working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

عالم اسلام

مشرق وسطی ٰ اور شمالی افریقہ کی جامعات میں شدت پسندی
(نیشنل پولیس اکیڈمی انقرہ میں 9نومبر2016کو دیا گیا لیکچر)

مارٹن روز

مارٹن روز کیمبرج یونیورسٹی کے پرنس ولید بن طلال سینٹر فار اسلامک سٹدیز میں وزیٹنگ فیلو ہیں ۔ان کا انسانی تاریخ کے ارتقا کا بڑا گہرا مطالعہ ہے ۔انہوں نے زیر نظر تحقیقی مقالے میں نوجوانوں میں شدت پسندی کی وجوہات کے پس منظر میں ان کے تعلیمی اداروں کے کردار اور وہاں موجود ماحول کا جائزہ لیا ہے ۔بالخصوص ا س سوال کا آخر سائنس پڑھنے والے طلبا میں شدت پسندی کا رجحان کیوں زیادہ ہے ؟یہ جائزہ اگرچہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی یونیورسٹیوں کے بارے میں ہے تاہم اگر دیکھا جائے تو یہ پورے عالم اسلام پر بھی منطبق ہوتا ہے۔حالات اور ماحول یکساں ہے اسی مطالعے کو پاکستان کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں اس سے ملتی جلتی صورتحال ہی ہے ۔حال ہی میں منظر ِ عام پر آنے والی سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا کہ وکیلوں پر خود کش حملے کا ماسٹر مائینڈ انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار کا فارغ التحصیل تھا ۔اس حالے سے مارٹن روز کا یہ مطالعہ پاکستانی تناظر میں بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے (مدیر)

آج میں اختصار کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس میں شدت پسندی کے موضوع پر اظہار ِ خیال کروں گا ۔جو زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ کے تناظر میں ہے مگر مجھے امید ہے کی ا س کی مطابقت باقی خطوں سے بھی ہو گی ۔میرا موضو عِ گفتگو اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم شدت پسندی کو کس قدر فروغ دیتی اور کس حد تک روکنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ نوجوانوں کو زندگی کے ایسے موڑ پر ایک ساتھ بٹھاتے ہیں جب وہ تصوراتی دنیا میں ہوتے ہیں اور اپنے ارد گرد سے بہت زیادہ متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے یہ بات بھی خطرے کی علامت بن جاتی ہے ۔اگر اس دوران ان میں انتہا پسندانہ خیالات پروان چڑھنے لگ جائیں یا وہ خود انتہا پسند تنظیموں کا حصہ بن جائیں تو اس سے یونیورسٹیوں کا نظم و ضبط بھی متاثر ہو گا ۔ مگر میں یہ سوچتا ہوں کہ کہیںیہاں تک اسے پہنچانے میں یونیورسٹی کی تعلیم کا عمل دخل تو نہیں ہے ۔ہمیں اس جانب سوچ و بچار کرنی ہو گی ۔
یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جب ہم تعلیم اور شدت پسندی کے باہمی تعلق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ تعلیم کی کمی اور شدت پسندی کا باہمی تعلق کیا ہے ؟ جب تعلیمی اداروں کے وابستگان نے اس جانب سوچ و بچار کی تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اعلٰی تعلیم اور شدت پسندی کا تعلق موجود ہے ۔مگر زیادہ تر مطالعے اس سلسلے میں کئے گئے کہ تعلیم انحطاط کا شدت پسندی میں کس قدر کردار ہے ؟میں اس کی ایک مثال دوں گا :
ایک ماہ قبل برطانوی اخبار گارڈین میں جے سن برکی (Joson Burke)کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کا عنوان (Islamaic militant group' recruits likely to be well educated, study finds)تھا۔عالمی بنک کے تجزیہ نگار نے داعش کی جانب سے بھرتی کے طریقہ کار کو ان رپورٹوں سے جانچا جو جرمنی کی وفاقی پولیس نے مرتب کی تھیں ۔جن میں داعش سے منسلک 3803 بھرتی ہونے والے بیرونی افراد کا جائزہ لیا گیا تھا ۔گارڈین کے مطابق اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غربت یا تعلیمی معیار کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔مگر مصنف کا صرار ہے کہ یہ رپورٹ تضادات کا شکار ہے ۔
ورلڈ بنک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھرتی ہونے والے 69فیصد کی تعلیم ثانوی درجے کی تھی جبکہ15فیصد نے ہائی سکول سے پہلے ہی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا تھا ۔دو فیصد سے بھی کم ایسے تھے جوغیر تعلیم یافتہ تھے۔شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے بھرتی ہونے والوں کا تعلیمی معیار دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ افریقہ ، جنوبی اور مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر بھرتی ہونے والے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے اور اپنے اپنے ممالک میں بھی ان کا شمار زیادہ پڑھے لکھے افراد میں ہوتا تھا۔ مگر یہ بات ان متفرق دعووں کو سچ ثابت نہیں کرتی کہ تعلیمی معیار اور شدت پسندی کا باہمی تعلق نہیں ہے ۔
