لیاقت علی خان نے رُوس کی بجائے امریکا کا انتخاب کیوں کیا؟

775

روس پاکستانی وزیراعظم کو دورہ ماسکو کی دعوت دینے کے بعد لعت و لعل سے کیوں کام لے رہا تھا؟ تاریخی واقعات پر ایک نظر

گزرے برسوں میں پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ ہی سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ ایسے میں ایک طبقہ تسلسل کے ساتھ یہ آواز بلند کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے دیرپا دوستی کے لئے روس کی بجائے امریکہ کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

آج سے کوئی 70 برس پہلے 8 جون 1949 کو پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ حکومتِ روس نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو روس کے دورہ پر آنے کی دعوت دی ہے۔ وزیراعظم نے یہ دعوت قبول کر لی ہے تاہم  ابھی یہ طے نہیں پایا کہ وزیراعظم روس کے دورے پر کب تشریف لے جائیں گے۔

مشہور لکھاری وینکٹ رامانی اپنی کتاب “پاکستان میں امریکہ کا کردار” میں لکھتے ہیں:

“2جون 1949 کو تہران میں سوویت ناظم الامور نے پاکستانی سفیر راجہ غضنفرعلی خان کو لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کی سرکاری دعوت زبانی طور پر دی۔ جس طریقے سے یہ دعوت آئی وہ قدرے غیر معمولی اور عجیب و غریب تھا۔ دو ہفتے پہلے جب پاکستانی وزیراعظم ایران کے دورے پر تھے، ایک سوویت سفارتکار نے بیگم لیاقت علی خان سے پوچھا کہ آیا وہ اور ان کے شوہر سوویت یونین کا دورہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کا جواب اثبات میں تھا۔ جب یہ دعوت موصول ہوئی، تو قدرے غیر معمولی انداز ہی میں سہی، وزیر اعظم لیاقت علی خان نے فورا اسے قبول کرلیا۔”

بعد ازاں ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان انتظار نہیں کرسکتا، اسے جہاں بھی دوست ملیں، قبول کرلینا چاہیئے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے امریکی سفارت خانے کے ایک افسر سے کہا کہ ٹرومین نے تو ہمیں واشنگٹن کی دعوت دینے کے قابل نہیں سمجھا، لیکن اسٹالن نے ہمیں ماسکو بلوالیا ہے۔

وینکٹ رامانی کے بقول ایک دلچسب اتفاق ہوا کہ جس دن سوویت یونین کے ناظم الامور نے ایران میں پاکستانی سفیر کو وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ روس کی دعوت دی اس کے اگلے ہی دن یعنی 3 جون 1949 کو امریکی محکمہ خارجہ نے 75ایم ایم گولہ بارود کے دولاکھ راؤنڈ پاکستان کو منتقل کرنے کی درخواست منظور کر لی۔

وینکٹ رامانی نے لکھا ہے کہ پاکستان کو اس فیصلے کی اطلاع دینے کے بعدواشنگٹن یہ اعتماد کرسکتا تھا کہ پاکستان کے حکمران ہاتھ آئے ہوئے مال اور محض توقعات کے درمیان فرق کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اور پھر ہو ابھی یہی چند ہی ماہ بعد اسٹالن کی دعوت اور لیاقت علی خان کی رضامندی دھری کی دھری رہ گئی اور وزیراعظم لیاقت علی خان اور ان کی بیگم روس کی بجائے امریکا کی دعوت پر واشنگٹن پہنچ گئے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے دستاویزی ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2 جون 1949ء کو ایران میں تعینات سوویت سفیر، پاکستانی سفیرراجہ غضنفر علی خان سے ملنے آیا۔ ملاقات میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ سوویت یونین کی زبانی دعوت دی گئی۔ راجہ صاحب نے فوراً پیغام کراچی بھجوا دیا جو تب وفاقی دارالحکومت تھا۔ ایک ہفتے بعد سوویت دعوت قبول کر لی گئی۔

سوویت حکومت نے جواب دینے میں دیر لگا دی اور 28 جولائی کو یہ پیغام بھجوایا کہ دورہ نومبر کے اوائل تک ملتوی کر دیا جائے

اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت ہونے کے ناطے وطن عزیز عالمی سطح پہ خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ اسی لیے پاکستانی وزیراعظم نے سوویت دعوت قبل کی تو واشنگٹن، لندن اور مغربی یورپ میں ہلچل مچ گئی۔ امریکیوں کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ پاکستان سوویت بلاک کا حصّہ بن سکتا ہے۔ روسی حکومت نے دورے کی تاریخ 15اگست رکھی تھی۔ تاہم انھیں بتایا گیا کہ پاکستان میں یوم آزادی کی تقریبات کے باعث وزیراعظم کاآنا مشکل ہے مگر وہ 17اگست کو ماسکو پہنچ سکتے ہیں۔

