working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

آخری سرحد، بالآخر فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں ضم کا عمل شروع

ڈاکٹر رابرٹ نکولس

ڈاکٹر رابرٹ نکولس سٹاکٹن یونیورسٹی نیو جرسی میں تاریخ کے استاد ہیں۔ فاٹا میں اصلاحاتی عمل کی منظوری وفاقی کابینہ دے چکی ہے یہ بہت تاریخی لمحات ہیں ۔ فاٹاکے ماضی اور تاریخ پر ڈاکٹر رابرٹ نکولس کی گہری نظر ہے وہ یہاں کے سیاسی اور عسکری معاملات کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔ ان کا یہ مضمون فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوا جس کا ترجمہ یہاں دیا جا رہا ہے ۔(مدیر)

2013ئمیں میری کتابThe Frontier Crimes Regulation: A History in Documents (OUP) شائع ہوئی تھی ۔اس میں انیسویں صدی کے برطانیہ کے نو آبادیاتی دور کے مراسلات اکٹھے کر کے ان پر بحث کی گئی تھی ۔یہ دستاویزات 1870 میں تخلیق پانے والی پنجاب فرنٹیئر ریگولیشنز کا تدریجی عمل تھیں ۔پنجاب میں جاری جرائم اور سماجی تشدد کو دیکھتے ہوئے اس میں وقتاً فوقتاً کئی ترامیم متعارف کرائی گئیں جس کے بعد 1887ء میں پنجاب فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کو حتمی شکل ملی اور 1900ء میں اس کو لاہور میں شائع کر دیا گیا۔جب 1901ء میں لارڈ کرزن نے پنجاب کے اضلاع کو کاٹ کر شمال مغربی سرحدی صوبے کی بنیاد رکھی تو اس قانون کوNWFP FCR, 1901 ء کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 
ایف سی آر کو نو آبادیاتی حکام پشاور اور اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں کے سیاسی انتظام کے لئے بطور قانون استعمال کیاکرتے تھے ۔کیونکہ برطانوی حکام یہاں پر ہندستان کے طرز کا عدالتی نظام جس میں ضابطہ فوجداری ،وکلا،شواہد، تصدیق ،الزامات اور ان کے خلاف اپیلیں شامل ہوتی ہیں یہاں لاگو نہیں کر سکے تھے ۔یہاں کی زبان اور مخصوص روایات شواہد اکھٹے کرنے میں رکاوٹ تھے۔ پٹھان اور غیر پٹھان تنازعات حل کرنے کے لئے روایتی طریقوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے تھے چاہے ان کا تعلق رواج ،’’ پختون ولی‘‘ سے تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی ایجنسیوں کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ یعنی فاٹا کی حیثیت مل گئی ۔جو برطانوی طرز کے استبدادی روئیوں کا نشانہ بن گیا جہاں قتل، چوری اور ریاست مخالف اقدام کے ساتھ سماجی تشدد، جائیداد کے تنازعات،خواتین اور مخالفین کی لڑائیوں پر تفتیش کے لئے بھی جبرو تشددپر مبنی حربے اپنائے جاتے تھے۔ 
نو آبادیاتی منتظمین نے اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے کڑی سزائیں متعارف کرائیں جن کو آج کے دور میں غیر منصفانہ یا امتیازی سمجھا جاتا ہے جن میں قبائل کی ناکہ بندی، جبری بے دخلیاں ،گھروں کومسمار کرنا،اچھا شہری بننے کے لئے باز پرس،امن خراب کرنے پر تین سال قید کی سزا،برطانوی ایجنٹ کے نامزد کردہ جرگے کی طرف سے دی جانے والی سزائیں،اس کے علاوہ برطانوی راج نے اپنے حمایت یافتہ افرادملکوں کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ کسی بھی مشتبہ فرد کو جان سے مار سکتے ہیں۔
1947ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے قبائلی علاقوں کے شہریوں کو برابر کا شہری قرار دیا اور ان کے علاقوں سے فوج کو واپس بلا لیا ۔مگر 1947-48ء میں لاکھوں مہاجرین کی آمد، کشمیر کا مسئلہ اور نئی انتظامیہ کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے لیے کوئی معاشی یا ترقیاتی منصوبہ فوری طور پر شروع نہیں کیا جا سکا۔تاریخ دان عائشہ جلال لکھتی ہیں ’’پاکستان نے ورثے میں ملنے والی کچھ نو آبادیاتی قدریں اپنا لیں اور یہ 1947سے اس کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں،سیاسی قیادت ابھی تک وفاق کے دباؤ میں ہے ،مضبوط بیوروکریسی، انتظامیہ اور سیکورٹی ڈھانچے نے عدلیہ کو بھی بے دست و پا کر رکھا ہے ۔جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی نشو نما نہیں ہو سکی اور ایک ایسا پارلیمانی نظام وجود نہیں آ سکا جو بعداز نو آبادیاتی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے صوبے اور اضلاع کو با اختیار بناتا‘‘۔
