مسئلہ سعودی اتحاد کا

875

پچھلے ہفتے ایک کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا- ایک موضوع پر بات کرتے ہوےَ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر گویا ہوےَ کہ امریکہ آج ہماری وجہ سے سپر پاور ہے- ہم نے روس کے خلاف بھی امریکہ کا ساتھ دے کر جنگ جتوائی تھی

معاملہ زبان زد عام ہے- آخر ایسا کیا ہوا کہ مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ نے کئی دنوں کی سیر حاصل بحث کے بعد ایک متفقہ فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو گیا؟

اس سوال کا جواب مجھے صاحبان اقتدار کی چوکھٹ پر لے گیا یا جہاں وہ چوکھٹ سجی میں نے بھی وہیں کا رخ کر لیا- مجبوری تھی- سوال صرف ایک جواب کا تھا-

میرا سوال اچھا نہیں تھا۔ مجھے جھڑک دیا گیا- میں خاموش رہا- لیکن یہ خاموشی اس وقت تک تھی جب تک وزیر اعظم کے قومی سلامتی پر مشیر مجھے برا بھلا کہتے رہے- وہ چپ ہوےَ تو مجھ سے رہا نہ گیا- میں نے اپنے سوال کا دفاع تو نہ کیا لیکن پھر صحافتی فریضے سے مجبور ہوکر پوچھ ڈالا کہ اس فیصلے سے اس ملک کوکتنا نقصان ہو گا؟ کچھ اس پر بھی روشنی ڈالیں گے؟

انھوں نے بولنا تھا نہ وہ بولے-

صرف ایک ہی جملہ بار بار دہرایا گیا کہ آپ کو معلوم نہیں وہ بڑے توازن والے، زیرک اور زبردست شخصیت کے مالک کمانڈر ہیں- پاکستان کا اعزاز ہیں- دیکھیں اگر ہم نہ ہوتے تو کسی اور نے سربراہی کرنی تھی- اچھا ہے کہ ہم ایک پل کا کردار ادا کریں- ہم  کسی سے جنگ تھوڑی ہی کر رہےہیں- بس ہر معاملےکابات چیت کے ذریعے حل نکالنے کی کوشش کریں گے- ہم منا لیں گے- سب کو راضی کر لیں گے- بے فکر رہیں—

میں نے چپ سادھ لی- سوچوں میں گم ہونے سے پہلے کسی نے جھٹکے سے دائیاں بازو پکڑا اور ایک طرف لے گیا-  میں اب کیمروں سے دور ہو گیا تھا- پیار اور شفقت بھرے لہجے میں کسی نے’’  ڈرٹی سوال ‘‘ کا انتہائی دل لگی سے جواب دینا شروع کر دیا-بس ہدایت یہ تھی کہ بات کو سمجھنے کی کوشش کروں- بادشاہوں والی ضد سے باز رہوں- تھوڑی دیر قبل والی تلخی کوبھول جاؤں- میں مسکرا دیا اور جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا-

ہم سےکسی نے کب پوچھا؟ ہم سے کوئی مشاورت کب ہوئی؟ بس ایک اعلان کیا گیا جس کے بعد معلوم ہوا کی ہم نئے اتحاد کے نہ صرف رکن ہیں بلکہ سربراہی کا اعزازی قرعہ بھی ہمارے نام ہی نکلا-

ابھی جواب میں کچھ توقف ہوا تو میں زیر لب دہرا رہا تھا کہ بہرحال ایک بات معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اس کے لئیے کوئی کوشش یا سفارتکاری نہیں کی گئی بلکہ یہ ’’اعزاز ‘‘ ہم پر مسلط کیا گیا-

میری یہ حیرت بھی لمحاتی تھی۔

اگلے لمحے پھر کچھ الفاظ سننے کو ملے۔ صاحب کہہ رہے تھے او بادشاہو!

معاملہ کچھ یوں ہےکہ ہم نے کوئی بات کرنے کی کوشش کی توہماری ایک نہ سنی گئی-

میڈیا پر شوروغوغا ہوا توپھرہم ایک اور عرضی لےکرگئے کہ اگر بادشاہ سلامت کی شان میں گستاخی نہ ہو تو کیا ہم اپنی طرف سے کسی اور کا نام اتحاد کے سربراہ کے لئیے پیش کر سکتے ہیں؟ لیکن نام بھی وہ جس سے حضور کی تشفی ہو۔ ضروری تو نہیں کہ وہ ریٹائرڈ ہی ہو۔ جناب کی شان اور سلطنت سلامت رہے– آپ تو ہماری صفوں سےکوئی بھی پسند کا بہترین کمانڈر خود ہی تلاش کر سکتے ہیں۔

