working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

عالم اسلام

دہشت گردی کی جڑ اور اس کی تاریخی نظیر

نتاشا شاہد

حالیہ دور میں مسلمان ملکوں میں جاری دہشت گردی کی جڑیں تاریخ کے اندر کہاں موجود ہیں ؟ ا سکی کھوج نتاشا شاہد نے اس مضمون میں لگائی ہے ۔فدائین کہاں سے آئے اور کن حالات میں پروان چڑھے اس کی تمام تر تفصیل کا احاطہ اس مضمون میں کیا گیا ہے ۔فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہونے والے اس مضمون کا اردو ترجمہ شکریئے کے ساتھ قارئین تجزیات کے لئے پیش کیا جارہا ہے ۔(مدیر)

نائن الیون کے حملوں کے بعد، مسلمانوں کا امیج دنیا بھر میں بری طرح متاثر ہے،اس طرز کے غیر مسلموں پرکیے جانے والے خودکش حملے کافی حد تک مسلم کمیونٹی کی شناخت کے طور پر پیش کیے جانے لگے ہیں۔ جلد ہی چند علمی نظریات اس جدید تصور کی حمایت میں ابھر کر سامنے آئے جن میں سے ایک نظریے نے یہ کوشش کی کہ جدید خودکش حملوں کو "حشاشین" کے ساتھ جوڑا جائے جو بارہویں اور تیرہویں صدی میں آج کے ایران،عراق اور شام میں پھیلے ہوئے تھے اور جنہیں"اساسین (فدائیین)" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس فکر کے ایک حامی عسکری تاریخ دان اور اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق نائب سربراہ ڈاکٹر شاو¿ل شے اپنی تصنیف "دی شہیدز" میں لکھتے ہیں کہ حشاشین کی قتل کی وارداتیں "اسلام کے نام پر خودکش حملوں کی تاریخی مثال ہیں" بہ ایں معنی کہ وہ قرون وسطی میں –ان کی رائے کے مطابق- آج کے دور کے مبینہ مسلم دہشتگردوں کی طرح "مقدس قاتلوں" کا گروہ تھا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار ممکن نہیں کہ معلوم تاریخ کے تقریباً چھ ہزار سالوں میں عالمی امن اور سلامتی کے لئے شاید آج کے دور کی 'اسلامی' دہشت گردی سب سے زیادہ خوفناک خطرہ ہے. لہٰذا، اس کا "علاج" تلاش کرنا معاصر دنیا کو درپیش اہم چیلنجوں میں سے ایک ہے۔
جیسا کہ دنیا کے دانشوروں،افواج اور سیاستدانوں کی اکثریت شاید اب تک یہ جان چکی ہو گی کہ کسی بھی نظریے کا علاج اس کوسطح زمین پر بلڈوز کر دینے سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کی جڑوں تک پہنچ کر اس کا صفایا کرنا ہوتا ہے،تو کیا شاو¿ل شے نے ماڈرن اسلامی دہشتگردی کی حقیقی تاریخی نظیر دیکھی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں درج ذیل تین سوالات کے جوابات معلوم کرنا ہوں گے:
1 : حشاشین کون تھے؟ اور وہ قتل پر اس قدر آمادہ کیوں ہوتے تھے کہ یہ انتہائی سرگرمی ان کی امتیازی خصوصیت بن گئی؟
2: کیا وہ حقیقیت میں "مقدس قاتل" یا مجاہدین تھے؟
3 : اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا وہ آج کے دہشتگردوں کے لیے قرون وسطی میں نظیر تھے جن کا دعویٰ اور عقیدہ ہے کہ اسلام کے نام پر مقدس جنگ چھیڑی جائے۔
