working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

ردِ نظریات کی بحث اور جواب طلب سوالات
محمد عامر رانا

امن پسند حلقوں میں یہ بات بہت زیادہ زیرِبحث آ رہی ہے کہ کیا ردِ نظریات سے دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ دہشت گردی کی موجودہ لہر میں خاص فکرونظر یہ اہم محرک ثابت ہو رہا ہے۔ درحقیقت، اس وقت دنیا میں دہشت گردی پر کام کرنے والے ماہرین، سکالرز اور صحافی حضرات اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ اسلامی تشدد پسندی کا اس وقت ایک خاص قسم کے شدت پسند فرقے کے ساتھ گہرا تعلق بن چکا ہے۔ تاہم مذہب کے پُرامن اور معتدل خیالات کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ ا جا سکے۔ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ردِنظریات کی ترویج کے تصور نے مختلف دلچسپ نکات کو جنم دیا ہے۔ جن میں سب سے اہم اور پُرکشش نکتہ ''شدت پسندی بمقابلہ صوفی ازم'' ہے۔ اس خیال کے مطابق تکفیری، سلفی اور وہابی نظریات شدت پسندانہ ہیں اور یہی دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب ہیں۔ ان نظریات کا مقابلہ صوفی ازم سے کیا جا سکتا ہے جو کہ اسلام میں ایک معتدل فکر رکھتا ہے اور شدت پسند نظریات کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ان فکری خیالات کی ترویج کو درج ذیل دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
1۔ القاعدہ اور اس سے وابستہ جتنے گروہ ہیں ان کی نظریاتی بنیاد تکفیری، سلفی اور وہابی اسلام پر قائم ہے۔ ان تمام نظریات میں جہاد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے یہ دہشت گردی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
2۔ سلفی اور وہابی تحریکیں پُر تشدد سیاسی مقاصد رکھتی ہیں اور وہ اپنا نظریۂ اسلام نہ صرف مسلم ریاستوں میں بلکہ تمام دنیا میں لاگو کرنا چاہتی ہیں۔
3۔ جبکہ دوسری جانب صوفی ازم صرف خوداحتسابی پر توجہ دیتا ہے۔ اور اس کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں۔ یہ ایک معتدلانہ قوت ہے جو دنیا کے لئے کسی قسم کا سیاسی خطرہ نہیں بن سکتی۔
4۔ ایک وہابی کبھی معتدل نہیں بن سکتا۔
5۔ جبکہ صوفی ازم کا پیروکار کبھی شدت پسند نہیں ہو سکتا۔

ان نظریات کو پھیلانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مندرجہ بالا دلائل کا بخوبی جائزہ لیں۔ ہمیں سب سے پہلے اس سوچ کی ترویج کے مقاصد پر نظر ڈالنی ہو گی یعنی ہم اس متبادل فکر کو پیش کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس وقت دنیا میں پالیسی ساز قوتوں کے لئے سب سے بڑاہدف یہ ہے کہ دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جائے۔ اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ پرتشدد نظریات کو ختم کیا جائے۔ اور کیا ان پرتشدد خیالات کو صوفی ازم کا نظریہ اکیلے ختم کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟

اس کے ساتھ ساتھ وہابی اور سلفی خیالات کے مطابق اسلام کی تشریح کو جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا شدت پسندی کا فلسفہ ان نظریات میں وراثت کے طور پر چلا آ رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کون کون سے علاقوں میں ان نظریات کا اثر زیادہ ہو رہا ہے؟ اور کیا یہ پرتشدد نظریات، معتدلانہ نظریات میں تبدیل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ جبکہ اس کے برعکس کیا تمام صوفیانہ تحریکیں معتدل ہیں اور کسی بھی قسم کی متشدد تحریک کا باعث نہیں بن سکتیں؟ اور کیا صوفی ازم بنیادی طور پر معتدلانہ ہے یا ان کی بنیاد اس ثقافت کی وجہ سے ہے جو کہ میوزک، ڈانس اور رنگا رنگ میلے وغیرہ کے انعقاد سے ظاہر ہوتی ہے۔

پاکستان کے تناظر میں
اس بات کو ہم جب پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو صورت حال اس سے بھی زیادہ گھمبیر نظر آتی ہے۔

