حج اور سیکیورٹی

دوسری قسط

255

ہمارے ہاں کہیں دو چار بندے جمع ہو جائیں تو قانون نافذ کرنے، امن بحال رکھنے، سیکیورٹی دینے اور معلومات جمع کرنے کو قسم قسم کے اداروں کے لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ اکثر ان اداروں کے بیچ افہام و تفہیم کا فقدان ہوتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ عموماً ایک ادارہ دوسرے ادارے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا نظر آتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہجوم سے زیادہ سرکاری لوگ ہوتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد افسروں کی ہوتی ہے۔

حج کے دوران مکہ میں اس کی اصل آبادی سے کوئی تین گنا لوگ جمع ہوتے ہیں۔ وہ بھی غیر ملکی جو اس ملک کی زبان اور قاعدے قانون سے ناواقف۔ پچیس تیس لاکھ لوگ ایک عمارت (حرم شریف) کے اردگرد رہتے ہیں اور روزانہ پانچ وقت اس کی طرف آتے ہیں۔ حج کے ایام میں منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں تو ناقابل یقین ہجوم ہوتا ہے۔ اس ہجوم کے ساتھ قسم قسم کے مسائل ہوتے ہیں، مثلاً مختلف راستوں اور مناسک کی ادائیگی کی جگہوں پر ہجوم کو برابر تقسیم کرنا کہ کہیں ہجوم حد سے بڑھ نہ جائے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم، ٹرانسپورٹ کی سہولت کا انتظام وغیرہ پیچیدہ معاملات ہیں۔ پھر خواتین اور مردوں کے مسائل ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہجوم کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ایک کثیر فورس کی ضرورت ہونی چاہیے۔

لیکن عملاً حج کے دوران بہت کم فورس نظر آتی ہے۔ حرمین کے اندر ان کی اپنی فورس ہے جس کا اصل کام ہجوم کو مینیج کرنا لگتا ہے۔ یعنی لوگوں کو یکساں تعداد میں ہر طرف تقسیم کرنا تاکہ ایک جگہ رش کی صورت حال نہ بنے۔ یہ بہت تربیت یافتہ لوگ لگتے ہیں اور اور ان کا ریسپانس تیز ہوتا ہے۔ وہ ممکن حد تک حاجیوں سے نرم رویہ رکھتے ہیں اور بہت کم کسی کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ تاہم ان کے بے لچک رویے کی وجہ سے سب ان سے ڈرتے ہیں۔ ایک بار حرم مکہ کے بس ٹرمینل پر باہر نکلنے والے حجاج دو قطاروں میں بسوں کی طرف جا رہے تھے۔ ایک بندہ اپنی قطار کے جنگلے کو پھلانگ کر دوسری قطار میں چلاگیا۔ کافی دور سے فورس والے نے اسے دیکھا، آکر اسے بازو سے پکڑ کر باہر نکالا اور ایک منٹ اپنے پاس روک کر چھوڑ دیا۔ اس سے زیادہ اس نے ایک لفط بھی اس سے نہیں بولا۔

ہوٹلوں میں جہاں چھ سات سو بندے ایک بلڈنگ میں رہتے ہیں دو تین وردی پوش لڑکے سیکیورٹی کے لیے لاونج میں بیٹھتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اتنے نو عمر لڑکے کسی فورس میں کیوں بھرتی ہوتے ہیں۔ ایک دن حرم جانے کے لیے بس کے انتظار میں وہاں کھڑا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حرم شریف میں میرے لیے دعا کریں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اس نے اپنا کارڈ دکھایا کہ بوائے سکاوٹ ہے۔ معلوم ہوا کہ سعودی بوائے سکاوٹس کی بڑی منظم تنظیم ہے اور حج کے دوران وسیع پیمانے پر ذمے داریاں نبھاتی ہے۔ حج کے دوران منیٰ اور عرفات میں کیمپوں کے اندر تقریباً ساری سیکیورٹی، کراوڈ مینیجمنٹ اور امدادی کام یہی نو عمر لڑکے کر رہے تھے۔ وہ ڈیوٹی میں بڑے سخت اور کافی تربیت یافتہ معلوم ہو رہے تھے۔ منیٰ میں ان کا شاندار حج ہیڈ کوارٹر بھی نظر آیا۔

عام پولیس منیٰ اور عرفات کی سڑکوں پر تھوڑی بہت نظر آئی۔ ٹریفک پولیس بھی خال خال نظر آتی ہے اور عموماً ایک چھوٹی سی گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے نگرانی کرتے ہیں۔ ڈرائیور قوانین کی سخت پابندی کرتے ہیں حالانکہ پولیس کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ طائف میں ایک جگہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور نے سڑک کے کنارے گاڑی اہستہ کی تو کہیں سے پولیس والا نازل ہوگیا اور جرمانہ کردیا۔ حالانکہ گاڑی پوری طرح رکی نہیں تھی۔
اتنے سارے ہنگامے کے دوران کہیں فوجی نفری یا گاڑی پر نظر نہیں پڑی۔ جدہ سے مکہ، مکہ سے طائف اور مدینہ تک کوئی ہزار کلومیٹر چلے ہونگے، لیکن کہیں کوئی فوجی کیمپ، چھاونی بلکہ کانوائے تک نظر نہیں آئی۔

جو بھی فورس والے نظر آتے ہیں ان میں سے کسی کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا۔ بندوق اور پستول تو دور کی بات، ڈنڈا بھی نہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ عرفات میں ایک پولیس افسر کی کمر میں پستول تھا، لیکن میں نے خود وہ بھی نہیں دیکھا۔ البتہ سڑکوں پر ڈیوٹی کرنے والوں کی بیلٹ میں چھتریاں بندھی ہوئی تھیں۔

فورس والوں کے علاوہ کوئی سول افسر (جس کے ساتھ سیکورٹی، پروٹوکول وغیرہ ہو) نظر نہیں آیا۔ حرم مکہ کے باہر کافی فاصلے پر ایک پولیس سٹیشن کی عمارت ہے لیکن وہاں بھی باہر کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

مسجد نبوی کے ہر بڑے دوازے کے باہر کی طرف اونچی شاندار کرسیوں پر دو دو افراد معزز لباس پہنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ یہاں کے روایتی دربان ہیں جن کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے ان کی حیثیت علامتی ہے اور وہ معمول کی نگرانی سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...