working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

سمرقند

امین معلوف

نام کتاب : سمرقند 
مصنف : امین معلوف 
سن اشاعت : 1988ء
تبصرہ نگار : عاطف ہاشمی 
سمرقند
"سمرقند " معروف فرانسیسی لبنانی ادیب اور ناول نگار امین معلوف کا تحریر کردہ شہرہ آفاق تاریخی ناول ہے، جو کہ پہلی مرتبہ 1988ء میں شائع ہوا۔اس ناول کا مرکزی موضوع گیارہویں صدی کے وسطی ایشیا کے معروف فارسی شاعر،فلسفی اور ریاضی دان عمر خیام کی شاعری کا مجموعہ "رباعیات" ہے۔امین معلوف رباعیات کے اس مخطوطے کی گمشدگی اور پھر اس کی یافت کا قصہ سناتے ہوئے قاری کو اس طرح صدیوں کا سفر طے کراتے ہیں کہ گویا سر کی آنکھوں سے وہ واقعات و حادثات کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ 
یہ ناول چار ابواب اور ان کی ذیلی 48 فصول پر مشتمل ہے۔ہمیں یہ دلچسپ اور تاریخی کہانی سنانے کے لیے معلوف اپنے ناول کو زمانی اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔پہلے حصہ عمر خیام کی سمر قند کی شاعرہ جہان کے ساتھ محبت کا قصہ،سلجوقی وزیر نظام الملک اور حشاشین کے بانی حسن بن صباح کے ساتھ بچپن کی حقیقی یا فرضی کہانی اور سلجوقی دور کی سیاست ،معمولات اور معروف علمی و تاریخی شخصیات کی زندگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ 
جبکہ دوسرے حصہ میں ایک امریکی سکالر کی ان کوششوں کا تذکرہ ہے جو اس نے خیام کی رباعیات کے اصلی نسخے کو تلاش کرنے میں صرف کیں، اور بتایا گیا ہے کہ 1912ء میں کس طرح رباعیات کا یہ مخطوطہ ٹائی ٹینک بحری جہاز کے ساتھ غرق ہو جاتا ہے۔

عمر خیام کا شمار بلا مبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔شاید دنیا کے کسی اور شاعر کا اتنی زبانوں میں ترجمہ نہیں کیا گیا جتنا عمر خیام کی رباعیات کا،اور دل چسپ بات یہ ہے کہ جس خیام کو آج کی دنیا شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے اس کے اپنے دور میں اور بعد میں کئی صدیوں تک اسے ایک نابغۂ روزگار عالم اور سائنسدان کی حیثیت سے زیادہ شہرت حاصل تھی۔ مولانا شبلی نعمانی نیاپنی کتاب شعر العجم میں لکھا ہے کہ :" خیام فلسفہ میں بو علی سینا کا ہمسر اور مذہبی علوم ،فن و ادب اور تاریخ میں امامِ فن تھا۔ "اسی طرح جی سارٹن نے بھی اپنی کتاب "تاریخ سائنس" میں خیام کو ازمنۂ وسطیٰ کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں شمار کیا ہے۔ 
ان کی رباعیات کا تو پہلا نسخہ ہی وفات کے تقریبا تین سو برس بعد1423ء میں مرتب ہوا،رباعیات کا یہ مخطوطہ عمر خیام سے حسن بن صباح تک کیسے پہنچا؟حشاشین کے مرکز آلموت قلعہ میں کتنا عرصہ مخفی رہا؟آلموت کے سقوط کے بعد مغولوں سے یہ مخطوطہ کیسے محفوظ رہا اور پھر پیرس کیسے پہنچا؟ اور یہاں تک کہ ٹائی ٹینک کے ساتھ غرقاب ہو گیا ؟یہ تمام تفصیل انتہائی اچھوتے پیرائے میں سمرقند میں بیان کر دی گئی ہے۔
سمرقند کا شمار ان مشرقی ناولوں میں ہوتا ہے جن کو مغرب میں بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور جلد ہی عربی ،انگریزی،اطالوی،جاپانی اور ہسپانوی جیسی بڑی زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع ہو گیا۔حال ہی میں جمہوری پبلیکیشنز لاہورنے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع کر دیا ہے اور اس طرح یہ شہرہ آفاق تاریخی ناول اب اردو قارئین کی دسترس میں بھی آگیا ہے۔ تاریخ میں شغف رکھنے والے قارئین کو یہ ناول لازمی پڑھنا چاہیے۔
اسی ناول کے ایک حصے کو بنیاد بنا کر اردن کے محمد البطوش نے "سمرقند" نام سے ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے جو گذشتہ برس رمضان میں عرب دنیا میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا اور ناول کی طرح اسے بھی خوب پذیرائی ملی،کیا ہی اچھا ہو کہ "سمرقند" ناول کی طرح ڈرامہ سیریل " سمرقند" کو بھی اردو قالب میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