working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

عرب:شام میں امریکی مداخلت کے خلاف کیوں ہیں ؟

رابرٹ ایف کینیڈی

رابرٹ ایف۔کنڈی امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل ہیں ۔ ان کا یہ خصوصی مضمون شام کی گھنجلک صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔شام کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا ؟ عربوں کی اندرونی سیاست اور امریکی مفادات نے اس مسئلے کو کیسے بگاڑا ؟ داعش نے کیسے جنم لیا ؟ ان سب سوالات کا بڑے گہرے انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ مضمون نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ۔(مدیر)

چونکہ میرے والد کا قتل ایک عرب نے کیا تھا سو میں نے مشرقِ وسطی میں امریکی پالیسی کو سمجھنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ خصوصاً ان عناصر کو سمجھنے کی کوشش جو بسا اوقات عالم اسلام کی جانب سے ہمارے ملک کے خلاف خونی اقدامات کا محرک بنتے رہے۔ داعش کے منظر عام پر آنے پیرس اور سان برنارڈینو میں معصوم جانوں کے وحشیانہ قتل کے محرکات پر توجہ مرکوز کرتے وقت ہمیں مذہب اور نظریہ کی موزوں وضاحت کرنی چاہئے۔ بلکہ تیل اور پیچیدہ تاریخی پس منظر کا معائنہ بھی کرنا چاہیے کہ کس طرح ان کی طرف سے ہمیشہ ہمیں مورد الزام ٹھر ایا جاتا رہا ہے۔ 
شام میں امریکی مداخلت کے سیاہ ریکارڈ نے(جس کا علم امریکیوں کو ہو نہ ہو شامی اس بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں) شدت پسندانہ اسلامی جہادی کاروائیوں کی وہ راہ ہموار کی کہ اب حکومت کی طرف سے داعش کے خلاف کیے جانے والے تمام مؤثر اقدامات پیچیدگی کا شکار ہیں۔ جب تک امریکی عوام اور پالیسی ساز اس ماضی سے بے خبر رہیں گے مزید مداخلت سنگین بحران کا موجب ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے رواں ہفتے شام میں عارضی طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن چونکہ شام میں امریکی اثر رسوخ کم ہے سو اہم جنگجوؤں داعش اور نصرہ کو سیز فائر کے حوالے سے قائل کیے بغیر جنگ بندی کے اعلان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ انہیں اپنے تجربہ کی بنیاد پر اس بات کا علم ہے یہ اعلان اعتدال پسندوں کی آواز کو مدہم کر دے گا، انہیں مزید جنگجو رضاکار حاصل ہوں گے اور امریکہ کے خلاف اسلامی دنیا کو متحد کر دے گا۔ 
اسی طرح لیبیا میں صدر اوباما کی طرف سے فوجی مداخلت، داعش کے ایک تربیتی کیمپ پر امریکی فضائی حملہ انتہا ء پسندی کو کمزور کرنے کی بجائے مزید تقویت بخشنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ 8 دسمبر 2015 ء نیو یارک ٹائمز کے صفحہ اوّل پہ شائع ہو اکہ داعش کی سیاسی قیادت اور سٹریٹیجک منصوبہ ساز امریکی فوجی مداخلت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ 
اس صورتحال اور خصوصاً موجودہ بحران کو سمجھنے کے لئے ہمیں اہل شام کے نقطہ نظر سے تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ 2003ء میں عراق پر ہمارے قبضہ سے بہت عرصہ پہلے سنی بغاوت جس نے اب داعش کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سی آئی اے نے شدت پسند جہاد یوں کی پراکسی وار کے آلہ کے طور پر معاونت کی اور امریکہ، شام تعلقات کو خراب کیا۔یہ سب کچھ اندرونی اختلافات کے باعث رونما ہوا۔ 
یہ 1957 ء کی بات ہے جب میرے چچا نے سی آئی اے کی شام میں ایک ناکام مہم کے حوالے سے وائٹ ہاؤس ،دونوں سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ہمارے یورپی اتحادیوں کو عرب دنیا کی خود اعتمادی اور امریکی امپریل ازم کے خاتمے کے حوالے سے اپنی ایک فیصلہ کن تقریر کے ذریعہ غصہ سے آگ بگولہ کر دیا تھا۔ میری ساری زندگی خصوصاً مشرق وسطیٰ کی طرف میرے گاہے بہ گاہے سفر کے دوران بے شمار عربوں نے اس تقریر کا تذکرہ کیا اور میرے نزدیک یہ ایک مثالی تقریر تھی جس کی وہ امریکہ سے توقع رکھتے تھے۔ اس تقریر کا مقصد امریکہ کو ان عظیم اقدار کی پاسداری کرنے پر آمادہ کرنا تھا جن کا مظاہرہ ہمارے ملک نے اٹلانٹک چارٹر میں کیا تھا۔ یہ ایک رسمی معاہدہ تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد 1941 ء میں طے پایا کہ تمام سابق یورپین کالونیز کو حق خودارادیت حاصل ہے ۔
امریکی اٹارنی جنرل نے ستمبر 1964ء میں ایک تقریر کی، لیکن سی آئی اے اور ایلن ڈیولس کا شکریہ جن کی پالیسیاں اکثر اوقات ہماری قومی پالیسیوں سے مختلف رہیں۔ اٹلانٹک چارٹر (اطلسی معاہدہ )ایک مثالی راستہ تھا جس کو اختیار نہیں کیا گیا۔ 1957 ء میں میرے دادا سفیر جوسف کنڈی نے ایک کمیٹی کی سربراہی کی جس کی ذمہ داری مشرق وسطی میں سی آئی اے کی خفیہ سرگرمیوں کی تحقیق تھی۔ بروس۔ لووٹ نامی رپورٹ (جس پر ان کے بھی دستخط موجود تھے) نے شام، اردن، ایران، عراق اور مصر میں سی آئی اے کے مشن کی سازشوں کا پردہ چاک کیا۔ 