ان تینوں سوالوں کا جواب دینا اتنا ہی مہنگا ہے جتنا کہ ان پر لکھی گئی تمام کتابیں خریدنا، بہرحال ایک مضمون کی شکل میں ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ معلومات کا احاطہ کرنے کے لیے ہم صرف اس بات کا احاطہ کریں گے کہ :حشاشین کون تھے؟
1090ءکی مسلم دنیا
بنیادی طور پر حشاشین اسماعیلی فرقے کے ایک گروہ کا نام تھا جسے تقریبا 1090 ءمیں سابق اثنا عشری شیعہ حسن بن صباح نے بنایا تھا (اسے حسن صباح بھی کہا جاتا ہے)یہ وہ وقت تھا جب عالم اسلام خود طوائف الملوکیت میں منقسم تھا۔
آج جس خطے کو مشرق وسطیٰ کہا جاتا ہے اس سے کافی زیادہ علاقے تکنیکی طور پر خلافت عباسیہ کے زیر اثر آچکے تھے تاہم سوال میں مذکور مدت تک خلافت عباسیہ نے اپنے کردار کو خود ہی مذہبی حیثیت تک محدود کر دیا تھا،اور عملی،سیاسی اور عسکری قوت زیادہ تر سلجوقی سلاطین اور دیگر معمولی خاندانوں کے پاس چلی گئی تھی۔
آج جہاں تک مشرقی ایران ،افغانستان اور پاکستان پھیلے ہوئے ہیں وہاں غزنوی حکمران تھے ،ہسپانیہ یا اندلس میں اموی طاقت ختم ہو کر مرابطین کو راستہ دے رہی تھی،جدید ترکی بازنطینیوں اور مسلمانوں (بنیادی طور پر سلجوقی سلاطین )کے لیے میدان جنگ بن چکا تھا،بلکہ سلجوقیوں نے علاقے کے کچھ حصے ان کے کنٹرول سے الگ کر کے 1077 ءمیں ایک آزاد خودمختار سلطنت "سلاجقہ روم" قائم کر لی تھی۔
مغرب بعید میں جو کہ وسیع اسلامی دنیا کا آخری حصہ ہے مراکش (آج کا شمالی افریقہ ) واقع ہے جو واحد خطہ تھا جہاں قرون وسطیٰ کی اسلامی دنیا میں غیر سنی فاطمی خلفاءحکومت کرتے تھے،فاطمی خلافت اسماعیلی شیعوں کی خلافت تھی، جن کا حکمران بیک وقت خلیفہ ،سپریم لیڈر اور اسماعیلی امام ہونے کا ایک منفرد اعزاز رکھتا تھا۔
یہ خلافت واحد اسلامی سلطنت تھی جس نے خلافت عباسیہ اور بغداد کے خلیفہ سے بیعت نہیں کی ہوئی تھی،اس لیے یہ باقی اسلامی دنیا سے الگ تھلگ اپنی خودمختاری سے پھلتی پھولتی رہی۔
خلاصہ یہ کہ وہ مسلم دنیا جہاں حسن بن صباح اور اس کے فدائیین (حشاشین) پروان چڑھے وہ جن بڑی اور چھوٹی( زیادہ تر سنی) سلطنتوں کا مجموعہ تھی ،سوائے ایک کے سب نے عباسی خلیفہ سے بیعت کر رکھی تھی۔
نظام کی تشکیل
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ حسن بن صباح اسماعیلیت اختیار کرنے سے پہلے اثنا عشری شیعہ تھا،اور اسماعیلی سکالر ڈاکٹر فرہاد دفتارے کے مطابق اس وقت اس کی عمر سترہ برس تھی۔اس کی اس تبدیلی کی وجہ عطا ملک جوینی کی تاریخی جہاں گوشے میں بھی غیر واضح ہے جہاں جوینی نے حسن بن صباح کی خودنوشت سے اقتباسات دے کر اس کی سوانح عمری کی مکمل تصویر دینے کی کوشش کی ہے۔:
