سپہ سالار کا خطاب اور چند معصومانہ معروضات

861

دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کے خاتمے کے لیے موثر اصلاحات کا معاملہ بہ ظاہر سادہ ہے مگر فی ا لاصل خاصہ پیچیدہ ہے

ملکی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے چھ ستمبر منگل کے دن جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ یومِ شہدا تقریب سے جب خطاب کیا تو ،تو اُن کے خطاب میں خاصی گرم جوشی محسوس کی گئی۔جنرل راحیل شریف کے خطاب کے چند ایک پہلو تو بہت قابلِ غور اور بحث طلب ہیں ۔اُن کے خطاب کے یہ نکات کہ ”نیشنل ایکشن پلان پر اس کی رُوح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنایا جائے،سی پیک کی بروقت تکمیل ہمارا قومی فریضہ ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑنا ہو گا“انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔

آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کے فوری بعد عسکری اور سول قیادت کے طویل مشترکہ اجلاس ہوئے ،نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور اس کے بیس نکات پر عمل پیرا ہونے کا عوام کو یقین دلایا گیا۔اُس عوام کو جو اپنے عزیزوں کی لاشیں اُٹھا اُٹھا تھک چکے تھے۔لیکن لمحہ  موجود تک نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر پوری طرح عمل نہ ہوسکا۔اس پر عملدرآمد میں کیا مانع ہے ؟عوام نہیں جانتے۔عوام نے تو نیشنل ایکشن پلان کی صورت اپنا مینڈیٹ عسکری اور سول قیادت کو دے دیاتھا،مگر جس شدومد اور سنجیدگی کے ساتھ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ذاتی نوعیت کے مسائل میں باہم دست و گریبان رہیں ،اُس میں سے معمولی سی سنجیدگی بھی قومی اُمور میں دکھائی جاتی تو دہشت گردی کے خاتمے کے نتائج زیادہ بہتر میسر آسکتے تھے۔حیران کن اَمر یہ ہے کہ عوام ،سیاست دان اور اب عسکری رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اُس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا۔گویا اس کا ادراک سب کو ہے ،مگر یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ رُوح کے مطابق عمل کیسے اور کون کرے گا؟کیونکہ جنہوں نے عمل کروانا تھا وہ بذاتِ خود شکوہ کناں ہیں ۔آخر اس میں کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو رکاوٹ ہیں ؟

اسی طرح دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کے خاتمے کے لیے موثر اصلاحات کا معاملہ بہ ظاہر سادہ ہے مگر فی ا لاصل خاصہ پیچیدہ ہے ۔لگ بھگ ڈیڑہ دوبرس سے یہ کہا جارہا ہے کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب کرپشن اور دہشت گردی کے تعلق کو توڑا جائے گا۔مگر اس ضمن میں صاحبانِ اقتدار کی طرف سے کسی پیش قدمی کی خبر نہیں ہے ۔لے دے کے ایک مثال ڈاکٹر عاصم کی پیش کی جاسکتی ہے ۔مگر ڈاکٹر عاصم کا معاملہ بھی سیاسی نوعیت اختیار کر گیا ہے ۔یہاں کچھ لوگوں کا سوال یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ایسے کسی ایک کردار پر گذشتہ ڈیڑھ دو برس سے گرفت نہیں کی گئی ،جس کے بارے کہاجاسکے کہ یہ دہشت گردوں کی مالی اعانت کررہا تھا؟

سی پیک کا معاملہ بھی ڈیڑھ برس سے بہت زیرِ بحث ہے۔عام آدمی حیرت زَدہ ہے کہ ترقی و خوشحالی کا منصوبہ بھی تنقید کی زَد میں ہے ۔اس ضمن میں چھوٹے صوبو ں کو تحفظات ہیں تو سیاسی جماعتیں مرکز سے نالاں ہیں ۔ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اتفاقِ رائے قائم کیا جائے ۔جب تک معاملات میں اتفاقِ رائے کا فقدان ہے تو غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گی اور تحفظات بھی جنم لیں گے۔سیاسی جماعتیں باہم دست و گریبان رہیں اورحکومت اور فوج دونوں ایک پیج پر ہیں ،جیسے بیانات آئے روز آتے رہیں تو صورتِ حال تبدیل نہیں ہوگی۔اس کی تبدیلی کے لیے قومی اتفاقِ رائے کا پلیٹ فارم استعمال کرنا ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...