working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

 
Bookmark and Share
01 April 2019
تاریخ اشاعت

از طرف مدیر

پارلیمان میں کھلے مباحثے کی ضرورت ہے

انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ بنیاد پرستی کا خاتمہ، غیر فعالیت،رجوع، مفاہمت، مصالحت، قومی دھارے میں واپسی، مکالمہ، انتہا پسندی سے گلوخلاصی جیسی اصطلاحات اگرچہ مقصدیت کے اعتبار سے باہم مترادف ہو سکتی ہیں لیکن ان کا لائحہِ عمل ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔مختلف معاشروں میں مختلف اصطلاحات کا استعمال بنیادی طور پردراصل کسی سماج میں ان اصطلاحات سے منسلک مخصوص سماجی و سیاسی سرگرمیوں کے ادراک کااظہارہے۔ مگردواصطلاحات، بنیادپرستی کاخاتمہ (Deradicalization)اورانتہاپسندی سے گلو خلاصی (Disengagement) کا استعمال عموماًزیادہ ہوتا ہے۔ ان دونوں اصطلاحات سے انفرادی یا اجتماعی دستبرداری کا عمل مراد لیا جا سکتا ہے۔انتہا پسندی سے گلوخلاصی کی اصطلاح رویہ جاتی تبدیلی کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ بنیاد پرستی کے خاتمے کاتعلق فکری تبدیلی سے ہے، جس سے مرادتفہیم میں اساسی تغیر کا رونماہونا ہے۔ مرکزی دھار ے میں شمو لیت ایک حد تک ان افعال کے بعدہی ممکن بنائی جائی سکتی ہے۔ بنیاد پرستی کا خاتمہ اور انتہا پسندی سے گلو خلاصی ، یا آپ انہیں کوئی بھی نام دے دیجیے، اس وقت روبہ عمل ہوتے ہیں جب کسی جگہ پر نظریاتی، سیاسی اور سماجی و معاشی حوالے سے تبدیلیاں وقوع پذیرہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں غیر ریاستی عناصر کو سماج کے مرکزی دھارے میں شمولیت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایسی متعدد عملی مثالیں افریقااور لاطینی امریکا میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

شناخت

مسلم سماج اور شناخت کی تلاش

شفیق منصور

شفیق منصور ’’تجزیات ‘‘ کے معاون مدیر ہیں، اوربین الاقوامی اسلامی یونیور سٹی سے عربی ز بان و ادب میں ایم فل کی سند حاصل کر رکھی ہے ، مذہب ، سماج اور جدید دور میں ان کی باہمی کشمکش اور اس سے جڑے مسائل ان کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہیں۔ شفیق منصور ’’سیاسی اسلام اور جدید ریاست‘‘ کے مصنف ہیں۔ مسلم سماج اور بالخصوص پاکستان کے تناظر میں شناخت کا موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔نو آبادیاتی عہد کے اختتام کے بعد مسلم معاشرے اپنے تشخص اوراقدار کے حوالے سے ابہام کا شکاررہے ہیں۔ اجتماعی شعوری آزادی کے فقدان،مذہبی آئیڈیالوجی کی مخصوص تعبیرات، اور ریاست وسماج کے تعلق کے مابین عدمِ توازن نے شناخت کے شد ید مسائل کو جنم دیا ہے۔زیر نظر مضمون میں اس نقطہ پر اظہارِخیال کیا گیا ہے کہ شعوری آزادی کتنی اہم ہے، مذہبی سیاسی آئیڈیالوجی نے سماجی ساخت اور خود مذہب کی رْوح پرکیا منفی اثرات مرتب کیے ہیں،شناخت کا جوہر اوراس کی اصل کیا ہے اور اس کے اندر در آنے والی فسطائیت کیسے فعال شہریت کا راستہ روک کر معاشرے کو انتشار اور تصادم کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ ا ن کا یہ مضمون شناخت سے جڑے مسائل کا بطریقِ احسن احاطہ کر تا اور سوچ وفکر کے نئے در وَا کرتا ہے۔

