working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

کیاسیاست عقیدہ اکھٹے رہ سکتے ہیں ؟

عارف میاں

نام کتاب : کیاسیاست عقیدہ اکھٹے رہ سکتے ہیں ؟
مصنف : عارف میاں
پبلشرز: نیڈ کونسل 
اشاعت: 2016ء
قیمت: 500روپے
تبصرہ نگار: سجاد اظہر 

سیاست اور عقیدے کی بحث تو صدیوں سے جاری ہے ۔شاید اس کی ابتدا اسی وقت ہو گئی تھی جب سائنس کی بنیادیں استوار ہونے لگی تھیں تاہم سائنس نے ترقی کی تو سماجی سائینسز نے بھی نئی جہتیں لیں ۔کیا، کیوں اور کیسے ؟ کی روش نے بہت سے سوالات پیدا کیے ۔مذہب ہر سوال کا جواب نہیں دیتا وہ تسلیم کی عادت ڈالتا ہے مگر فلسفیوں اور سیاسیات کے ماہرین نے ایسے سوالات کے انبار لگا دیے جن کا جواب مذہب کے پاس نہیں تھا۔ شروع شروع میں ریاستیں مذہب کے تابع رہیں پھر کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ریاست کو عقیدے سے ماورا ہونا چاہیے ۔یہاں سے جدید ریاستوں کی بنیاد پڑی ۔ہمارے ہاں یہ بحث ہنوز نہ صرف جاری ہے بلکہ یہ بحث تصادم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ عارف میاں اس کتاب میں وہ سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں جو پاکستان اور اس کی تاریخ اور تہذیب کے تناظر میں پیدا ہوتے ہیں ۔کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں ’’غالب رائے ہے کہ مسلمان سیاست سے مذہب کو الگ کر کے اور جدید تعلیم پر یکسوئی سے توجہ دے کر بہتر ہو سکتے ہیں ۔فرقہ واریت ،نفرت ،گروہ بندی ،انتہا پسندی اور دہشت گردی جس میں بہت سے مسلمان مبتلا ہیں ،خود مسلمانوں کے لیے بہتر ہے نہ باقی دنیا کے لیے‘‘۔
اسی طرح پہلے باب میں وہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرتے ہیں ۔بعض مواقع پر وہ ایسے سوال اٹھاتے ہیں کہ انسان کا ایمان لڑکھڑانے لگتا ہے تاہم وہ ان لوگوں کو جو خدا کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ جو کرتے ہیں دونوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’کیا پنڈت ،پادری اور مولوی کا کردار ایسا نمونہ پیش کر سکتے ہیں کہ خدا کے ہونے کا یقین نہ رکھنے والے یہ سائنسی فکر متاثر ہوں ؟ اگر یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ کہ ان سائنسی فکر کے حامل لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ؟ معترض نہ ہوا جائے ؟ فساد کا سبب نہ بنا جائے ؟ حساب کتاب کا معاملہ خدا پررہنے دیا جائے جو زیادہ بہتر فیصلہ کرنے ولا اور طاقت رکھتا ہے ؟‘‘
اس کتاب کی ایک اور خاصیت اس میں تین مکالمے بھی شامل کیے گئے ۔یہ مکالمے دراصل وہ عام فہم سوالات ہیں جو ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں آتے ہیں ۔پہلا مکالمہ مولوی سے دوسرا پادری اور تیسرا ماہر سماجیات سے ہے ۔
وہ مسلمان ریاستوں کی بناوٹ اور اس کے ارتقاء کے بارے میں بھی باتے کرتے ہیں ۔یعنی کیسے یہاں پر طاقتور اشرافیہ مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلتی ہے وہ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے ۔مذہب کے نام پر اپنی سلطنتوں اور بادشاہتوں کو وسعت دیتی ہے مگر اس میں کسی عام انسان کے لیے کوئی حق نہیں ہوتا ۔عوام ایک طرف طاقتور اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہیں اور دوسری جانب مولوی نے ان کی سوچوں کو یرغمال بنا رکھا ہے جو انہیں دوزخ سے ڈرا کر چندے جمع کرتا ہے ۔
کتاب میں کئی نامور کالم نگاروں کے کالموں کے تراشے بھی دیئے گئے ہیں ۔ڈاکٹر عطا الرحمٰن کا ایک کالم جس میں وہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ڈی این اے بنانے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے ،مستقبل قریب میں انسان بیماریوں پر نہ صرف قابو پا سکے گا بلکہ اپنی عمر کو بھی اپنی مرضی کے مطابق طوالت دے سکے گا۔اسی طرح آگے چل کر عارف میاں حدود اخلاقیات نامی باب میں کہتے ہیں کہ ’’عقیدہ ،فرقہ ،مذہب یا ذاتی نظریہ انسان کا جو بھی ہے ،وہ اس کا پرچار یا اظہار کر سکتا ہے ،اظہار رائے کی آزادی ہے وہ ا س کی بنیاد پر معزز یا ملعون نہیں‘‘۔اس کے مقابلے میں وہ مسلم معاشروں میں جاری اخلاقیات پر بھی کڑے سوالات اٹھاتے ہیں ۔تعلیم کے باب میں انہوں نے کئی نامور کالم نگاروں کی آرا کو یکجا کردیا ہے جس میں وہ مسلم دنیا کی تعلیم سے دوری کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔
سیاست کے باب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک ملک یا ریاست کے اندر بسنے والے افراد کے کئی مذاہب ہوتے ہیں جن کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے اگر ریاست بذاتِ خود مذہبی ہو تو ظاہر ہے کہ اس کا مذہب کسی ایک مذہب کے بہت سے فرقوں میں سے ایک فرقے کا مذہب ہو سکتا ہے۔ایسے میں وہ دوسرے مذاہب اور اپنے مذہب کے دوسرے فرقوں کے عقائد کا غیر جانبداری سے دفاع کیسے کر سکتی ہے ؟‘‘۔
کیا سیاست اور عقیدہ اکھٹے رہ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب ہاں یا نا ں میں دینے کی بجائے حقائق بیان لیے گئے ہیں۔ اور پھر فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا گیاہے۔ کہ وہ خود کیا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ اس کتاب کی بڑی خوبصورتی ہے مگر ہو سکتا کہ جو سوال یہاں اٹھائے گئے ہیں وہ کچھ طبقوں کو ناگوار گزریں ۔کیونکہ عموماً یہاں سوال اٹھانے کو ایمان کی کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