رپورٹ نے سی آئی اے کو مورد الزام ٹھہرایا کہ یہ امریکہ مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے ،یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ تصور پراسرار طور پر دنیا کے بہت سے ملکوں میں جڑ پکڑ رہا تھا۔ رپوٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ اس طرح کی مداخلت نہ صرف امریکی اقدار کے خلاف ہے بلکہ امریکہ کی عالمی قیادت اور اخلاقی برتری کے لئے خطرہ بھی ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی کہا کہ سی آئی اے نے کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ اگر اس طرح کی مداخلت ہمارے ملک میں کی جائے تو ہمارا درعمل کیا ہو گا؟ امریکیوں کو سمجھنا ہو گا: جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کو سمجھنیکے لئے امریکیوں کو اس سیاہ تاریخ کا تفصیلی جائزہ لینا ہو گا۔ 1950 میں امریکی صدر ایسن اور ڈیولس برادرز (ڈائیریکٹر سی آئی اے ایلن ڈیولس اور وزیر خارجہ جوہن فوسٹر دیولس) نے مشرقِ وسطیٰ کو اس کے حال پر چھوڑنے اور عربوں کے سرزمین عرب پر راج کے حوالے سے مجوزہ معاہدے کا انکار کر دیا تھا۔ اور عرب قوم پرستی کے خلاف خفیہ جنگ شروع کر دی تھی۔ ایلن ڈیولس نے عرب راج کو کمیونزم کا مترادف قراد دیا تھا اور انہوں نے روسی مارکس ازم کا راستہ روکنیکے لئیسعودی عرب، اردن، عراق اور لبنان میں تنگ نظر جہادی افکار کے حامل باغیوں کی خفیہ فوجی مدد کی تھی۔ ایسن اور کے سٹاف سیکٹری کی ریکارڈ شدہ ایک یاداشت کے مطابق سی آئی اے ڈائریکٹر آف پلانز فرنک وزنر اور جوہن فوسٹر ڈیولس کے مابین ستمبر 1957ء میں وائٹ ہاؤس کی ایک میٹنگ کے دوران ایسن اور نے ایجنسی کو اس بات کی تلقین کی کہ اس مقدس جنگ کو جاری رکھنے کہ لیے ہمیں ہرممکن کام کرنا ہو گا۔ 
سی آئی اے نے اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی 1949ء میں شام میں مداخلت شروع کر دی تھی۔ محب وطن شامیوں نے نازیوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا، فرانسیسی استعمار کو چلتا کیا اور امریکی طرز پر سیکولر جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ 1949 ء میں شام کے منتخب جمہوری صدر شکری القواطلی نے بین العرب پائپ لائن منصوبے جو سعودی تیل کے کنوؤں کو شام کے راستے لبنان کی بندرگاہوں سے ملانے کا ایک امریکی منصوبہ تھا کی منظوری نہ دی۔ 
سی آئی اے کے ایک تاریخ نگار ٹم وینر نے اپنی کتاب (Legacy of Ashes ) میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ امریکی پائپ لائن منصوبہ کی منظوری نہ دینے کی وجہ سے سی آئی اے نے القواطلی کو ہٹانے اور اس کی جگہ سی آئی اے کے ممنون نظر حسنی الزعیم کو صدر بنانے کے منصوبے پر کام کیا جس نے صدر بنتے ہی پارلیمنٹ تحلیل کرکے اس سے قبل کہ عوام اس کی مخالفت کرتے اس نے امریکی پائپ لائن منصوبے کی منظوری دے دی۔
اہل شام نے مختلف انقلابات کے بعد 1955ء میں پھر جمہوریت کو آزمایا اور القواطلی اور اسی کی قومی پارٹی کو منتخب کیا۔ القواطلی ابھی تک روس اور امریکہ کے مابین سرد جنگ میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھا، لیکن اس کا جھکاؤ روس کی طرف تھا اس لئے کہ اسے تخت صدارت سے بے دخل کرنے میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔ اس صورتحال نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیولس کو یہ کہنے پر محبور کر دیا کہ ’’شام میں مہم جوئی کا وقت ہو چکا ہے‘‘ چنانچہ اس نے دو مہم جوؤں کم روسیولٹ اور روکی سٹون کو دمشق روانہ کیا۔ 
دو سال پہلے جب ایران کے جمہو ری طور پر منتخب صدر محمد مصدق نے اینگلو ایرانین برطانوی آئل کمپنی سے یکطرفہ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت شروع کی تو روسیولٹ اور سٹون ایرانی صدر محمد مصدق کے خلاف منظم مہم جوئی کر چکے تھے۔ مصدق چار ہزار سالہ ایرانی تاریخ میں پہلا منتخب صدر تھا اور ترقی پذیر دنیا میں جمہوریت کا مشہور ومعروف چمپیئن تھا۔ مصدق نے برطانوی آئل کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے افسران کی طرف سے بغاوت کی کوشش بے نقاب ہونے پر تمام برطانوی سفارتکاروں کو ملک سے نکال دیا تھا۔ 
مصدق سے غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب اس نے اپنے مشیر کی سی آئی اے کی برطانوی سازش میں ملوث ہونے کے شبہ میں ملک سے نکال دینے کی درخواست کو قبول نہ کیا، مصدق امریکی طرز جمہوریت کو ایرانی جمہوریت کے لئیرول ماڈل سمجھتا تھا اور ان سے اس طرح کی خیانت کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ ڈیولس کے اصرار کے باوجود صدر ہری ترمان نے سی آئی اے کو مصدق کا تختہ الٹنے کی برطانوی سازش کا حصہ بننے سے روکا۔ 
پھر جب 1953ء میں ایسن اور نے دفتر صدارت سنبھالا تو اس نے ڈیولس کو کھلا چھوڑ دیا، چنانچہ اجکس آپریشن میں مصدق کی تخت صدارت سے بے دخلی کے بعد سٹون اور روسیولٹ نے شاہ رضا پہلوی کو منصب صدارت پر بٹھایا جس نے امریکی آئل کمپنیوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن سی آئی ایک دو دہائیوں پر مشتمل سپانسرشپ میں اس نے اپنے لوگوں پر بربریت کی انتہا کر دی جس کے نتیجے میں 1979ء میں اسلامی انقلاب برپا ہوا جس کی وجہ سے 35 سال تک ہماری خارجہ پالیسی کو مشکلات کا سامنا رہا۔ 
ایرانی جمہوری منتخب وزیر اعظم جن کا عرصہ حکومت 1951ء تا 1953ء تک رہا کو 1951 ء میں سال کی اہم ترین شخصیت ہونے کا اعزاز دیا گیا۔ 1953ء میں امریکی سربراہی میں اٹھنے والی بغاوت نے ان کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور ان کی جگہ شاہ رضا پہلوی کو مقرر کیا گیا۔ 
ایران میں کامیاب اجکس آپریشن کے بعد اپریل 1957ء میں سٹون اسلامی جنگجوؤں کو مسلح کرنے اور شامی فوجی افسران اور سیاستدانوں کو رشوت دینے کے لئے 3 ملین ڈالر لے کر دمشق پہنچا تاکہ جمہوری طور پر منتخب القواطلی کی حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ راکی سٹون نے اخوان المسلمین کے ساتھ کام کرتے ہوئے شامی انٹلی جنس چیف، چیف آف آرمی سٹاف اور کمیونسٹ پارٹی کے سرابرہ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور عراق، لبنان اور اردن میں اشتعال انگیزی کو فروغ دیا تاکہ شام کی بعث پارٹی کو مورد الزام ٹھہروایا جا سکے۔
