مکران، جو کبھی نیشنلزم کی سیاست کا فخر ہوا کرتا تھا

524

کسی دور میں مکران بلوچ نیشنلزم سیاست کی اس لحاظ سے مرکز ہوا کرتا تھا کہ یہاں سرداری و قبائلی نظام متعارف نہیں تھا۔ یہاں سیاسی عمل سے اُبھرتے رہنما فکری و اصولی طور پر بلوچ و بلوچستان کی پسماندگی اور انکی بقا کا مقدمہ سیاسی، جمہوری اوراصولی بنیادوں پر لڑتے آرہے تھے۔
اُس وقت جب ہمارے بزرگوں نے بلوچستان کا مقدمہ لڑنے کا سیاسی فیصلہ کیا تو مختلف طلبا تنظیمیں عظیم سیاسی مفادات کی خاطر تنظیمی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوگئیں اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) جیسی عظیم تنظیم کی داغ بیل ڈال دی۔ اس تنظیم کو اُس وقت بلوچ نیشنلزم سیاست کی مادر آرگنائزیشن کا درجہ رہا اور آج بھی بلوچتسان کا کوئی لیڈر چاہے کسی بھی سوچ یا جماعت سے اسکی وابستگی ہو مگر اس کی بنیاد یہی بی ایس او رہی ہوگی اور وہ اپنی محفلوں میں فخریہ طور کہتا ہوگا کہ وہ اس عظیم تنظیم کے ایک کیڈر ہیں، نجی زندگی کا آج کل کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا گفتگو کرتے ہیں مگر حقیقت یہی یہی ہے کہ ہم سب کی ماضی یہی ہے۔ ہمیں اس پر آج بھی فخر ہے۔ بی ایس او کے فکری و نظریاتی ساتھی عملی طور بلوچستان سمیت ملک بھر میں ایک مقبول طلبا تنظیم کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔
ہر ایک کا نعرہ تھا ”مکران میں دیکھو! بی ایس اور، سراوان، جھلاوان میں دیکھو! بی ایس او، رخشان، بولان نصیر آباد اور کوہ سلیمان میں دیکھو بی ایس او، یہ محض نعرے نہیں تھے بلکہ اُسوقت بی ایس او منظم اور مضبوط فکری تنظیم تھی جس سے دیگراقوام کی سیاسی تنظیمیں بھی بی ایس او کو ہی رول ماڈل کے طور پر انکی طرز سیاست سے متاثر تھے اور اپناتے تھے۔
پھر ہمیں تاریخ میں یہ دیکھنے کو بھی ملتا ہے کہ “بی ایس او کے کور بانی ممبر بھی” بھٹو ازم سے متاثر ہوکر اُن کے گرویدہ بن گئے۔
بی ایس او سے لیکر نیشنل عوامی پارٹی اور پھر بی این وائی ایم کی قیام تک یہ سب مڈل کلاس اور گراس روٹس کے سیاسی کارکن تھے جو کہ ایک مضبوط کمٹمنٹ کیساتھ بلوچستان و دیگر مظلوم اقوام کا سیاسی مقدمہ لڑتے رہے۔ جب پاکستان پیپلز پارٹی نےنیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی قیادت پر بغاوت کا مقدمہ بنا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ نیپ کو کالعدم قرار دیا، اکثریتی سیاسی کارکنوں پر غداری کے مقدمے لگائے گئے، سب بھکر گئے۔۔۔
پھر بی ایس اور سے فارغ التعصیل رہنماؤں نے سوچا کہ بغیر جماعت کے وہ بلوچستان کا مقدمہ بہتر انداز میں نہیں لڑ سکتے ہیں انہیں فیڈرئشن کے اندر رہتے ہوے بلوچستان کے مسلے کا سیاسی حل نکالنا ہوگا وہ عوام کی طرف گئے انہوں نے “ بلوچ نیشنل یوتھموومنٹ ( بی این وائی ایم) کی بنیادی رکھی ، میں زیادہ تر بلکہ اکثریت اُنکی تھیں جو حال ہی میں بی ایس او سے فارغ ہوئے تھے، یہ ایک منظم فکری و