شناخت پر قومی مکالمہ

قیامِ پا کستان کے بعد پاکستان کی یکجہتی اور بقا کے خیال کے پیشِ نظر اہلِ ا قتدار نے پاکستانی سماج کو وطنیت کی بنیادوں پر ایک یکساں قومی شناخت کے تصور سے ہم آہنگ کر نے کی کوشش کی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کو مستحکم رکھنا ممکن ہو سکے گا ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دولخت ہونے میں جس مسئلے نے اہم کردار دا کیا ، وہ بنگالی شناخت سے جڑا ہے۔ آج بھی موجودہ پاکستان میں حقوق کی متعدد آوازیں اپنی علاقائی و لسانی شناختوں کے ساتھ سراپا صدا ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ریاست دراصل ہماری شناخت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اسی کی بدولت ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے میں شناخت کا مسئلہ انتہائی اہم ہو جاتا ہے اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد نے ملک بھر میں شناختی تنوع اور بقاے باہمی کے عنوان سے مکالماتی نشستوں کا آغاز کیا جن میں بالخصوص مختلف طبقہ ہاے فکر کی نمائندہ نوجوان شخصیات کے مابین شناخت کے موضوع پر باہمی مکالمے کا اہتمام کیا گیا۔ ان نشستوں میں مختلف اہلِ علم نے بھی اظہارِ خیال کیا اور یکساں شناخت کی صورت گری کی کوششوں کے مضمرات و نتائج پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان نشستوں کا احوال ’تجزیات‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

تہذیب و ثقافت

قومیت ایک مذہب

ڈاکٹر عرفان شہزاد

کارلٹن جے ایچ ہیز ((Carlton J H Hayes, 1882-1964 ایک امریکی مورخ تھے۔ وہ قومیت کے حامی تھے مگر پھر ان کے خیالات اس بارے میں مکمل طور پر تبدیل ہو گئے۔ اپنے دور میں قومیت کے نام پر برپا ہونے والی دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریاں ان کے سامنے تھیں۔ انہوں نے قومیت کے تصور میں موجود منفیت اور مقامیت کا ادراک کیا اور اس کے نہایت شان دار تجزیے پیش کیے۔ انہوں نے قومیت کو تاریخِ انسانی کی بدترین برائیوں میں سے ایک شمار کیا۔ زیرِ نظر مضمون کارلٹن ہیز کے مضمونNationalism as a Religion کے تصورات اور بیانات کا ایک خلاصہ ہے جسے ڈاکٹر عرفان شہزادنے اپنے الفاظ، ترتیب اور کچھ معمولی اضافہ جات کے ساتھ قارئینِ تجزیات کے لیے لکھا ہے۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد فاطمہ جناح خواتین یونیورسٹی میں شعبہ علومِ اسلامیہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں،اور’تجزیات آن لائن ‘ کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ان کے مضامین مختلف قومی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس مضمون کو کارلٹن ہیز کے مضمون کی شرح کہا جا سکتا ہے جس میں ڈاکٹر عرفان شہزاد کے اپنے تاثرات بھی شامل ہیں۔

بقا کے خطروں سے دوچاروادی کیلاش کے باسی

شاہ میر بلوچ

شاہ میر بلوچ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اور محقق ہیں ،اور مختلف ملکی و غیر ملکی انگریزی خبارات و جرائد میں متعدد موضوعات پرتحقیقی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ وہ یونی ورسٹی آف ہیمبرگ، جرمنی کے انسٹی ٹیوٹ فار پیس ریسرچ اینڈ سکیورٹی پالیسی کے وزٹنگ فیلو ہیں۔ان کا زیرِ نظر مضمون وادیِِ کیلاش کے باسیوں کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ کیلاش قبائل کو سکندرِ اعطم کی نسل سے بتایا جاتا ہے، ایک وقت میں یہ قبیلہ اس خطے پر راج کرتا رہا ہے لیکن اب نہ صرف ان قبائل کی منفرد رسوم و رواج ، ثقافتی روایات اور اقدار کو خطرات لاحق ہیں، بلکہ ان کا اپنا وجود معدومیت کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ قبائل افغان سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے بھی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، پاکستانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کیلاش قبیلے کا کوئی فرد صوبائی اسمبلی میں پہنچا ہے۔ ان حالات میں ریاست اور سماج پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مختلف طبقات کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے ان میں احساسِ محرومی کو ہوا دینے کی بجائے بالخصوص ایسے طبقات اور قبائل جو سماجی تنوع کا خوبصورت مظہر اور دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت ہیں، ان کو درپیش مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کی جانب توجہ دے۔ شاہ میر بلوچ کا ’ڈان‘‘ میں شائع ہونے والا یہ مضمون ایک محروم و مجبور طبقے کی آواز ہے ، جس کا اردو ترجمہ قارئینِِ تجزیات کے مطالعے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