" میں نے اپنے والد کے مذہب کی پیروی کی جو کہ اثنا عشری شیعہ تھے،رے میں ایک شخص تھا جسے عامرہ زراب کہا جاتا تھا اور وہ مصر کے "باطنیوں" کے عقائد رکھتا تھا،ہم اکثر آپس میں بحث مباحثہ کرتے رہتے اور وہ میرے عقائد خراب کرنے کی کوشش کرتا، میں نے اس سے ہار نہیں مانی لیکن اس کے الفاظ میرے دل میں گھر کر چکے تھے، اسی اثنا میں مجھے ایک خوفناک بیماری نے آ لیا، اور میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ : یہ سچا مذہب ہے لیکن تعصب کی وجہ سے میں اسے تسلیم نہیں کر رہا۔ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے،اگر اسی حالت میں میرا مقررہ وقت آ گیا تو میں حق تک رسائی کے بغیر اس دنیا سے چلا جاو¿ں گا،پھر یہ ہوا کہ میں جلد ہی اس بیماری سے صحت یاب ہو گیا۔"
اس کے بدلنے کے پیچھے کوئی بھی سبب کارفرما ہوبالآخر حسن پختہ اسماعیلی عقیدے کا مالک،اس کا محافظ اور سرگرم داعی بن گیا،عقیدہ بدلنے کے بعد 1076-77 میں اس نے سیدھا قاہرہ کا سفر اختیار کیا جو کہ اس وقت اسماعیلی فاطمی خلافت کا دارالخلافہ تھا،اور 1078-79 کو اپنے نئے عقیدے کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لیے وہاں پہنچ گیا ،جہاں اسے شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر اسے "حشاشین" کی بنیاد رکھنا پڑی۔
مصر پہنچ کر حسن نے دیکھا کہ ملک مکمل طور پر و زیر اور کمانڈر انچیف جسے بدر الجمالی کے نام سے جانا جاتا ہے کے کنٹرول میں ہے،بدر جمالی خلیفہ مستنصر کے دوسرے بیٹے ابو القاسم احمد کا سسر بھی تھا، حسن نے (جیسا کہ جوینی نے نقل کیا ہے) مصر میں جو کچھ دیکھا اسے یوں بیان کرتا ہے :
"میں وہاں تقریبا ڈیڑھ سال رہا،اپنے قیام کے دوران اگرچہ میں مستنصر کے پاس نہیں جا سکا،وہ مجھے جانتے تھے اور کئی مرتبہ میری تعریف بھی کی، اب امیرجیش (کمانڈر انچیف بدر الجمالی) جو کہ مکمل طاقتور حکمران تھا المستنصر کے چھوٹے بیٹے المستعلی ابوالقاسم کا سسر تھا اور اسی کی بدولت وہ دوسرے بڑے عہدے کامالک بن گیا تھا۔
اب میں نے اپنے دینی اصولوں کے مطابق (المستنصر کے بڑے بیٹے) نزار کے حق میں فضا بنانی شروع کر دی،جس کی وجہ سے امیر جیش مجھ پر برہم ہوا اور مجھ پر حملہ آور ہونے کے لیے کمر بستہ ہو گیا،اور اس نے مجبورا ً مجھے بحری جہاز کے ذریعہ فرینک جماعت کے ساتھ مراکش کی طرف بھیج دیا"۔
حسن کو مصر سے تقریبا 1080ءمیں نکالا گیا اور 1081ءتک وہ اصفہان پہنچ گیا تھا،اسماعیلی خلافت کا اس کے ساتھ سلوک دردناک اور حوصلہ شکن تھا لیکن اس کو حسن نے اپنا عقیدہ بدلنے کی وجہ نہیں بنایا اور ایمان سے دستبردار نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس اس نے اپنا پروپیگنڈا پورے فارس میں(اصفہان سے لے کر کرمان،یزد،خوزستان اور فاران تک) جاری رکھا اور بہت سے پیروکار پیدا کر لیے۔
آخرکار 1090ءمیں وہ قزوین پہنچا جس کے قریب ہی "قلعہ الموت" واقع تھا جو کہ حشاشین کا پہلا اور سب سے مضبوط گڑھ ثابت ہوا۔
"الموت" دوارنیہ کی ابتدا
حسن بن صباح کے "الموت"(قلعہ الموت ،لفظی مطلب: عقابوں کا نشیمن) پر قبضہ سے اس دور کی ابتدا ہو جاتی ہے جسے اسماعیلی تاریخ میں "الموت دورانیہ" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس دورانیے کے دو سال گزرنے پر"حشاشین" نے اپنے پہلے ہدف طوس کے رہنے والے سلجوقی وزیر نظام الملک حسن بن علی بن اسحاق کو نشانہ بنایا جو نظام الملک الطوسی کے نام سے معروف ہے۔