ٹم وینر نے (Legacy of Ashes ) میں بیان کیا ہے کہ کس طرح سی آئی اے نے شامی حکومت کو کمزور کرنے اورپہلے سے سی آئی اے کے زیر تسلط عراقی و اردنی حملے کے لئے بہانہ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ دی گارڈین اخبار میں نشر ہونے والی سی آئی اے کی ایک دستاویز کے مطابق کم روز ویلٹ نے پیش گوئی کی تھی کہ سی آئی اے کی مقرر کردہ نئی کٹھ پتلی حکومت پہلے جابرانہ اقدامات اور طاقت کا استعمال کرے گی۔ 
لیکن سی آئی اے اس خطیر رقم کے باوجود شامی فوجی افسران کو نہ خرید سکی۔ فوجیوں نے سی آئی اے کی بعث پارٹی کی حکومت کو رشوت کی کوشش کے پول کھول دیے نتیجتًا شامی فوج نے امریکی سفارتخانہ پر چڑھائی کرتے ہوئے سٹون کو گرفتار کر لیا، جس نے تفتیش کے دوران ایرانی بغاوت میں اپنے کردار اور شام کی قانونی حکومت کے اسقاط میں سی آئی اے کے شرمناک کردار کا اعتراف کیا۔ شامیوں نے سٹون اور امریکی سفارتخانے کے دو سٹاف ممبران کو شام سے نکال دیا تھا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے سفارتکاروں پر کسی عرب ملک کی طرف سے پابندی عائد کی گئی ہو۔ ایزن ہاور اور وائٹ ہاؤس نے سٹون کے اعترافات کو افتراء قرار دے کر ان کی صحت سے انکار کر دیا۔ اس ایک انکار نے امریکی صحافت کے منہ بند کر دیے۔ جبکہ شام کو تمام امریکہ نواز سیاستدانوں اور فوجی افسران سے پاک کیا گیا۔ 
جوابی کارروائی کے طور پر امریکہ نے جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے چھٹا بحری بیڑہ بحیرہ روم کی طرف روانہ کیا اور ترکی پر دباؤ ڈلا کہ وہ شام پر حملہ کرے۔ ترکوں نے پچاس ہزار فوجیوں کو شام کی سرحد پر جمع کیا لیکن عرب لیگ جو کہ امریکی مداخلت سے نالاں تھی کی متحدہ مخالفت کے نتیجے میں حملے کرنے سے باز رہے۔ 
فوجیوں کے حملے سے باز رہنے کے باوجود سی آئی اے نے شام کی منتخب بعث پارٹی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خفیہ کوشش جاری رکھی۔ سی آئی اے نے برطانوی ایم آئی 6 کے ساتھ ملکر(Free Syria Committee ) اور شامی حکومت کے ان تین عہدیداروں کو جنہوں نے امریکی سازش کو بے نقاب کیا تھا، قتل کروانے کے لئیاخوان المسلمین کو مسلح کرنے کی سازش تیار کی۔ میتھیو جونز کے مطابق سی آئی اے کی شرارتوں کی وجہ سے شام اور امریکہ کے درمیان فاصلے مزید بڑھنے لگے اور شام کے تعلقات روس اور مصر کے ساتھ مزید مستحکم ہوتے چلے گئے۔ 
شام میں بغاوت کی کوشش کے بعد امریکہ مخالف جذبات کے ساتھ مشرق وسطیٰ لبنان سے لیکر الجزائر تک بھڑک اٹھا۔ امریکہ مخالف بغاوتوں میں ایک بغاوت 14 جولائی 1958ء کی بغاوت ہے جو امریکہ نواز عراقی بادشاہ نور السعید کے خلاف ہوئی جس کی قیادت امریکہ مخالف ایک فوجی افسر کر رہا تھا۔ اس نے حکومت کی خفیہ دستاویزات کو منظر عام پر لا کر نوری السعید کو سی آئی اے کا ایجنٹ ثابت کیا۔ امریکہ کی اس دوغلی پالیسی کے نتیجے میں عراق کی نئی حکومت نے روسی سفارتکاروں اور معاشی ماہرین کو مدعو کیا اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ 
شام اور عراق کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کم روز ویلٹ نے مشرق وسطی ٰسے راہ فرار اختیار کی اور آئل انڈسٹری میں ایگزیکٹو کی ملازمت اختیار کی جہاں انہوں نے سی آئی اے میں اپنے کیریئر کے دوران نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں۔ روز ویلٹ کے بعد جیمز کرچ فیلڈ نے نو منتخب عراقی صدر کو زہریلے رومال کا استعمال کرتے ہوئے قتل کرنے کی سازش کی جو کہ ناکام رہی۔ وینر کے مطابق بالآخر پانچ سال بعد سی آئی اے عراقی صدر کو ہٹانے اور اس کی جگہ بعث پارٹی کو حکومت میں لانے میں کامیاب ہو گئی۔ 
ایک کرشماتی نوجوان قاتل صدام حسین سی آئی اے کی حمایت یافتہ بعث پارٹی کا نمایاں قائد تھا۔ بعث پارٹی کے سیکٹری جنرل علی صالح سعدی تھے جنہوں نے صدام حسین کے ساتھ عہدہ سنبھالا۔ سعید ابو ریش جو ایک معروف مصنف اور جرنلسٹ تھے ان کے مطابق علی صالح سعدی نے بعد میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ہم سی آئی اے کی کشتی پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے ابو ریش کے مطابق سی آئی اے نے صدام حسین اور ان کے ساتھیوں کو ایسے لوگوں کی فہرست بھی دی جن کا فوری طور پر قلع قمع کرنا ضروری تھا تا کہ کامیابی کو یقینی بنایا جا سکے ،ٹم وینر لکھتے ہیں کہ کرچ فیلڈ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ صدام حسین کو سی آئی اے نے وجود بخشا۔ ریگن کے دور میں سی آئی اے نے صدام حسین کو کروڑوں ڈالر، خصوصی فوجی امداد، اسلحہ اور جنگی جاسوسی آلات فراہم کیے یہ بات جانتے ہوئے کہ وہ ایران کے خلاف جنگ میں گیس اور بائیلوجیکل ہتھیاروں کی بجائے زہریلے مادے استعمال کرتا ہے 
ریگن اوراسے سی آئی اے ڈائریکٹر بل کاسی کے نزدیک صدام حسین امریکی آئل انڈسٹری کا مخلص دوست اور ایرانی اسلامی انقلاب کی راہ میں مضبوط رکاوٹ ہے۔ 
ان کے ایک ایلچی ڈونلڈ رمزفیلڈ نے 1983ء میں بغداد کا سفر کیا اور صدام حسین کو، بائیولوجیکل، کیمیائی اور روایتی ہتھیاروں کی لسٹ کے ساتھ ایک سنہری مہمیز بھی تحفہ میں دی۔ اسی دوران سی آئی اے غیر قانونی طور پر صدام حسین کے دشمن ایران کو عراق کے خلاف جنگلیے ہزاروں کی تعداد میں ٹینک اور جہاز شکن میزائل بھی فراہم کر رہی تھی۔ بعد ازاں جہادیوں نے سی آئی اے کے فراہم کردہ ہتھیاروں کو امریکیوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 
