پنجاب اور کے پی کے میں مذہبی عناصر کی پیش قدمی

1,076

پاکستان میں مذہبی عناصرکی طرف سیاسی جماعتیں جھکتی جارہی ہیں۔ حال ہی میں صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب  شہبازشریف اورصوبہ خیبرپختونخوا میں پرویزخٹک کے اقدامات اورمذہبی عناصرکوخوش کرنے کی پالیسیوں سے اس کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔سوشل میڈیا پروزیراعلیٰ پنجاب کی پیرخواجہ حمید الدین سیالوی  کے ساتھ تصویروائرل ہوگئی ہے جس میں وہ عقیدت کے طورپران کے قدموں میں جھکے ہوئے ہیں جبکہ پیرسیالوی  مسکرارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سے ملاقات کے بعد انھوں نے استعفے اوراحتجاج کی کال منسوخ کردی اورمعاملات کوطے کرنے کے لئے ایک کمیٹیپراکتفا کرلیا ۔اس سے پہلے پیرحمیدالدین سیالوی نے سات یوم کے اندراندرنفاذ شریعت کامطالبہ کیاتھا۔ 30کے لگ بھگ بریلوی مکتبہ فکرکی جماعتوں اورعلماء ومشائخ نے اس مطالبہ کی حمایت کی تھی۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ بریلوی مکتبہ فکرن لیگ کوانتخابات میں ہرحلقے میں پانچ سے دس ہزارتک ووٹ کا نقصان دے سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس طرح تحریک انصاف اورن لیگ کے ووٹوں کے درمیان فرق کم ہوجائے گا اوربہت سارے حلقے تحریک انصاف کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔شاید اس خوف سے  وزیراعلی پنجاب نے پیغمبراسلام ﷺ کی سیرت اورختم نبوت پرایک کانفرنس بھی  منقعدکی ہے۔

پچھلے سال نومبرمیں عمران خان کی تحریک انصاف نے جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ مولاناسمیع الحق کے ساتھ انتخابی اتحاد کااعلان کیا۔ مولانا سمیع الحق کی جماعت حال ہی میں بننے والی متحدہ مجلس عمل سے باہرہے۔ یہ اتحادبنیادی طورپرجمعیت علمائے اسلام ف اورجماعت اسلامی سمیت دیگرگروپوں کااتحادہے۔ یوں تحریک انصاف کوصوبہ میں اسلامی جماعتوں کی مشترکہ اتحادکاسامناہے۔ اس کاتوڑکرنے کے لئے وزیراعلی پرویزخٹک نے سمیع الحق سے اتحادکرلیا۔ اگرچہ سمیع الحق بااثرمدرسہ حقانیہ کے مہتم ہیں لیکن بڑے مدارس اورکاروباری حلقوں میں مولانافضل الرحمن کااثرورسوخ پایاجاتاہے۔ مولانافضل الرحمن کی جماعت زیادہ منظم بھی ہے اورانتخابی کارکردگی کے لحاظ سے بھی مضبوط ہے۔ فضل الرحمن سیاسی داوچال سے بھی واقف ہیں اوراقتدارکے حصول میں کامیاب رہے ہیں۔

مولاناسمیع الحق سے پرویزخٹک نے شروع ہی بہترتعلقات بنانے کی کوشش کی۔ دونوں ایک ہی ضلع، نوشہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پرویزخٹک نے انتخابی اتحاد سے قبل مدرسہ حقانیہ کے لئے سال 2016میں 300ملین کی امدادمنظورکی تھی۔ عمران خان نے اس کادفاع کرتے ہوئے کہاکہ یہ امدادمدرسہ کے طلبہ کومین اسٹریم میں لانے کاموجب بنے گی،یوں یہ مرکزی دھارے کاحصہ بن کرریڈیکلائزیشن سے دورہوجائیں گے۔ ان کااستدلال تھاکہ اے این پی نے اس سے قبل اسی دارلعلوم کوسپورٹ کیاتھااورولی خان خود وہاں گئے تھے۔ ان کاکہناتھاکہ مولانا سمیع الحق نے صوبائی حکومت کی پولیومہم کوسپورٹ کیاتھا۔ سمیع الحق سے اتحاد کے پیش نظرصوبائی حکومت نے فروری 2018سے مساجد کے آئمہ  کے لئے دس ہزارماہانہ رقم منظورکی ہے۔ صوبائی حکومت یوں سالانہ 3.25بلین روپے مسجدوں کے اماموں کی تنخواہوں پرخرچ کرے گی۔مولانا  فضل الرحمن نے اسےمغربی ایجنڈا قراردے کرمستردکیاہے۔ یہ ایک تاثرہے کہ اس رقم کے بل بوتے پرپی ٹی آئی اورسمیع الحق کااتحاد اپنے لئے انتخابی راہ ہموارکررہا ہے۔ اس رقم کے ذریعے مساجد میں مولاناسمیع الحق کااثربڑھے گااوراس کافائدہ پی ٹی آئی کوپہنچے گاجبکہ اس کا نقصان ایم ایم اے کوپہنچ سکتاہے۔وزیراعلی پرویزخٹک نے ہوشیاری کے ساتھ مولاناسمیع الحق کواپنے ساتھ ملاکرعمران خان اورتحریک انصاف کے خلاف مولانافضل الرحمن اوردیگرمذہبی عناصرکی مہم کوکمزورکرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریک انصاف کواگلے انتخابات میں ناصرف سہارادیں گے  بلکہ ان کے ممکنہ فتوی اورایم ایم اے کے پروپگنڈے کاتوڑبھی کریں گے۔ انتخابی اسٹیج سے اس کاجواب محض تحریک انصاف نہیں دے گی بلکہ مولانا سمیع الحق بھی دیں گے۔

پنجاب اورخیبرپختونخوا کی حکومتیں محسوس کرتی ہیں کہ رائٹ ونگ مذہبی عناصرکااثربڑھ رہاہے اوراس سے ان کے لئے مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ ان مشکلات سے نمٹنے کی خاطر اوراگلے انتخابات میں مذہبی جماعتوں، تنظیموں اوراہم شخصات کورام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...