سماج

مسلح تنظیمیں اور مسلم معاشرے

خورشید احمد ندیم

خورشید احمد ندیم کا شمار دورِ حاضر کے معروف دانشوروں میں ہوتا ہے۔کالم نگار اور اینکر ہونے کے ناطے آپ کے ابلاغ کا دائرہِ کار وسیع تر ہے۔وہ ادارہ تعلیم و تحقیق کے سربراہ ہیں اور متعدد علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ حال ہی میں سماجی موضوعات پر لکھے گئے ان کے کالموں کا مجموعہ ’’متبادل بیانیہ‘‘ اہلِ فکر و نظر سے دادِ تحسین وصول کر چکا ہے۔ان کا زیرِ نظر مضمون مسلم سماج کو درپیش مسلح شدت پسندی اور عسکریت پسندی، بالخصوص اپنی ہی حکومتوں کے خلاف برسرِ پیکار بغاوتی تحاریک کے فکری پسِ منظراور ان تعبیراتِ دین میں موجود مغالطے سے آگاہی فراہم کرتا ہے۔ خورشید احمد ندیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ صرف مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کے حل کے ممکنہ مواقع کی نشاندی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔وہ اس مضمون میں بھی اس ذمہ داری سے عہدہ بر آہوتے نظر آتے ہیں۔ (مدیر)

شاہ راگ: بے حسی کی آماجگاہ ایک پاکستانی قصبہ

اکبر نوتے زئی

اکبر نوتے زئی پاکستان کے موقر قومی جریدے’ڈان‘ سے وابستہ صحافی ہیں، ان کے تحقیقی مضامین ’ڈان‘ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ سماجیات ان کا خاص موضوع ہے۔ ’ڈان‘ میں شائع شدہ ان کازیرِنظر مضمون بلوچستان کے معروف سیاحتی قصبے شاہراگ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی پر لکھا گیا ہے۔ اس قصبہ میں کوئلے کی کانوں میں تنگ دست گھروں کے بچے اپنے خاندان کی کفالت کی غرض سے کام کے لیے آتے ہیں لیکن وہاں ان کو پْر مشقت مزدوری کے ساتھ جنسی اذیت کا سامنا بھی رہتا ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں اس استحصال اور قبیح فعل پر نہ صرف اہلِ علاقہ بلکہ والدین بھی مجرمانہ حد تک چپ سادھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لڑکوں پر جنسی تشدد پاکستان کے ایسے چند بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس پر تمام معاشرہ دانستہ آنکھیں بند کیے دکھائی دیتا ہے۔اکبر نوتے زئی کا یہ مضمون ہمیں اس مسئلے سے مفصل آگاہی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

آزاد جموں و کشمیر میں اقلیتیں

جلال الدین مغل

جلال الدین مغل آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقی صحافی ہیں، اورامیج ڈاٹ کام نامی آن لائن میگزین کے مدیر منتظم ہیں۔وہ خود اپنے تعارف میں اپنے آپ کو مصنف اور فلم میکر بتاتے ہیں۔ان کی تحریریں کشمیر میں اقلیتوں کے مسائل اور ان کے حقوق سے متعلق مختلف جرائد و اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو ریاست اور سماج، ہر دو جانب سے مختلف النوع خدشات اور عدمِ تحفظ کا احساس رہتا ہے لیکن آزاد جموں و کشمیر میں اقلیتوں کا المیہ مختلف ہے کہ وہ قابلِ ذکر تعداد کے باوجود بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیے جانے کے حق سے محروم ہیں، یہ ایک دوہرا مسئلہ ہے کہ کسی قومیت یا طبقے کو اس کے حقِِ شناخت سے ہی محروم رکھا جائے۔ اس موضوع سے متعلق ان کا زیرِ نظر مضمون ’فرائیڈے ٹائمز ‘ میں شائع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئینِ تجزیات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