اب جب امریکہ ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں پر تشدد مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے اکثر امریکی اس بات سے ناواقف ہیں کہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میںآج جن مسائل کا سامنا ہے ان کی بڑی وجہ سی آئی اے کی غلطیاں ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جمہو ریت اور جدید اسلام کے خلاف سی آئی اے کی دہائیوں پر محیط شرارتوں کے اثرات کی بازگشت آج بھی مشرق وسطی ٰکے دار الحکومتوں، مدارس، سکولوں اور مساجد میں پائی جاتی ہے۔ 
بشار الاسد اور اس کے والد سمیت شام اور ایران کے آمروں نے سی آئی اے کی خونی بغاوتوں کو اپنے جابرانہ اقتدار اور روس کے ساتھ مضبوط اتحاد کے لئے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ ان واقعات سے ایران اور شام کے باشندے بخوبی واقف ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں سی آئی اے کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت کے حوالے سے گاہے بہ گاہے اظہار خیال کرتے رہے۔ لیکن بے حس امریکی میڈیا اس بات کی تاکید کرتا رہا کہ امریکہ کی طرف سے شامی انقلاب کی فوجی حمایت خالص انسانی بنیادوں پر قائم تھی۔ موجودہ بحران کے حوالے سے عربوں کی کثیر تعداد کا نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ پائپ لائن منصوبہ اور سیاسی برتری کے حصول کی ایک پراکسی وار ہے۔ عقل اس بات کی متقاضی ہے کہ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے ان حقائق کا جائزہ لیا جائے جو اس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔ 
ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بشار الاسد کے خلاف ہماری جنگ کاآغاز 2011 ء کی پرامن سول عرب بہار تحریک کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز 2000ء میں اس وقت ہوا جب قطر نے سعودی عرب، اردن، شام اور ترکی کے راستے 10 ارب ڈالر سے 1500 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ تجویز کیا۔ قطر کا (South Pars / North Dome gas field) ایران کے ساتھ ملحق ہے جس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخائر میں ہوتا ہے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران بیرون ملک گیس فروخت نہ کر سکا۔ اسی طرح قطری گیس بھی صرف اسی صورت میں یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتی ہے کہ اسے مائع کی شکل دی جائے اور بحری جہازوں کے ذریعے یورپی منڈیوں تک بھیجا جائے۔ اس طرح سے بھیجی جانے والی گیس حجم کے لحاظ سے کم اور قیمت کے اعتبار سے انتہائی مہنگی ہو گی۔ مجوزہ پائپ لائن کے ذریعے قطر کو بذریعہ ترکی یورپی منڈیوں تک براہ راست رسائی حاصل ہو جائے گی نیز قطر/ ترکی گیس پائپ لائن خلیج فارس کی سنی سلطنتوں کو قدرتی گیس کی عالمی مارکیٹ میں فیصلہ کن تسلط اور عرب دنیا میں مضبوط امریکہ قطر اتحاد کا پیش خیمہ ہو گی۔ قطر نے دو بڑے امریکی فوجی اڈوں اور مشرق وسطی کی خاطر امریکی مرکزی کمان کے ہیڈ کوارٹر کی میزبانی کی۔ 
یورپی یونین جو کہ تیس فیصد گیس روس سے حاصل کرتی ہے وہ بھی قطر/گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کی خواہاں ہے کیوں کہ یہ منصوبہ یورپی یونین کے اراکین ممالک کو سستی گیس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پیوٹن کی سیاسی و اقتصادی برتری سے نجات دلائے گا۔ ترکی جوکہ روسی گیس کا دوسرا بڑا خریدار ہے خاص طور پر اپنے پرانے دشمن سے نجات حاصل کرکے ایشیاء میں یورپی یونین کو گیس کی فراہمی کا مرکز بننے کا خواہاں ہے۔ 
قطری پائپ لائن سعودی قدامت پسند سنی سلطنت کے لئے اس حوالے سے سود مند ہے کہ اس نے شیعوں کے زیر تسلط شام میں اسے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ سعودی عرب کا سیاسی ہدف اپنے ازلی دشمن ایران جو کہ ایک شیعہ ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ بشار الاسد کا قریبی اتحادی ہے کی سیاسی اور اقتصادی طاقت کے حصول میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ سعودی عرب عراق پر امریکی حمایت یافتہ اہل تشیع کے قبضے اور حال ہی میں ایرانی تجارت سے پابندی کے خاتمے ایران کی علاقائی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ تصور کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے یمن میں تہران کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ شروع کر رکھی ہے اس بات کی وضاحت سعودیہ کی جانب سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی قبائل کا قتل عام ہے۔
روس جو70 فیصد گیس یورپی ممالک کو فروخت کرتا ہے وہ قطر/ترکی پائپ لائن کو اپنے وجود کے لئیخطرہ تصور کر رہا ہے۔ پیوٹن کے مطابق قطر پائپ لائن نیٹو کی سازش ہے جس کا مقصد روس کو مشرق وسطی ٰسے بے دخل کرنا، روسی معیشت کو غیر مستحکم کرنا، اور یورپی منڈیوں میں روسی تسلط کو ختم کرنا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ 2009ء میں بشار الاسد نے اپنے اتحادی روس کے مفادات کی وجہ سے قطری گیس پائپ لائن کے شام سے گزرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیے تھے۔ اسد نے خلیجی سنی سلطنتوں کو مزید غصے میں اس وقت مبتلا کر دیا جب اس نے ایران کے اطراف سے شروع ہو کر شام کے راستے لبنان کی بندرگاہوں تک جانے والی اسلامی پائپ لائن کی منظوری دی۔ 
