نیشنل پارٹی بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں کے نشانے پر

1,222

2013ء سے اب تک پارٹی کے درجنوں کارکنوں اوران کے رشتہ داروں کوبلوچ لبریشن فرنٹ کے شدت پسندوں کے حملوں میں ہلاک کیاگیاہے

وفاق اوربلوچستان میں مسلم لیگ(نواز) کی اتحادی نیشنل پارٹی پرکالعدم بلوچ شدت پسندتنظیموں بالخصوص بلوچ لبریشن فرنٹ کے شدت پسندوں کے حملوں کاسلسلہ جاری ہے۔گزشتہ روزبلوچستان کے علاقے تربت میں نامعلوم افراد نے نیشنل پارٹی کے دفتر پر دستی بم سے حملہ کیا جس سے پانچ کارکن زخمی ہوگئے۔ ضلعی پولیس سربراہ عمران قریشی کے مطابق نیشنل پارٹی کے ضلعی دفتر پر دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے پیر کی صبح دستی بم پھینکا جو دفتر کے اندر گر کر زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ واردات کے بعد ملزمان فرار ہوگئے۔ڈان اخبارکی رپورٹ کے مطابق دھماکےکے نتیجے میں دفتر میں موجود نوکارکن زخمی ہوگئے جنہیں طبی امداد کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال پہنچایا گیا۔ پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے تربت میں نیشنل پارٹی کے دفترپربم حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاکہ ’’ آج سرمچاروں نے تربت بازار میں بلوچ نسل کشی میں ملوث ریاستی جماعت نیشنل پارٹی کے دفتر پر بم حملہ کیا ہے۔ نیشنل پارٹی بہت پہلے قوم پرستی کے دائرے سے نکل کر ایک وفاق پرست پارٹی بن چکی تھی۔ لیکن بعد میں اس سے بھی ایک قدم آگے نکل کر اپنے رہبروں کی سربراہی و نگرانی میں ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دے کر فوج کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے‘‘۔
نیشنل پارٹی پریہ حملہ پہلانہیں ہے۔ بلوچ شدت پسند تنظیموں کے 2013ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کوردکرتے ہوئے نیشنل پارٹی میں عام انتخابات میں حصہ لیا اورمکران ریجن سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ مل کربلوچستان اورمرکز میں حکومت سازی کی جہاں مری میں طے پائے جانے والے ایک معاہدے کے تحت نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ عبدالمالک بلوچ کوڈھائی سال کے عرصے کے لئے وزیراعلیٰ بلوچستان کاعہدہ دیا گیا جبکہ حال ہی میں پارٹی کے نئے صدرمیرحاصل بزنجو کوپورٹ اینڈ شپنگ کی وفاقی وزارت دی گئی۔ البتہ حکومت میں شامل ہونے کی سزا پارٹی کے ضلع اورتحصیلوں میں پارٹی کارکنوں اوررہنماؤں کودی جارہی ہے۔
نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اورصحافیوں سے انٹرویوزمیں ’تجزیات‘ کومعلوم ہواہے کہ 2013ء سے اب تک پارٹی کے درجنوں کارکنوں اوران کے رشتہ داروں کوبلوچ لبریشن فرنٹ کے شدت پسندوں کے حملوں میں ہلاک کیاگیاہے۔ البتہ صوبے میں فعال بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں میں سے سب سے مضبوط
بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے نیشنل پارٹی ہی کونشانہ بنانے کی کئی وجوہات ہے۔ بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ اورکمانڈر ڈاکٹراللہ نذربلوچ بھی بلوچستان نیشنل موومنٹ نامی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعت میں عبدالمالک بلوچ کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں شریک تھے۔ بعد میں 2003 میں عبدالحئی بلوچ اورعبدالمالک بلوچ کی بلوچستان نیشنل موومنٹ اورسردارثناء اللہ زہری (جواب مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر اوروزیراعلیٰ بلوچستان ہے) اورمیرحاصل بزنجو کی بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے انضمام کے بعد نیشنل پارٹی وجود میں آئی۔ ضلع آواران کے مشکے کےعلاقے سے ایک مڈل کلاس خاندان میں جنم لینے والے اللہ نذربلوچ بلوچستان نیشنل موومنٹ کی اتحادی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں فعال تھے اورمرکزی چیئرمین کے عہدے پرفائزرہے مگربعد میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کی سیاست سے اختلاف رکھتے ہوئے دیگرساتھیوں کے ساتھ مل کربلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کی بنیاد رکھی جو پارلیمانی سیاست کی کھل کرمخالفت اوربلوچستان کی آزادی کی بات کرنے لگی۔طلبہ سیاست کوچھوڑنے کے کچھ عرصے بعدمارچ 2005 ء میں کراچی کے علاقے گلستان جوہرکے ایک علاقے سے اللہ نذر بلوچ کو ڈاکٹرامدادبلوچ اوراس کے بھائی علی نوازگوہرکے ہمراہ قانون نافذکرنے والے اداروں نے حراست میں لیا اورڈیڈھ سال تک انہیں ’’غائب‘‘ رکھا۔ اگست 2006 ء میں وہ ظاہرہوئے اورکوئٹہ میں انہیں کئی ماہ تک جیل میں رکھاگیا۔ بعد میں ضمانت پررہائی کے بعد وہ دوبارہ زیرزمین چلے گئے اوربلوچ لبریشن فرنٹ نامی شدت تنظیم کوفعال کیا۔