اس کے مزید دو سال بعد 1094ءمیں فاطمی خاندان کے خلیفہ المستنصرکا انتقال ہو گیا جس سے بڑھتے ہوئے داخلی تنازعات کھل کر سامنے آگئے۔ حسن( جس نے مصر میں قیام کے دوران المستنصر کے بڑے بیٹے نزار کے حق میں پروپیگنڈا کیا تھا) نے فاطمی تخت کے لیے نزار کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اس سے اپنی بیعت کا اعلان کر دیا۔
آخر کار مصر میں تو ابو القاسم کے دعوی خلافت کی وجہ سے نزار کے حق میں کی گئی کوشش رایئگاں چلی گئی لیکن حسن بن صباح کی طرف سے ایران میں جدو جہد کامیاب ہو گئی اور حسن بن صباح اور اس کے پیروکار حشاشین اپنے آپ کو المستعلی(ابوالقاسم) کے پیروکاروں سے امتیاز رکھنے کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے " نزاری اسماعیلی " کہلوانے لگے۔
الموت کے خداوند اور قلعے کی چوٹی
تقریبا 170 سالوں پر محیط اس لمبے عرصے میں الموت کے تخت پر آٹھ حکمران تخت نشین ہوئے،جن میں سے پہلے تین کو تو صرف "خداوند" یا آقا کہا جاتا تھا جبکہ باقی پانچ امام کہلاتے تھے،حسن ایک لمبے عرصے تک اپنے اثرورسوخ کی توسیع کو یقینی بناتے ہوئے شمالی ایران میں میمون-دیز، لماسر اور گردکوہ جیسے مزید قلعوں پر بھی قبضہ کرتا رہا ،اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مبلغین کو اپنا پیغام دوسرے علاقوں میں پھیلانے کے لیے کوہستان اور آج کے شام وغیرہ کی طرف بھی بھیجتا رہا۔
حشاشین کے کام کا بہت بڑا حصہ حسن بن صباح خود کرتا رہا،بہرحال موت سے کسی کو مفر نہیں،اور حسن بن صباح کی موت کے بعد قلعہ الموت کے تخت پر کسی اور نے براجمان ہونا ہی تھا۔
حسن بن صباح پر بدعت کے الزامات لگانے کے باوجود اس کے دشمنوں - جیسا کہ مورخ عطا ملک جوینی،جو کہ اتفاقا شیعہ تھا- نے بھی اس کی خالص اسلامی پرہیزگاری اور اور سادگی کا اعتراف کیا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو شراب نوشی کی وجہ سے مار ڈالا تھا۔اسی وجہ سے حسن کے لیے اب کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ اس کا مرید کیا بزرگ امید 1124ءمیں حسن بن صباح کی وفات کے بعد الموت کے تخت پر دعوی کر بیٹھے۔
بزرگ امید(مدت خلافت 1124ءتا 1138ء) حسن کا ایک دیانت دار شاگرد تھا ،اس نے اپنی پوری صلاحیتیں اپنے استاد کے مشن نزاری اسماعیلی اسلام کے فروغ پر لگا دیں۔تاہم تیسرے خداوند (جو کہ کیا بزرگ امید کا بیٹا محمد تھا اور 1138اءتا 1162ءتخت نشین رہا) کی آمد تک حشاشین کی قوت رو بہ زوال ہونا شروع ہو گئی۔
چوتھے خداوند،محمد کے بیٹے حسن(مدت خلافت: 1162ءتا 1166) کو نزار کی نسل کا بھی قرار دیا گیا( نزار کا پوتا،اور محمد کی بیوی کا بچہ ہونے کی وجہ سے،یا حسن سے تبدیل کر کے محمد کا ذاتی بیٹا ہونے کی وجہ سے) اسی لیے اسے امام بھی قرار دیا گیا،یہاں سے حشاشین کی اپنی خلافت و امامت کا بھی آغاز ہوتا ہے۔