سیاسی جماعت تھی اسکی بنیادی مکران میں بہت مضبوط تھی، اسکی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب مکران میں میر غوث بزنجو صاحب الیکشن میں حصہ لے رہے تھے تو اسکے مقابلے میں بی ایس او نے “ بلوچ نیشنل الائنس ( بی این اے) کے پلیٹ فارم سے مکران سے اُس وقت کےایک سیاسی رہنما کو میر صاحب کے مقابلے میں کھڑا کیا اور میر صاحب کو شکست ہوئی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ پھر یوں ہواکہ وہ نواب اکبر خان بگٹی کی جماعت ( جمہوری وطن پارٹی) میں شامل ہوگئے اور آہستہ آہستہ ہم نے میر غوث بزنجو کے فلسفے پہ چلنا شروع کیا اور آج اسی کی طرز سیاست کو اپناتے ہوئے میر صاحب کی ہی طرز سیاست سے بلوچستان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔

سراوان جھلاوان ، رخشان، نصیر آباد کے علاوہ مکران بھی اصولی اور فکری سیاست کا ایک مضبوط قلعہ ہوا کرتا تھا اور اسکی ایک روشن و منفرد پہلو یہ تھی کہ یہاں سرا دار و قبائل نظام نہیں تھا یہاں کی عوام سیاسی عمل سے تبدیلی لانے پہ یقین رکھتے تھے۔ آج مکران کی سیاست کو ایک بری نظر لگ گئی یہاں کے سیاسی روایت سیاسی کلچر کو داغ دار کیا جارہا ہے ، پولیٹیکل ایڈونچر پلئ” بن گیا ہے ہر چیز کی شروعار یہاں سے کیا جاتا ہے۔ آج سے چند سال قبل یہاں کی پہچان قوم پرستی اور روشن خیالی کی سیاست سے کی جاتی تھی مگر اب یہ سیاسی تجربہ گاہ بنتا جارہا ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے گزشتہ دنوں چند سیاسی موسمی پرندے مکران جیسے نظریاتی و فکری و اصولی سیاست اور ساسی ماحول سے نکل کر اس نیت سے “ پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) کی طرف اُڑہان کرتے ہیں کہ شاید اگلی “ پی پی “ کی ہے۔ کیا یہ سطحی سوچ نہیں ہے کیا وہ جو عوامی منڈیٹ کا دعوی کرتے آرہے ہیں انہیں اب عوام کی طاقت پہ یقین و اعتبار ختم ہوچکا ہے یہ اپنی عوامی منڈیٹ پہ شک ہے؟ اگر وہ خود ایلیکٹیبل کہتے ہیں کیا الیکٹیبل کو اپنی طاقت پہ اعتماد نہیں ہے یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ماضی میں وقت و حالات کے پیداوار ہیں اب اس ماحول کے اندر انکی سیاسی بقا خطرے میں ہے انہیں ماضی میں عوام کی طاقت سے نہیں بلکہ “ سیلیکٹڈ “ کے طورانہیں موقع دیا گیا؟ سیاسی احترام عوام کی طاقت سے ملتا ہے اگر کسی کا عوام کے اندر مقبولیت نہیں ہے انکا کسی بھی جماعت میں جانا کسی بھی صورت پارلیمانی سیاست میں انکے عوام کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا، ہمیں اپنے عوامی طاقت پہ یقین و فخر محسوس کرنا چایئے ایسے ہر سال میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے سے بلوچستان کا اصولی جس پہ ہم فخر کرتے آرہے ہیں داغ دار ہوگا ہمیں اپنے سیاسی ااکابرین اور سیاسی رویت اور اصول کا ترجیع بنیادوں پر خیا رکنا ہوگا۔
