working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

چین۔ پاکستان معاشی راہداری۔امکانات اورچیلنج

ڈاکٹر سید جعفر احمد

ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان سٹڈی سینٹر کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ آپ ایک کتاب Federalism in Pakistan: A Constitutional Study کے مصنف ہیں علاقائی اور عالمی تنازعات پر گہری نظر رکھتے ہیں سیاسیات کے استاد ہونے کے ناطے ان کا پاکستانی معاشرے اور سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کا عمیق مطالعہ ہے۔(مدیر)

ماہ و سال کی تقویم میں ہزاروں واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر ایک خاص وقت میں اپنا اثر دکھا کر قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں۔ البتہ برسہا برس میں کوئی ایسا واقعہ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے جس کے اثرات برسوں بعد تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ واقعات قوموں کی تقدیر بھی بدل دیتے ہیں اور ملکوں اور معاشروں کے حالات کو ایک نیا رُخ بھی دیتے ہیں۔ بیتے ہوئے سال (2016)کے واقعات پر غور کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس سال پاکستان کے نقطۂ نظر سے جو اہم ترین واقعہ رونما ہوا وہ چین اور پاکستان کے درمیان تعمیر ہونے والی راہداری (سی پیک) کا آغاز تھا۔ گو اس راہداری کے قیام کی بات چیت بہت پہلے سے ہورہی تھی اور 2002ء میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا کام شروع ہوا تھا جو 2007ء میں مکمل ہوا۔ 2003ء میں پاکستان کی حکومت نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور سے لے کر چین کی کمپنی کو دے دیا تھا۔ پھر 2005ء میں پاکستان۔چین اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط ہوئے جس کا مقصد خنجراب اور گوادر کی بندرگاہ کے درمیان سڑکوں کا جال بچھانا تھا۔ اس منصوبے پر 2015ء ہی سے کام شروع ہوا اور 2016ء میں پہلے تجارتی سامان کی ترسیل کا عمل شروع ہوا۔ اس لحاظ سے اس کو 2015ء اور 2016ء کا منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے اپنے اپنے معاشی پھیلاؤ میں غیر معمولی اضافے کی توقع کی جارہی ہے۔ ا س منصوبے کے تحت چین چھیالیس (46) ارب ڈالر پاکستان میں لگائے گا۔ اس رقم میں سے 34بلین ڈالر توانائی کے منصوبوں اور 12بلین ڈالر انفراسٹرکچر کی تعمیر و توسیع پر خرچ ہوں گے جو مختلف منصوبے اس وسیع تر معاشی پروجیکٹ کا حصہ بنیں گے، ان کی تکمیل 2030ء تک متوقع ہے۔ یہاں یہ دیکھنا سودمند ہوگا کہ سی پیک کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کے چین کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اور پاکستان کے حصے میں کون کون سے فائدے آئیں گے؟ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں حائل چیلنجوں کی نوعیت کیا ہے اور ان سے کس طرح عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔
