بے بسی کی تصویریں

489

اطلاعات کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اب تک اب ملک کے 103 اضلاع میں دس لاکھ سے زائد افراد متأثر ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں کی صورتحال زیادہ ابتر ہے۔ وہاں سے آنے والی کئی تصاویر اور ویڈیوز میں انسانی لاشوں اور جانوروں کو ڈوبتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اب تک چھ افراد بارشوں اور سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ رواں سال کا مون سون غیرمعمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ہے، لیکن یہ سلسلہ تقریبا ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے جس کا دائرہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ اس دوران مون سون کے نئے سلسلوں اور خطرات کی پیش گوئی تو کی جاتی رہی لیکن نقصان کی شرح کم کرنے کے لیے ساتھ ساتھ ضروری اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ان پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومتی رہنماؤں نے اس مسئلے کو کتنی اہمیت دی۔ اپوزیشن جس نے اپنی جماعت کے ذاتی امور پر ایک تہلکہ مچا رکھا ہے اگر وہ اس مسئلے کے حوالے سے حکومت پر تھوڑا بہت دباؤ بھی ڈال دیتی تو یقینا اس سے فرق پڑتا اور دوردراز کے علاقوں میں امداد کے منتظر بے بس لوگوں کا بھلا ہوجاتا۔ صوبائی حکومتیں کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں بناسکیں اور متعلقہ انتظامی ادارے ناکام ہیں۔ بہت سے ایسے حصے ہیں جہاں امدادی ٹیمیں نہیں پہنچیں اور لوگ بے بسی کی حالت میں ہیں۔

تحصیل تونسہ کی تاریخ کا بدترین سیلابی ریلا قصبوں اور دیہاتوں میں داخل ہوا ہے اور تباہی پھیلا رہا ہے۔ بلوچستان کے دیہاتی حصوں اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع میں اونچے درجےخ کا سیلاب ہے۔ لوگوں کے پاس خوردونوش کی اشیاء دستیاب نہیں ہیں۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان کچھ وقت کے لیے سیاسی محاذآرائی کو موقوف کرسکتے ہیں تاکہ ایمرجنسی بنیادوں پر متأثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کی جاسکے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...