مشال خان کاچہلم ، اے این پی میں تقسیم واضح ہو گئی

1,004

اے این پی کے اکثرممبران تبلیغی جماعت کے رکن بھی ہیں اورباقاعدہ اس کے اجتماعات میں جاتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ غلام احمد بلورنے خود توہین رسالت کے مرتکب افراد کے قتل پرانعامات مقررکرنے کے اعلانات کئے

مشال خان کی موت پر جس طرح احتجاج ہوااس نے پشتون قوم پرست تحریک کوایک دوراہے پربھی کھڑا کردیاہے۔جب اتوار21مئی کومشال خان کا چہلم صوابی میں منایاجارہاتھاتواے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کراچی ایئرپورٹ پراترکرایک جلسئہ عام کے لئے تشریف لے جارہے تھے۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق اس سے پہلے مردان کے ناظم اورپارٹی کے ضلعی صدر حمایت اللہ مایاراوراے این پی کے صوبائی صدراوررکن قومی اسمبلی حیدرخان ہوتی کولندن روانہ کیاگیاتاکہ وہ معاملہ ٹھنڈا ہونے تک وہاں رہیں۔ اورجب حالات سازگارہوں توواپس آئیں۔ مشال خان کے چہلم میں اے این پی کے مرکزی وصوبائی صدرکی غیرموجودگی کوبڑی شدت سے نوٹ کیاگیا۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان کی موت سے اے این پی کے اندراورعلاقائی سطح پردراڑِیں پڑ گئی ہیں۔ مشال خان کا تعلق ضلع صوابی سےتھا،جہاں قوم پرستوں کی ہمیشہ مضبوط جڑیں رہی ہیں۔ دوسری طرف پارٹی مردان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں لگی ہوئی تھی جس کوشدید دھچکاپہنچنے کے امکانات ہیں۔ اس وقت اے این پی کے پاس ضلع مردان کے ناظم اورقومی اسمبلی کی ایک اورواحد نشست ہے۔ ضلع ناظم حمایت اللہ مایارکے لئے مسئلہ یہ ہے کہ اس کواپنے خاندان اورضلع کی قیادت کی فکرہے۔ مایارپر علاقہ کابہت دباؤہے کیونکہ مشال کے قتل میں اس کے خاندان کے افراد ہی نہیں ضلع مردان کے لوگ گرفتارہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی 2009میں بنی جب اے این پی کی حکومت تھی۔ اے این پی نے جب اس میں بھرتیاں کیں توحمایت اللہ مایاراوراعظم ہوتی نے مردان کے ملازمین کی بھرتی کے لئے پوری کوششیں کیں اورباہرکے لوگوں کی بھرتی اورسفارش نہ مانی۔ یوں یونیورسٹی کی انتظامیہ کے جو افراد مشال خان کے قتل میں ملوث ہیں ان میں ملازمین کی بڑی تعداد کاتعلق نہ صرف ضلع مردان سے ہے بلکہ اے این پی سے بھی ہے۔ اے این پی کی پشت پناہ یونیورسٹی انتظامیہ بہت ہی کرپٹ ہے اورمشال خان کے قتل میں ان کوایکسپوز کرنے کوایک اہم محرک گردانا جاتاہے کیونکہ مشال خان ان کومسلسل زک پہنچارہاتھا۔ دوسری طرف ملازمین اور زیادہ ترگرفتارافرادکے مردان سے تعلق ہونے کی وجہ سے ضلعی کونسل کے اراکین نے اے این پی کے بجائے ضلعی ناظم کی طرفداری کواہمیت دی۔ حمایت اللہ مایارنے کوشش کی کہ کسی طرح اس مسئلہ کودبایاجائے اورپارٹی اس پرخاموشی اختیارکرے۔