نام نہاد الیکٹیبلز یہ گوراہ تک نہیں کریں گے کہ جس نے اسکے لیے قربانیاں دی ہے اور اسٹریٹ میں دن رات اسکے لیے ہر دوسرے کیساتھ اپنے لیے خطرہ موڈ لیتا ہے انکو اعتماد میں لیں۔ بس راتوں رات “ بسم اللہ” ۔ وہ اب بھی اس خوش فہمی میں ہیں کہ انہوں نے “ بلاول ہاوس “ میں اپنا ایک تاریخی پسمنطر بیان کرتے ہوئے ہزاوں ووٹ اور عوامی طاقت کا دعوی کیا ہوگا لیکن ایسے فیصلے کرتے وقت اپنا سیاسی” ڈائینمک” دیکھنا انتہائی ضروری ہے مکران کی عوام اتنا بھی بیوقف نہیں ہے کہ وہ اُس ( پیپلز پارٹی) کو ووٹ کرے کہ ماضی قریب میں اس نے بلوچستان کے ساتھ کیا کیا ۔ نا ماضی میں ہوتا تھا اور نا ہی اب مستقبل میں ایسا ہوا محسوس ہورہا ہے ابھی تک تو یہ ایک “ ایکسائیٹمنٹ” ہے اس عارضی جوش سے نکل کر علاقے کی عوام تسلی سے سوچے گا اور بہت جلد عجلت پر کئے گئے فیصلے پر پچتائے گا۔
اب ہمارے سیاسی جماعتوں کو ایک مضبوط سیاسی حکمت عملی کیساتھ کاوؐنٹر حکمت عملی اپنانا ہوگا، انہیں ماضی کی طرح گھر گھر تک جانا ہوگا اور ایسے موسمی پرندوں کی ماضی کو عوام کے سامنے آشکار کرنا ہوگا۔ انکی کارکرگی کو عوام کے سامنے لانے کے لیے اتنا بڑا کام نہیں ہے اور نا ہی وہ اتنے شاندار کارکردگی کے مالک ہیں کہ وہ صدیوں تک عوام کے دلوں میں راج کرتے ہیں اور نا ہی ہمارا سوسائٹی جنونی ہے، مکران کے عوامی نے ہمیشہ عقل سے کام لیتے ہوئے سیاسی فیصلے کئے اور آج بھی یہی امید کی جاتی ہے۔ کوئی اگر اپنے صوبے کا وفادار نہیں ہوگا وہ کسی کا بھی نہیں ہوگا یہ اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی کرتے ہیں، وہ وقت دور نہیں ہے کہ یہ “ پی پی پی” سے بھی اُڑہا پھر لیں گے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم میں شامل نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالماک بلوچ نے ( پی ڈی ایم) کے ایک جلسے میں بھی اس بات کا زور دیا کہ ہمیں ایسے سیاسی مسافروں سے ہوشیار رہنا چائیے وہ کسی کے بھی نہیں ہوسکتے ہیں، کاش انکی اس موقف کو پالیسی بناتے ، مگر مرکزی جماعتیں ہمیشہ ایسے عمل سے بینیفشری ہوتے آرہے ہیں ۔
میرے خیال میں سیاست میں اسمبلیوں تک پہنچنا سب کچھ نہیں ہے سیاست میں انسان کے کچھ اصول ہونے چایئے اور یہی اصول انہیں تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے اور انکی وراثت سنھبالنے والے بھی مستقبل میں معاشرے میں سر فخر سے بلند کرکہ غرور کیا کرت ہیں کہ وہ بھی سیاسی اصولوں پہ قائم رہنے والے اکابرین کی لیگیسی ہیں۔
چند ایک ایسے بھی ہیں کہ جسکے ساتھ قوم پرست جماعتیں بااعتماد لیول پہ بات چیت کررہے تھے بلکہ فائنل “ اینگز” چل رہا تھا، مگر وہ بھی اس کا خیال کئے بغیر عجلت میں اُس کاروان کا حصہ بنا جسکا بلوچستان میں ابھی تک اسکے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ۲۰۲۳ کے الیکشن کے بارے میں ابھی تک کچھ کہنا قبل از وقت ہے، بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں ابھی تک اتنی کمزور بھی نہیں ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...