1947ء کے بعد کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اختیارات کی مرکزیت بر قرار ہے اور فاٹا کے لیے الگ قوانین ایف سی آر کے تحت موجود ہیں۔فاٹا خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہے اختیارات صوبے کے گورنر کے پا س ہیں جنہیں وہ صدر پاکستان کے نمائندے کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔وفاقی سطح پر کچھ اختیارات ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت کے پا س ہیں جو وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے ۔فاٹا سیکرٹریٹ اور فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی جن کا قیام 2006ء میں عمل میں آیا وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں جو گورنر اور کے پی کے چیف سیکرٹری کے ماتحت ہے ۔اس طرح فاٹا میں ترقیاتی سرگرمیوں کے لییاضافی انتظامی سطحیں موجود ہیں۔
1947ء سے ہی فاٹا میں سیاسی اصلاحات میں روڑے اٹکائے جاتے رہے اور تھوڑی بہت اصلاح ہی ہو سکی ۔فاٹا میں اصلاحات سے متعلق کمیٹی کی سفارشات اگست 2016ء میں مکمل ہوئیں جو آن لائن موجود ہیں۔اب یہ رپورٹ کابینہ کی منظوری کے انتظار میں ہے (واضح رہے کہ کابینہ اب اس کی منظوری دے چکی ہے )۔رپورٹ کے صفحہ 18میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 247کے تحت کسی بھی وقت تمام فاٹا یا اس کی کسی حصے کو فاٹا کے عوام یا قبائلی جرگے کی سفارش پر اس کو حاصل مخصوص حیثیت ختم کی جا سکتی ہے۔ 
فاٹا کی معیشت اور ترقی کے سوال کا تعین ہونا ابھی باقی ہے ۔اصلاحات کمیٹی میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ فاٹا نیشنل فنانس کمیشن میں مالیاتی تقسیم کا حصہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اس دہائی کے پہلے پانچ سالوں میں جو بجٹ اسے دیا گیا اس میں 44.39فیصد کی فی کس کمی تھی۔فاٹا کا مطالبہ ہے کہ وہاں مزید سکول، ہسپتال اور سڑکیں بنائی جائیں۔مگر گزشتہ کئی دہائیوں بالخصوص 1970ء میں افغانستان میں خراب سیاسی حالات کی وجہ سے فاٹا میں سیکورٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے فاٹا میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کا مسئلہ التوا کا شکار رہا ۔فروری 2017ء میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے اس قسم کے شکوک مزید پختہ ہوئے ہیں۔
81صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ان تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔اسے ایک ایسے فرد نے لکھا ہے جس نے حکومت میں کئی سال گزارے اس رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں پانچ سال کے عرصے میں ضم کیا جائے اور اس دوران آئین کے آرٹیکل 247میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔لوکل باڈیز کے انتخابات ہوں گے وسائل کی تقسیم میں سے تین فیصد حصہ فاٹا کو دینے کی سفارش کی گئی ہے۔آخری حصے میں بتایا گیا ہے کہ کیسے انتظامی طور پر یہاں کے لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا ،وہاں تعمیرِ نو ،ترقیاتی کام اور سیکورٹی اصلاحات کیسے ہوں گی ۔معاشی استحکام اسی وقت آئے گا جب یہاں کی زمینوں کا ریکارڈ پنجاب کی طرز پر کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے ۔
