند محترم ترین ناموں میں سے ایک جسٹس کارنیلیس کا ہے۔ عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھ کر انھوں نے جو نیک نامی کمائی ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔
مارٹن سموئیل برق مسیحی برادری کا ایک اور قابل افتخار نام ہے۔ ان کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور جوہری پالیسی کے بانیوں میں سے ہیں۔

کئی ایک محققین نے تاریخ پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے لیے مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی شخصیت ہے کہ اگروہ پنجاب اسمبلی میں قیام پاکستان کے حق میں ووٹ کاسٹ نہ کرتی تو شاید پاکستان وجود میں نہ آتا۔ یہ شخصیت ایس پی سنگھا کی ہے جن کے بارے میں مشہورہے کہ اگر وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے تو پنجاب پاکستان میں شامل نہ ہوتا۔

سلیم رضا کے خوبصورت گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔اللہ نے انھیں بڑی دلنشین، میٹھی اور سریلی آواز عطا کی تھی۔ وہ گیت جو گائے گئے اور امر ہو گئے ان میں سلیم رضا کے کئی ایک نغمے شامل ہیں مثلاً: اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں، جانِ بہاراں ،رشک چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن اور میرے دل کی انجمن میں تیرے غم سے روشنی ہے جیسے ناقابل فراموش گیت سلیم رضا ہی نے گائے ہیں۔
موہنی حمید کا نام ہم بچپن میں ریڈیو پاکستان سے سنتے تھے اس لیے کہ وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کا ہفتہ وار پروگرام لے کر آتی تھیں اور آپا شمیم کا کردار ادا کرتی تھیں۔ وہ ریڈیو پاکستان میں براڈکاسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہیں۔ انھیں متعدد اعزازات بھی عطا ہوئے تھے جن میں ریڈیو پاکستان کا گولڈن مائیک، گریجویٹ ایوارڈ اور حکومت پاکستان کا تمغۂ امتیاز بھی شامل ہیں۔
حال ہی میں ایک مسیحی مصنف اعظم معراج نے ایک اہم کتاب لکھی ہے جس میں وہ مسیحیوں کو اپنی دھرتی سے جوڑنے اور دھرتی کے فرزند کی حیثیت سے اپنی شناخت پر فخر کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے پروین شاکر کے ایک خوبصورت شعر کے ذریعے اپنے دل کی بات دلآویز انداز سے بیان کی ہے:
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
وہ لکھتے ہیں کہ ’’مسیحی نوجوانوں کو یہ سبق رٹانا ہے کہ تم اس دھرتی کے بیٹے ہو ،قیام میں اور تعمیر و دفاع پاکستان میں تمھارے اجداد کا قابل فخر کردار ہے۔ لہٰذا اس دھرتی اور معاشرے کو اپناؤ اور اس میں ترقی کرو۔‘‘
آج بھی پاکستان کے مختلف حصوں میں اور مختلف شعبوں میں انسانی اور معاشرتی خدمات انجام دینے والوں میں قابل احترام مسیحیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ انہی میں محترمہ ڈاکٹر فلیمینیو ڈاروگوجانسن کا نام بھی شامل ہے۔ وہ صحرائے تھر کی تحصیل چھاچھر ضلع تھرپارکر کے ایک ہسپتال میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں، غریب اور ضرورت مند مریضوں کا مفت طبی علاج کررہی ہیں۔
آج جب کہ میں یہ حروف قلمبند کررہا ہوں بی بی سی نے ایک سرخی لگائی ہے ’’پاکستان کی مدر ٹریسا نہیں رہیں‘‘۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والی جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں انتقال کر گئی ہیں۔1960میں انھوں نے اپنے وطن کو خیر باد کہا۔ 1961میں کراچی سے انڈیا گئیں جہاں انھوں نے جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال کی تربیت حاصل کی جس کے بعد واپس کراچی آئیں۔ یہاں انھوں نے جذام کو کنٹرول کرنے کا پروگرام شروع کیا۔ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1979میں انھیں وفاقی محکمہ صحت نے جذام کے بارے میں معاون مقرر کیا۔ ڈاکٹر رتھ نے 1996میں بالآخر جذام پر قابو پا لیا یوں ایشیا میں پاکستان پہلا ایسا ملک قرار دیا گیا جہاں جذام پر قابو پایا جاچکا تھا۔
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستان کی مسیحی آبادی کو اس ملک میں کئی طرح کی سماجی اور معاشرتی مشکلات درپیش ہیں۔ دہشت گردی کی لہر نے بھی ان کی زندگی پر خوف اور وحشت کے سائے مسلط کیے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے عبادت خانوں پر بھی دہشت گردوں نے حملے کیے ہیں۔ مسیحی برادری کے کئی ایک لائق فرزند دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں لیکن ہم اپنے پاکستانی مسیحی بہن بھائیوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے عفریت کا نشانہ فقط و ہی نہیں ہیں بلکہ پاکستان کی مسلح افواج، پولیس اور کئی ایک دیگر طبقات بھی ہیں۔ محب وطن پاکستانی اور تمام انسان دوست حلقے اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ہم سب کا غم ایک ہے۔ پاکستان کے حقیقی مسلمان جو 99فیصد سے بھی زیادہ ہیں دہشت گردوں کو انسانیت اور ملک کا دشمن سمجھتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں جس روز قانون کی عملداری قائم ہو جائے گی اور قانون سب کے لیے مساوی ہو جائے گا اس دن پاکستان ایک حقیقی،اسلامی اور فلاحی ریاست بن جائے گا۔ اس ریاست میں مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو پاکستان کا آئین انھیں دیتا ہے اور جس کی طرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے 11جون 1947کے تاریخی خطاب میں اشارہ کیا تھا۔
ہم اپنی اس تحریر کو قائداعظم کے اسی خطاب سے ماخوذ ان جملوں میں پر ختم کرتے ہیں:
’’اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہیے۔ خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب۔ اگر آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت اور اقلیت، صوبہ پرستی اور فرقہ بندی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔
ہندوستان کی آزادی کے سلسلہ میں اصل رکاوٹ یہی تھی، اگر یہ نہ ہوتی تو ہم کبھی کے آزاد ہو گئے ہوتے۔ اگر یہ آلائشیں نہ ہوتیں تو چالیس کروڑ افراد کو کوئی زیادہ دیر تک غلام نہ رکھ سکتا تھا۔
یورپ خود کو مہذب کہتا ہے لیکن وہاں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک خوب لڑتے ہیں۔ وہاں کی بعض ریاستوں میں آج بھی افتراق موجود ہے مگر ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے۔ یہاں ایک فرقے یا دوسرے فرقہ میں کوئی تمیز نہ ہوگی ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کررہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں۔ آپ آزاد ہیں، آپ اس لیے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا پاکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادتگاہ میں جائیں۔ آپ کا تعلق کسی مذہب ،کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور آپ یہ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندونہ رہے گا اور مسلمان مسلمان نہ رہے گا مذہبی مفہوم میں نہیں کیوں کہ یہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں، اس مملکت میں، اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے۔‘‘

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...