ان اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ تعلیمی کمی کا شدت پسندی سے کوئی تعلق ہے ۔مصنف نے ا س بات کی بھی نفی کی ہے کہ اعلی ٰ تعلیمی صلاحیتوں یا سکول کے بعد کی تعلیم کا اس میں کوئی کردار ہے ۔
یہ کہنا آسان ہے کہ غربت اور تعلیمی انحطاط ، مایوسی کا موجب بنتے ہیں اور جب مایوسی اور ”کھونے کو کچھ نہ ہو “ جیسے حالات مل جائیں تو یہ دہشت گردی کا محرک بنتی ہیں ۔جیسا کہ Claude Berrebiنے2007میں اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا تھا کہ ”کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا سب سے آسان شکار وہ افراد ہوتے ہیں جنہیں آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع دستیاب ہوتے ہیں “۔اس بات میںکافی وزن ہے ۔بہت سے لوگ Eli Wieselکا بھی حوالہ دیتے ہیں جو لکھتا ہے کہ ”جو بات نوجوان افراد کو دہشت گردی کی جانب مائل کرتی ہے وہ سہولت اور آسانی ہے ۔جنونیوں کے پا س سوالات نہیں صرف جوابات ہوتے ہیں ، تعلیم ہی وہ راستہ ہے جودہشت گردی کو ختم کر سکتا ہے ۔Berrebiنے کئی سیاستدانوں کا حوالہ بھی دیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ”غربت اور عدم توجہی ،شدت پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں “۔سب اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم ہی دہشت گردی کے خلاف مو¿ثر ہتھیار ہے ۔
مگر گارڈین کی رپورٹ اس استدلا ل کو ثابت نہیں کرتی ۔کیونکہ داعش میں بھرتی ہونے والوں کے چارٹ کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بھرتی ہونے والے تمام افراد کی تعلیمی صلاحیت ان کے آبائی علاقوں یا خطے کی شرح سے بھی زیادہ تھی ۔شمالی افریقہ سے آنے والوں کا تعلیمی دورانیہ ان کے خطے کے دورانیہ سے پانچ سال ، مشرق وسطی ٰ سے آنے والوں کاتین سال ،صحرائے سہارا سے آنے والوں کاتین سال زیادہ تھا۔جبکہ مغربی یورپ سے آنے والوں کا یہ فرق دو سال زیادہ کا تھا۔ورلڈ بنک نے لکھا کہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ داعش ،غیر ملکی جنگجوو¿ں میں سے کم تعلیم یافتہ یا غریب افراد کوبھرتی نہیں کرتی ، جو ایک مختلف بات ہے ©©“۔
اس رپورٹ میں ایسے شاہد بھی نہیں ملے جن میں بتایا جاتا کہ داعش میں شامل ہونے والے افراد میں سے گریجویٹس کتنے ہیں اور ان کے اپنے علاقوں میں یہ شرح کتنی ہے ۔لیکن جو مطالعے Diego GambettaاورSteffen Hertogنے 2007میں کئے ان میں بتایا گیا کہ مشرق ِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اعلی تعلیم کی طرف رجحان نسبتاً زیادہ ہے ۔Centre for Religion and Geopoliticsمیں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا کہ یہاں 46فیصد طلبااعلی ٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں جن میں سے 22فیصد تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں ۔اس کا تقابل خطے کی مجموعی صورتحال سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔جہاں 25.8فیصد ثانوی درجے کی تعلیم مکمل کرتے ہیںاور شرح سب سے زیادہ چار ممالک میں ہے ۔ مصر میں یہ شرح 32.6مراکش میں 10.6تیونس میں 27.6اور سعودی عرب میں 27.7فیصد ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عسکریت ایسا شعبہ ہے جو گریجویٹس کو زیادہ مائل کرتا ہے ۔
اس لئے میرا استدلال یہ ہے کہ وہ طلبا جو یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں ان کا پر تشدد شدت پسندی کی جانب عام لوگوں کی نسبت رجحان زیادہ ہوتا ہے ۔
یہ سوال کئی محققین کے پیش نظر ہے جن میں سے کئی کی توجہ ا س نقطے کی جانب مرکوز ہے کہ تعلیم اور معاشرے کی مخصوص حالت مل کر کیسے طلبا کی ا س جانب رہنمائی کرتے ہیں ؟ مثال کے طور پر Brockhoffنے 23سال تک133ممالک کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ”جہاں بنیادی تعلیم کی کمی ہے وہاں دہشت گردی زیادہ ہے کیونکہ وہاں سیاسی ، سماجی اور معاشی ابتری زیادہ ہے اور جہاں تعلیم کی جانب رجحان زیادہ ہے وہاں دہشت گردی کم ہے کیونکہ وہاں لوگوں کے حالات بہتر ہیں “۔یہ بات کسی حد درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو معاشرے ترقی کی جانب گامزن ہیں وہ شہریوں کی توقعات کو پورا کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور تبدیلی کی طرف رواں ہیں یہ ایک مثبت بات ہے ۔جہاں لوگوں کی توقعات کو پورا نہیں کیا جاتا وہاں تبدیلی کے لئے دباو¿ بڑھتا رہتا ہے اور اگر حالات زیادہ دگر گوں ہو جائیں تو پھر تعلیم بھی دہشت گردی کو نہیں روک سکتی کیونکہ یہ ایک پورا عمل ہے اور وہ مخصوص حالات ہیں جو دہشت گردی کو پنپنے کا موقع اور ماحول فراہم کرتے ہیں۔