وہ کیا ہے کہ بس یہاں ایک عمارت ہے جس میں کچھ لوگ جمع ہو کر ماہواری شور مچاتے ہیں ان کی ذرا توجہ بٹ جاےَ گی-عجیب لوگ ہیں بس نمائندگی کی رٹ لگاتے ہیں لکین ذرا بھی دور اندیش نہیں ہیں- یہی ہیں جنھوں نے پہلے بھی کچھ غلط فہمیاں پیدا کرنےکی کوششیں کیں-ان کو چپ کرانے کے لئے ایک کاغذ کا اضافی پرزہ قرار داد کی شکل میں ضائع بھی کرنا پڑا- بات تو سیدھی کوئی نہیں تھی بس غلطی سے کچھ انگلش میں ’’غیر جانبدارانہ ‘‘کے الفاظ لکھے گئے جس کی شرمندگی اب بھی پیچھا نہیں چھوڑتی-

اب ان سے پوچھتا کون ہے؟ ہم توساتھ ایک پڑوسی ہے اس کو بھی رام کرنا چاہتے ہیں- اس دفعہ وہ بھی کوئی الجھی الجھی باتیں کر رہا ہے- تشویش تو ہمیں بھی ہے لیکن تشویش کا دعویٰ وہ بھی کر رہا ہے- انگلش میں ان کو تسلی تو کرائی لیکن وہ تو عمارت کے اندر والوں سے بھی ذیادہ نااندیش نکلے- ابھی بھی کہتے ہیں کہ تشویش برقرار ہے-

کیوں نہ ان کو بھی فرضی دعوت نامہ بھیج دیں کہ آپ بھی تو اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں- بس وہ نہ کریں گے تو بھرم رہ جاےَ گا پھر بھلا کس نے کہاں اور کس کے لئےواویلا کرنا ہے؟

ہمارا انداز بھی اچھا تھا۔ عرض داشتوں کی ترتیب بھی مناسب تھی۔ لیکن پھر بھی ایک نہ سنی گئ-

مجھ سے رہا نہ گیا اورفوراً سوال داغ ڈالا- ایسا کیوں ہوا؟ فیصلہ توہمارا ہی ہونا ہے اگر کوئی نہ سنے تو بھی رستہ تو موجود ہے-

بلا توقف ایک دفعہ پھر میرے مہربان انتہائی شفقت بھرے لہجے میں گویا ہوےَ کہ وہ ذرا قبائلی ہیں- ضد ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے- بات سمجھانے کی لاکھ کوششیں کیں لکین ندارد۔۔

ایک دفعہ پھر پرانا جملہ میرے کانوں کو ٹکرایا کہ بس آپ تسلی رکھیں ہم کوئی بہتر حل نکال لیں گے-

پچھلے ہفتے ایک کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا- ایک موضوع پر بات کرتے ہوےَ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر گویا ہوےَ کہ امریکہ آج ہماری وجہ سے سپر پاور ہے- ہم نے روس کے خلاف بھی امریکہ کا ساتھ دے کر جنگ جتوائی تھی اور پھر بعد میں ایک دفعہ پھر امریکہ کا ساتھ دے کر بھاری قیمت چکائی اور دہشتگردوں کو بھی ٹھکانے لگایا- پھر بھی ہم پر دہرے کھیل کا الزام لگایا جاتا ہے-

اسلام آباد میں منعقدہ اسی کانفرنس کے ایک اور سیشن میں تحریک انصاف کے سربراہ بھی شریک ہوےَ جنھوں نے حال ہی میں آرمی چیف قمر باجوہ سے بھی ایک گھنٹہ سے زائد طویل ملاقات بھی کی ہے-اکانومسٹ کے منجھے ہوےَ صحافی نےکانفرنس کے شرکاءکی بڑی تعداد کے سامنے ان کاانٹرویو کیا- عمران خان نے صاف صاف بتایا کہ ہم نے ایک دفعہ ڈالر لے کر جہادی پیدا کئے اور دوسری دفعہ ڈالر لے کر انہی جہادیوں کو مار بھی دیا-

انھوں نے اپنی طویل ملاقات کا تو کوئی احوال نہیں بتایا لیکن یہ ضرور کہا کہ ہم ماضی میں بہت بھگت چکے ہیں اب کسی اور اتحاد کے متحمل نہیں ہو سکتےلہٰذا پاکستان کو ہر صورت ایک متوازن کردار ادا کرنا ہوگا- اس سے پہلے بھی فرقوں کی بنیاد پر مسلمانوں کو تقسیم کر کے خون خرابا کرایا گیا-

میں چکا چوند روشنیوں سے باہر نکلا،کھلے آسمان کو دیکھا پرندوں کو اڑتے چہکتے دیکھا ،آسماں کی بیکراں وسعتوں میں ان کی کوئی سرحد نہیں اس لئے یہ نہ اتحاد بناتے ہیں نہ آپس میں لڑتے ہیں ۔اپنا اپنا دانہ چگتے ہیں چہکتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...