اسی عرصے میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے ایک رہنما غلام محمد بلوچ نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے نام سے تنظیم کی جداگانہ حیثیت برقراررکھی اوربلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے ساتھ مل کرپارلیمانی نظام کی مخالفت اوربلوچستان کی علیحدگی کی سیاست کرنے لگے۔ اپریل 2009 ء میں غلام محمدبلوچ ان کے دوساتھیوں لالہ منیر اورشیرمحمد بلوچ کے ہمراہ نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈرکچکول ایڈوکیٹ کے دفتر سے اغواء کیاگیا اوربعد میں ان کی نعشیں برآمد ہوئی۔
بلوچستان کی سیاست سے واقف تجریہ کاروں کاکہناہے کہ شروع میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) اوربلوچ نیشنل موومنٹ اخباری بیانات اورتقاریر سے نیشنل پارٹی کوپارلیمانی سیاست میں حصہ لینے پرتنقیدکرتے تھے مگرصورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب بلوچ قوم پرست حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں مولابخش دستی، نسیم جنگیانہ اورڈاکٹرلال بخش کوہلاک کیاگیا۔ نیشنل پارٹی کے ایک صوبائی رہنما کے بقول ان رہنماؤں کی ہلاکت بلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے نیشنل پارٹی کے لئے ایک پیغام تھا کہ اب سیاسی انداز میں تنقیدکے بجائے حملے کئے جائیں گے۔
2013ء کے انتخابات میں بھی نیشنل پارٹی پربلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے شدیددباؤ تھاکہ وہ انتخابات میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی کال پرانتخابات کابائیکاٹ کریں مگرپارٹی قیادت کا انتخابات میں حصہ لینے پرپارٹی امیدواروں اوررہنماؤں پرانتخابی مہم کے دوران کافی حملےبھی ہوئے۔ حتی کہ عبدالمالک بلوچ پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہموں کے دوران کافی مرتبہ بچے ہیں۔
نیشنل پارٹی کا دائرہ اثر مکران ریجن کے اضلاع آواران، پنجگور، تربت، کیچ، گوادر اوروشوک میں ہے اورانہی علاقوں میں بلوچ لبریشن فرنٹ بھی فعال ہے۔ نیشنل پارٹی کے ایک رکن بلوچستان اسمبلی کے مطابق پارٹی کے اراکین اسمبلی اوررہنما اکثراپنے آبائی علاقوں میں سیکورٹی کی وجوہات پرنہیں جاتے ہیں اورمجبوری کی صورت میں جانے پرسیکیوریٹی ان کے ہمراہ ہوتی ہے۔
کوئٹہ کے صحافیوں کاخیال ہے کہ بلوچ لبریشن فرنٹ نیشنل پارٹی کے نظریاتی اختلافات کے ساتھ ساتھ یہ تاثربھی دیتی ہے کہ نیشنل پارٹی صوبے کی حکمران جماعت رہی ہے اوربلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کی حمایت بھی کرتی ہے۔تربت کی حالیہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتےہوئے بلوچ لبریشن فرنٹ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہاکہ ’’نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما امام بھیل، راشد پٹھان، علی حیدر اور ملا برکت ذکری سمیت کئی رہنماؤں کی سربراہی میں ڈیتھ اسکواڈ قائم ہیں، جو بلوچ نسل کشی، فوجی آپریشنوں، اغوا اور قتل میں فورسز کو آزادی پسندوں کے خلاف ہر قسم کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس میں نیشنل پارٹی کے کارکن ایندھن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے کئی دفعہ مختلف ذرائع سے اِن سے اپیل کی ہے کہ وہ چند عارضی مراعات کے لیے نیشنل پارٹی کی ان پالیسیوں کو آگے نہ بڑھائیں، کیوں کہ یہ نوکری و مراعات ہر ایک کو اپنی اہلیت و صلاحیتوں کے مطابق مل رہے ہیں‘‘۔

ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم صحافی اورمحقق ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...