چین۔پاکستان معاشی راہداری بنیادی طور پر چین کے فکرِ رسا کا نتیجہ ہے۔ چین گزشتہ چند عشروں میں تیزی کے ساتھ عالمی معیشت کا ایک مرکزی کردار بن چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو ذوق و شوق کے ساتھ اختیار کرنے کے بعد چین میں داخلی طور پر جو تضادات پیدا ہوئے ہیں وہ بجائے خود بہت اہمیت کے حامل ہیں اور مستقبل میں اس کے نظام پر اثر انداز ہوسکتے ہیں لیکن سردست چین کا تیزی کے ساتھ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننا اور اس کی عالمی سطح پر اپنے معاشی پھیلاؤ کی تگ و دو ہمارا موضوع بحث ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد دنیا میں جس طرح سرمائے کی جہانگیری کا دور دورہ ہوا اس کا ایک بڑا مظہرماضی کی اشتراکی ریاستوں کا سرمایہ دارانہ نظام سے ہم آہنگ ہونا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھلی منڈی کی معیشت تمام براعظموں کو اپنے دائرہ کار میں لے آئی اور قومی ریاستوں کی سرحدیں اپنا پرانا تقدس خود زائل کرنے لگیں۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے منڈیوں اور کاروبار کو مزید مربوط اور مزید عالمی تشخص فراہم کردیا۔ کمپیوٹر کی اسکرین پر اربوں کے سودے ہونے لگے اور دنیا کے دور دراز کونے میں بیٹھا ہوا شخص بغیر ہلے جلے گلوبل شہری بن گیا۔ تاہم مالیات کی ترسیل تو زبانی کلامی ہوسکتی تھی مگر اجناس کی نقل و حرکت کے لیے بری، بحری اور فضائی راستوں پر ہی انحصار کیا جاسکتاتھا۔ سو یہ راستے نئی مبارزآرائی کا مرکز بنے اور ان پر تصرف کی کوششیں دو چند ہوگئیں۔ لیکن تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا یہ بھی وصف رہا ہے کہ معاشی فلسفہ کی یکسانیت کے باوجود سرمایہ دار ممالک مسابقت بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر جنگوں کی حد تک جانے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ ماضی کی جنگوں کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ سرمایہ دار ملکوں کی باہمی جنگوں ہی پر مشتمل ہے۔ چین کے حالیہ معاشی ابھار سے امریکہ، یورپ اور جاپان کی معاشی بالادستی کو جو چیلنج درپیش ہوا ہے، اس کے نتیجے میں بڑی معاشی طاقتیں ایک نئے طرز پر اپنے اپنے حلقۂ اثر بنانے میں مصروف ہیں۔ بظاہر چین کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کو امریکہ کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے اور خود چین بھی امریکہ کا توڑ کرنے کے لیے ایک جارحانہ معاشی حکمت عملی پر کاربند نظر آرہا ہے۔
پاک چین معاشی راہداری چین کی اسی نئی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ راہداری چین اور پاکستان کے درمیان کوئی منفرد منصوبہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چین ایسی چھ معاشی راہداریاں تعمیر کررہا ہے۔ یہ راہداریاں مندرجہ ذیل ہیں:
۱) چین۔ پاکستان معاشی راہداری
۲) چین۔ منگولیا۔روس معاشی راہداری
۳) چین۔ وسطی ایشیا۔ مغربی ایشیا معاشی راہداری
۴) نیو ایروایشیا زمینی پل معاشی راہداری
۵) چین۔ ہند چینی جزیرہ نما معاشی راہداری
۶) بنگلہ دیش۔چین۔انڈیا۔ میانمار معاشی راہداری
ان سب معاشی راہداریوں کے پیچھے چین کی ’ون روڈ۔ ون بیلٹ‘ کی حکمت عملی اور ہدف کارفرما ہے۔ ون روڈ سے مراد خشکی کے راستے چین کے انتہائی مشرقی حصے کو مغرب کی سمت وسطی ایشیا اور بحیر�ۂ روم تک پہنچانا اور وہاں سے یورپ تک پہنچ حاصل کرنا ہے۔ ون بیلٹ سے مراد بحری راستے سے چین کے مشرقی حصوں کو افریقہ اور یورپ کے ساحلوں تک تجارتی راہداری فراہم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی اہمیت یہ ہے کہ چین بحری راستے سے یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک تجارت کرتا ہے تو اس کو آبنائے ملاکا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو وقت بھی زیادہ لیتا ہے اور اس پر خرچہ بھی زیادہ آتا ہے۔ اس وقت چین کو مشرق وسطیٰ سے توانائی کی درآمدات کا 80فیصد آبنائے ملاکا سے ہوکر گزرتا ہے۔ چین دنیا کا سب سے بڑا توانائی کا خریدار ہے لیکن اس کی درآمد جن بحری راستوں سے ہوتی ہے، ان پر جگہ جگہ امریکہ کے اڈے موجود ہیں۔ خود ہندوستان کی بحریہ بھی آبنائے ملاکا کے آس پاس نکوبار کے جزیرے پر جاسوسی کے لیے موجود رہتی ہے۔ چین اگر گوادر کا ساحل استعمال کرتا ہے تو اس کا فاصلہ اور لاگت دونوں بہت کم ہوجاتے ہیں۔ عالمی تجارت میں اپنے بڑھتے ہوئے کردار کے پیش نظر ہی چین نے برّی اور بحری راستوں کے ذریعے خطوں کو جوڑنے اور برسر زمین اور سمندروں میں تجارتی راہداریاں بنانا شروع کی ہیں۔ اس پورے اور ہمہ گیر منصوبے کو ’نئی شاہراہ ریشم‘ کا نام دیا گیا ہے جو ازمنۂ قدیم کی شاہراہ ریشم کی یاد دلاتا ہے جس کے ذریعے چین دنیا تک اپنے ریشم کی ترسیل کرتا تھا۔
پاکستان، چین کے اس عالمی معاشی نقشے میں ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے جس کا ادراک کرتے ہی چین نے پاکستان سے اس سلسلے میں مذاکرات شروع کیے۔ اس پورے منصوبے سے پاکستان کو بھی غیر معمولی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں لہٰذا 2002ء سے اب تک ہماری حکومتیں اس منصوبے کو روبہ عمل لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں صرف سڑکیں ہی تعمیر نہیں ہوں گی بلکہ بہت سے ترقیاتی منصوبے اس میں شامل ہیں۔ مثلاً وسیع تر راہداری منصوبے کے مغربی روٹ اور مشرقی روٹ سمیت کراچی سے پشاور تک مین لائن کی توسیع ، کراچی سے لاہور تک موٹروے کی تعمیر، حویلیاں سے خنجراب تک ریل کی پٹڑی کا بچھانا، حویلیاں خشک بندرگاہ، لاہور میٹرو اورنج لائن، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی توسیع، پاک چین مشترکہ کاٹن بائیوٹیک لیبارٹری، گوادر، نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل اور پائپ لائن پروجیکٹ کے علاوہ اس منصوبے میں کئی توانائی کے پروجیکٹ شامل ہیں۔ بیسیوں پروجیکٹس پر مشتمل ان منصوبوں کے لیے پاکستان اور چین کے درمیان پچاس کے قریب معاہدے طے پائے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا سارا ہی معاشی انفراسٹرکچر کسی نہ کسی صورت میں تجدید اور تعمیر نو کے عمل سے گزرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے معاشی تعمیر نو کے پروگرام کے نتیجے میں بے کنار فوائد کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کو پانسہ پلٹنے والا (game-changer) منصوبہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں امکانات کی ایک نئی دنیا ہمارے سامنے آسکتی ہے۔ فوری معاشی فوائد کا سو چیں تو توانائی کے منصوبے ، پاکستان میں بجلی کے دیرینہ بحران کو حل کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جو سڑکوں کا جال بچھنے جارہا ہے، وہ بین الصوبائی تجارت میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ سی پیک کے ایک منصوبے کے تحت گوادر اور نواب شاہ کے درمیان ڈھائی بلین ڈالر سے گیس کی پائپ لائن، ایران سے گیس لانے میں معاون ہوگی۔ کراچی اور پشاور کے درمیان ریلوے لائن کو جدید بنایا جائے گا جس کے نتیجے میں اس لائن پر ٹرین کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوجائے گی۔ معاشی راہداری اور اس کی ہم رکابی میں بننے والے نئے منصوبے تقریباً سات لاکھ ملازمتوں کی گنجائش پیدا کریں گے۔ ایک اندازے کے مطابق ان منصوبوں کے نتیجے میں ملک کی معاشی نمو میں دو سے ڈھائی فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔ اب تک پاکستان کا بجلی کی پیداوار میں زیادہ تر انحصار تیل سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر رہا ہے جس سے بننے والی بجلی کی فی یونٹ لاگت تقریباً 20روپے سے زائد ہوتی ہے جو زیرگردش قرضہ (سرکلر ڈیٹ) میں اضافہ کا موجب ہے۔سی پیک کے تحت چین پاکستان کو کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبے لگانے میں مدد دے گا،کیونکہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے بہت زیادہ سرمائے کے متقاضی ہوتے ہیں۔البتہ ان سے حاصل ہونے والی بجلی کی فی یونٹ لاگت تقریباً 5 سے8 روپے کے درمیان بنتی ہے۔ لہٰذا اُمید کی جاسکتی ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد پاکستان کے زیرگردشی قرضہ (سرکلر ڈیٹ) میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
سی پیک کے نتیجے میں پاکستان میں معاشی سرگرمیوں اور بین الصوبائی رابطوں میں اضافے، نیز نئی ملازمتوں کے پیدا ہونے کے جو فوائد ہوسکتے ہیں ان کو حقیقت بنانے کے لیے ملک کے معاشی ڈھانچے کے حوالے سے ازسرنو غور و فکر کی ضرورت ہوگی۔ سڑکیں اور شاہراہیں بجائے خود اقتصادی ترقی شروع نہیں کروا دیتیں بلکہ یہ معاشی و اقتصادی منصوبوں کو مہمیز کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی ملک کی زرعی پیداوار ہو ہی نہیں رہی تو زرعی علاقوں کے آس پاس سے گزرنے والی سڑکیں کس چیز کی ترسیل کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ چنانچہ سی پیک کے تحت بننے والا انفراسٹرکچر اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارے پاس مضبوط اور فعال صنعتی شعبہ موجود ہو۔ یہی نہیں بلکہ ملک کی مربوط معاشی ترقی کے لیے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کا ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ صوبے ایک دوسرے کے منصوبوں میں مددگار ثابت ہوں۔
معاشی راہداری اس وقت مزید سودمند ثابت ہوگی جب اس کے پہلو بہ پہلو ایک علمی و تحقیقی ڈھانچہ بھی تیار کیا جائے۔ اعلیٰ تحقیقی ادارے ملک کے مختلف شعبوں کے پوٹینشل پر تحقیق کریں اور ترقی کے قابل عمل راستے تلاش کریں۔ پھر ان نتائجِ تحقیق کو نئے ابھرتے ہوئے معاشی حقائق کے ساتھ مربوط کیا جائے تو معاشی راہداری ایک تحقیق پر مبنی معیشت کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوگی۔ تحقیق کا یہ کام جامعات کی سطح پر ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے خود جامعات کو جدید تحقیق کے کلچر سے خود کو متصف کرنا ہوگا۔
مسائل اور چیلنج
سی پیک جتنے خوش آئند امکانات کی بشارت دے رہی ہے اتنے ہی چیلنج بھی اس کے ہم رکاب ہیں۔ یہاں چند حقائق کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ سی پیک کے حوالے سے معروضی انداز میں غور و فکرہی ہمیں غیر جذباتی اور حقیقت پر مبنی نتائج پر پہنچا سکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ سی پیک کا منصوبہ ہمارے ذہن کی تخلیق سے زیادہ چین کے ذہن کی پیداوار ہے۔ یہ چین کے عالمی معاشی مفادات ہیں جن کی نقشہ گری میں پاکستان کے لیے ایک مقام اور کردار سوچا گیا جو ہمیں بھی اپنے لیے مفید مطلب محسوس ہوا، سو ہم نے فوراً اس میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کردی۔ ظاہر ہے کہ جب چین نے یہ منصوبہ سوچا تو اس کے پاس اسے روبہ عمل لانے کے لیے وسائل بھی تھے، سیاسی عزم و ارادہ (political will) بھی تھا اور اس کی ریاست کی معاشی اساس اس لائق ہوچکی تھی کہ وہ اپنے مفادات کا دائرہ وسیع کرکے اس کو دنیا کے دوسرے خطوں تک پھیلانے کا عمل شروع کرسکے۔ اس کے برعکس پاکستان کے لیے سی پیک ایک موقع، ایک خوش آئند امکان اور روشن مستقبل کا ایک مبارک خیال ہونے کے باوجود داخلی معاشی نظام کی غیر معمولی کمزوری کی بنا پر اسے اس امر پر مجبور کرنے کا موجب بنا کہ وہ راہداری کے لیے درکار انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ بنیادی معاشی منصوبوں کے قیام کے لیے بھی چین کی طرف دیکھے۔ چین کے پاس اتنی معاشی توانائی تھی کہ وہ اس پر بھی رضامند ہوگیا۔ پھر ان منصوبوں کے لیے مختص کیا گیا چینی سرمایہ تمام تر امداد بھی نہیں بلکہ قرض تھا لہٰذا اس پر آمادگی پر چین کا کوئی نقصان بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اب ہم اس راہداری کے ذریعے تجارت بھی کریں گے اور تجارت کا مال بھی بڑی حد تک چین ہی کے تعاون سے تیار کریں گے۔ یوں آنے والے برسوں میں ہمارا بڑا انحصار چین کے اوپر رہے گا۔
سی پیک کے حوالے سے بعض ماہرین معاشیات نے چند ایک اور ناقدانہ امور کی بھی نشاندہی کی ہے۔ سردست صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیرونی سرمایہ کاری کی رفتار بہت کم ہے۔ سی پیک کے نتیجے میں اس بات کا امکان تو ہے کہ دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی ہمارے یہاں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا لیکن یہ مشروط ہوگا ملک کی امن و امان کی صورت حال سے۔
ماہرین معیشت اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ سی پیک کے نتیجے میں ہماری موجودہ مقامی صنعتیں مزید غیر محفوظ ہوسکتی ہیں۔ خاص طور سے سیمنٹ، سریے اور مشینری کی صنعتیں کیونکہ چین کی خواہش ہوگی کہ یہ اشیا چین سے لائی جائیں۔ چین یہ بھی چاہتا ہے کہ جو پلانٹس اور مشینری چین سے آئے اس پر ڈیوٹی نہ لگائی جائے۔ چین کا بعض شعبوں میں نگرانی اور تکنیکی کاموں کے لیے اپنی افرادی قوت لانے پر بھی اصرار ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ توانائی کے منصوبوں کے لیے چین نے جو 35ارب ڈالر کی رقم دی ہے وہ دراصل قرضہ ہے جو بالآخر واپس کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کی جو صورت حال ہے اور ٹیکس بمقابلہ جی ڈی پی کا تناسب ہے اس کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں خوش گمانی کی زیادہ گنجائش موجود نہیں ہے۔
داخلی معاشی چیلنجوں کے علاوہ دوسرا اہم چیلنج سی پیک کے حوالے سے دوسرے ملکوں کے تحفظات ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ امریکہ تو واضح طور پر سی پیک کے حوالے سے ناخوش ہے کیونکہ اس کے ذریعے چین کو معاشی پھیلاؤ حاصل ہورہا ہے۔ ہندوستان سی پیک کو یوں ناپسند کررہا ہے کہ یہ پاکستان کی معاشی خوشحالی اور اس کے نتیجے میں اس کے داخلی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ادھر روس اور وسطی ایشیا کے ممالک سی پیک سے جڑنا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی امریکہ اور ہندوستان کے لیے اضطراب کا باعث ہوسکتی ہے۔ نیز ہندوستان کا خیال ہے کہ سی پیک سے چین کا اصل مقصد پاکستان کے علاقے سے تجارتی راہداری نکالنا کم اور گوادر بندرگاہ تک پہنچنا زیادہ ہے۔ ہندوستان کے خیال میں، تجارت کی حفاظت کے نام پر چین گوادر میں اپنی عسکری موجودگی کا راستہ بھی نکالے گا۔ سی پیک ہی کے حوالے سے متحدہ عرب امارات بھی پریشان ہے کیونکہ گوادر کا گہرا سمندر (deep sea)بڑے بحری جہازوں کو خوش آمدید کہے گا اور یہاں ایسی تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی جو امارات کی معاشی سرگرمیوں کے مقابلے پر آکھڑی ہوں گی۔ 