ا س گفتگو کا پس منظر بہت وسیع ہے ۔پوری دنیا میں اعلی ٰ تعلیم کی طرف رجحان میں حالیہ سالوں کے اندر اضافہ ہوا ہے آج کی یونیورسٹیاں ماضی سے قطعی مختلف طرز کے ادارے بن چکی ہیں ۔چاہے یورپ ہو یا مشرق وسطیٰ ،1992سے2012کے درمیان طلبا کی تعداد 14فیصد سے بڑھ کر 32فیصد ہو چکی ہے ۔کئی ممالک میں یہ شرح 50سے54فیصد تک بڑھی ہے ۔2002میں دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد10کروڑ 50لاکھ تھی۔جبکہ اگلے تیرہ سالوں میں یہ تعداد دوگنی اور 2025تک 26کروڑ20لاکھ کا تخمینہ ہے ۔دنیا بھر میںنوجوانوں کی بڑی تعدادیونیورسٹیوں کا رخ کر رہی ہے ۔ جہاں وہ تخلیق و اختراع میں اپنے لئے مواقع کو بڑھا رہے ہیں ۔لیکن جب ان کی امیدیں بر نہیں آتیں تو انہیں مایوسی ہوتی ہے ۔یہ اضافہ یورپ میں دیکھا جا سکتا ہے ،برطانیہ جہاں 1950میں 3.4فیصد طلبا یونیورسٹیوںمیں داخلہ لیتے تھے اب ان کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔یہ ایک مثبت عمل ہے کیونکہ گریجویٹس کی تعداد بڑھنے سے ترقی کی رفتار بھی بڑھتی ہے ۔تاہم بیروزگاری یا توقعات کے مطابق نوکریاں نہ ملنے سے مایوسی بڑھتی ہے ۔ بہت سے طلبا کو ان کی تعلیمی استعداد کے مطابق نوکری نہیں ملتی ۔برطانیہ میں 2015تک30.8فیصد طلبا کو ان کی ڈگریوں کے مساوی کام نہیں مل سکا تھا اور وہ کم تر نوکریاں کرنے پر مجبور تھے ۔ برطانیہ میں ہی 13.4فیصد یا تو بیروزگار تھے یا پھر ان کی ملازمتیں ختم ہو چکی تھیں ۔ یہی صورتحال مشرق وسطی ٰ اور شمالی افریقہ میں بھی ہے ۔جیسے جیسے طلبا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے ۔
صحیح صورتحال کا اندازہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ پورے خطے میں اعلیٰ تعلیم کی حالت مخدوش ہے نہ ہی یہ خطے کی معاشی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی ٰ اور شمالی افریقہ میں جو طلبا یونیورسٹی گریجویٹ ہو جاتے ہیں ان کے لئے نوکری کے امکانات بڑھنے کی بجائے کم ہو جاتے ہیں ۔گریجویٹ افراد زیادہ پڑھ لکھ جانے کی وجہ سے اچھی نوکریاںمانگتے ہیں جبکہ کم تعلیم یافتہ کو جیسی ملازمت مل جائے وہ کر لیتا ہے ۔2010میں سامنے آنے والی UNDPکی ایک رپورٹ میںمصر کی صورتحال پر تبصرہ کیا گیا جو زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ ”تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت کی تلا ش میں کم تعلیم یافتہ پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے “۔ا س پورے خطے میں بیروزگاری کا تناسب 20سے 30فیصد تک ہے ۔
مراکش میں تو یہ بات زبان زد ِ خاص و عام ہو چکی ہے کہ ©©یونیورسٹیاں بیروزگاری کی فیکٹریاں بن چکی ہیں “۔یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ جس قدر طلبا کی تعدا د بڑھ رہی ہے اسی قدر بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔دنیا کی بہت سی معیشتیں جس رفتار سے گریجویٹس پیدا کر رہی ہیں اس رفتار سے روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر رہیں ۔جس کا نتیجہ مایوسی کی شکل میں نکل رہا ہے اور حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ یہ بات منطقی ہے کہ جہاں بیروزگاری زیادہ ہو گی وہاں نوجوانوں کے شدت پسندی کی جانب مائل ہونے کے امکانات زیادہ ہو ںگے ۔تعلیم کے تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو تعلیم کے حصول کی ایک وجہ اچھی زندگی کے امکانات بڑھانا ہے،انہیں شدت پسندی کی جانب راغب کرنا نہیں ۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں بیروزگاری کا تناسب کم ہے وہاں بھی شدت پسندی موجود ہے ۔
بیروزگاری کا تعلق مضامین کے انتخاب سے بھی ہے ۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اعلی ٰ تعلیم کی طرف زیادہ رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں طلبا آرٹس اور سماجی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اس پر میڈیکل یا انجینئرنگ کی نسب کم خرچہ آتا ہے ۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ سائنسی علوم کی نسبت سماجی علوم حاصل کرنے والوں میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہو گی ۔اسی وجہ سے مراکش کی یونیورسٹیوں کوبیروزگاری کی فیکٹریاں قرار دیا گیا ہے ۔اس لئے یہاں پر تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔اس خطے میں سماجی علوم کی ڈگریاں رکھنے والوں کو سرکاری ملازمتیں دی جاتی ہیں اور بعض اوقات تو سرکار ضرورت سے زائد لوگ بھرتی کر لیتی ہے ۔مصر میں 1978میں پیدا ہونے والے 20فیصد مرد وں اور50فیصد خواتین کو سرکاری نوکری ملازمت مل سکی ۔2009میں تعداد مزید کم ہو کر بالترتیب5اور25فیصد رہ گئی ۔