اس وقت یہاں 22 سے زیادہ تنظیمیں ہیں جو وہابی اور سلفی نظریات کی حامل ہیں۔ ان میں صرف 3، جماعت الدعوة، اس کی ذیلی تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت المجاہدین عسکری جہاد کی حمایت کرتی ہیں۔ جبکہ ایک اور سلفی عسکری گروپ، تحریک المجاہدین جو کہ کشمیر میں متحرک ہے جو اپنی تحریک کو صرف کشمیر کی آزادی سے مشروط کرتا ہے۔

ان تنظیموں کے علاوہ دیگر سلفی جماعتیں جہاد بالنفس کو ترجیح دیتی ہیں اور اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ عسکری جہاد اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ریاست اس کا اعلان نہ کرے۔ یہ تنظیمیں جہاد افغانستان اور کشمیر کو فرض قرار نہیں دیتیں۔ جماعت الدعوة، لشکر طیبہ اور جماعت المجاہدین پاکستان میں جمہوری نظام کی مخالف ہیں اور وہ ملک میں خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتی ہیں۔ جبکہ دیگر سلفی جماعتیں نہ صرف جمہوری نظام پر یقین رکھتی ہیں بلکہ خود بھی انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔

جہاد اور جمہوریت کے بارے اسی طرح کی مختلف آراء دیوبندی مکتبہ فکر کی تنظیموں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان دیوبندی تنظیموں کو وہابی فکری تناظر میں پرکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے مذہبی اور سیاسی خیالات میں ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں 46 دیوبندی تنظیموں میں سے 10عسکری بنیادوں پر قائم ہیں جو جہادی اور فرقہ وارانہ خیالات کی حامی ہیں تاہم یہ عسکری گروہ ملک کے ممتاز مذہبی حلقوں کی حمایت سے محروم ہیں۔ حتیٰ کہ طالبان کی حمایت کے مسئلہ پر بھی دیوبندی مکتبہ فکر کی اہم سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام میں بھی متضاد خیالات پائے جاتے ہیں۔ پارٹی کا اہم گروہ مولانا محمد خان شیرانی اور خالد سومرو کی قیادت میں طالبان کی مخالفت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے طالبان کی اس وقت بھی مخالفت کی تھی جب وہ افغانستان میں برسرِ اقتدار تھے۔ 2007ء میں اسلام آباد میں لال مسجد کے واقعہ پر بہت سے دیوبندی علماء جو مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں اور وفاق المدارس سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی لال مسجد کے طلباء کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کاا علان کیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے اندر نظریاتی حدبندی جہاد کے اردگرد بھی گھومتی ہے۔

پاکستان میں صوفی ازم کا مظہر اتنا سادہ نہیں ہے کیونکہ دیوبندی مکتبہ فکر بھی صوفی ازم پر یقین رکھتا ہے۔ نقشبندی سلسلہ جو پاکستان کا اہم صوفی سلسلہ ہے۔ دیوبندی مکتبہ فکر کی بہت زیادہ تعداد اس سے منسلک ہے۔ اور یہ بات زیادہ حیران کن ہے کہ جیش محمد کا سربراہ مولانا مسعود اظہر بھی صوفی ازم پر یقین رکھتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو نقشبندی سلسلہ سے بیعت پر پابند کرتا ہے۔

یقین اور عمل کے اس فلسفہ میں مزید شکوک و شبہات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ بریلوی مکتبہ فکر جو پاکستان میں صوفیانہ نظریات کا پرچار کرتا ہے وہ بھی عسکری جہاد کے رجحان سے اپنے آپ کو نہ بچا سکا۔ کشمیر کی تحریک میں 1990ء کے دوران بریلوی عسکری تنظیمیں، البرق، تحریک الجہاد کافی نمایاں رہی ہیں۔ سنی تحریک جو ایک اہم سنی فرقہ وارانہ گروپ ہے۔ وہ بھی کراچی اور اندرون سندھ پرتشدد کاروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ افغانستان میں بھی ایک گروپ ''صافی'' نے طالبان کے دور حکومت میں نہ صرف ان کی حمایت کی بلکہ ان کی حکومت میں بھی شامل رہے ہیں۔