سی پیک کو ایک اور چیلنج امن و امان کی ناقص صورتحال سے بھی لاحق ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے گروپ موجود ہیں جو ماضی میں مختلف حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں تشکیل پائے۔ ایسے گروپ دوسرے ملکوں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں چنانچہ چند ایسے ہی گروپوں کی طرف سے سی پیک کے خلاف بیانات اور عملی کارروائی کی دھمکیاں معمول بن چکی ہیں۔ لہٰذا سی پیک کے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے سیکورٹی کا ایک الگ ڈھانچہ تعمیر کرنا پڑا ہے۔
سی پیک کے خلاف دہشت گردی کی کسی ممکنہ کارروائی کے سدباب کی خاطر سیکورٹی کا ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے۔ یہ ذمہ داری براہ راست فوج کو دی گئی ہے اور میجر جنرل رینک کے اعلیٰ افسر کی نگرانی میں ایک اسپیشل سیکورٹی ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے جس میں بری فوج کی 9بٹالینز اور سول آرمڈ فورسز کے 6ونگز شامل ہیں۔ اس سیکورٹی ڈویژن میں 15 ہزار جوانوں کو ٹریننگ دی گئی ہے اور اس سلسلے میں 2015ء میں دس (10)ارب روپے فراہم کیے گئے تھے۔ قومی اسمبلی کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سی پیک کے منصوبے کے تحفظ کے لیے اب تک بارہ(12)ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ اب اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کو شمالی اور جنوبی ڈیوژنوں کی صورت میں علیحدہ وجود فراہم کردیا گیا ہے۔ شمالی ڈویژن خنجراب سے راولپنڈی تک کے منصوبے کی سیکورٹی فراہم کرے گا جبکہ جنوبی ڈویژن راولپنڈی سے گوادر تک کے علاقے کا نگران ہوگا۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سی پیک کے 330منصوبوں پر کام کرنے والے چینی ماہرین اور ورکرز کی کل تعداد 9000 کے قریب ہے ان کی حفاظت کے لیے 13700 سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔
2016ء کے اواخر میں پاکستانی بحریہ نے ٹاسک فورس 88 (TF-88) کے نام سے ایک فورس تشکیل دی ہے جو گوادر کی بندرگاہ اور اس سے ملحق سمندر میں سیکورٹی کی ذمہ دار ہوگی کیونکہ گوادر اور اس کے ساحلی سمندر میں روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ یہ ٹاسک فورس بحری جہازوں، تیز رفتار طیاروں اور ڈرونز پر مشتمل ہوگی۔ اس کے علاوہ میرینز کو بھی اس علاقے میں سیکورٹی کے کام میں لگایا جائے گا۔ پاکستان کو روایتی طور سے بحری راستوں پر ہندوستان ہی سے خطرات لاحق رہتے تھے مگر اب گوادر میں اتنے بڑے پیمانے پر چینی جہازوں، کنٹینروں اور ماہرین کی موجودگی بعض دوسرے ملکوں کی تخریبی کارروائیوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہندوستان گوادر کے قریب بحیرہ عرب میں خفیہ کارروائیوں میں بھی مصروف ہورہا ہے۔ ایک بھارتی آبدوز کے پاکستانی پانیوں میں داخل ہونے کی کوشش کی اطلاع بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہے۔ اس پوری صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ سی پیک کا منصوبہ مستقبل قریب میں سیکورٹی کے نقطۂ نظر سے بہت اہم بنا رہے گا اور اس کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل جو مالی اور افرادی دونوں نوعیت کے ہوں گے، فراہم کرنے ہوں گے۔