فکر و نظر

اسلامی قانون سازی کے تصور میں توسیع کے امکانات

سید ثاقب اکبر

علامہ ثاقب اکبر جامعہ قم سے فارغ التحصیل ہیں اور علمی وفکری ادارے البصیرہ کے صدر نشین ہیں۔ وہ مسالک کے درمیان ہم آہنگی اور ملی یکجہتی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔زیرِنظر مضمون میں انہوں نے اسلامی قانون سازی کے تصور میں توسیع کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔یہ موضوع اس لیے اہم ہے کہ مسلم دنیا کو درپیش مشکلات کا حل فقہ سے تلاش کیا جاتا ہے لیکن روایتی فقہ ان سوالات کا تشفی بخش جواب دینے سے قاصر ہے، جس کا مطالبہ عصر حاضر کی جدیدیت اور اس کے مظاہر کرتے ہیں۔ اس لیے ایک طویل عرصہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اسلامی قانون میں ایسے نئے اصول وضع کیے جائیں جن کی اساس پر ہم موجودہ دور کے مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔ مضمون نگار نے اہل علم کو متوجہ کرنے کے لیے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔

مولانامفتی محمود کے سیاسی و معاشی افکار

ڈاکٹر قبلہ ایاز

ڈاکٹر قبلہ ایاز پاکستان نظریاتی کونسل کے سربراہ ہیں۔وہ ملک کی معروف علمی شخصیت اور مذہبی اسکالر ہیں۔سیاست، مذہب،سماج اورتاریخ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ وہ جدید مذہبی ، سماجی اور سیاسی افکار و نظریات سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ان کے کئی تحقیقی مقالہ جات معروف تحقیقی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں اور متنوع سماجی و مذہبی موضوعات پر ملک و بیرون ملک منعقدہ کانفرنسز اور سیمینارز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔انہوں نے پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ان کا حالیہ مضمون جمعیت علماے اسلام کے رہنما مولانا مفتی محمود، جو صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا) کے وزیرِ اعلیٰ بھی رہے، کے سیاسی ومعاشی افکار وخیالات کا احاطہ کرتا ہے۔مذہبی حلقوں میں امڈ آنے والی مذہبی شدت پسندی ، سیاسی افراتفری اور بعض انتہا پسند گروہوں کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں غیر آئینی اقدامات کی کوشش کے اس ماحول میں ماضی کے معروف مذہبی سیاسی رہنما کے معتدل افکارو نظریات کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر ڈاکٹر قبلہ ایاز کا یہ مضمون’ تجزیات‘ میں شامل کیا جارہا ہے۔

پروفیسر وارث میر: دانش اور مزاحمت کی آواز

ڈاکٹر سید جعفر احمد

ڈاکٹر سید جعفر احمد سماجیات کے ممتاز اسکالر ہیں، اورجامعہ کراچی سے طویل عرصہ تک وابستہ رہے ، اس دوران سترہ برس تک وہ پاکستان اسٹڈی سنٹر جامعہ کراچی کے صدر نشین رہے۔ وہ پچیس کے قریب کتب کے مصنف ہیں۔ ان کے تدریسی موضوعات پاکستانی سیاست، وفاقیت، آئینی ارتقا، انسانی حقوق اور تعلیمی مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ ایک متحرک سماجی رہنما ہیں اور ان کا زیرِ نظر مضمون بھی پاکستانی سماج کی آزادیوں پر قدغنون اور اہلِ حکم کی چیرہ دستیوں سے بیزاری کا اظہار ہے جس میں انہوں نے ماضی کے معروف صحافی پروفیسر وارث میر کی زندگی کے چند گوشوں کو بیان کیا ہے۔ اس مضمون میں ضیا الحق کے آمرانہ دورِ حکومت میں جمہوریت،انسانی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد اور انسانی سما ج اور ریاستی ڈھانچے کی ایک خاص طرح کی رجعت پسندانہ صورت گری کے خلاف پروفیسر مرحوم کی مزاحمتی جدو جہد اور ان کی قربانیوں کے لیے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا گیاہے۔ غیر محسوس سول مارشل لا کے اس دور میں ان کا یہ مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