اعداد و شمار بہت واضح ہیں ہم کس حد تک ان سے اختلاف کر سکتے ہیں ؟الجزائر کی مثال لیتے ہیں ۔جہاں سماجی علوم میں گریجویٹس کی تعداد میں بیروز گاری کا تناسب 28.7فیصد ہے ۔ادب ، تاریخ ،لسانیات وغیرہ میں 27.3فیصد،سائنس میں 18.1اور انجینئرنگ میں 14.8فیصد ہے۔یہی صورتحال تقریباً تمام شمالی افریقہ میں ہے ۔مراکش کے ایک اہم ادارے کے مطابق بیروزگار افراد میں سے 80فیصد کا تعلق ان طلبا میں سے ہے جنہوں نے اسلامیات یا عربی میں گریجویشن کر رکھی ہے ۔اس کے مقابلے پر کیمسٹری ، بیالوجی اور فزکس پڑھنے والوں میں یہ شرح انتہائی کم ہے ۔سائنس اور میڈیکل والوں میں یہ تعداد بہت ہی کم ہے ۔اس پورے خطے میں جو طلبا آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی شرح 63فیصد ہے جبکہ خالص سائنسی مضامین پڑھنے والو ں کی شرح 23فیصد ہے ۔میڈیکل پڑھنے والوں کی شرح 6.7فیصد ہے ۔ورلڈ بنک کا بھی مشاہدہ ہے کہ خالص سائنسی مضامین پڑھنے والوں کی مانگ زیادہ ہے ۔کیونکہ سائنس اور انجینئرنگ پڑھنے والوں کا ملکی معیشت اور ترقی میںکردار زیادہ ہوتا ہے ۔یہ بات کسی حد ترک درست ضرور ہے مگر ایسا سوفیصد نہیں ہوتا ۔انجینئرنگ پڑھنے والوں میں بیروزگاری کا تناسب کم ضرور ہے مگر اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔لیکن پھر بھی اگر اعداد و شمار کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ آرٹس کی تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا زیادہ ہوتا ہے ۔اس لئے اگر اس پیمانے کو دیکھا جائے تو ان کا شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کا رجحان زیادہ ہونا چاہئے ۔لیکن جب آپ گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں تو یہ استدلال قرین ِ قیاس نہیں معلوم ہوتا۔Diego GambettaاورSteffan Hertogکی تحقیق یہ کہتی ہے کہ خالصتاً سائنس پڑھنے والے اور خاص کر انجینئرز عسکریت پسندی کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں اور ان میں یہ شرح آرٹس پڑھنے والوں سے زیادہ ہے ۔
اس لئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگرچہ گریجویٹس میں بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے تاہم پھر بھی عسکریت پسندی کی جانب مائل ہونے والے افراد میں واضح تضاد کی ایک وجہ ان کے زیر مطالعہ رہنے والے مضامین بھی ہیں ۔
Gambetta/Hertogکی رپورٹ Engineers of Jihadایک زبردست اور فکر انگیز مطالعہ ہے اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ا س کے محرکات کی بجائے اس کے دلائل زیادہ وزنی ہیں ۔مثال کے طور پر مصنف یہ کہتاہے کہ خطے میں عسکریت پسندی کی جانب مائل ہونے والوں میں غالب اکثریت یعنی44فیصد کا تعلق انجینئرنگ سے ہے اور مغرب میں یہ شرح 59فیصد ہے۔کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی شدت پسندوں میں دو سے چار گنا تعداد اسی شعبے سے منسلک رہنے والوں کی ہے ۔Stephen Schwartzنے ڈاکٹروں میں شدت پسندی کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ”مسلم ڈاکٹرو ں میں شدت پسندی بہت منظم ہے “۔اس نے اور دوسرے محققین نے اس میں کئی باہمی روابط کی نشاندہی کی ہے ۔ Gambettaکے بقول پر تشدد اور پر امن اسلامی گروپوں میں اعلی ٰ تعلیم یافتہ اور بالخصوص ڈاکٹرز، انجینئر زاور فطری علوم سے وابستہ افراد کی تعداد زیادہ ہے ۔اسلام ہر ایک کو متاثر کرتا ہے مگر انجینئرز زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور وہ با آسانی تشدد کی جانب بھی مائل ہو جاتے ہیں ۔2010میں سامنے آنے والی Demosکی ایک رپورٹ جو کہ شدت پسندی کا احاطہ کرتی ہے ا س میں برطانیہ کے حوالے سے کہا گیا کہ”دہشت گرد زیادہ تر ٹیکنیکل اور اپلائیڈ سائنسزبا لخصوص انجینئرنگ کی ڈگریاں رکھتے ہیں جبکہ غیر متشدد بنیاد پرستوں کے پاس آرٹس کے مضامین کی ڈگریا ں ہیں ۔اس طرح کی مزید کئی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں ۔تیونس کا ایک مطالعہ جو 2015میںمنظر عام پر آیا ۔اس میں کہا گیا کہ آرٹس کے مقابلے میں سائنس کے طلبا عسکری گروپوں کی جانب زیادہ رجحان رکھتے ہیں ۔آگے چل کر اس استدلال کی مزید وضاحت کی گئی ہے کہ وہ طلبا جنہوں نے ریاضی یاٹیکنالوجی سے متعلقہ مضامین میں ڈگریاں حاصل کیں ان میں انتہا پسندی کی جانب مائل ہونے کی شرح زیادہ ہے اور یہ شرح 19فیصد ہے جبکہ ادب اور قانون پڑھنے والوں میں یہ شرح 3.3فیصد ہے ۔
