’غیرمسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان خود کو اُس معاشرت کا حصہ بنائیں‘

1,316

17 فروری بروز سوموار کو پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اور آسٹریلین ہائی کمیشن کے اشتراک کے ساتھ ’آسٹریلیا میں مسلم شناختیں‘ کے موضوع پر اسلام آباد ہوٹل میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے زیرانتظام سینٹر فار مسلم سٹیٹس اینڈ سوسائٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ثمینہ یاسمین نے آسٹریلیا میں بسنے والے مسلم طبقات کی شناخت اور ان کے مسائل کے بارے میں خصوصی گفتگو کی۔ پروگرام میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی مدعو کیے گئے تھے جنہوں نے کلیدی افتتاحی خطبہ دیا۔

سیمینار کے شروع میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز میں پراجیکٹ مینیجر احسن حمید درانی نے معزز مہمانوں اور ادارے کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر قبلہ ایاز نے گفتگو کی جس میں انہوں نے آسٹریلیا میں مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اِس ملک میں مسلمانوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا۔ اگرچہ آسٹریلیا میں زیادہ تر مسلمان آبادی کا تعلق لبنان اور ترکی سے ہے لیکن وہاں دیگر ملکوں کے لوگ بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے آسٹریلیا کے مسلمانوں کو درپیش مشکلات پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے ظہور نے جہاں متعدد مغربی ممالک کو متأثر کیا اسی طرح آسٹریلیا میں بھی اس کی وجہ سے کچھ مسائل سامنے آئے۔ وہاں سے کئی نوجوانوں نے عراق میں داعش کے ساتھ لڑائی میں شرکت کی جس سے آسٹریلین معاشرے میں مسلمانوں کے حوالے سے تحفظات ابھرے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ جس کے مظاہر تمام غیرمسلم ممالک میں محسوس کیے جاسکتے ہیں یہاں بھی نظر آتا ہے، وہ یہ کہ مسلم ممالک سے علما جب ہجرت کرکے آسٹریلیا گئے تو وہ اپنے ساتھ فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات بھی لے گئے، انہوں نے وہاں کے مسلمانوں میں اس کی تبلیغ کی جس سے بنیادپرستی کو ہوا ملی اور مسلم کمیونٹی میں باہمی سطح پر تفریق بڑھی۔

ڈاکٹر ثمینہ یاسیمن نے پروگرام میں مسلم شناخت اور اس کی آسٹریلیا میں فعالیت کی مختلف جہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں مسلمانوں کی ہجرت کی تاریخ اگرچہ قدیم ہے لیکن پچھلی چند دہائیوں کے دوران زیادہ تر مہاجرت مسلم ممالک میں امن کی صورتحال مخدوش ہونے کے بعد شروع ہوئی۔ یہی وجہ ہے 90 کی دہائی سے جب دنیا میں عدم استحکام بڑھا تو آسٹریلیا میں مسلم آبادی میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اس ملک میں اب مسلمان کُل آبادی کا 2.6 فیصد ہیں۔ آسٹریلیا میں حکومتی و سماجی سطح پر مختلف طبقات کے لیے کھلی اسپیس موجود ہے، انہیں اپنی ثقافت و مذاہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ چونکہ وہاں ہجرت کرنے والے مسلمان مختلف خطوں سے تعلق رکھتے ہیں لہذا یہ تنوع مسلم طبقے کے اندر بھی واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی مسلم آبادی اپنی اپنی مساجد، ان کے طرزِ تعمیر، کھانوں کے تنوع اور ثقافتی مراکز کا آزادی کے ساتھ اظہار کرسکتی ہے۔ تاہم آسٹریلوی حکومت اس مسلم طبقاتی تنوع کے بارے میں مکمل معلومات رکھتی ہے۔ وہ اس پر بھی تحقیق کرتی ہے کہ مسلم طبقات میں تنوع کے مختلف مظاہر کے کیا مثبت یا منفی اثرات ہیں اور ان کا آسٹریلوی معاشرت کے ساتھ تعامل میں رویہ کیسا ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ کونسی فکر کس طرح کے تشخص کی آبیاری کرتی ہے اور وہ ملک کے لیے کس حد تک سازگار ہے۔

نائن الیون کے بعد کے مرحلے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آسٹریلیا میں اب خواتین بھی مذہبی حلقے میں قیادت کرتی نظر آتی ہیں

ڈاکٹر ثمینہ یاسمین کا یہ بھی کہنا تھا نائن الیون کے بعد مسلم شناخت کا تصور پوری دنیا میں مجروح ہوا، اس کے اثرات آسٹریلییا میں بھی ظاہر ہوئے۔ نہ یہ کہ حکومت اور مقامی لوگوں نے اس کے بعد اسلام کے متعلق مزید جاننے کی کوشش کی اور اس حوالے سے مسلم معاشروں میں بنیاد پرستی کے مظاہر کا جائزہ لیا، تحقیق کی، بلکہ خود وہاں رہنے والے مسلمانوں میں بھی مذہب کے بارے میں معلومات کی حد تک اور عملی سطح پر دین سے زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی۔ مسلمانوں نے ایکدوسرے کے ساتھ بھی ربط بڑھایا اور اپنی شناخت کے تعین کے لیے مختلف فکری نظریات سے قریب ہوئے۔ شناخت کے بارے میں حساسیت کا یہ شعور نائن الیون سے قبل نہیں تھا۔

انہوں نے آسٹریلیا میں دو نمایاں مسلم فکری طبقات پر خصوصی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ ماقبل نائن الیوں مرحلے میں سلفی فکر اتنی مضبوط نہیں تھی، لیکن اس کے بعد سلفی نظریات کی مساجد اور اس کے اسٹڈی سرکلز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ڈاکٹر یاسیمن کے مطابق لوگ مذہب کی زیادہ تعلیم آن لائن مذہبی ویب سائٹس سے حاصل کرتے ہیں یا پھر اپنے ممالک سے ہجرت کرکے آئے علما سے معلومات لیتے ہیں۔ معلومات کے ان دونوں ذرائع میں عمومی غلبہ روایتی دینی نظریات کے حامل طبقات کا ہے۔ سلفی فکر کے مقابل مذہب کی ترقی پسند شکل بھی موجود ہے جس میں وہ نوجوان کردار ادا کر رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں حالات اور معاشرت کے مطابق اسلام  کی تعبیر پیش کرنی ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی ایک تعداد صوفی تعلیمات و مسلک سے بھی متأئر نظر آتی ہے۔ نائن الیون کے بعد کے مرحلے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آسٹریلیا میں خواتین بھی مذہبی حلقے میں قیادت کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی تنظیموں میں اضافہ ہوا ہے جنہیں عورتیں چلا رہی ہیں۔

آسٹریلیا میں شرعیہ اور فقہی ادب کے حوالے سے اجتہادی پیش رفت پر ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ وہاں اس طرح کے باقاعدہ حلقے و مراکز موجود نہیں ہیں جیساکہ برطانیہ میں یہ رجحان نظر آتا ہے۔ البتہ مسلم آبادی میں اس کی ضرورت کا شعور پختہ ہو رہا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر ثمینہ یاسمین کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے وہ آسٹریلیا سمیت جس بھی غیرمسلم ملک میں ہیں وہ خود کو اس معاشرت کا حصہ سمجھیں اور اس میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اگر ان کے اندر اس سماج سے بیگانگی اور دوری کا احساس موجود رہے گا تو ان کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے اور وہاں کی حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...