قو می منظرنامہ

پاکستان میں جامعات کا نظام

یعقوب خان بنگش

ڈاکٹریعقوب خان بنگش آکسفورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، آئینی قوانین، جدید تاریخ اور سیاسیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ جدیدجنوبی ایشیا کی تاریخ اور خطے کے مسائل و معلامات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین ’دی گارڈین ‘ سمیت مختلف بین الاقوامی و قومی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں نظامِِ تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل دکھائی نہیں دیتا، ریاستی عدم توجہی اور انتظامی مسائل کی بنا پر پاکستانی جامعات تعلیمی میدانوں میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا پائیں، پاکستانی جامعات کے تحقیقی مقالہ جات ہمیشہ اہلِ علم حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں رہے ہیں کہ یہ یا تو پہلے سے کی گئی تحقیقا ت کا چربہ ہوتے ہیں یا پھر ان میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ یعقوب خان بنگش کے یہ مضامین سلسلہ وار’دی نیوز‘‘ میں شائع ہو رہے ہیں، جن میں پاکستانی جامعات کے انتظام و انصرام، ان کی ترجیحات، مقاصد اور انہیں درپیش مسائل سے متعلق انتہائی تفصیل سے نہ صرف یہ کہ جائزہ لیاگیا ہے بلکہ ان مسائل کا جامع حل بھی پیش کیا گیا ہے۔اب تک شائع شدہ تین مضامین کا ترجمہ قارئینِ تجزیات کے لیے یہاں شائع کیا جارہا ہے۔

پاک بھارت تنازعہ: دروغ گوئی کا ایک مظاہرہ

فرہاد منجو

فرہاد منجو شہرہ آفاق ساؤتھ افریقی نژاد امریکی کالم نگار ہیں۔ان کا خاندان بھارت سے تعلق رکھتا ہے۔’وال اسٹریٹ جرنل‘ سمیت معروف امریکی جرائد کا حصہ رہ چکے ہیں۔’نیو یارک ٹائمز ‘میں جدید سائنسی موضوعات پرکالم لکھتے ہیں۔ ان کا حالیہ مضمون پاک بھارت حالیہ تنازعے کے ابلاغیاتی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ذرائع ابلاغ کا سماجی نفسیات اور امن وامان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ عصرِ حاضر میں خبر کی دنیا جس قدر وسیع ہوئی ہے ،اس کے وسائل میں تنوع اور نشریات میں سرعت درآئی ہے،لیکن حادثہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیزکرنا اسی قدر محال ہو گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ تنازعے میں سماجی و قومی ذارئع ابلاغ میں جس طرح بلا سوچے سمجھے جنگی ہیجان کے فروغ کی کوشش کی گئی اور طرفین کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی و بہتان طرازی اور دروغ گوئی کا مظاہرہ کیا گیا، زیرِ نظر مضمون میں فرہاد منجو انہی حقائق سے پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔یہ مضمون انگریزی جریدے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئین کی خد مت میں پیش کیا جارہا ہے۔

بلوچستان کے قدرتی وسائل، بلوچ عوام کی حساسیت اور موجودہ صوبائی حکومت کا عزم

شہزادہ ذوالفقار

شہزادہ ذوالفقار ایک معروف قلم کار ہیں، اور انسانی حقوق اور سماجیات جیسے موضوعات سے خاص شغف رکھتے ہیں۔بلوچستان میں احساسِِ محرومی ایک حقیقت ہے اور بدقسمتی سے اس احساس کے خاتمے کی کوئی قابلِ عمل اور قابلِ قبول تدبیر ریاستی سطح پر ہوتی نظر نہیں آرہی، جس کے سبب یہ احساسِ محرومی مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچ عام آدمی اور سیاستدان اکثر و بیشتر ان خدشات کا اظہا ر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے وسائل ان کی فلاح کے لیے خرچ نہیں ہو رہے، بلکہ انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محروم رکھا جا رہا ہے، لیکن ایک تبدیلی یہ نظر آئی ہے کہ 2018ء کے حالیہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچ حقوق کے لیے اٹھائے گئے اقدماتا کے باوصف بلوچستان کے عوام اس پراعتماد کرتے نظر آتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں بلوچستان کی موجودہ صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

