working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

 
Bookmark and Share
01 Apr 2018
تاریخ اشاعت

از طرف مدیر

عدم برداشت ، اہم سماجی مسئلہ

رواداری ، برداشت اور تحمل اہم سماجی رویئے ہیں جو کسی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی تہذیبی شعور اور ترقی کا پتہ دیتے ہیں ۔ پاکستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے جن سماجی تبدیلیوں کے عمل سے گزرا ہے بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر منفی تھیں جنہوں نے فرد اور سماج کی سطح پر رواداری اور برداشت جیسے عناصر کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ شروع میں عدم برداشت کے رویئے زیادہ تر مذہبی اورفرقہ ورانہ مباحث میں دیکھنے کو ملتے تھے جو گزشتہ کچھ عرصے سے بالخصوص سیاسی مناقشت اور قطب پذیری کی صورت میں بھی ظاہر ہورہے ہیں۔

فکری زاویے

ہم عصر مذہبی تحریکات کے تجزیاتی مطالعے میں مسائل

محمد خالد مسعود

ڈاکٹر خالد مسعود پاکستان میں ان چند افراد میں سے ایک ہیں جن کا فہم دینیات کے وسیع میدان سے سماجیات کے ہم عصر نظریات تک پھیلا ہوا ہے ۔ اسلامی فقہ ، قانون اور تاریخ کے ساتھ ساتھ فکر اقبال پر آپ کی نگاہ گہری ہے اور ان شعبوں میں متنوع موضوعات پر آپ کی تحقیقات اور تخلیقات بلامبالغہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہیں۔ زیر نظر مضمون بھی آپ کے دوررس قلمی سفر کا تسلسل ہے جس میں آپ جدید دور کی مذہبی تحریکوں کے تجزیئے میں درپیش مشکلات کا جائزہ لیتے ہیں۔ (از طرف مدیر)

ہر مسئلے پر قدیم مذہبی سند کی ضرورت کیوں ہے؟

ثاقب اکبر

علامہ ثاقب اکبر ایک درد مند مذہبی رہنما اور مفکر ہیں ۔بحیثیت مذہبی عالم انہیں اپنے عقیدت مندوں سے مختلف موضوعات پر سوالات موصو ل ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے فہم دین پر جواب سے نوازتے ہیں ۔ دینی موضوعات پر آپ کی گہری نگاہ اور موجودہ سماجی مسائل کے حل میں شرعی اصولوں کا ملحوظِ خاطر رکھنا آپ کا کمال ہے۔جدید دنیا کے مسائل کا حل مذہب میں تلاش کرنا بلاشبہ ایک مشکل امر ہے ۔ اکیسویں صدی کے سائنسی دور میں اسوہ حسنہﷺ پر کاربند کیسے رہا جائے ۔ جدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے سنت نبویؓ کی پیروی کیسے ہو۔ جدید دور کی رسومات پر عمل کریں تو کیا بدعت قرار پائے گا وغیر ہ جیسے مراحل درج ذیل مضمون کا موضوع ہیں جنہیں ان کا قلم ہی رقم کرسکتا تھا ۔ (ازطرف مدیر)

قومی افق

سیکولرازم یا نظریاتی ریاست: بحث کو بند گلی سے نکالنے کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر کا تعلق ایک علمی خانوادے سے ہے ۔ آپ دینی و دنیاوی موضوعات پر یکساں مہارت رکھتے ہیں ۔ آپ کی قلمی رائے اہل علم میں ایک علیحدہ شناخت کی حامل ہے ۔ آپ مکالمے کے داعی ہیں اور اختلاف رائے کو تمام مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم سمجھتے ہیں ۔ ریاست پاکستان کے مقاصد کی تشریح کے لئے مذہب اور سیکولرازم کی بحث پر آپ کا مضمون سنجیدہ سماجی مکالے کی جانب ایک اہم قدم ہے جسے نہ صرف پڑھنے بلکہ سمجھ کر استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔(ازطرف مدیر)

قائد اعظم کے پاکستان کا اغوا

ڈاکٹر سید جعفر احمد

ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان میں سماجی علوم کے ممتاز سکالر ہیں ۔ وہ جامعہ کراچی سے برسوں تک وابستہ رہے ہیں ۔ اس طویل رفاقت میں وہ سترہ برس تک پاکستان اسٹڈی سنٹر جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض رہے ہیں ۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے ایم اے سیاسیات ، مطالعہ پاکستان میں ایم فل اور برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے سماجی و سیاسی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے ۔ آپ کا تدریسی تجربہ پاکستان کی سیاسیات بالخصوص وفاقیت ، آئینی ارتقا ، انسانی حقوق اور تعلیمی مسائل کے میدانوں تک پھیلا ہوا ہے ۔ وہ نامور محقق ہیں ۔ ان کی تحریر کردہ کتب کی تعداد پچیس ہے ۔ جن کی پہچان سائنسی اصولوں کی گئی تحقیقی سوچ ہے ۔ وہ سول سوسائٹی کا سرگرم حصہ ہیں۔ وہ اپنے علمی و تحقیقی کام کے سبب بہت سی ملکی و غیر ملکی کانفرنسسز میں اپنے مقالہ جات پیش کرچکے ہیں ۔ زیر نظر مضمون کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں ان کا پڑھا گیا مضمون ہے جس میں وہ اس مشکل موضوع کو( کہ قائد اعظم کا پاکستان کیسا تھا)کو سادہ انداز میں سمیٹتے ہیں ۔ (ازطرف مدیر)