انجینئرز اور سائنسز سے وابستہ افراد شدت پسندی کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں اس کی خاص وجوہات ہیں کئی اسلامی ممالک اور ترکی میں یہ رجحان 1990سے دیکھا جا رہا ہے ۔
میرا تیسرا مشاہدہ ان وجوہات کا جائزہ لینا ہے جو ٹیکنیکل اور سائنسز بالخصوص انجینئرز میں انتہا پسندی کا باعث بنتی ہیں ۔ کیوں ان مضامین کے گریجویٹس انتہا پسندانہ تشدد کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ میں انجینئرز اور شدت پسندی میں کوئی براہ راست تعلق تو تلاش نہیں کر سکا تاہم انجینئرز میں یہ اعداد و شمار بہت کم ہیں ۔اگرچہ عسکریت پسند بہت سے انجینئرز ہیں مگر انجینئرز میں بہت کم عسکریت پسند ہیں۔
ایسا کیوں ہے ؟ ہم یہاں پر Gambetta اورHertog کی آرا کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیںجو یہ سمجھتے ہیں کہ ا س کی متعدد وجوہات ہیں ۔میڈیکل اور انجینئرنگ کے پیشوں کو زیادہ وقعت دی جاتی ہے ۔اس لئے ان شعبوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو دیگر پر فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ایک اور مطالعہ جو کہ Neil KetchleyاورMichael Biggsنے کیا اس کے مطابق یونیورسٹیوں میں اسلام کی جانب رجحان رکھنے والوں کے نمبرز زیادہ ہوتے ہیں ۔اس لئے وہ ادب کی بجائے سائنسی مضامین کا انتخاب کرتے ہیں ۔ طلبا کا یہ رجحان سکول سے پروان چڑھتا ہے ۔
Gambetta اورHertog آگے چل کر تجویز کرتے ہیں کہ خطے میں انجینئرنگ اور میڈیکل کے پیشے کی وجہ تاریخی عوامل بھی ہیں جن میں ان کو وجہ تفاخر سمجھا جاتا تھا بیسویں صدی کے وسط میںجب یہ ممالک آزاد ہوئے تو ان کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا اور یہاں بہت ترقی ہوئی جس کی وجہ سے انجینئرز کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا اور ریاست نے ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پور اکیا لیکن جب ترقی کی رفتار کم ہوئی تو انجینئرز کی مانگ کم ہوتی گئی جس سے ان میں مایوسی بڑھی ۔
اس میں سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں وہ ان دماغوں کا جائزہ لیتے ہیں جو انجینئرنگ کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہ ایسا شعبہ ہے جو چیزوں کو پھیلا کر دیکھتا ہے اور کسی بھی چیز کے دو رخ سامنے رکھتا ہے ۔برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈوزیئر کا حوالہ دیتے ہوئے Gambetta کہتا ہے کہ برطانیہ میں عسکریت پسندوں کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسے افراد جو متجسس زیادہ ہوں مگر چیلنج قبول نہ کریں ۔اس لئے ٹیکنیکل اور پروفیشنل ڈگریوں کے حامل افراد بالخصوص انجینئرنگ اور آئی ٹی کی ڈگریاں رکھنے والوں کو بھرتی کرنے کے لئے کسی خاص کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
Gambetta اورHertog کے مطابق انجینئرز کے ذہنی رجحانات کی تین بنیادی خصوصیات ہیں (عالمی اور ثقافتی و تہذیبی سطحوں پر )۔وحدانیت (Monism)سادگی (Simlism) اورتحفیظ(Preservatism) ۔جن کو جہادی ، اسلامی اور نظریاتی تمام سوچوں سے مربوط پایا جاتا ہے ۔امریکی ، کنیڈین یاکچھ اسلامی معاشروں میں غیر متناسب طور پر انجینئرز کو ذہنی رجحان دائیں بازو کی توحیدی خصوصیات کی طرف ہے ۔جہاں تک توحیدی خصوصیات کا تعلق ہے کسی توجیح کی ضرورت نہیں ۔سادگی کے معاملے پر اگر لوگ عقلیت پسند ہوں گے تو مسائل کا حل بہت آسان ہو گا۔تحفیظ پسندی کے سلسلے میں جو زیریں جذبہ ایک کھوکھلے نظام سے ہے اس کا تعلق ایک شدت پسند نظریئے سے ممکن ہے ۔سلفی اور جہادی نظریات میں یہ لازمی ہے کہ یہ لوگ چودہ سو سال پہلے والے دور کی طرف رجوع کو ہی اہم سمجھتے ہیں ۔انجینئرز کے ذہنی رجحان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سی آئی اے کے تجزیہ کار Marc Segman کہتا ہے کہ ”ابہام سے مبرا ایک واحد حل کے متلاشی لوگوں کے لئے سلفی توجیحات بہت پر کشش ہیں “۔عموماً ان لوگوں نے بغیر کسی تیکنیکی ابہام کے انجینئرنگ ،تعمیرات ،کمپیوٹر سائنسز اور طب کے شعبے منتخب کئے ۔اس سلسلے میں میرے مشاہدے میں شاید ہی کوئی طلبا سماجی علوم کے گزرے ہوں ۔حیت انگیز طور پر Gambetta کے مطالعے میں بائیں بازو کی جانب رجحانات رکھنے والوں میں سماجی علوم کے نمائندوں کی اکثریت ہے ۔
میرا چوتھا مشاہدہ یہ ہے کہ انجینئرز کی افتاد طبع جسے میں دو چہرے کہوں گا کیونکہ صرف انجینئرز کو ذمہ دار قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ صرف وہی نہیں جو انتہا پسندی کی جانب مائل ہوتے ہیں یہ بات مبہم ہے کہ ان میں عدم برداشت کا عنصر ہے ۔