ان اصلاحات پر بحث زوروں پر ہے ۔جس میں کوئی سیکورٹی سے متعلق سوال اٹھاتا ہے کوئی الگ صوبے کا مطالبہ کرتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ فاٹا کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ کیا اس پر ریفرنڈم کرایا جائے؟رپورٹ مرتب کرتے وقت اس کے تمام متعلقین کے ساتھ کئی بار مکالمہ کیا گیا۔نیچے سے لے کر اوپر تک تمام افراد نے فاٹا کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔پولیٹیکل ایجنٹس اور دوسرے فریقین کو ان سفارشات سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ایف سی آر اپنی جگہ رواج کی صورت موجود ہے تاوقتیکہ سفارشات پر مکمل عمل در آمد نہیں ہو جاتا۔انتطامیہ کے سابق افسران جنہیں کئی دہائیوں کا تجربہ ہے وہ سفارشات پر کئی آراء رکھتے ہیں ۔سابق چیف سیکرٹری کے پی خالد عزیز نے اپنے بلاگ میں ایف سی آر کے خلاف لکھا ہے ۔سابق چیف سیکرٹری رستم شاہ مہمند نے16فروری کو شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ فاٹا کا ادغام ایک ’’ناگہانی خطرہ ‘‘ ہے ۔پرویز طاہر نے اپنے 24فروری کو شائع ہونے والے مضمون میں لکھا کہ ’’سیاسی شمولیت سیاسی طریقے سے ہونی چاہیے نہ کہ ڈنگ ٹپاؤ انداز سے ‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ ایک بندہ با آسانی آئین تبدیل کر سکتا ہے فاٹا کو کے پی میں ضم کر سکتا ہے اور ا س کے بعد صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ کس طرح اس درمیانی عرصے کو ڈیل کرتی ہے ۔
رپورٹ کی حدود و قیود سے ہٹ کر یا ان کے ہوتے ہوئے اس پر یاتو کلی طور پر عمل کیا جا سکتا ہے یا جزوی کیا جا سکتا ہے ۔کچھ کے نزدیک یہ سیاسی تبدیلی کے تاریخی لمحات ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی سنگ میل پہلے ہی عبور کیے جا چکے ہیں جن میں2011ء کو ہونے والی اصلاحات کے تحت ہر ایک کو ووٹ کا حق، سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور انفراد ی جرائم پر پورے خاندان کو سزا کا خاتمہ شامل ہے ۔جولائی2013ء میں فاٹا اصلاحات پر سیاسی جماعتوں کی جوائنٹ کمیٹی جس میں دس جماعتیں شامل تھیں اس نے گیارہ نکات پراتفاق کیا جس میں آرٹیکل247،لاکل باڈیز الیکشن ،ترقیاتی منصوبہ ،فاٹا میں انتظامیہ اور عدالتی اختیارات کی علیحدگی شامل تھی ۔2017ء میں تقریباً سبھی جماعتیں اصلاحات کے حق میں تھیں۔
رپورٹ میں تمام متعلقہ معاملات پر بحث کی گئی ۔اس میں فاٹا کا ادغام موجودہ ڈھانچے کے ذریعے کیا جانا ہے ۔اس حوالے سے سیکورٹی خدشات بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ان سفارشات پر عمل در آمد سست روی کا شکار ہو سکتا ہے پاکستان میں کے لیے بھی اس قسم کی اصلاحات مشکل ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق وسائل کی تقسیم سے ہوتا ہے مگر وفاق ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وسائل اپنے پاس رکھے ۔فوج جو فاٹا کے زیادہ حصے کو کنٹرول کرتی ہے اس نے رپورٹ کو در خور اعتنا نہیں سمجھا لیکن یہ بات بھی دیکھنی ہو گی کہ سیاسی اصلاحات کے بغیر اگر فوج رخصت ہوتی ہے تو ا س کی جگہ کون سا نظام لے گا ؟
اگر ہم فاٹا سے ہٹ کر وسیع تناظر میں دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام فاٹا کے امن سے وابستہ ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ فاٹا میں سیاسی اصلاحات لائی جائیں جن کے ذریعے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے ۔اس سے حکومت کا دائرہ اثر بھی بڑھے گا اور فاٹا کے شہریوں کومکمل شہری حقوق میسر آئیں گے ۔تاہم جو فساد گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اسے محض سیاسی اصلاحات یا ترقیاتی پیکج سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔جن مسائل سے تمام پاکستانی گزر رہے ہیں ان کا سامنا فاٹا کے شہریوں کو بھی کرنا ہو گا ۔ان میں سے کئی ایک جن کا واسطہ باقی ملک سے پڑتا رہتا ہے ان کو اس بات کا اندازہ ہے ۔پاکستان میں تبدیلی ہمیشہ جزوی ہی آتی ہے،اسے اضافی سمجھا جاتا ہے یا اس کو التوا میں رکھ کر اس سے آنکھیں چرائی جاتی ہیں،ایسے میں اگر اصلاحات رپورٹ پر عمل در آمد ہوجاتا ہے تو اس میں کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔

(بشکریہ فرائیڈے ٹائمز، ترجمہ :سجاد اظہر )