کیا قائد اعظم سیکولر تھے؟

2,032

جناح سیکولر تھے ، مذہبی نہیں، اس بحث سے قطع نظر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 11اگست کے بعد کی تقریروں سے وہ کسی طور بھی سیکولر ثابت نہیں ہوتے۔

پاکستان ایک مسلم مملکت یا مذہبی حوالے سے آزاد خیالات کی حامل ریاست ہے یا نہیں ہے؟ قیام پاکستان سے لے کر اب تک نا مکمل ہونے والی ایک طویل بحث ہے۔مذہبی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست قائم ہونی چاہیے ۔جس کی اساس مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ حتیٰ کہ معیشت بھی سود سے پاک بینکاری کے حوالے سے کی جاتی ہو۔ وہ اس لیے کہ سود اسلام میں حرام ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اسلامی بینکاری کا خیال پہلی بار کب اور کِس نے پیش کیاتھا؟اسلامی نظام کے حامی غالباً اس سے بے خبر ہیں۔ اسی طرح پی پی پی والوں کو یہ نہیں معلوم ہوگاکہ ان کی پارٹی کے منشور اسلامی سوشلزم کا تصور پہلی بارکب پیش کیا گیاتھا ۔یہ سب آگے چل کر آپ کو بتائیں گے، فی الوقت ہم موضوع کی جانب لوٹتے ہیں، یعنی کیا قائد اعظم سیکولر تھے؟ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے روشن خیال ادیبوں اور دانش وروں کی رائے ہے کہ قائد اعظم سیکولر تھے۔ اُن کے پاس دلائل کا کوئی انبار تو نہیں ہے۔لے دے کہ 11 اگست 1947ء میں جناح صاحب کامجلس دستور ساز پاکستان سے خطاب ہے جس کا ایک منتخب حصہ ذیل میں دیا جارہا ہے ۔
’’ہمیں اس جذبے کے ساتھ کام شروع کردینا چاہیے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت، ہندو فرقہ اور مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی تو پٹھان پنجابی شیعہ اور سُنی وغیرہ وغیرہ موجود ہیں۔ اس طرح ہندوؤں میں بھی برہمن، ویش، کھتری ہیں اور بنگالی اور مدراسی ہیں۔ سچ پوچھیں تویہی چیزیں ہندوستان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا توہم کب کے آزاد ہو گئے ہوتے۔کوئی طاقت دوسری قوم کو اپنا غلام نہیں بنا سکتی بالخصوص اس قوم کو جو چالیس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہو، اگر یہ کمزوری نہ ہوتی تو کوئی اس کو زیر نہیں کرسکتا تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کوئی آپ پر طویل عرصہ تک حکمرانی نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکتِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
یہ تو ہوگئی 11اگست 1947ء کی جناح صاحب کی تقریر کی بات آئیے اب اُن کی11اگست کے بعدکی جانے والی تقاریر اور دیئے جانے والے بیانات کاایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ ان تقریروں کے مطالعے کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ جناح صاحب پاکستان میں ایک سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے یااسلامی نظامِ حکومت۔
30اکتوبر1947ء کو یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ:
اب میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقتِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔ اپنا حوصلہ بلند رکھیئے۔ موت سے نہ ڈرئیے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ موت کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کا وقار بچانے کے لیے اس کا مردانہ وارسامناکرنا چاہیئے۔ صحیح مقصد کے حصول کی خاطر ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر اور کوئی راہِ نجات نہیں۔
قائد اعظم نے 30اکتوبر1947ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی نشری تقریر میں پاکستان کی مملکت کا نقشہ یوں بیان کیا:
جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت ہے اور دنیا کا پانچویں نمبر پر سب سے بڑا خودمختار ملک۔ اب ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے یہ وقت اور موقع ہے کہ وہ اپنی قوم کی خدمت کے لیے اپنا مکمل اور بہترین کردار ادا کرے، بڑی سے بڑی قربانی پیش کرے۔
25جنوری 1948ء کی عید میلاد النبی کے حوالے سے کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایاکہ:
وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائد اعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔‘‘ گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا کہ، جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں انھیں بتادینا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگ اس پروپیگنڈے سے گمراہ ہوگئے ہیں، کہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ ’’اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔‘‘
19 فروری 1948ء کو جناح صاحب نے آسٹریلیا کے عوام سے اپنے نشری خطاب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
’’ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول خداﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں، ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں، جس میں حق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابرہیں۔ نتیجتاً ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔‘‘
26 مارچ 1948ء کو انھوں نے سابق مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلادیش کے شہر چٹاگانگ میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
’’ آپ میرے جذبات کی اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی قطعی اساس معاشرتی انصاف اور اسلامی سوشلزم پر استوار ہونی چاہے جو مساوات اور انسانی اخوت پر زور دیتا ہے۔‘‘
17اپریل 1948ء کو گورنمنٹ ہاؤس پشاور میں قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
’’ میں چاہتا ہوں کہ ہر مسلمان فرد مسلمانوں میں باہم مکمل اتحاد قائم کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کر دے اور میری مدد اور حمایت کرے۔ مجھے اعتماد ہے کہ آپ اس کام میں کسی فرد یا پاکستان کے کسی بھی علاقے سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ ہم مسلمان ایک خدا، ایک کتاب یعنی قرآن حکیم اور ایک رسول(ﷺ) پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے بھی متحد ہوکے رہنا چاہیئے۔‘‘
یکم جولائی1948ء کو بینک دولت پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر پاکستان میں بینکاری کے نظام کے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ آپ کا تحقیقی شعبہ بینکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا میں ان کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابل حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے، جن کا اسے اس وقت سامنا ہے۔یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دور کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔‘‘
معروف مورخ ، دانش ور اور ہمارے استاد ڈاکٹر مبارک علی کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ ایک تقریر کے سہارے آپ کبھی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ جناح سیکولر تھے ، مذہبی نہیں، اس بحث سے قطع نظر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 11اگست کے بعد کی تقریروں سے وہ کسی طور بھی سیکولر ثابت نہیں ہوتے۔ اگر وہ لوگ جو پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں تووہ اس تقریر کو چھوڑ کر پاکستان میں ایک سیکولر معاشرے کے قیام کے لیے عملی جدوجہد کریں۔

نوٹ:بلاگ میں دی گئی تقاریر اور بیانات، اقتباسات وزارتِ اطلاعات و نشریات، نظامت فلم و مطبوعات حکومتِ پاکستان اسلام آباد کی جانب سے 1989ء میں شائع کردہ کتاب ’’قائد اعظم محمد علی جناحؒ ‘‘ تقاریر اور بیانات بحیثیت گورنر جنرل پاکستان1947-48ء سے لیے گئے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...