یہ تجزیہ اس لئے بھی بہت دلچسپ ہے کہ ا س میں ہمیں نہ صرف انجینئرز بلکہ اعلی ٰ تعلیم کے رجحانات کے بارے میں اور بھی کافی دلچسپ معلومات ملتی ہیں ۔اصل حقیقت چیزوں کے تقابل سے ہی سامنے آتی ہے ۔اس بات کے بہت کم شواہد ہیں کہ آرٹس اور سماجی علوم کے طلبا شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے ہوں ۔اوران کی تعداد ان عسکریت پسندوں میں جن کی تصدیق ہو چکی ہے ،بہت کم ہے ۔اخوان المسلمین سے وابستہ ایک سابق کارکن ہاشم قندیل نے اپنی کتاب The Muslim Brotherhoodمیں لکھا ہے کہ سماجی علوم کے ذریعے آپ کو سوال اٹھانے کا موقع ملتا ہے آپ بحث مباحثہ کرتے ہیں ۔آپ چیزوں کا جائزہ تاریخی حوالوں سے لیتے ہیں تو بہت سے چیزیں غلط ثابت ہو جاتی ہیں ۔چنانچہ وہاں سوال اٹھانے کو دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔جبکہ ا س کے مقابلے میں فطری سائنسی مضامین میں صرف حقائق ہوتے ہیں آرا نہیں ۔چنانچہ ا س طرح کی ذہنیت سے گزرے ہوئے لوگ اخوان المسلمین کے لئے بہت سود مند ثابت ہوتے ہیں جنہیں ہر شے سفید یا سیاہ نظر آتی ہے ۔قندیل خود بتاتاہے کہ اخوان المسلمین میں اعلی ٰ تعلیم یافتہ افراد میں بیس ہزار کے پاس ڈاکٹر لیول کی ڈگریاں تھیں ان میں تین ہزار پروفیسر بھی تھے جو تمام کے تمام فطری سائنسز سے آئے تھے نہ سماجیات ، تاریخ ، فلسفے یا سیاسیات سے ۔یہ بات اس لئے بھی دلچسپی سے خالی نہیں فطری سائنسز کے مقابلے پر دیگر علوم پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور ان میں بیروزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسندی کی جانب وہ لوگ مائل ہوتے ہیں جو حالا ت پر برہم ہوں ۔مگر مجموعی طور پر ایسانہیں ہوتا ۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سماجی اور انسانی علوم جن کی تدریس پر یونیورسٹیاں کوئی خاص توجہ بھی نہیں دیتیں وہ کیوں نہیں ا س جانب مائل ہو جاتے ۔اس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ طلبا کی تربیت میں ابہامات کو ختم کرنے سے ہی ان میں شدت پسندی کو روکا جا سکتا ہے ۔
اس بحث سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ طلبا میں تنقیدی سوچ کوپروان چڑھایا جائے ۔ہمیں ا س جانب توجہ دینی ہوگی۔یہی وجہ کہ قندیل بھی اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ سوال اٹھانے سے ذہنوں کے دریچے کھلتے ہیں ۔اس لئے اگر عسکریت پسندی کو روکنا ہے تو ذہنوں کو وسیع کیا جائے ۔ان کی تعلیم میں تنقیدی زاویہ نگاہ ہوتاکہ وہ خود کسی بھی تصور کو قبول کرنے یا رد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔اور ایسادو چیزوں سے ممکن ہے۔ایک تو یہ کہ سماجی علوم کے لئے مختص وسائل میں اضافہ کیا جائے ۔جیسا کہ حالیہ سالوںمیں کیا گیا ہے ۔اسی انداز سے سائنس اور انجینئرنگ سے وابستہ علوم کے طلبا کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان میں فلسفہ اور سماجی علوم کی طرف رغبت پیدا ہو جس سے ان کے ذہنوں میں وسعت پیدا ہو سکے ۔
میرا پانچوں مشاہدہ یہ ہے کہ اس انداز سے طلبا کو پڑھایا جائے کہ طلبا کو مشکل سوالات پوچھنے میں آسانی ہو اور انہیں ان کے جوابات بھی ملیں ۔تب ہی ان کی فکری رہنمائی درست انداز میں ہو سکے گی ۔اور انہیں آزادانہ ماحول بھی دیا جائے اگرچہ آمرانہ حکومتوں میں یہ مشکل ہو گا تاہم ایسا کرنا ناگزیر ہے ۔
وسعت ِفکر اور صراحت ہی تعلیم کا اصل جزو ہے ۔ مغربی درسگاہوں میں اوروہ تما م درسگاہیں جو مغرب نے قائم کی ہیں بنیادی چیزتنقیدی سوچ ہے ۔درسگاہوں کاجواز ہی سچ کی کھوج لگانا ہے اور وہ یہ کام تنقیدی سوچ کے ذریعے کرتی ہیں ۔
ایک مسلم مفکر کی رائے میں ”مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ایک علم انسان کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جبکہ اصل علم وہ ہے جو ابدی ہے اور جس میں تحریف ممکن نہیں “۔
اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوجوان افراد کو شدت پسندی سے بچانے کے لئے ان میں صحیح سوچنے کی صلاحیت پیدا کی جائے تاکہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں ۔اس میں اساتذہ کا بھی اہم کردار ہے کہ وہ تدریسی عمل کے ذریعے برداشت کوفروغ دیں ۔شروع میں حفظ ماتقدم کے طور پر اسی رخ پر کام کرنا ہو گا ۔ مشرق وسطی ٰ اور شمالی افریقہ میں تعلیمی نظام آگے جانے کی بجائے انہدام کی جانب گامزن ہے ۔عرب ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اطاعت گزاری اور فرمانبرداری عربوں میں اس لئے رخصت ہو گئی ہے کہ اب وہاں بڑی حد تک مغربی نظام رائج ہو چکا ہے مگر پھر بھی وہاں تخلیق ، مطابقت اور طلبا کے ذہنی رجحان پر توجہ نہیں جاتی ۔جس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلتا ہے ۔
