طالبان کا اسلام مختلف کیوں؟

مراکش سے انڈونیشیا تک مسلم معاشروں نے آزادی اور انسانی حقوق کی جدید اقدار کے ساتھ عملی مطابقت پیدا کی ہے۔ اسلامی تعاون کی تنظیم سمیت بہت سے مسلم ممالک اور گروپوں نے افغان طالبان کی خواتین کے حقوق سلب کرنے کی پالیسیوں کی مذمت کی ہے جس میں ان کے لیے اعلیٰ تعلیم پر حالیہ پابندی بھی شامل ہے۔

208

افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اسلام کے احکام کی اپنی تشریح کی بنیاد پر شرعی قوانین کا نفاذ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان ان مسلم ممالک میں شامل ہے جنہوں نے خود کو افغان طالبان کے اسلامی تصور اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے نقطہ نظرسے دور رکھا ہے۔ تاہم طالبان کی اسلام کی تشریح کے حوالے سے قدامت پسندی باقی مسلم دنیا کے مقابلے میں پاکستان کے لیے زیادہ سخت چیلنج ہے۔
یہ صرف طالبان حکومت کے مذہبی عقیدے اور نظریاتی پریشانی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ پریشانی پاکستانی معاشرے کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ادارے ٹی ٹی پی اور طالبان کے دیگر ساتھیوں کے بارے میں بھی زیادہ فکر مند نظر آتے ہیں جنہوں نے ان کے اسٹریٹجک نظریات کو چیلنج کیا ہے۔ طالبان اور اس سے منسلک عسکریت پسند گروپ پاکستان کی اسٹریٹجک کمیونٹی کے اس تاثر کی جانچ کر رہے ہیں کہ ملک میں مدارس کے ساتھ طالبان کی وابستگی ریاست کے لیے سیاسی سرمایہ ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے ایک حالیہ ویڈیو پیغام میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا گروپ ایک ’جہاد‘ کر رہا ہے جس کی پاکستانی مدارس کے اساتذہ تبلیغ کرتے ہیں۔
مسلم ممالک بجا طور پر طالبان کے اسلام کے بارے میں فکر مند ہیں کیونکہ یہ نظریاتی سے زیادہ ایک سیاسی چیلنج ہے۔مراکش سے انڈونیشیا تک مسلم معاشروں نے آزادی اور انسانی حقوق کی جدید اقدار کے ساتھ عملی مطابقت پیدا کی ہے۔ اسلامی تعاون کی تنظیم سمیت بہت سے مسلم ممالک اور گروپوں نے افغان طالبان کی خواتین کے حقوق سلب کرنے کی پالیسیوں کی مذمت کی ہے جس میں ان کے لیے اعلیٰ تعلیم پر حالیہ پابندی بھی شامل ہے۔ تاہم طالبان رہنماؤں کا اصرار ہے کہ ان کی پالیسیاں اسلامی فقہ پر مبنی ہیں۔ اگرچہ او آئی سی نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنی شمولیت کی پالیسی ترک نہیں کی ہے لیکن اگر کابل اپنی نظریاتی مہم جاری رکھتا ہے تو وہ اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ پاکستانی مذہبی اسکالرز نے ’اسلامی امارت‘ کے مؤخر الذکر تصور میں طالبان کی حمایت کی تھی۔تاہم اقتدار سنبھالنے سے پہلے جب طالبان کابل اور غیر ملکی فوجیوں کے خلاف جنگ میں مصروف تھے، پاکستانی علما اپنی سابقہ ​​رائے پر نظر ثانی کرتے ہوئے نظریاتی حمایت سے پیچھے ہٹ گئے۔مذہبی طبقہ کی جانب سے حمایت پر نظر ثانی اس وقت سامنے آئی جب ملک میں مذہبی طور پر تشدد اور نفرت کی لہر میں اضافہ ہوا،جس نے معاشرے کی بنیاد کو نقصان پہنچایا۔ اس صورت حال نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نظریاتی طور پر مبنی اسٹریٹجک سوچ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔
15 جنوری 2018 کو ایوان صدر میں قومی، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں پیغام پاکستان کے نام سے ایک اعلامیہ کا اجراء کیا گیا۔ دستاویز کا پہلا حصہ ایک تمہید پر مشتمل ہے جس میں نظریاتی اور سیاسی صورتحال کا سیاق و سباق کا تجزیہ کیا گیا ہے۔دوسرے حصے میں مذہبی احکام کا ایک مجموعہ تھا، جس پر ابتدائی طور پر ملک کے تمام مذہبی مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والے 1,829 مذہبی اسکالرز نے دستخط کیے تھے۔اعلامیہ میں دہشت گردی، فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے ذریعے اپنے نظریے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔
اعلامیہ پر دستخط کرنے والے مذہبی اسکالرز نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری، ہم آہنگی، باہمی احترام اور انصاف پر مبنی معاشرے کے لیے کام کریں گے تاکہ پرامن بقائے باہمی کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔اعلامیہ کے سیاق و سباق کو بیان کرتے ہوئے، پیغام پاکستان کی دستاویز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے مطابق “زیادہ سے زیادہ قانون سازی” کی گئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کالعدم فرقہ وارانہ اور عسکریت پسند تنظیموں کے چند سربراہوں نے بھی اعلامیہ پر دستخط کیے، جن میں افغانستان اور بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں جہاد کی حمایت کرنے والے علمائے کرام بھی شامل ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے جس بیان کا حوالہ دیا گیا ہے ، اس میں اشارہ پاکستانی مذہبی اسکالرز اور علماء کے ماضی میں جاری کئے گئے فتووں اور مدارس میں جاری جہاد کے حامی عمومی ماحول کی طرف ہے۔ویڈیو پیغام میں نور ولی محسود نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کا جہاد پاکستانی علمائے کرام کے فتووں کی روشنی میں شروع کیا گیا تھا، اور “اگر اس فتوے کے نفاذ میں کوئی کوتاہی ہے، اور … ہماری طرف سے کوتاہی ہے، یا اگر ہم نے اپنے فیصلے میں جہادی سمت تبدیلی کی ہے ، پھر آپ ہماری رہنمائی کریں اور بحث کریں، [اور] ہم آپ کے دلائل سننے کے لیے تیار ہیں۔ پھر مزید کہا”کہ یہ علمائے کرام کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی “آپ کی خاموشی کو اپنے حق میں ایسے سمجھتی ہے [جیسے] آپ ہمارے ساتھ شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں”۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویڈیو پیغام کے جاری ہونے سے عین قبل پاکستانی علمائے کرام خیبر پختونخواہ کے ایک گروپ نے ایک اور فتویٰ جاری کیا تھا جس میں پیغام ِ پاکستان کی طرز پر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ کسی فرد یا لوگوں کے گروہ کو جہاد کے اعلان کرنے کا حق نہیں ہے اور یہ صرف ریاست کا استحقاق ہے ۔ اس طرح کے دلائل کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، ٹی ٹی پی نے تنظیم کے ڈھانچے کو تبدیل کر دیا ہے۔ عسکریت پسند گروپ کو ‘ولایہ’ (حکومت) میں تبدیل کر دیا ہے اور قبائلی اضلاع کے لیے ایک متوازی ‘گورننس’ نظام کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔طالبان اور ٹی ٹی پی کا یہ بھی استدلال ہے کہ دارالعلوم دیوبند، جہاں سے وہ اپنی نظریاتی اور سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں، نے برصغیر پاک و ہند سے انگریزوں کو نکال باہر کیا تھا، اور مجاہدین گروپوں نے سوویت یونین کو کچل دیا تھا اور نیٹو افواج کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
ان تمام دلائل کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان کے مذہبی علماء کو ٹی ٹی پی کے چیلنج کا جواب دینا چاہیے۔سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اس نظریاتی تصور کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس پر اس کی اسٹریٹجک سوچ بڑی حد تک استوار ہے۔دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان کو ہونے والے بھاری نقصانات کے باوجود یہ سوچ بدستورموجود ہے۔یہی سوچ، یعنی طالبان آخرکار ٹی ٹی پی کو ناکارہ بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کریں گے، عسکریت پسند گروپ کے ساتھ مذاکرات کے پیچھے ایک عنصر تھا اور اس نے مؤخر الذکر کو پاکستان کی طرف دوبارہ راستہ فراہم کیا۔ریاستی اداروں نے کئی بار علمائے کرام سے مدد کی اپیل کی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔لیکن اس کے باوجود، سٹریٹجک کمیونٹی میں سے چند ایک افغانستان کے ساتھ تاریخی، نظریاتی اور سیاسی روابط کے انہی دلائل پر زور دیتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے تجویز کیا گیا، پاکستان کو ایک نئی افغان پالیسی کی ضرورت ہے جو باہمی تعاون اور ایک عملی نمونہ پر مبنی ہو۔مذہبی اسکالرز ٹی ٹی پی کے بیانیے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے بارے میں طالبان کے خیالات کی از سر نو تشکیل کے لیے زبردست دلائل پیش کر کے مدد کر سکتے ہیں۔یہ ایک طویل عمل ہوگا۔سب سے پہلے، اس کے لیے پاکستانی علمائے کرام کی جانب سے سنجیدہ علمی کاوش کی ضرورت ہے، کیونکہ مسئلہ صرف فتوے اور اعلانات جاری کرنے سے حل نہیں ہوگا۔علمائے کرام پوری مسلم دنیا کے علماء کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔تاہم سوال یہ ہے کہ آیا وہ اس کام کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...