اس نے اے این  پی کے اندرایک جنگ چھیڑدی جورائٹ ونگ اورلیفٹ ونگ کے درمیان ہے۔اے این پی میں اس مسئلے کو  دانشوروں، این جی اوز، صحافیوں اوراساتذہ نے بہت شدت سے محسوس کیا۔ ان میں سے بڑی تعداد پوسٹ ماڈرن ازم سے متاثرہیں۔ یہ سابقہ لبرل لیفٹ کاحصہ رہے ہیں۔ جوروس کے انہدام کے بعد پوسٹ ماڈرن ازم کی طرف متوجہ ہوئے اورسامراج مخالفت، روشن خیال اورترقی پسند تحریک کوخیربادکہہ کرسیکولرازم، ترقی، جنگوں اورفوجی آپریشنوں کے حامی بن کرسامنے آئے۔ یہ پاکستانی فوج اوراسلامی تحریکوں کے شدید تنقیدنگارہیں۔ لیکن دوسری طرف اے این پی میں  رائٹ ونگ خیالات کے حامل افراد بھی بھرے پڑے ہیں۔ زیادہ ترسابقہ اسمبلی اراکین، ناظمین، کونسلرزکی بڑی تعداد جوعوامی سیاست کرتی ہے ان کے نظریات رائٹ ونگ کے قریب  ہیں۔ یہ زیادہ ترسرمایہ دار، زمین اورجائیداد مالکان، کاروباری اورتاجرہیں۔ یہ محض  اتفاق کی بات نہیں کہ حمایت اللہ مایار،حیدرخان ہوتی اورغلام احمد بلورجیسے افراد ان نظریات کے حامل ہیں۔

اے این پی ایک طرف امریکی جنگ اورفوجی آپریشنوں کی حمایتی بن کر سامنے آئی  تواس سے اسلامی تحریکوں کی طرف سے سیاسی طورپرنشانہ بنی  اورطالبان نے براہ راست اس پرحملے کئے۔ لیکن اس کایہ ہرگزمطلب نہیں کہ اے این پی میں کوئِی رائٹ ونگ نہیں۔ اس کے اکثرممبران تبلیغی جماعت کے رکن بھی ہیں اورباقاعدہ اس کے اجتماعات میں جاتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ غلام  احمد بلورنے خود توہین رسالت کے مرتکب افراد کے قتل پرانعامات مقررکرنے کے اعلانات کئے ہیں۔ سابقہ مرکزی وزیراوراے این پی کے سینئرلیڈرغلام احمد بلور نے 2012میں ایک مصری نژاد امریکی فلم میکر،جس کوتوہین مذہب کا مرتکب قراردیاگیا کے سرکی قیمت ایک لاکھ ڈالرزمقررکی اورکہاکہ اس کوقتل کرنے والاکویہ انعام دیاجائے گا۔ حالانکہ اس دوران جومظاہرے کئے گئے ان میں ان کا سینما بھی جلایاگیاتھا۔ لیکن اس کی نظر ایک ہی سال بعد 2013میں آنے والے انتخابات پرتھی اوراس نے ایک وفاقی وزیرہونے کے باوجود یہ اعلان کیاتاکہ اگلے انتخابات مِیں اپنے اوپرتنقید کم کی جائے اورعوام اوررائٹ ونگ کوخوش کرتے ہوئے ووٹ حاصل کئے جائیں۔ دوسری مرتبہ اس نے 2015میں فرانسیسی رسالے کے مالک کے سرکی قیمت 2لاکھ ڈالرزمقررکی جوپیغمبراسلام کی  توہین کے  مرتکب ٹھہرے تھے۔ یہی نہیں جب اے این پی قوم پرست تحریک اورترقی پسند تحریک سے پیچھے ہٹی تویہ دوسری پارٹیوں کی طرح  محض ایک انتخابی مشین بن کررہ گئی۔ اب دیگررائٹ ونگ افرادکے لئے اس میں شمولیت کوئِی مسئلہ نہ رہی کیونکہ اب یہ پشتونوں کی یکجہتی کے نعرے باالفاظ دیگرایک علیحدہ پشتون ریاست کے قیام سے تقریباً دستبردارہوئی اورمین اسٹریم سیاست میں حکومت کی متلاشی بنی تواس نے دیگرکواپنی طرف رجوع کیا۔ مثال کے طورپر2008کے انتخابات سے قبل دیرکے کاروباری اورجماعت اسلامی کے رکن ہدایت اللہ خان اے این پی میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ وزیربھی بنادئے گئے۔ خود سابق وزیراعلیٰ حیدرخان ہوتی نے مردان کے ہرحجرے، مسجد، مزاراورقبرستان کوفنڈز دئے اوران کی تعمیروترقی کے لئے پیسہ بہاکراپنی مقبولیت میں چارچاند لگانے کے ساتھ اپنی لئے اسمبلی کی سیٹ پکی کرنےکی کوشش کی۔ اس کے شکریہ کے اشتہارات باقاعدہ حکومتی فنڈزسے اخبارات کی زینت بھی بنادئے گئے۔