یہ بات عرب ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں کہی گئی ہے،سعودی عرب میں 2011میں ایک تحقیقاتی مطالعہ کیا گیا جس میں محققین نے یونیورسٹیوں کے 4500طلبا سے دریافت کیا کہ کیا وہ اس رائے سے متفق ہیں کہ ”اساتذہ ہمیں مخصوص سمتوں کی جانب رہنمائی کرنے کی بجائے اپنی رائے بنانے کا اختیار دیں “۔91فیصد طالبات اور 87فیصد طلباءنے ا س سے اتفاق کیا ۔یہ ایک مثبت رجحان تھا۔اس لئے اساتذہ کو از خود اس رجحان کو تقویت دینی ہو گی کہ وہ طلبا میں قوت ِ فکر پید اکریں ۔نہ کہ یہ بتائیں کہ انہیں کیا سوچنا چاہئے ۔وہ طلبا کوبتائیں کہ کیسے؟ نہ کہ کیا؟ فی الوقت اساتذہ اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ۔
میرا چھٹا مشاہدہ یہ ہے کہ نوجوان طلباءکو شدت پسندی سے باز رکھنے کے لئے ان میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھایا جائے تاکہ ان میں نت نئے خیالات جنم لے سکیں ۔
جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں یہ بات بار بار آ چکی ہے کہ سائنس کے طلبا شدت پسندی کی جانب زیادہ رجحان رکھتے ہیں ۔اس کی دوبڑ ی وجوہات ہیں ۔پہلی یہ کہ سائنسز پڑھنے والے طلبا معاشرے کے خوشحال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس لئے ان کے نزدیک موقع اور امیدی الگ الگ معنوں میں ہے ۔دوسرا یہ کہ الگ الگ مضامین کی طرف رغبت رکھنے والے الگ الگ ذہنی رجحانات کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں ارد گرد سے اثر پذیری کی سطحیں بھی مختلف ہیں بالخصوص جب بات کسی خاص نظریئے کے پس منظر میں کی جائے ،میں آخر میں ایک تیسری وضاحت بھی کرنا چاہوں گا جو دونوں پر صادق آتی ہے مگر ا س کا تعلق پورے تعلیمی فلسفے اور اس کے ڈھانچے سے ہے جو مشرق ِ وسطیٰ سے شمالی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے ۔
تمام نظام ہائے تعلیم میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ سائنسز اور انجینئرنگ پر ہی ان کی توجہ ہوتی ہے اور یہی شعبے ان کا منتہا و مقصود ہوتے ہیں ۔نو آزاد ہونے والے ممالک نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ سماجی اشرافیہ کو پھیلاتے رہیں اور جو طبقے سماجی اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں انہیں وہ موقع فراہم کریں جن میں وہ بھی اس کا حصہ بن جائیں ۔اس کا بہتر طریقہ تعلیم ہی ہے ۔اگر سکول ایجوکیشن کو دیکھیں توجس طرح اس کا ڈھانچہ استوار کیا گیا ہے وہ سماجی اشرافیہ کے بچوں کے لئے بہت موزوں ثابت ہوا ہے اور اس سے ان کی خاص سطح کی زہن سازی ہوئی ہے ۔اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکول ہی سے اشرافیہ کے ذہن الگ الگ بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔اس طرح تدریسی مضامین میں انہیں دو رخی سوچ کی جانب مائل کیا جاتاہے جس کا مقصد انہیں سائنسی مضامین میں زیادہ قابل بنانا ہوتا ہے تاکہ ان کے آگے بڑھنے کے امکانات میں اضافہ کیا جا سکے ۔لیکن یہ خاص ماحول ان کی شخصیت بھی دو رخی بنا تا ہے جو شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کے امکانات بڑھا دیتا ہے ۔
اس پورے خطے میں جو بچے سیکنڈری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں وہ دو مختلف دھاروں میںبہہ رہے ہیں ایک سائنسی دھارا ہے اور دوسرا ادب اور انسانی علوم کا،مگر سب کی ترجیح پہلے دھارے کی ہے۔مراکش کے مصنف Charis Boctieriنے اس صورتحال کو یوں واضح کیا ہے ”ہر پبلک ہائی سکول میں ایک Orientation Committeeہوتی ہے جو طلبا کی رہنمائی سکولوں کے بعدکی تعلیم کی جانب کرتی ہے،انہیں ان کی منزلوں کے انتخاب میں مدد کرتی ہے اگرچہ طلبا از خود بھی اپنی منزل کا تعین کر سکتے ہیں ۔یہ کمیٹی ہر طالب علم کے گریڈ دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے ۔مثال کے طور پر زینب سائنسی مضامین کی جانب دلچسپی رکھتی تھی مگر ا س کے گریڈ کم تھے جس کی وجہ سے کمیٹی نے تجویز کیاکہ زینب انسانی علوم میں داخلہ لے ۔زینب کے والدین نے یہ تجویز رد کر دی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ان کی بیٹی نے عربی ادب یا مذہبی علوم میں ڈگری حاصل بھی کر لی تو اسے ملازمت نہیں ملے گی ۔