کراچی میں تشدد کے نئے رجحانات

ضیا الرحمن

ڈاکٹر ضیا الرحمن پاکستان کے معروف تجزیہ کار اور ’دی نیوز‘ کے سینئر رپورٹر ہیں، ان کے مضامین ’نیو یارک ٹائمز‘ اور ’فرائیڈے ٹائمز‘ میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان کا شہر کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں کے حالات کا بالواسطہ اثر ملک کے تمام تر علاقوں میں ہوتا ہے۔ کراچی میں امن و امان کی دگرگوں صورتحال طویل عرصہ سے ریاست و عوام کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ گذشتہ دوسال کے دوران حکومت اور سکیورٹی اداروں کے اقدامات کی بدولت روشنیوں کے شہر کا امن وامان کسی حد تک بحال ہوا ہے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، لیکن رواں سال کے آغاز سے کراچی میں ایک بار پھر بدامنی کے واقعات میں اضافہ نظر آیا ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔زیر نظر مضمون تشدد کی حالیہ لہر پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب

اعزاز سید

اعزاز سید معروف تحقیقی نامہ نگارہیں، ان کا شمار پاکستانی صحافت کی تاریخ کے چند نمایاں تحقیقی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے تحقیقی موضوعات پاکستان میں سول فوجی تعلقات ، ان کے اندر اتار چڑھاؤ، پاکستان میں عسکریت پسندی کی تاریخ اور علاقائی تعلقات کا احاطہ کرتے ہیں۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں، اوروہ پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل ’جیو‘ سے وابستہ ہیں۔ ان کے زیرنظر مضمون میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ پاک سعودی تعلقات کی حیثیت اور اس کی جہات اگرچہ پوشیدہ نہیں ہیں لیکن پچھلے دوسال سے پاکستان میں سیاسی کشمکش نے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کو بھی نیا رْخ دیا ہے جس میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس مضمون میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سعودیہ اور سعودی ولیِ عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

سائنس

مطالعہ کائنات

کارل ساگان

کارل ساگان امریکی ماہرِ فلکیات و کونیات ہیں۔ وہ سائنسی علوم پر دسترس رکھتے اور سائنسی فکر کے فروغ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔وہ متنوع فلکیاتی و کونیاتی موضوعات پر لکھی گئی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،زیرِ نظر مضمون ان کی کتاب Cosmosکا خلاصہ ہے جس میں وہ کائنات کی لامحدود وسعتوں اور زمین پر رہنے والے بنی نوع انسان کے دیگر سیاروں سے روابط اور وہاں تک پہنچنے کے امکانات و نتائج کو انتہائی آسان اور عام فہم پیرائے میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ کارل ساگان کی خوبی یہ ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مشکل کو انتہائی آسانی سے حل کر لیتے ہیں۔ ذیل کے مضمون میں ہم کارل ساگان کی معیت میں زمانہ ما قبل تاریخ سے لے کر بیسویں صدی میں وسعتِ خلا کی تسخیر تک زماں و مکاں میں انسانی دلچسپیوں کا سفر کریں گے۔

ادب

میں ہوں نجود دس سال عمر اور مطلقہ (قسط دوم)

