کیا ٹی ٹی پی کے نظریے کو تبدیل کیا جاسکے گا؟

585

گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی علما کا ایک آٹھ رکنی وفد کابل میں موجود ہے جس کا مقصد افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت سے مذاکرات کرنا اور انہیں پاکستانی حدود میں مستقل جنگ بندی کے حوالے سے قائل کرنا ہے۔ وفد نے ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے رہنماؤں کے ساتھ منگل کے روز پہلی ملاقات کی ہے۔

ٹی ٹی پی نے پاکستانی علما کے سامنے اپنا تحریری موقف پیش کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستانی حدود میں جنگ اور ان کے بقول ’جہاد‘ جاری رکھنے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ انہوں نے اس تحریری موقف میں علما کو اپنے اساتذہ کہتے ہوئے قابل احترام قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں جہاد و قتال کے شرعی دلائل پیش کیے ہیں کہ وہ کیوں اقدام پر مصر ہیں۔

ٹی ٹی پی نے پاکستان میں مسلح جہاد کرنے کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ وہی ہیں جن کا وہ پہلے بھی تکرار کرتے رہتے ہیں، وہ چھ عوامل درج ذیل ہیں:

  • اس جنگ کی ابتدا ہم نے نہیں بلکہ یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔
  • پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔
  • پاکستان کے حکمران کفرِ بواح کے حکم اور زمرے میں آتے ہیں۔
  • حکمرانانِ پاکستان وہ طائفہِ ممتنعہ ہے جوکہ شریعت کا التزام نہیں کرتا۔
  • حکمرانانِ پاکستان اور پاکستان پر مسلط طاغوتی اسٹیبلشمنٹ اپنا خودساختہ آئین قرآن و سنت پر مقدم کرتے ہیں۔
  • ان میں ایسے اعمال پائے جاتے ہیں جن کی بنا پر ان کے خلاف جہاد فرض ہوجاتا ہے۔

بنیادی طور پہ ان کے مطابق یہ چھ وجوہات ہیں جن کی اساس پر وہ پاکستانی حدود میں ’جہاد‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ساری وجوہات شرعی تاویلات پر مبنی ہیں جن کی تفصیلات میں مختلف فتاوی کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فاٹا انضمام کی منسوخی کے مطالبے پر تاریخی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی آزادی حیثیت کو قائداعظم نے بھی تسلیم کیا تھا، اور پشتونوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے علاقوں میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا۔

ٹی ٹی پی نے جو تحریری موقف علما کے وفد کے سامنے پیش کیا ہے اس کی نظریاتی اساس اصولی طور پہ انہی شرعی تاویلات پر مبنی ہے جن کا وہ ہمیشہ سے تکرار کرتے آئے ہیں اور ان تاویلات کے پاکستان کے جید علما کی جانب سے بارہا تفصیلی جوابات بھی دیے جاچکے ہیں اور باقاعدہ ان تاویلات کی غلطیوں کو نمایاں کیا گیا ہے، لیکن ٹی ٹی پی نے ہمیشہ ان جوابات کو ناقابل اعتنا سمجھا ہے۔ لہذا یہ امکان بہت کم ہے کہ اب کوئی تبدیلی آئے گی۔ ریاست کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ٹی ٹی پی اپنے نظریات پر نظرثانی کی آمادگی کے بغیر کوئی نرمی دکھاتی بھی ہے تو وہ دیرپا ثابت نہیں ہوگی۔ اس پہلو کو نظرانداز کرکے کوئی بھی معاہدہ ایک تو عارضی ثابت ہوگا اور دوسرا اس کے نتائج و عواقب اس سے تلخ شکل میں نکل سکتے ہیں جس پر حالات آج ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...