مصر کے میں سکولوں میں آخری سال کا نتیجہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا طالب علم یونیورسٹی جا کر کیا پڑھے گا ؟ یہ امتحان دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جو اس میں اچھے نمبر حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں وہ ادب کے مضامین میں داخلہ لیتے ہیں اور جو اچھے نمبر حاصل کریں وہ سائنس میں ، یہ صورتحال اس خطے کے اکثر ممالک میں رائج ہے ۔ان امتحانی نتائج پر آگے والی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے کہ کون آگے چل کر فاتح بنے گا۔کئی ممالک میں نقل اور بد عنوانی بھی عام ہے ا س لئے یہ بھی نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے ۔چنانچہ یہ رجحان بھی طلبا میںشدت پسندی کا موجب بنتا ہے ۔
یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ محققین مصر میں شدت پسندی کا جائزہ طلبا کے مضامین کے حوالے سے بھی لے رہے ہیں ۔اس کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ صرف سائنسدان یاانجینئرز ہی نہیں بلکہ عسکریت پسند ایسی فیکلٹی سے بھی آرہے ہیں جن کا تعلق ایسے سیکنڈری سکولوں سے ہے جہاں داخلے کے لئے سائنسی مضامین کو پاس کرنا اولین شرط ہے ۔اسلام کی طرف میلان رکھنے والے طلبا اچھے نمبر لے کر ایسے اداروں میں داخلہ حاصل کر لیتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں وہ اپنے سکولوں اور کلاسوں سائنسی مضامین کے ماحول میں پرورش پاتے ہیں ۔میری دلیل یہ ہے کہ ا س ماحول میں انہیں صحیح یا غلط ہی دو راستے ملتے ہیں یہ روش انہیں نصاب سے متضاد سمت لے جاتی ہے ۔لیکن یہ رجحان ہر جگہ نہیں ہے اپنے شعبے سے مخلص اور تخلیقی رجحان رکھنے والے اساتذہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیںمگر انہیں موافق ماحو ل نہیں ملتا ۔ایک اور مصنف اس بات پر توجہ مبذول کراتا ہے کہ مصر کے نصاب میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔کیونکہ یہ نصاب جدت اور روایت کے درمیان لٹکا ہوا ہے ۔طلبا کو رٹے کا عادی بنایا جاتا ہے تاکہ وہ امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کر سکیں ۔اس چکر میں اساتذہ شامل ہیں اس لئے اس میں اصلاحات لانے کی جتنی کوششیں کی گئیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں ۔کئی ممالک نے طلبا کے ذہنی رجحان کی مناسبت سے انہیں تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا لیکن چونکہ ا س میں اساتذہ کے مفادات کو زک پہنچتی ہے اس پس منظر میں ورلڈ بنک نے کہا ہے کہ ”1990کے اواخر میں مشرق وسطی ٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں تعلیمی اصلاحات لائی گئیں جن کامقصد طلبا کے رجحان کی مناسبت سے تعلیم ، اوران کی صلاحیتوں کے مطابق ایسے نصاب کو عام کرنا تھا جو ان میں تنقیدی سوچ پیدا کر سکے مگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود روایت کو توڑا نہیں جا سکا ۔ان ممالک میں طلبا کی سب سے بڑی سرگرمی بلیک بورڈ سے نقل اتارنا ہوتا ہے یا استاد کو کان لگا کر سننا۔ گروپ ورک،تخلیقی کام یا حالات سے نبرد آزما ہونے والی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
میں یہ کہتے ہوئے اپنی گفتگو کا اختتام کروں گا کہ میری دانست میں عسکریت پسندی کے بیج سکولوں کے کلاس رومز میں بوئے جاتے ہیں ۔در حقیقت ایساتعلیمی نظام جو طلبا میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھائے وہی ان میں عسکریت پسندی کے خلاف مدافعانہ قوت پیدا کرے گا ۔جب وہ یونیورسٹی کی سطح تک پہنچیں گے توان کے ذہن تنقیدی اور وسعتِ فکر رکھتے ہوں گے ۔انجینئرنگ ،سائنسز اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا شدت پسندانہ سوچ کو رد کر دیں گے ۔اس تجربے کو تمام سطحوں پر آزمایا جانا چاہئے ۔ہوسکتا ہے کہ چند ایک پھر بھی شدت پسندی کی جانب راغب ہو جائیں ۔لیکن اگر سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تنقیدی فکر کو پروان چڑھایا جائے گا تو ان میں شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کا رجحان اور زیادہ کم ہو جائے گا جس سے آگے چل کر وسعت نظر اور جمہوری انداز رکھنے والے معاشروں کو تقویت ملے گی ۔تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے دہشت گردی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن صرف تعلیم نہیں بلکہ ایسی تعلیم جس کا مقصد بھی یہ ہو ۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انسداد دہشت گردی کے مانے ہوئے ماہر Louise Richardsonنے کہا ہے کہ ”وہ اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں جس دہشت گرد سے بھی ملا اس کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظر بڑا جامد تھا ۔وہ ہر چیز کو سفید یا سیاہ سمجھتا تھا ۔تعلیم اس سے یہ انداز فکر اور یہ یقین چھین لیتی ہے ۔دہشت گردی کے زہر کے خلاف تعلیم سے بہتر تریاق کوئی نہیں ہے “۔

(تلخیص و ترجمہ :سجاد اظہر)