سکیورٹی جائزہ 2017: اہم چیلنجز اور تجاویز

محمد عامر رانا، صفدر سیال

زیر نظر مضمون دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کا تفصیلی جائزہ ہے جس میں نہ صرف گزشتہ سال میں ہوئے دہشتگرد حملوں کے اعداد و شمار بیان کئے گئے ہیں بلکہ دہستگردی کے خلاف ریاستی پالیسی کا ہمہ جہت جائزہ لیا گیا ہے ۔ قلم نگاروں کا اس موضوع پر کامل دسترس کا ثبوت اس مضمون میں درج وہ موضوعات ہیں جن کا جائزہ لیا گیا ہیکہ انہوں نے اس عنوان میں شامل تمام عناصر کی کارکردگی اور انہیں درپیش مشکلات کا احوال پوری دیانتداری سے بیان کردیا ہے ۔(ازطرف مدیر)

قانون کی حکمرانی : پاکستانی آئین کے تصورات اور عملدرآمد

محمد عامر رانا

جدید دنیا کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خطرات پر پاکستان میں موجود معدودے چند مصنفین میں محمد عامر رانا ایک ممتاز شناخت کے حامل مصنف و کالم نگار ہیں جن کی تحریریں معروف عالمی جرائد اور پاکستان کے موقر انگریزی اخبار ڈان میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں ۔ انتہا پسندی کی وجوہات ، واقعا ت ،نقصانات اور اس مشکل خطرے کا انسداد عامر رانا کی دلچسپی کے موضوعات ہیں جن پر وہ متعدد کتابوں اور مضامین تصنیف کرچکے ہیں۔ پاکستانی آئین کی موجودگی میں کہ جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اختیاراتی حدود واضح ہیں یہ ادارے عملی پر قانون کی حکمرانی میں کس قدر کامیاب ہوئے ۔ فاضل مضمون نگار نے اسی موضوع پر اپنی رائے دی ہے (ازطرف مدیر)

عالمی منظرنامہ

سعود ی عرب میں ریاست اور مسجد کے مابین تقسیم

تھیوڈور کراسک(دی اکانومسٹ)

سعودی ریاست کے سیاسی افق پر جس ایک نام نے پچھلے ایک سال سے ہلچل مچارکھی ہے وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسیوں کے سبب نہ صرف مشرق وسطی کے سیاسی میدان میں نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں بلکہ خود سعودی ریاست بھی ازسرنو تشکیل کے عمل سے گزر رہی ہے۔ وہ سعودی ریاست کی قرون وسطی کی ریاست کی تصویر کو جدید دور کی ریاست کی تصویر سے بدل دینا چاہتے ہیں اس کوشش میں مستقبل کے پرجوش بادشاہ کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا درپیش ہے ۔ اس کا احوال معروف بین الاقوامی تجزیہ کار تھیوڈور کراسک نے دی اکانومسٹ کے صفحات پر کیا تھا۔ (ازطرف مدیر)

مغرب نے چین کو سمجھنے میں کیسے غلطی کی

(دی اکانومسٹ)

گزشتہ ماہ چین کی پیپلز کانگرس نے موجودہ چینی صدر شی جنگ پنگ کو اس شرط سے مستثنی قرار دے دیا جس میں وہ دس سال تک عہدہ صدارت پر کام کرنے کے پابند تھے ۔ وہ اب چاہیں تو تاحیات پیپلز ریپبلک کے صدر رہ سکتے ہیں ۔ چینی کانگرس کا یہ فیصلہ مغربی سیاسی تجزیہ کاروں کی ان پشینگوئیوں پر بجلی کی مانند تھا جو یہ توقع کررہے تھے کہ عالمی معاشی اداروں میں چین کی شمولیت آئندہ برسوں میں سیاسی آزادیوں اور جمہوری روایات کی جانب گامزن ہوگی ۔ اب جبکہ ایسے امکانات تاریک ہوئے ہیں تو مغرب اپنے سیاسی مفادات کو چین جیسی معاشی طاقت کے سامنے کس طرح پورا کرسکتا ہے اور اس مشکل مرحلے میں اسے کس نوعیت کے سمجھوتے کرنے ہوں گے ۔ ان سب کا احوال دی اکانومسٹ پر درج اس مضمون میں تھا ۔ (ازطرف مدیر)