سی پیک کے حوالے سے ایک اور داخلی چیلنج سیاسی نوعیت کا ہے۔ سی پیک کی کامیابی کے لیے پاکستان کے چاروں صوبوں کا اس پر اتفاق اور اطمینان ناگزیر ہے لیکن بدقسمتی سے صوبوں کے درمیان اس موضوع پر شروع ہی سے اختلافات شروع ہوگئے کہ کس کو اس سے زیادہ فائدہ اور کس کو کم فائدہ پہنچے گا۔ منصوبے کے آغاز پر کم از کم اخباروں کی حد تک یہ تاثر دیا گیا کہ یہ چین اور پاکستان کی سرحد یعنی خنجراب سے گوادر کو جوڑنے کی راہداری ہوگی لیکن پھر یہ چیز منظر عام پر آئی کہ یہ ایک کہیں زیادہ پھیلا ہوا سڑکوں کا جال ہوگا جس میں بنیادی طور پر دو روٹ ہوں گے یعنی مغربی روٹ اور مشرقی روٹ۔ مغربی روٹ کاشغر، خنجراب، گلگت، تھاکوٹ، مانسہرہ، حویلیاں، ہری پور، برہان، میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان، اور دریا خان تک آئے گا جہاں سے یہ مغربی روٹ دو الگ روٹس میں تقسیم ہوجائے گا جن میں سے ایک روٹ ڈیرہ اللہ یار، شہداد کوٹ، خضدار، رانگہ، بسیمہ، پنجگور اور ہوشاب سے ہوتا ہوا گوادر تک پہنچ جائے گا۔ جبکہ دریا خان سے نکلنے والی مغربی روٹ کی دوسری شاخ ژوب، قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ، سوراب، بسیمہ، پنجگور اور ہوشاب سے ہو کر گوادر پہنچے گی۔
سی پیک کا مشرقی روٹ خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ کے بہت سے شہروں سے ہو کر آئے گا۔ یہ روٹ کاشغر، خنجراب، گلگت، رائے کوٹ، مانسہرہ، ایبٹ آباد، حویلیاں، ہری پور، برہان، ایم ٹو (موٹروے)، لاہور، فیصل آباد، خانیوال، ملتان، سکھر، رتوڈیرو، ایم ایٹ (M-8)، خضدار، بسیمہ، پنجگور، ہوشاب سے ہو کر گوادر پہنچے گا۔
سی پیک کے مغربی اور مشرقی روٹ پاکستان کے چاروں صوبوں کو اس راہداری سے منسلک کرنے کا ذریعہ بنیں گے لیکن یہیں سے یہ قضیہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ مغربی اور مشرقی روٹ میں سے کام کس پر ہورہا ہے ۔دونوں میں سے کیا کسی ایک روٹ کو ترجیح دی جارہی ہے اور یہ کہ کون سا روٹ صرف روٹ ہے اور اس سے دیگر معاشی منصوبے جڑے ہوئے نہیں ہیں یا کم تعداد میں ہیں اور کس روٹ سے زیادہ منصوبوں کو جوڑا گیا ہے۔
اس حوالے سے بھی صوبوں میں اختلاف رائے دیکھنے میں آیا ہے کہ سی پیک کے 46ارب ڈالر میں سے کس صوبے کے حصے میں کتنی رقم کے منصوبے آئیں گے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق زیادہ رقم سندھ میں یعنی ساڑھے ۱۱؍ ارب ڈالر خرچ ہوگی، دوسرے نمبر پر بلوچستان میں 7.1ارب ڈالر کے پروجیکٹ بنیں گے، تیسرے نمبر پر پنجاب میں 6.9ارب ڈالر کے پروجیکٹ تعمیر ہوں گے۔ لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار پر چھوٹے صوبوں کے سیاست دانوں کی طرف سے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے میں مغربی روٹ کی تعمیر کا کام بہت سست رفتاری سے کیا جارہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس روٹ سے منسلک معاشی منصوبے مشرقی روٹ پر بننے والے منصوبوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ سی پیک کے اوپر خیبر پختونخوا کی حکومت کو بھی اعتراض ہے کہ یہ اصل منصوبے سے انحراف کرچکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں صرف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی عوامی نیشنل پارٹی اور اس کے سربراہ اسفندیارولی بھی وہی الزام لگا رہے ہیں کہ سی پیک سے پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے لیے مشرقی روٹ بنایا اور مغربی روٹ کے مقابلے میں زیادہ سرعت کے ساتھ تعمیر کیا جارہا ہے۔ صوبوں کے درمیان اس رسہ کشی کے نتیجے میں خود چین کی حکومت بھی پریشان نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف صوبوں کے اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ چینی حکومت اور وہاں کے ادارے براہ راست بھی گفت و شنید کرتے رہے ہیں۔
سی پیک کے موضوع پر مختلف صوبوں میں پائے جانے والے اختلاف کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے ان میں ایک زاویہ مثبت بھی ہے اور وہ یہ کہ مختلف صوبے اس راہداری سے ہم آہنگ ہونا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کریں۔ یہ مسئلہ کہ کس صوبے کے حصے میں کیا آتا ہے یہ وفاقی نظاموں کا ایک عمومی مسئلہ ہے جہاں وفاقی وحدتیں کسی مشترکہ منصوبے کے حوالے سے ا پنے اپنے حق پر اصرار کررہی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں ان مسئلوں کو حل کرنے کے فورم آئین نے فراہم کررکھے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اس کے دو ایوانوں اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے علاوہ آئین میں کونسل آف کامن انٹرسٹس اور نیشنل اکنامک کونسل کے ادارے وہ موزوں ترین فورم ہیں جہاں صوبوں کے اختلافات زیربحث آسکتے ہیں اور ان کا کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کا راستہ اختیار کیا۔ ساتھ ہی قومی پارلیمان کی ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لیکن یہ ادارے ہنوز اعتماد کی فضا بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا بڑا سبب وفاقی حکومت کی طرف سے اختیار کیا جانے والا رویہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کچھ چیزیں پردۂ اخفا میں رکھنا چاہتی ہے۔ بعض فیصلے مشاورت سے کرنے کے بجائے پہلے کرلیے جاتے ہیں اور بعد میں ان پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ طرزِ عمل باہمی اعتماد پیدا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سی پیک کے اوپر کی جانے والی ساری کارروائی پارلیمان کے سامنے پیش کی جاتی رہے اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی ا س سے متعلق تفصیلات بھیجی جاتی رہیں۔
سی پیک کے موضوع پر ایک اور اہم بات یہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس منصوبے کی کارکردگی اور پاکستان کے مستقبل پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات کا بڑی حد تک دارومدار ہماری ریاست کی سیاسی اساس پر ہوگا۔ ریاست جتنی زیادہ سیاسی طور پر مستحکم ہوگی اتنا ہی زیادہ سی پیک کے حوالے سے رونما ہونے والی معاشی سرگرمی قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ثابت ہوگی۔ ریاست کی سیاسی اساس سے ہماری مراد پاکستان کا وفاقی اور پارلیمانی نظام ہے اور اس نظام کے فراہم کردہ وفاقی و صوبائی ادارے ہیں جو اگر ملک کے آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرتے ہیں تو وہ سی پیک کے حاصلات کو بھی قوم اور ملک تک پھیلا سکیں گے۔ لیکن ریاست کی اساس کمزور ثابت ہوئی تو اس بات کا احتمال بھی رہے گاکہ غیر سیاسی ادارے اس معاشی منصوبے پر تصرف حاصل کرلیں اور اپنی منشا کے مطابق اس کو آگے لے کر چلیں۔