صوفی نظریات کا حامل بریلوی مکتبہ فکر پاکستان کے مذہبی حلقوں میں سب سے زیادہ حاوی ہے۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد میں اہم کردار اس لئے ادا نہیں کیا کہ وہ نظریاتی یا مذہبی طور پر پابند نہ تھے بلکہ اس کی صرف سیاسی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے وہ اہم کردار ادا نہیں کر سکے۔ مملکت سعودےة کا افغان جہاد میں شامل ہونا، ان کے جہاد میں حصہ نہ لینے کی اہم وجہ ہے سعودےة نے صرف وہابی اور دیوبندی تنظیموں کی امداد کی۔ اس کے علاوہ عرب اور افریقین جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا تھا وہ بھی وہابی نظریات کے پیروکار تھے اور وہ پاکستان کی ہم خیالی وہابی اور دیوبندی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے میں آسانی محسوس کرتے تھے۔ کیا یہ سعودی اور عرب کردار نہیں تھا جس کی وجہ سے بریلوی جہاد میں اپنا حصہ ڈالنے سے محروم رہے؟ اگر وہ اس وقت جہاد میں شامل ہوتے تو کیا آج وہابی فکر و نظر کو ردِنظریات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہوتا؟

جب ایک نظریہ کی مالی، اخلاقی اور سیاسی امداد اس بنیاد پر کی جا رہی ہو تاکہ وہ دوسرے نظریہ کا مقابلہ کرے تو یہ معاشرے میں فرقہ وارانہ تعصب کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے جیسا کہ پاکستان، افغان جنگ کے دوران اس فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہو چکا ہے۔ اسی طرح کسی ایک مکتبہ فکر کی حمایت دوسرے مکتبہ فکر میں احساس محرومی پیدا کر سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چند صوفی گروہ بھی شدت پسند ہیں جو مغرب اور امریکہ مخالف نظریات رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس دیوبندی اور وہابی مکتبہ فکر سے وابستہ تنظیموں کی طرح عسکری تربیت حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہیں، اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہابی اور سلفی مکتبہ فکر کو نشانہ بنائے بغیر وہ لوگ جو سلفی مکتبہ فکر میں معتدل رائے رکھتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنے سے دہشت گردی اور تشدد پسندی کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں؟

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہابی تحریکوں نے اسلامی معاشرے کے اندر بہت مسائل پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے اسلام کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو فروغ دیا اور معتدلانہ قوتوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان کے راستے پر چلیں۔ لیکن ان تحریکوں نے مسلم معاشرے میں کیسے تبدیلیاں لائیں اور انہوں نے کیا سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی تبدیلیاں لائیں یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ ان کے علاقائی اور عالمی اثرات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا جائے بجائے اس کے کہ صرف ایک ردِنظریات کو فروغ دیا جائے۔

اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان میں متبادل اسلامی نظریہ جیسا کہ صوفی ازم ہے اس کو ترجیح دینے سے کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ کیونکہ سرکاری طور پر معتدل اور روشن خیال نظریہ کا پرچار اور صوفی ازم کی تحریک دونوں عام لوگوں کے درمیان اپنی جگہ نہیں بنا سکے۔ امریکہ اور مغرب مخالف نظریات پاکستانی معاشرے میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور اس طرح کی تحریکوں کو امریکی ایجنڈا کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں اکثریتی تعلیم یافتہ حلقہ پیروں کے آستانوں کو غیراخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے درست نہیں سمجھتا۔ اس وقت پاکستان میں صوفی ثقافت میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مزاروں پر منشیات کا استعمال اور جسم فروشی اس پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ یہی بات ہے کہ حکومت کی معتدل اور روشن خیال معاشرہ کی تشکیل کی تحریک کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی بلکہ الٹا شدت پسند عناصر نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی حمایت میں اضافہ ہوا۔

شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ایک مکمل لائحۂ عمل ترتیب دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے تمام نکات کو زیر بحث لایا جائے اور مسلم معاشروں میں ردِنظریات کو فروغ دینے کے اثر و رسوخ پر بھی نظر ڈالی جائے۔