قبائلیوں کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک کیوں؟
ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ جانی ومالی قربانیاں دی ہیں۔ اس بات کا اعتراف وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت ملک کے تمام صاحب اختیار حلقے بھی کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے قربانیاں دینے کے باوجود آج گزشتہ تین ہفتوں سے صوبائی اسمبلی کے باہر دھرنے دیے بیٹھے قبائلیوں کی بات سننے تک کے لیے کوئی تیار نہیں۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران فوجی آپریشنوں اور دہشت گردی کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مکانات، دکانیں اور مارکیٹس کا معاوضہ مانگنے کے لیے ان دونوں اضلاع کے متأثرہ عوام تین ہفتوں سے پشاور میں صوبائی اسمبلی اور ضلع ٹانک میں ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان کے دفتر کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی قصبے میران شاہ سے تعلق رکھنے والے درجنوں دکانداروں اور تاجروں کا احتجاجی دھرنا پشاور میں 29 جنوری جبکہ جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کا دھرنا 26 جنوری کو شروع ہوا تھا۔ یہ لوگ حکومت سے اپنےعلاقوں میں کوئی ترقیاتی کاموں، تباہ شدہ سڑکوں و اسکولوں کی تعمیر کا مطالبہ نہیں مانگ رہےہیں بلکہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ راست اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران تباہ شدہ مکانات اور مارکیٹوں کا معاوضہ مانگ رہے ہیں۔
احتجاج میں شریک میران شاہ کے دکانداروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ لگ بھگ ایک سال قبل حکومت نے ضلعی ڈپٹی کمشنر کے ذریعے ان کے ساتھ سرکاری ماکیٹ کی زد میں آنے والی زمین کا معاوضہ 45 لاکھ روپے فی مرلہ طے کیا تھا مگر اب صرف 15 لاکھ روپے دیا جارہا ہے۔ جبکہ جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کا اصرار ہے کہ انہیں ان کے گھروں اور دیگر املاک جو فوجی کاروائیوں کے دوران متاثر ہوئے ان کا معاوضہ دیا جائے۔
دونوں اضلاع کے عوام کے دو تین بنیادی مطالبات ہیں جنہیں تسلیم اور منظور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کی گئی سروے رپورٹس پر بھی ان کے اعتراضات ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف سنجیدگی کے ساتھ ان کو سنے بلکہ ان کی شکایات کے ازالے کو بھی یقینی بنائے۔ حکومت کی طرف سے میران شاہ اور میرعلی میں تعمیر کی گئی مارکیٹوں کی ملکیت اور تقسیم کے طریقہ کار پر بھی لوگوں کو اعتراضات ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی مرکزی اور خیبر پختونخوا حکومتیں کیے گئیے وعدوں اور دعوں سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔
ضم شدہ اضلاع سے روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ وہاں امن و امان کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے
مظاہرین کا کہناہے کہ ابھی تک کسی سرکاری عہدیدا یا حکمران جماعت کے کسی وزیر، مشیر یا ممبر اسمبلی نے ان سے کوئی رابطہ تک نہیں کیا ہے۔ تاہم دیگر سیاسی جماعتوں بشمول حزب اختلاف کے رہنماؤں اور ممبران کے وقتاََ فوقتاََ صوبائی اسمبلی کے سامنے جمع ہونے والے مظاہرین کے دھرنوں سے خطاب کرتے رہتے ہیں۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بھی دو تین ممبران صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوچکے ہیں جن میں سے ایک صوبائی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں مگر تینوں میں سے کسی نے بھی ان مظاہرین سے ملنے یا بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
تاہم صوبائی محکمہ ریلیف کے جاری کردہ ایک بیان میں پانچ قبائلی اضلاع میں معاوضوں کی مد میں ابھی تک 24 ارب 42 کروڑ روپے متأثرین کو ادا کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق 3 جولائی 2014ء کی فوجی کاروائی ضرب عضب کے دوران میران شاہ میں 5654 دکانیں متأثر ہوئی تھیں جن کے مالکان اور تاجروں کو 96 کروڑ 21 لاکھ روپے ادا کیے جاچکے ہیں جبکہ میران شاہ ہی کے 69 پٹرول پمپس کے مالکان کو 33 کروڑ 14 لاکھ روپے ادا کیے گیے ہیں۔ صوبائی محکمہ ریلیف ہی کے مطابق جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں ہونے والے فوجی آپریشن راہِ نجات میں 28366 مکانات مکمل طور پر جبکہ 5966 جزوی طور پر تباہ ہوئے تھے۔ مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کے مالکان کو فی مکان 4 لاکھ جبکہ جزوی طور پر متأثر ہونے والے گھر کے ایک لاکھ 60 ہزار روپے معاوضے کی مد میں اب تک 12 ارب 30 کروڑ ادا کیے جاچکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ پانچ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف کاروائی میں متأثر ہونے والے لوگوں کو معاوضوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ میران شاہ کے پٹرول پمپس اور میرعلی کے 3708 دکانداروں اور تاجروں کو معاوضے کی ادائیگی کا سلسلہ مکمل ہوچکا ہے۔ میر علی کے دکانداروں اور تاجروں کو مجموعی طور پر دو ارب 93 کروڑروپے دیے گئے ہیں۔
یہ نقصانات کی ادائیگیوں کے بارے میں فریقین کا موقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور بعض علاقوں میں مکمل معاضے دیدیے گئے ہیں تو احتجاج کرنے والے عوام سے بات چیت کیوں نہیں کی جارہی اور مسئلے کو طول کیوں دیا جا رہا ہے؟
اس کے علاوہ ضم شدہ اضلاع سے روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ وہاں امن و امان کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ عام آدمی سے لے کر سیاسی رہنما قتل کیے جا رہے ہیں۔ بھتہ وصولی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتہاپسند ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں۔
دوسرا مسئلہ پانی، بجلی اور گیس کا ہے۔ ضلع خیبر میں آج بھی لوگ دو بوند پانی کو ترس رہے ہیں، بچیاں پانی بھرنے کی ذمہ داری کے باعث سکول نہیں جا پا رہیں، جبکہ سکولوں کی حالتِ زار بارے تو آئی ایم یو کی رپورٹ کو خود حکومتی ذمہ دار چشم کشا قرار دے چکے ہیں۔ شعبہ صحت کا بھی یہی حال ہے۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر ہر ذی شعور شہری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ حکمرانوں کو اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت کا ادراک کیوں نہیں ہے۔ اگر حکومت نے ہوش کے ناخون نہ لیے تو بہت دیر ہوجائے گی۔
حکومت کی جانب سےغیرسنجیدہ رویہ اور ملک میں قیام امن کے لیے قربانیاں دینے والے قبائلی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ان کے دلوں میں بد گمانیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ماضی سے سیکھتے ہوئے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ان کی بات سنیں بلکہ ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
فیس بک پر تبصرے