سوویت حکومت نے جواب دینے میں دیر لگا دی اور 28جولائی کو یہ جواب دیا کہ دورہ نومبر کے اوائل تک ملتوی کر دیا جائے کیونکہ روس میں ماہ اگست چھٹیوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے تجویز منظور کر لی۔ 14اگست کو سوویت حکومت نے ایک اور فرمائش کر ڈالی۔ ایران میں سوویت سفیر نے راجہ صاحب کو بتایا “ہماری حکومت چاہتی ہے، جب دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں، تبھی وزیراعظم پاکستان سوویت یونین کا دورہ کریں۔

روسیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان پہلے ہی موزوں امیدوار کی تلاش میں ہے۔کچھ عرصے بعد شعیب قریشی (جو بعد ازاں وفاقی وزیر خزانہ رہے)سوویت یونین میں پہلے پاکستانی سفیر مقرر ہو ئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ سوویت حکومت رفتہ رفتہ، پاکستانی وزیراعظم کے مجوزہ دورہ روس میں کم دلچسپی لینے لگی۔اس نے نہ صرف بحیثیت سفیر شعیب قریشی کو قبول کرنے میں خاصی دیر لگائی بلکہ دورے کی تاریخ بھی آگے کرتی رہی۔

اسی دوران پاکستان میں وزیر خزانہ،ملک غلام محمد کی قیادت میں بیوروکریسی کا ایک دھڑا لیاقت علی خان پہ زور دینے لگا کہ وہ امریکہ کو سوویت یونین پہ ترجیح دیں۔ 1949 کی آخری سہ ماہی میں امریکی حکومت نے بھی وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔

کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آیا وہ امریکی صدر ہیری ٹرومین کی پیشکش پر قرض لے لیں گے؟ وزیراعظم نےفوراً جواب دیا: میں ہاتھوں میں کشکول اٹھائے نہیں جا رہا

لیاقت علی خان بعض وجوہات کی بنیاد پر دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک، سوویت یونین کے قریب ہونا چاہتے تھے۔ اسی لیے ان کی ایما پر اپریل 1950 میں راجہ غضنفر علی خان نے سوویت سفیر سے دورے کے متعلق فیصلہ کن ملاقات کی۔ وزیراعظم پاکستان اتنے سنجیدہ تھے کہ انھوں نے اپنے ارکان ِوفد کا انتخاب بھی کر لیا۔ مستقبل کے وزیرخارجہ،کیپٹن یعقوب علی خان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ لیکن سوویت حکومت سے کوئی گرین سگنل نہ ملا۔ جس کے بعد لیاقت علی خان مایوس ہو کر مئی1950 میں امریکہ کے دورے پر چلے گئے جہاں ان کا پُر تپاک اور شاندار استقبال ہوا۔

سوال یہ ہے کہ جوزف اسٹالن کی حکومت، دورے کی خود دعوت دے کر پیچھے کیوں ہٹ گئی؟ حقائق بتاتے ہیں کہ دراصل 7 مئی 1949 کو بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے دورہ امریکہ کی امریکی دعوت قبول کر لی تھی۔ یہ بات سوویت حکومت کو ناگوار گزری جو بھارت کو اپنے دائرہ ِاثر میں لانا چاہتی تھی۔ اس لئے سوویت حکومت نے وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دے کر جوابی حملہ کر ڈالا۔

پنڈت نہرو اوائل اکتوبر 1949 میں امریکہ پہنچے۔یہ دورہ ناکام رہا، بھارت اور امریکہ کے مابین ٹھوس معاشی یا عسکری معاہدے انجام نہ پائے۔ یہ دیکھ کر بھارت کا سوویت حکومت کے لئے دل میں پھر نرم گوشہ نمودار ہوا۔ بھارت چونکہ مقامی سطح پہ بہرحال پاکستان سے بڑی قوت تھا۔ اس لئے پاکستانی حکومت کو ٹرخایا جانے لگا۔یوں  پاکستانی وزیراعظم کو بادلِ ناخواستہ دورہ امریکا کی دعوت قبول کرنا پڑی۔

امریکہ کے صدر ٹرومین نے پاکستان کے وزیراعظم کو امریکا کا دورہ کرنے کی جو دعوت دی تھی اسے لیاقت علی خان نے 10 دسمبر 1949 کو منظور کرنے کا اعلان کردیا۔ چند ماہ بعد 3 مئی 1950 کو پاکستانی وزیراعظم، امریکی صدر کے خصوصی طیارے میں، سرکاری دورے پر واشنگٹن ڈی سی پہنچے، محترمہ رعنا لیاقت علی خان بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

یہ تھے وہ حالات جن میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے روس کی بجائے امریکہ کا دورہ کیا۔ غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کوئی معاشی امداد لینے یا پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کرنے امریکہ نہیں گئے۔ وہ امریکیوں سے برابری کی بنیاد پہ تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ جاتے ہو ئے کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آیا وہ امریکی صدر،ہیری ٹرومین کی پیشکش پر قرض لے لیں گے ؟وزیراعظم نےفوراً جواب دیا۔ “میں ہاتھوں میں کشکول اٹھائے نہیں جا رہا“۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...