اسلامی پائپ لائن سنی مملکت قطر کے مقابلے شیعہ ریاست ایران کو یورپی منڈیوں میں اہم سپلائر بنا دے گی اور مشرق وسطیٰ میں بلکہ دنیا میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ کا موجب بنے گی۔ اسرائیل بھی اسلامی پائپ لائن منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے پر عزم ہے کیوں کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شام اور ایران میں خوشحالی آئے گی اور نتیجتاًحزب اللہ اور حماس مضبوط ہوں گی۔ 
امریکی خفیہ رپورٹس کے مطابق جب بشار الاسد نے قطری پائپ لائن کی منظوری سے انکار کر دیا تو سعودی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہاں اور فوجی منصوبہ ساز اس بات پر متفق ہو گئے کہ شام میں سنی بغاوت کا قیام ہی وہ واحد قابل عمل راستہ ہے جس کے ذریعہ قطر/ترکی پائپ لائن کی تکمیل مشترکہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2009 میں وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق بشار الاسد کے قطر/ترکی گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری سے انکار کے فوراً بعد سی آئی اے نے شامی حکومت مخالف جماعتوں کی مالی مدد کرنا شروع کر دی یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کا آغاز بشار الاسد کے خلاف عرب بہار تحریک کے شروع ہونے سے کافی عرصہ پہلے ہو چکا تھا۔ 
بشار الاسد علوی ہے جو کہ اسلامی فرقہ ہے اور اس کا شمار اہل تشیع کی صف میں ہوتا ہے۔ بشار الاسد کے صدر بننے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایک صحافی (سیمور ہرش نے مجھے بتایا کہ اس کے والد ایک کار حادثے میں اس کے بڑے بھائی کی وفات کے بعد اسے لندن کے ایک میڈیکل سکول سے واپس لائے تھے)ہرش کے مطابق اسد شام کو لبرل ملک بنانا چاہتا تھا، ان کے پاس انٹرنٹ، اخبار، اور اے ٹی ایم مشینیں تھی اور اسد کا جھکاؤ مغرب کی طرف تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس نے ہزاروں کی تعداد میں جہادی انتہا پسندوں کی فائلیں سی آئی اے کے حوالے کیں اور وہ انہیں مشترکہ دشمن گردانتا تھا۔ اسد کا دور حکومت مجموعی طور پر سیکولر دور تھا اور شام میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ آباد تھے۔ مثال کے طور پر اسد کی فوج اور حکومت میں 80 فیصد سنی تھے اور اسد نے مضبوط، منظم انٹیلی جنس نظام، ملکی سطح پر عزت کے حامل فوجی افسران اور ایسی فوج جو اس کے خاندان سے مخلص فوج تھی کے ذریعے ان مختلف مکاتب فکر کے لوگوں میں امن و امان قائم رکھا ہوا تھا۔ جنگ سے قبل وہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے سربراہان کے مقابلے میں قدرے معتدل تھا، ہرش کے مطا بق وہ ہر بدھ کولوگوں کے سر قلم نہیں کرتا تھا جیسا کہ سعودی مکہ میں کرتے ہیں۔ 
ایک اور تجربہ کار صحافی بوب پری کے مطابق خطے کے تمام حکمرانوں کے ہاتھ اجتماعی قتل، عوام کی آزادی کو سلب کرنے اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے واقعات سے خون آلود تھے، البتہ اسد سعودیوں کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مصر، لیبیا، یمن اور تیونس میں پھیلنے والا انتشار شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ 2011ء کے موسم بہار میں دمشق میں اسد کی حکومت کے جابرانہ اقدامات کے خلاف چھوٹے چھوٹے پر امن مظاہرے شروع ہوئے۔ یہ درحقیقت گزشتہ موسم گرما میں شروع ہونے والی عرب بہار تحریک کی لہر تھی جس نے بہت سے عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ البتہ وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق سی آئی اے پہلے ہی سے شام کی سرزمیں پر موجود تھی۔ 
لیکن سنی ممالک تیل کے وسیع تر مفادات کی وجہ سے شام میں امریکہ کی مزید مؤثر مداخلت کے خواہاں تھے۔ 4 ستمبر 2013ء کو وزیر خارجہ جان کیری نے کانگریس کی ایک میٹنگ میں کہا کہ سنی ممالک کی طرف سے شام سے بشار الاسد کو بے دخل کرنے کے لئے امریکی حملے کی پر زور حمایت کی پیش کش کی گئی ہے۔ بلکہ درحقیقت ان میں سے بعض نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر امریکہ اس معاملہ کو بھی اسی طرح سرانجام دے جیسے اس نے گزشتہ عرصے میں عراق کے معاملے میں کیا تو وہ تمام اخراجات برداشت کرنے کو بھی تیار ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے دباؤ کے باوجو باراک اوباما نے امریکی نوجوانوں کو گیس پائپ لائن اتحاد کی خاطر باہر جا کر لڑنے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور نہایت عقل مندی سے ریپبلکن پارٹی کے بری فوجوں کو شام میں اتارنے کے مطالبہ کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن 2011 ء کے اواخر میں ریپبلکن پارٹی کے اور ہمارے سنی اتحادیوں نے امریکہ کو جنگ میں دھکیل دیا۔ 
2011 میں امریکہ نے فرانس، قطر، سعودی عرب، ترکی اور برطانیہ کے ساتھ ملکر (فرینڈز آف سیریا) کے نام سے اتحاد تشکیل دیا، جس نے باضابطہ طور پر بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ سی آئی اے نے ایک برطانوی ٹی وی چینل ’’برادا‘‘ کو بشار الاسد کی معزولی کے حوالے سے مہم چلانے کے لئے چھ ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی۔ وکی لیکس کی طرف سے شائع ہونے والی سعودی خفیہ دستاویزات نے اس بات کو بے نقاب کر دیا کہ ترکی، قطر اور سعودی عرب بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لئے شام اور عراق میں سنی جہادی جنگجؤوں کی تربیتکے لئے مالی معاونت اور اسلحہ کی فراہمی میں ملوث رہے ہیں۔ قطر نے باغیوں کی تربیت کے لئے 3 ارب ڈالر کی خطیر رقم صرف کی اور پینٹاگون کو دعوت دی کہ وہ قطر میں موجود امریکی فضائی اڈے میں باغیوں کو تربیت فراہم کریں۔ سیمور ہرش کے اپریل 2014 کے ایک آرٹیکل کے مطابق سی آئی اے کے ہتھیاروں کے اخراجات ترکی، سعودی عرب اور قطر نے برداشت کیے۔