شام پر حالیہ امریکی و اتحادی میزائل حملوں کاجائزہ

شوذب عسکری

مضمون نگار قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل اسکالر ہیں وہ یونیورسٹی مذکورہ میں وزٹنگ فیکلٹی ممبر بھی ہیں۔ تجزیات کے سب ایڈیٹر ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات کے علاوہ عالمی امور پر ان کی تحریریں، تجزیات آن لائن، ہم سب آن لائن اور ڈان اردو پر شائع ہوتی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں مصنف نے شام کے شہر دوما میں ہوئے کیمیائی حملوں اور ان کی تادیب میں شامی حکومت پر امریکی و اتحادی افواج کے میزائل حملوں کا جائزہ لیا ہے۔(از طرف مدیر)

انٹرویوز

پر امن پاکستان

لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر خان جنجوعہ (مشیر برائے قومی سلامتی)

پاکستانی ریاست نے دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ جس کی کارکردگی کا جائزہ اور ذمہ داری قومی سلامتی کے مشیر جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ کے سپرد ہے ۔ جنرل صاحب سے اس پلان کے مقاصد اور اس کی کامیابی کے امکانات پر پپس کی ٹیم نے انٹرویو کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں تحریرا پیش کیا جارہا ہے ۔ (ازطرف مدیر)

نیکٹا کو فعال بنائیں

احسان غنی،نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا

نیکٹا پاکستان میں قائم ہونے والا انسداد دہشتگردی کا مرکزی ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنائے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اداروں کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دے ۔ انسداد دہشتگردی کے موضوعات پر لکھنے والے ماہرین کے مطابق نیکٹا کو اپنے مقاصد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہ مشکلات کس نوعیت کی ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے ۔ تجزیات کی ٹیم ان سوالات کے ساتھ نیشنل کوآرڈی نیٹر نیکٹا احسان غنی سے انٹرویو کرنے گئی تھی ۔ اس انٹرویو کے مندرجات کو تحریر کی شکل میں تجزیات کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔(ازطرف مدیر)

زیر مطالعہ

اشتعال کا دور

مصنف : پنکج مشرا

جدید مغربی دنیا کی تشکیل سیکولر اور پروگریسو نظریات پر ممکن ہوئی ہے جن کے احیا کا دور انقلاب فرانس کے دنوں میں دکھائی دیتا ہے ۔ جدید یورپی مفکرین نے بالعموم اور فرانسیسی مفکرین نے بالخصوص یورپ کی جدید تہذیب کی بنیادیں تعمیر کی ہیں۔ تاہم یہ جدید سیکولر یورپ جس کے متعلق فلسفیوں کا خیال تھا کہ انسان کے تہذیبی ارتقا کا اوج کمال بنے گا ممکن نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس یورپ کے اس سائنسی عروج نے نسل انسان سے سکون نامی دولت کو ناپید کردیا ہے۔ مصنوعی ضروریات کے اس مادی دور میں فلسفیوں کی رائے کہاں تک درست رہی ، کس فلسفی نے موجودہ دور کو قبل از وقت جانچ لیا اور کون سا فلسفی اس کا حقیقی ادراک کرسکا ۔ ان موضوعات کو پنکج مشرا نے اپنی کتاب دور اشتعال میں تذکرہ کیا ہے۔ (ازطرف مدیر)

تبصرہ کتب

صلح کل

تدوین: طاہر مہدی،تبصرہ: علی بابا تاج

طاہر مہدی پاکستان کے معاصر لکھاریوں میں معتبر نام ہیں جن کے مضامین اور کالمز موقر جرائد میں شائع ہوتے ہیں ۔ انہوں نے صلح کل کے نام سے ایک کتاب تدوین کی ہے ۔ جس میں تکثیریت کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے برصغیر کے معاشرے میں اس کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ اس کتاب میں صوفی شاعری کے نو اہم پاکستان صوفیا کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے مختلف زبانوں میں شاعری کرکے اس خطے میں مہر و محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیا ۔ کتاب میں بابا فرید، شاہ حسین، رحمان بابا، بلھے شاہ ، شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست، میاں محمد بخش، مست توکلی اور خواجہ غلام فرید کی لافانی کلام کو پنجابی، پشتو، بلوچی، سندھی اور سرائیکی میں تراجم کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ صوفی شاعری پر اتنے اہم شعرا کا انتخاب اور اس کتاب کا عمومی موضوع فاضل لکھاری کی انسان دوستی کو واضح کرتا ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے علی بابا تاج نے کیا ہے جو کہ خود بھی معتبر لکھاری ہیں۔ (ازطرف مدیر)