کیا یہی ہمارا مقدر ہے؟

871

نظریہ اور عمل میں فرق سے معاشرے تباہ حال ہوجاتے ہیں، نہ ارادے میں مضبوطی آتی ہے اور نہ عمل میں استحکام۔ کانپتے ہاتھوں نشانہ ٹھکانے پر نہیں بیٹھتا۔

گذشتہ روزکے ایک اخبارکے صفحہ نمبرآٹھ کے نچلے نصف میں درج ایک دو کالمی خبر پڑھ رہا تھا۔ جس میں لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے ایک کیس اور سپریم کورٹ کی طرف سے لیے جانے والے از خود نوٹس کی روداد شامل تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے دو معروف کمپنیوں کے ڈبہ پیک دودھ اور جوسز کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی کیوں کہ خبر کے مطابق جان لیوا کیمیکلز کے ذریعے دودھ بنایا جا رہا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے ناقص خوراک سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے قراردیا کہ ڈبہ پیک دود ھ اور مضر صحت منرل واٹر( ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں) ” عوام” میں ہیپا ٹائٹس اور کینسر کا باعث بن رہے ہیں۔ جبکہ ناقص پولٹری فیڈ سے تیار کیے گئے برائلرکے ذریعے موت بانٹی جا رہی ہے۔ میں سوچنے لگاکہ کیا یہ زہر خورانی دہشت گردی کی بھیانک ترین شکل نہیں ہے؟

ابھی ان “غیر اہم سی” خبروں کے بقیہ نمبرز 35 اور48 ، صفحہ نمبر 5 پر ڈھونڈنے میں مصروف تھا کہ ایک دیرینہ دوست کا فون آ گیا۔ اس نے اپنے کسی جاننے والے سے ایک تازہ تازہ واقعہ سنا تھا اور اس حوالے سے میرا موقف معلوم کرنا چاہتا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ اس کے ایک رشتہ دار کی اہلیہ کو ہیپا ٹائٹس ہوا۔ وہ کچھ عرصہ زیر علاج رہیں مگر شفا یا یاب نہ ہو سکیں۔ ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے دیا اور حیات مستعار کے باقی ماندہ ایام گھر میں بسر کرنے کا مشورہ دیا۔ اس بات کی اطلاع ان کے کسی دوسرے ضلع میں رہنے والے عزیز کو ہوا تو اس نے انھیں مشورہ دیا کہ مریضہ کو کسی طرح فوری طور پر ان کے ہاں لے آئیں۔ ان کے قریب ایک بابا جی رہتے ہیں جو کہ سرسوں کا تیل دم کر کے دیتے ہیں جسے سر پر لگانے سے مریض بالکل شفا یاب ہو جاتا ہے۔ سو انھوں نے ایسا ہی کیا اور چند روز وہ تیل سر پر لگانے سے مرض جاتا رہا۔ مریضہ جسے ڈاکٹروں نے چند روز کا مہمان بتایا تھا کئی سالوں سے صحت مندزندگی گذار رہی ہے۔وہ یہ واقعہ سنا کرایک تو جدید علاج معالجہ کے بودے پن اور بے حقیقت ہونے کا یقین کرنا اور دلانا چاہتا تھا نیز حفظان صحت کے اصولوں کی جگہ روحانی طاقتوں کے توسط سے علاج کا معترف ہونا چاہ رہا تھا۔

میں نے ایک بار پھر خبر کا بقیہ نمبر 35 اور 48 ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اس دوران مجھے کل کی تاریخ کے ایک بڑے اخبار کے نمایاں کالم نویس کا کالم یاد آنے لگا۔ جس میں دنیا کی اکثر سائنسی ایجادات و اکتشفات کا سر چشمہ ” وجدان” کوقرار دیا گیا تھا۔ اوراس پر مستزاد مقدر، نصیبہ اور قسمت کے لکھے کواٹل قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا تھا۔اور یہ بھی کہ مقدر کو بدلنے کی کوشش بھی مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ اور اس کوشش میں مقدر کا بدل جانا اور تقدیر کا ٹل جانا بھی مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ یا للعجب! موصوف ” کوشش” کے نظریہ کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے اور مقدر کے روایتی تصور کو ترک کرتے ہوئے بھی لرزاں و ترساں ہیں۔ کیا یہ کنفیوژن ہمارے دانشوروں کا مقدر ہے؟ مجھے وہ صوفی شاعر بھی یاد آنے لگاجو اپنی بیماری کو اللہ کی مرضی سمجھتے ہوئے اپنے غم خواروں کی نیک تمناوں اور دعاوں تک کا برا منا رہا :

مرضی  یار کے خلاف نہ ہو…. لوگ میرے لیے دعا نہ کریں

یہاں یار سے مراد محبوب حقیقی ، اللہ تعالیٰ ہے۔یعنی اللہ اگر مجھے بیمار رکھنا چاہتا ہے تو اللہ کی مرضی کے خلاف لوگ دعا کیوں کر رہے ہیں !

ہمارے ہاں کے مروجہ عقیدہ کے مطابق بیماری سے متعلق پہلے سے” لکھا ” ہوتا ہے۔ کب آئے گی کب جائے گی۔ موت کا بھی ایک دن معین ہے۔ لیکن یہ نظریہ رکھنے کے با وجود جب بیمار ہوتے ہیں تو اس کے علاج کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ بیماری نہ جائے تو علاج بدلتے ہیں ،طریقہ علاج بدلتے ہیں۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹر، درگاہوں پر سجدہ ریزیاں، حضرت صاحب سے دعائیں۔ یہ سب کاہے کے لیے؟ کہ مریض مو ت سے بچ جائے۔ بچ جائے تو فخریہ کہیں گے یہ علاج کرایا وہ کوشش کی۔نہ بچے تو کہیں گے لکھی ہی اتنی تھی۔ کوئی نہیں پوچھے گا کہ جب لکھا ہی یہ تھا تو پھر تگ ودو کیسی۔ یہ نظریہ اور عمل میں فرق ہی تو ہے جس سے معاشرے تباہ حال ہوتے ہیں۔ نہ ارادے میں مضبوطی آئے گی نہ عمل میں استحکام۔ کانپتے ہاتھوں نشانہ ٹھکانے پر نہیں بیٹھتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...