خطہ میں پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی پر قبضہ کی خاطر شیعہ سنی خانہ جنگی کو بھڑکا کر شام اور ایران کی حکومتوں کو کمزور کرنے کا نظریہ امریکیوں کی ڈکشنری میں نیا نہیں تھا۔ 2008 ء کی پینٹاگون کی فنڈڈ رپورٹ "RAND" میں آئندہ رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق خلیج فارس کے تیل اور گیس کے ذخائر امریکی سٹریٹیجک ترجیح ہے جو ایک طویل جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ رانڈ نے تجویز کیا کہ "تقسیم کرو اور حکومت کرو "کی پالیسی کے نفاذ کے لئے خفیہ سرگرمیوں، معلومات کے تبادلے اور غیر روایتی جنگ سے کام لیا جائے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ سرد جنگ شروع کرنیکے لئے قومیت پرست جہادیوں کی پشت پناہی کریں۔ اور امریکی قائدین کو چاہیے کہ وہ شیعہ سنی کے مابین جھگڑوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور مسلم دنیا میں طاقت کے حصول کے لئے سرگرم شیعہ تحریکوں کے مقابلے میں قدامت پسند سنی حکومتوں کا ساتھ دیں۔ اور ان کے ازلی دشمن ایران کے خلاف ان کی بھرپور مدد بھی کریں۔ 
اسد کی طرف سے ممکنہ رد عمل شیعہ سنی فسادات کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کرے گا اور اہل شام کو شیعہ سنی کی بنیاد پر تقسیم کر دے گا۔ اور امریکی پالیسی ساز باآسانی امریکی عوام کو قائل کر سکیں گے کہ گیس پائپ لائن منصوبہ کی امریکی حمایت عین انسانی حقوق کے اصولوں پر مبنی ہے۔ 2013 ء میں جب شامی فوج کے سنی فوجیوں نے علیحدہ فوج بنائی تو مغربی اتحادیوں شام کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’’آزاد شامی فوج(فری سیرین آرمی) ‘‘ کو اسلحہ فراہم کیا۔ آزاد شامی فوج کو شام کے معتدل، جدت پسند لوگوں کی جماعت کے طور پر پیش کرنا محض ایک تصور تھا جو میڈیا کی طرف سے پیش کیا گیا۔ شامی فوج سے علیحدہ ہونے والے فوجی سینکڑوں کی تعداد میں موجود مستقل جنگجو گروپوں میں شامل ہو گئے۔ جن میں سے بہت سوں کی قیادت جہادی جنگجوؤں کے ہاتھوں میں تھی۔ مزید برآں عراق میں موجود القاعدہ کے جنگجو شامی سرحد عبور کرکے شام میں داخل ہوئے اور آزاد شامی فوج سے جدا ہونے والے گروپوں میں شامل ہو گئے، ان میں سے اکثر امریکہ کے تربیت یافتہ تھے اور انہیں امریکہ نے اسلحہ فراہم کیا تھا۔ 
میڈیا کی طرف سے جابر بشار الاسد کے خلاف اٹھنے والے نام نہاد معتدل اور جدت پسند عربوں کی تصاویر کی اشاعت کے باوجود امریکہ خفیہ اداروں کے منصوبہ ساز اس بات سے بخوبی آگاہ تھے گیس پائپ لائن منصوبہ کی تنقید کی خاطر ان کے حمایت یافتہ افراد انتہاء پسند جہادی جنگجو ہیں جو کسی بھی وقت عراق اور شام میں نئی سنی خلافت کے قیام کا اعلان کر سکتے ہیں۔ دو سال قبل گلے کاٹنے والی داعش منظر عام پر آئی جبکہ 12 اگست 2012ء کوامریکی محلمہ دفاع کے ایک خفیہ ادارے کی سات صفحات پر مشتمل ایک سٹڈی میں امریکہ کو انتہاء پسند سنی جہادی اتحادیوں سلفیوں، اخوان المسلمین اور اے کیو آئی (موجودہ داعش ) کی مدد کرنے پر متنبہ کیا گیا تھا اور یہی اس وقت شام میں بغاوت کی بڑی وجہ ہے۔ 
خلیجی ممالک اور امریکہ کی طرف سے ملنے والی امداد کے ذریعے ان گروہوں نے بشار الاسد کے خلاف فرقہ واریت کی بنیاد پر پرامن مظاہرے بھی کیے ہیں۔ مطالعہ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ سنی مذہبی اور سیاسی طاقتوں کی حمایت کی بدولت شام میں شیعہ سنی اختلافات نے فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ رپورٹ نے شامی خانہ جنگی کو خطہ میں اثر ورسوخ کے حصول اور خطہ کے وسائل پر قبضے کے حوالے سے عالمی جنگ قرار دیا ہے جس میں ترکی، مغربی اور خلیجی ممالک کی حمایت شامی حکومت مخالف جماعتوں کو جبکہ ایران، روس اور چائنہ کی حمایت بشار الاسد کو حاصل ہے۔ پینٹا گون کی سات صفحات پر مشتمل رپورٹ نے خلافت کے حوالے سے داعش کی متوقع پیش قدمی کی حمایت کا عندیہ دیا تھا۔ 
اگر صورتحال اسی طرح رہتی ہے تو ممکن ہے کہ شام مشرقی حصہ میں اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر سلفی مملکت قائم ہو جائے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو حکومت مخالف جماعتوں کی حمایت کرنے والی طاقتوں کا اصل مدعا ہے تاکہ بشار الاسد کی حکومت کو تنہاء کیا جاسکے۔ پنٹاگون نے متنبہ کیا ہے کہ ایسی سلفی مملکت شامی حدود سے نکل کر عراقی حدود میں موصل اور رمادی تک پھیل سکتی ہے اور شام و عراق میں موجود دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر سکتی ہے۔ 
یہ سب کچھ حادثاتی طور پر واقع نہیں ہوا۔ شام کے جس علاقہ پر داعش نے قبضہ کیا وہ بعینہ وہ علاقہ ہے جس سے قطری پائپ لائن کو گزرنا ہے۔ لیکن پھر 2014ء میں ایجنٹوں نے لوگوں کے سر قلم کرکے اور لاکھوں کی تعداد میں مہاجروں کو یورپ کی طرف دھکیل کر امریکہ کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ ٹیم کلیمنٹ (جو کہ 2004 ء سے 2008ء کے درمیان دہشت گردی کے خلاف ایف بی آئی کی متحدہ فورس کا سربراہ رہا ہے) کے مطابق دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے کی بنیاد پر بنائی جانے والے پالیسیاں ہمیشہ ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ ہم نے اسی پرانی غلطی کا اعادہ کیا ہے جو ہم نے افغان مجاہدین کو تربیت دے کر کی تھی جنہوں نے روس کے افغانستان کے انخلاء کے ساتھ ہی عورتوں کے ساتھ بد سلوکی، انسانی جسمانی اعضاء کو کاٹنے اور ہمیں نشانہ بنانے کے جرائم کا آغاز کر دیا تھا۔ 