نجود علی

نجود علی یمن سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ہے جس کی شادی اس کے بچپن میں کسی ادھیڑ عمر شخص سے کردی جاتی ہے جو بجائے خود ایک ظلم ہے مگر اس پر مستزاد یہ کہ اس کو شوہر کی جانب سے کام کاج اور دیگر امورِ خانہ داری سے ساسس سسر کی خدمت تک کی سبھی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ مزید یکہ اس پر ظلم و زیادتی اور تشدد کو بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس ظلم و جبر سے نجات کے لیے گھر سے نکلنے اور طلاق لینے میں کامیابی تک کے مراحل کو آپ بیتی کی صورت میں ایرانی نژاد فرانسیسی صحافی اور مصنفہ ڈلفن مینوئے (Delphine Minoui)نے"I'm Nujood: Age 10 and Divorced" کے نام سے تحریر کیا ہے۔ نجود علی جبری اورکم عمری کی شادی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں اوران کی آپ بیتی کااب تک تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔اردو میں اس کتاب کا ابھی تک کوئی ترجمہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے سماج میں بھی جبری و کم عمری کی شادی اور گھریلو تشددایک المیے کی صورت موجود ہے۔ ایک باہمت کم عمرلڑکی کی آپ بیتی یقیناًہمارے ذہنوں کو ضرور جھنجھوڑے گی۔ سہ ماہی تجزیات نے اس کتاب کے اردو ترجمے کو قسط وار شائع کرنے کاسلسلہ شروع کیاہے، اس سلسلے کیدوسری قسط آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ (مدیر)

تبصرہ کتب

پاکستان: ایک نظریہ۔۔۔ایک حقیقت

تبصرہ نگار: حذیفہ مسعود

زیرِ نظر کتاب ’’پاکستان: ایک نظریہ، ایک حقیقت‘‘ مختلف قلم کاروں کے مضامین کا مجموعہ ہے، ان موضوعات میں تاریخِ تحریکِ پاکستان، بانیانِ پاکستان کے خیالات اور ان کے ذاتی محاسن، اور دوقومی نظریے کی ضرورت و اہمیت جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ یہ کتاب شعبہ تعلقاتِ عامہ افواجِ پاکستان کے اشاعتی ادارے، ہلال پبلیکیشنز نے شائع کی ہے۔اس موضوع پر لکھے گئے مضامین کو مجتمع کر کے افواجِ پاکستان کے نمائندہ ادارے کاکتاب کی صورت میں شائع کرنا جہاں ایک طرف پاکستان،اس کی بقا اور اس کی غرض و غایت کے حوالے سے ہمارے دفاعی اداروں کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے وہیں اس کتاب کے مشمولات اور بالخصوص عنوان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے ملکی سلامتی کے ادارے حب الوطنی، قومی سلامتی، قومی مفاد اور اس طرح کے دیگر نوعیت کے موضوعات سے متعلق کیا سوچتے ہیں اور ان کے نزدیک ان موضوعات کا پاکستان کی بقا اور سلامتی سے کیا تعلق ہے۔

انسان سماج اور معاش

مصنف: افتخار بھٹہ تبصرہ نگار:شوذب عسکری

زیر تبصرہ کتاب گجرات سے تعلق رکھنے والے سینئر کالم نگار افتخار بھٹہ کے منتخب اردو کالموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے پچھلے 30 سالوں میں قومی اردو اخبارات میں تحریر کیے ہیں۔افتخار بھٹہ آج کل روزنامہ اوصاف، روزنامہ دن، روزنامہ مشرق لا ہور کے علاوہ گجرات کے مقامی روزنامہ جذبہ اور شانہ بشانہ کے لیے مضامین لکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور، گجرات اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ادبی اور نظریاتی وفکری نشستیں ان کے بغیر ادھوری ہیں۔ وہ عوامی ورکرز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فاضل مصنف ایک ریٹائرڈ بینکار ہیں۔ معیشت اور معاشیات کے موضوعات ان کی 30 سالہ پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہے ہیں لہٰذا ان کے تجزیوں اور تبصروں میں ان موضوعات پر ان کی گرفت صاف دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ان کے جو کالم اس کتاب میں شامل ہیں وہ موضوعاتی اعتبار سے متنوع ہیں۔ ان کالموں میں سماجی موضوعات کے علاوہ عالمی امور، علاقائی مسائل، ملکی وعالمی سیاست ، ملکی و عالمی معیشت، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، پاکستان کی خارجہ پالیسی، ہمارے عمومی سماجی رویے، پاکستان میں دائیں اوربائیں بازو کی سیاست کا ارتقا ،اس کے پیچ و خم اور بعض صورتوں میں مستقبل کی بصیرت افروز پیش بینی بھی شامل ہے۔