انتہا کی ابتدا
حسن کا دور پہلے ہی قدیم اسلام سے منحرف ہو کر الگ سے نزاری اسماعیلی اسلام کی طرف جا چکا تھا،کہ الموت کے پہلے امام نے(1164ءمیں) "قیامت" کے زمانے کی آمد کا اعلان کر دیا۔ اس دور میں ہر وہ چیز جسے شریعت کے دور میں غیر شرعی قرار دیا جاچکا تھا وہ شرعی اور قانونی قرار پائی،اس لیے
( کچھ حد تک) مے نوشی اور زنا نے بھی نہ صرف یہ کہ قانونی حیثیت اختیار کر لی بلکہ واجب قرار دیے گئے۔
ان اقدامات سے نہ صرف قدامت پسند سنی سلجوقی اور عباسی(جن کی اراضی پرحشاشین نے قلعے کی چوٹی پر قبضہ کیا ہوا تھا) نزاریوں کے خلاف ہو گئے بلکہ کچھ نزاری اسماعیلیوں نے بھی اپنا عقیدہ تبدیل کر لیا۔ بعد کے امام جلال الدین حسن (دور حکومت: 1210 ءتا 1221 ء) نے حسن کے فیصلوں کی تلافی کے لیے کوشش کی کہ عباسی خلیفہ تک رسائی حاصل کرے،جس کے بعد نزاری دوبارہ اسلام کی طرف آ گئے۔
تاہم اکثر سلطنتوں کے برعکس،الموت کے نااہل حکمران اپنی اراضی سے رفتہ رفتہ محروم نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے تو اس وقت تک کچھ بھی نہیں کھویا تھا جب تک کہ ہلاکو خان نے آکر سب کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجا دی۔ دشمنی کے سمندر میں گھرے ہوئے حشاشین کی بقا کا واحد سبب ان کا مضبوط و محفوظ قلعہ تھا،(سنی سلجوقیوں سے لے کر اسماعیلی فاطمیوں اور صلیبی عیسائیوں تک خطے کی ہر سرگرم سلطنت اس فرقے سے نفرت کرتی اور اس کے پیروکاروں کی مخالف تھی ،اور ممکنہ طور پر اسی چیز نے انہیں قاتل بنا دیا تھا)
قلعہ کے محفوظ ہونے کی وجہ اس کا محل وقوع اور فن تعمیر تھا- جو کہ کسی بھی قلعہ کی طرح پہاڑ کی چوٹی پر ہی واقع تھا- اور سلجوقیوں جیسی زبردست طاقتور افواج کے لیے بھی مشکل تھا کہ انہیں وہاں سے نیچے اتار سکیں۔تاہم ہلاکو کی فوج اور منجنیقوں کے ساتھ نزاریوں کو قلعے سے نیچے لانا ممکن اور ناگزیر تھا۔
جس سال بغداد کا پایہ تخت منہدم ہوا اسی سال 1258ءمیں الموت کا بھی سقوط ہوا ۔ اور اسی طرح دیگر قلعے بھی مفتوح ہوئے۔الموت کے آخری خداوند رکن الدین کو ذلت آمیز موت کے گھاٹ اتارا گیا،اور چنگیز خان کے ضابطہ قوانین کے مطابق اور منگو خان کے حکم نامے کا حوالہ دے کر بڑے پیمانے پر نزاری اسماعیلیوں کا قتل عام کیا گیا،جوینی کے مطابق دونوں نے حکم دیا تھا کہ نزاری اسماعیلیوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑا جائے،"یہاں تک کہ بچہ کو پنگوڑے میں بھی قتل کر دیا جائے"۔
تاہم لگتا ہے کہ ہلاکو کی نسل کشی کی مہم کامیاب نہ ہو سکی اور کچھ نزاری اسماعیلی جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے،آج نزاری اسماعیلی پاکستان میں "آغا خانی" کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کے اماموں کا سلسلہ نسب 49 کے ہندسے تک پہنچ گیا ہے۔
(ترجمہ : عاطف محمود ہاشمی )