اے این پی کی قیادت ہر قیادت کی طرح رائٹ اورلیفٹ دونوں کوایک ساتھ رکھتی ہے۔ اوربعض موقع پراپنا وزن دوسری طرف ڈالتی رہتی ہے۔ اسفندیارولی خان نے مشال خان کے موت پراول خاموشی اختیارکئے رکھی۔ لیکن جب احتجاج بڑھ گیا توکئی دن بعد آکراعلان کیاقاتلوں کوگرفتارکرکے سزا دی جائے چاہے اس میں اس کی اولادہی کیوں ملوث نہ ہو۔ Anchor

مشال خان کی موت نے ایک لکیرکھنچ دی۔ اوراس سے سب سے زیادہ  قوم پرست تحریک متاثرہوئی۔ پوسٹ ماڈرن (سابقہ لبرل لیفٹ) جیسے بشریٰ گوہراورافراسیاب خٹک ودیگر  نےمشال خان کے مسئلہ پرکھل کراس  پرزوردیا۔ جبکہ ووٹوں کی سیاست کرنے والے سرمایہ داراورکاروباری اس پرمصلحت کرنے اورخاموش رہنے کے درپے ہیں۔ عوام کی طرف سے بھرپوراحتجاج نے پارٹی کے لیفٹ کواوپرآنےکاموقع ضروردیا۔ مگراین جی اوز سے وا بستہ، دانشوراورصحافی بذات خود انتخابات جیت کرنہیں دکھاسکتے۔ اس پارٹی کوگھوم پھرکراگلے انتخابات میں پھررائٹ ونگ سرمایہ داروں، زمین مالکان اورکاروباریوں پرتکیہ کرناپڑے گا۔ اورانہی کے ووٹ سے دانشورسینٹ  میں جاتے ہیں۔  لیکن اگرنیچےسےعوامی تحریک کا زورہواور اس کا دباؤ زیادہ ہوتو قوم پرست تحریک اندرسے تقسیم بھی ہوجاتی ہے۔ یہ بارہاہواہے۔ خدائی خدمتگارتحریک کوپہلادھچکا 1930کی دہائی میں غلہ ڈھیر(مردان) میں کسانوں کا نواب آف طوروکے خلاف خلاف تحریک سے پہنچا۔ یہ غلہ ڈھیرکسان تحریک کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ اس نے کسانوں اورنچلے طبقات کوخدائی خدمتگارتحریک سے دل برداشتہ کیا جب تحریک پھیلی اورجاگیرداروں کے خلاف کسان اٹھ کھڑے ہوئے توباچاخان کی قیادت میں خدائی خدمتگارتحریک اورڈاکٹرخان صاحب کی حکومت نے ایک یا دوسرے طریقے سے جاگیرداروں کاساتھ دیا۔ اس موقع پردیونبد سے فارغ التحصیل مفتی سرحد اورسوشلسٹ مولاناعبدالرحیم پوپلزئی نے کسان تحریک قیادت کی۔ اس طرح کسان تحریک نے دانشوروں کومتاثرکیاتو یہ خدمتگار تحریک کے طبقاتی کردارسے مایوس ہوکرکسانوں کی قیادت پرکمربستہ ہوگئے۔ دوسری مرتبہ 1960کی دہائی میں جب ہشت نگر(چارسدہ)اوراس کے بعدمردان، درگئی، سوات ودیر(مالاکنڈ ڈویژن وپشاورڈویژن)میں کسان کھڑے ہوئے توولی خان کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)میں تقسیم آگئی۔ افضل بنگش، میجراسحاق، لطیف آفریدی پارٹی چھوڑکرکسانوں کوجاگیرداروں کے خلاف منظم کرنے نکلے جن کی قیادت ولی خان اورافضل خان لالہ آف سوات کررہے تھے۔ یوں جب بھی نیچے سے عوام کادباؤآتاہے توقوم پرست تحریک ایکسپوز ہوجاتی ہے۔ اس کاطبقاتی کردارواضح ہوکرسامنے آتاہےجس سے پارٹی میں تقسیم سامنے آتی ہے۔

مشال خان کے چہلم میں اے این پی کے دانشورتوتھے مگرصرف پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردارحسین بابک موجودتھے۔ دوسری طرف لبرل لیفٹ، روشن خیال،ترقی پسند، این جی اوز، پروفیشنل کلاس،  مزدورکسان پارٹی، طبقاتی جدوجہد اورعوامی ورکرزپارٹی کی قیادت اورکارکن بھی بڑی تعدادمیں دیگرمقامات سے آَئے تھے۔ اسلام آبادکی قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ اورلاہورسے ترقی پسند عناصربھی اس میں شریک تھے۔