جب داعش کے جہادیوں نے قیدیوں کو قتل کرنے کا عمل ٹی وی پر دکھانا شروع کیا تو وائٹ ہاؤس اسد کے نظام حکومت کو ختم کرنے کی بجائے علاقائی استحکام کے بارے فکر مند ہونے لگا۔ اور اوباما انتظامیہ نے اپنے مدد یافتہ باغیوں سے ہاتھ اٹھا لیا اور وائٹ ہاؤس ہمارے اتحادیوں کو مورد الزام ٹھہرانے لگا۔ 3 اکتوبر 2014ء کو نائب صدر جو بائیڈن نے ہاروڈ کے ادارہ برائے سیاسیات جوہن ایف کنڈی فورم پر طالب علموں کو بتایا کہ خطہ میں موجود ہمارے اتحادی شام میں ہماریلیے بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ اس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی، سعودی عرب اور یو اے ای اسد کی حکومت کے حوالے سے اس قدر پر عزم تھے کہ انہوں نے کھربوں ڈالر خرچ کرکے بیسیوں ہزارکی تعدادمیں اسلحہ فراہم کرکے شام میں شیعہ سنی خانہ جنگی کا آغاز کیا اور اس کے علاوہ القاعدہ اور النصرہ کو بھی اسلحہ فراہم کیا جس نے بعد میں 2014 میں باہم ملکر داعش کی شکل اختیار کر لی۔ بائیڈن یہ کہتے ہوئے غصہ سے آگ بگولاہو گئے کہ ہمارے پراعتماد دوستوں نے امریکی ایجنڈے کے نفاذ میں ہمیں دھوکہ دیا۔ 
مشرق وسطیٰ کے اس پار بہت سے عرب رہنما ؤں کا یہ خیال ہے داعش کی تخلیق میں امریکہ کا ہاتھ ہے، اکثر امریکی اس الزام کو پاگل پن تصور کرتے ہیں۔ البتہ عربوں کی ایک بڑی تعداد امریکی مداخلت سے اس قدر با خبر ہیں کہ ان کے خیال میں ہم نے جان بوجھ کر داعش کو وجود بخشا۔ حقیقت میں داعش کے جنگجوؤں میں سے بہت سے جنگجو اور ان کے کمانڈر نظریاتی یا تحریکی طور پر ان جہادیوں کے وارث ہیں جن کی پرورش گزشتہ تیس سالوں کے دوران شام و مصر سے لے افغانستان و عراق تک سی آئی اے نے کی ہے۔ 
امریکی حملہ سے پہلے صدام حسین کے عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ جارج بش نے صدام حسین کی سیکولر حکومت کا تختہ الٹا اور اس کے وائسرائے پاؤل بریمر نے بدانتظامی کی مثال قائم کرتے ہوئے سنی فوج تیار کی جسے آج کل داعش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بریمر نے شیعوں کو طاقت بخشی اور صدام حسین کی برسر اقتدار بعث پارٹی پر پابندی عائد کر دی اور سات لاکھ کے قریب سنی ملازمین (جن میں مختلف وزرارتوں کے افسران، سکولوں کے اساتذہ اور کئی پارٹی عہدیدار شامل تھے) کو برطرف کر دیا۔ پھر اس نے تین لاکھ اسی ہزار فوجی جوانوں کی چھٹی کرا دی جن میں سے 80 فیصد سنی تھے۔ 
بریمر کے اس طرز عمل سے کروڑوں کی تعداد میں عراقی سنی پڑھے لکھے، با صلاحیت اور تربیت یافتہ ہونے کے باوجود اپنے عہدوں، جائیداد، مال ودولت اور طاقت سے محروم ہو گئے۔ چنانچہ عراق میں القاعدہ کے نام سے سنی بغاوت نے جنم لیا۔ 2011ء کے اوائل میں ہمارے اتحادیوں نے شام میں القاعدہ کے حملوں کی بھرپور مدد کی۔ 2013ء میں شام میں داخلے کے بعد القاعدہ نے اپنا نام تبدیل کرکے داعش رکھ لیا۔ نیو یارک کے ڈکسٹر فلکن کے مطابق داعش کو سابق عراقی جرنیلوں کی ایک کمیٹی چلا رہی ہے۔ ان میں سے اکثر صدام حسین کی سیکولر بعث پارٹی کے اراکین ہیں جو امریکی قید کے دوران انتہا پسند اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ 
امریکہ کی طرف سے شام کو دی جانے والی پانچ سو ملین ڈالر کی فوجی امداد نے تقریبا ان جہادی جنگجوؤں کو فائدہ پہنچانے کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایف بی آئی کی مشترکہ فورس کے سابق چیئرمین ٹم کلیمنٹ نے مجھے بتایا کہ شام اور عراق کی جنگ میں فرق یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں عمر رسیدہ فوجی اپنے معاشرے کی خاطر لڑنے کی بجائے میدان جنگ چھوڑ کر یورپ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اعتدال پسند لوگ اس جنگ سے بھاگ رہے ہیں جو ان کی اپنی جنگ نہیں ہے۔ وہ اسد اور روس کے جابرانہ اقدامات اور سنی جہادیوں کے وحشیانہ قتل جس کو متنازعہ پائپ لائن منصوبہ کی تنفیذ کی خاطر ہماری مدد حاصل رہی ہے سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ 
آپ کسی صورت بھی اہل شام کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ انہیں نے ماسکو یا واشنگٹن میں لکھی جانیوالی شامی قوم کی تقدیر کو قبول نہیں کیا۔ دونوں عالمی طاقتوں نے شام کے مثالی مستقبل کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں دیا جس کی خاطر اہل شام لڑائی لڑتے۔ اور کوئی بھی صرف پائپ لائن منصوبے کی خاطر نہیں مرنا چاہتا۔ 
اگر ہمارا مقصد مشرق وسطیٰ میں دیر پا امن کا قیام، عرب خطے میں عربوں کی ذاتی حکومت اور قومی سلامتی ہے تو ہمیں خطہ میں کسی بھی قسم کی نئی مداخلت کرنے سے پہلے سبق سیکھنے کی غرض سے تاریخ میں جھانکنا ہو گا جب صرف ہم امریکی اس خانہ جنگی کے سیاسی اور تاریخی پس منظر سے واقف ہیں تو ہمیں اپنے رہنماؤں کے فیصلوں کی جانچ پھٹک کرنی ہو گی۔ اسی تخیل اور اسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے جو ہم نے 2003ء میں صدام حسین کے خلاف جنگ کے وقت استعمال کی تھیں۔ ہمارے سیاسی قائدین نے امریکیوں کو یہ یقین دلایا کہ شام میں ہماری مداخلت ظلم وجبر، دہشت گردی اور مذہبی انتہاء پسندی کے خلاف ایک مثالی جنگ ہے۔ ہمیں بعض عربوں کے اس نقطۂ نظر کو نظر انداز کرنا ہوگا جو حالیہ بحران کو پائپ لائن منصوبے کی تنفیذ اور سیاسی برتری کے حصول کی سازشوں کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ 