اے این پی کی مشکلات میں کئی طرح سے اضافہ ہواہے۔ اے این پی کوایک طرف پی ٹی آئی، جے یوآئی اورجماعت اسلامی کی مخالفت کاسامناہے تودوسری حال ہی میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے دباؤ میں آصف زرداری نے بھی اے این پی پرتنقیدکی۔ لیکن اس کے لئے سب بڑی مصیبت سیدعالم محسود کی قیادت میں پختون اولسی تحریک ہے۔ سیدعالم نے پشتون دانشوروں، صحافیوں، علمی طبقہ،این جی اوز اورطلبہ کومتاثرکیاہے۔ مشال خان کی موت پرجس طرح سیدعالم نے صوابی میں ایک بہت بڑے مظاہرے کی قیادت کی اورچہلم پرجس طرح پیش پیش رہے اس نے اسفندیارولی کی قیادت کے لئے خطرات بڑھادئے ہیں۔ سیدعالم پہلے ہی سی پیک ،صوبائی حقوق ،وسائل پرحاکمیت اوراقتدارسے لے کے فاٹا کے لئے اصلاحات میں پیش پیش رہے ہیں۔ مڈل وپروفیشنل کلاس میں ان کی جدوجہدکو قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔اور ان کی مقبولیت اس وقت بہت زیادہ ہے۔

اسفندیارنے خود جاکرمشال خان کے گھرتعزیت نہیں کی۔ جبکہ عمران خان نےنہ صرف بہت اہم موقع پرنہ صرف قتل کی مذمت کی بلکہ خودصوابی جاکران کے والد سے ملے اورفاتحہ کی۔ اس نے قوم پرست قیادت کوبہت شرمندگی سے دوچارکیا۔ عمران خان کے بروقت مداخلت نے تحریک کوبڑھاوادیا۔ بلکہ جب تحریک انصاف کے ایک رکن نے مردان کے ضلعی کونسل میں مشال خان کے فاتحہ کی قرارداد پیش کی تواے این پی نے پی پی پی اورجے یوآئی کے ساتھ مل کراس کوشش ناکام بنانے کی کوشش کی۔اس پرایک پشتون قوم پرست اورسیکولرتحریک کے حوالے سے بہت تنقیدہورہی ہے۔ اسفندیار کواے این پی والے نہ صرف ایک قومی رہبر(مشر)کے طورپرپیش کرتے ہیں بلکہ جب اس کواپنے آبائی علاقہ چارسدہ سے انتخابات میں رد کیاگیاتویہ صوابی کےعوام تھے جنہوں نے اسے قومی اسمبلی پہنچایا۔ ناقدین کے نزدیک حمایت اللہ مایارنے بھی تعزیت نہ کرکے پشتون روایات اورجانبداری کامظاہرہ کیا۔ بلکہ جب حیدرخان ہوتی فاتحہ اورتعزیت کے لئے گئے توانھیں بھی بیان جاری کرنے سے منع کرتے رہے۔ اس پرطرہ یہ کہ جب مشال خان کاچہلم اے این پی کی ضلع کونسل صوابی  منانے جارہی تھی، توضلع کونسل مردان میں موسیقی کاپروگرام رکھاگیا۔ جس پرشورشرابہ اٹھاتوپارٹی قیادت نے مجبورہوکراس پروگرام کوناظم سے منسوخ کروایا۔

چہلم کے بعد ابھی قوم پرست کی مشکلات کم نہ ہوئیں۔ چہلم پرامن جرگے کے چئرمین سیدکمال شاہ کے ریمارکس پرپی ایس ایف نے ہنگامہ کرنے کی کوشش کی جس پراے این پی کے رہنماوں نے مداخلت کی۔ سیدکمال شاہ نے اعلان کیاکہ وہ مشال خان کے لئے مردان میں جرگہ کریں گے۔ سید کمال شاہ مردان کی ایک ہردلعزیز شخصیت ہیں اورمردان میں رائٹ ونگ قیادت جیسے حمایت اللہ مایار اورحیدرخان ہوتی کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ سید عالم محسود نے سیدکمال شاہ کے اعلان کوسوشل میڈیا شئرکیاہے۔ تجزیہ نگارسباوون بنگشن کاکہناہے کہ اے این پی بری طرح ایکسپوزہوگئی ہے اوراگرمشال خان کی تحریک آگے بڑھی اورجس طرح بشری گوہر، افراسیاب اورلطیف آفریدی نے اس معاملہ میں اپناکرداراداکیاتوممکن ہے کہ لیفٹ ونگ قیادت ایک مرتبہ پھرقوم پرست تحریک کوخیرباد کہہ لیں۔ اس سے لگتاہے کہ لکیرکھنچی جارہی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...