اگر ہم مؤثر خارجہ پالیسی کے خواہاں ہیں تو ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ شام کا بحران خطہ کے وسائل پر قابض ہونے کی جنگ ہے اور ہم گزشتہ 65 سالوں سے تیل پر غیر اعلانیہ جنگ لڑتے آئے ہیں۔ جب ہم شام کے مسئلہ کو گیس پائپ لائن پر سرد جنگ کے تناظر میں دیکھیں گے تب جا کر کہیں اس مسئلہ کے حقائق ہم پر واضح ہوں گے۔ یہ وہ واحد نقطہ ہے جو جمہوری پارٹی اور اوبامہ انتظامیہ کے شام میں استحکام کے بجائے نظام کی تبدیلی پر اصرار کی وضاحت کرتا ہے۔ کیوں اوبامہ انتظامیہ کو شام میں لڑنے کے لئے لوگ نہیں ملے؟ کیوں داعش نے روس کے مسافروں سے بھرے جہاز کو تباہ کر دیا؟ کیوں سعودیہ نے ایک معروف شیعہ امام کو ترلان میں موجود اپنے سفارتخانے کے جلائے جانے کے خدشے کے باوجود موت کے گھاٹ اتار دیا؟ کیوں روس ان لوگوں کو بموں سے اڑا رہا ہے جن کا تعلق داعش سے نہیں ہے؟ کیوں ترکی نے روس کے جنگی طیارے کو مار گرایا؟ یہ جو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین یورپ کا رخ اختیار کیے ہوئے ہیں یہ پائپ لائن منصوبے پر ہونے والی جنگ کے مہاجرین ہیں یا سی آئی اے کی کرتوتوں کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہیں؟ 
کلیمنٹ نے داعش کا موازنہ کولمبیا کی ایف اے آر سی سے کیا جو کہ انقلابی نظریہ کا حامل منشیات فروشوں کا ایک گروہ ہے۔ داعش بھی تیل فروخت کرنے والوں کا ایک گرہ ہے۔ کلیمنٹ کے مطابق اصل ہدف پیسہ ہے مذہبی نظریات تو محض سپاہیوں کو اہداف کے حصول کے لئے جان دینے پر ابھارنے کا ذریعہ ہیں۔ ایک دفعہ اگر ہم نے شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں یہ بات سمجھ لی کہ یہ درحقیقت تیل پر جنگ ہے تو ہماری خارجہ پالیسی بالکل واضح ہو جائے گی۔ جب امریکہ طاقت کے حصول میں خودمختار ہو جائے گا تو اسے مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 
دوسرے مرحلہ پر امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی فوج کو کم کرنا ہوگا اور عرب خطہ کو عربوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ موجودہ بحران میں انسانی حقوق کے اصولوں کی بنیاد پر عربوں کی مدد اور اسرائیل کی حدود کے تحفظ کے علاوہ امریکہ نے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے مسائل جنم دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے پاس اس بحران کو ختم کرنے کے لئے مطلوبہ طاقت موجود نہیں ہے۔ 
جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمارے ملک نے مشرق وسطیٰ میں جتنی بھی مداخلتیں کی ہیں ان کا نتیجہ بدترین ناکامی کی صورت میں نکلا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی 1997ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی بیرون ملک مداخلتوں اور دہشت گردی کے اضافے میں گہرا تعلق ہے، جسے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں وہ دراصل تیل کے حصول کی ہی ایک اور جنگ ہے۔
ہم نے 2001 ء سے لے کر اب تک بیرون ملک تین جنگوں میں نہ صرف چھ کھرب ڈالر برباد کر دیئے ہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لئے خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ ان جنگوں میں جیت صرف ان فوجی ٹھیکداروں اور تیل کمپنیوں کی ہوئی ہے جنہوں نے تاریخی فائدے بٹورے، یا ان خفیہ اداروں کی جنہوں نے بے پناہ طاقت حاصل کرلی اور ہماری آزادی کو نقصان پہنچایا ہے۔ یاپھر ان جہادیوں کی جنہوں نے ہماری مداخلتوں کو مزید بھرتیوں کے لئےآلہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہم نے اپنی اقدار پر سمجھوتا کیا، اپنے ہی نوجوانوں کا قتل عام کیا، کروڑوں معصوم لوگوں کی جانیں لیں، اور بیرون ملک بے ثمر اور گراں قیمت مہم جوئیوں پر اپنے قومی خرانے برباد کئے۔ ہم نے اپنے بدترین دشمنوں کی مدد کی، امریکہ جو کبھی دنیا میں آزادی کا مینارہ تھا ہم نے اسے ایک ایسی ریاست میں تبدیل کردیا جو اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور جس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ 
امریکہ کے بانیوں نے امریکیوں کو بیرون ملک لڑائیوں میں حصہ لینے سے متنبہ کیا تھا۔ جوہن قوینسی ایڈم کے الفاظ میں بیرون ملک وحشیوں کی تلاش میں جانا ہلاکت وبربادی ہے۔ ان عقلمندوں نے سمجھ لیا تھا کہ بیرونی سامراج جمہوریت اور شہریوں کے حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اٹلانٹک چارٹرڈ کہ ہر قوم کو ذاتی حکمرانی کا حق حاصل ہے امریکیوں کی مثالیت پسندی کی دلیل ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے ڈیولس برادران، چنی گینک اور جدید قدامت پسندوں نے امریکی آئیڈئل ازم کے بنیادی اصولوں کو ہائی جیک کرکے بڑی بڑی کمپنیوں خصوصاً پٹرولیم کمپنیوں اور فوجی ٹھیکیداروں کے تجارتی مفادات کی خاطر ہماری افواج اور خفیہ اداروں کو گمراہ کیا ہے۔ 
اب وقت آگیا ہے کہ امریکی اس نئے سامراج کو خیرآباد کہتے ہوئے دوبارہ جمہوریت اور آئیڈئل ازم کی طرف پلٹیں۔ ہمیں عرب خطہ کی باگ ڈور عربوں کے حوالے کر دینی چاہییاور اپنی قوت اور طاقت کو اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لئے صرف کرنا چاہیے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم شام پر حملہ کے ذریعے نہیں بلکہ تیل کے اس تباہ کن نشے (جس نے گزشتہ آدھی صدی سے ہماری خارجہ پالیسی کا بیٹرہ غرق کر دیا ہے )کو ترک کرنے سے اس عمل کا آغاز کریں۔ 
ترجمہ : عاطف محمود