working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

فکرو نظر

دینی مدارس.... اور ان کے مسائل

رک مینی کالیماچی

محمد یاسین ظفر وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے ناظم اعلٰی اور نامور عالم دین ہیں ۔وہ اس سے قبل بھی ان صفحات پر مدارس میں اصلاحات کی بحث میں شریک ہو چکے ہیں ۔انہوں نے اس مضمون میں مزید کئی نکات اٹھائے ہیں جو اس مسئلے کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔(مدیر)

دینی مدارس کی اہمیت ضرورت اور افادیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا۔لاتعداد مضامین،مقالے اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔یونیورسٹیاں دینی مدارس پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کروا رہی ہے۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔آئے روز ایک نئے زاویے سے مدارس کی خدمات کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ بلا شبہ دینی مدارس معاشرے میں نہایت مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔تعلیم کے فروغ کے ساتھ طلبہ کی فکری اور عملی تربیت کا موثر نظام موجود ہے۔اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ساتھ یہ فضلاءمعاشرے میں دینی اقدار تہذیب و ثقافت کی پہچان ہیں۔سماج میں دعوت اور عملی زندگی کی وجہ سے تبدیلی کا باعث بھی ہیں۔ان کا وجود اسلام کی ترجمانی کا خوبصورت مظہر ہے۔یہ لوگ ہمیں اپنے اسلاف اور ماضی سے جوڑنے کا حسین ذریعہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اسلام کے مکمل ورثے کے محافظ ہیں اور اس ورثے کو آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کےلیے دن رات کوشاں ہیں۔سرکاری مراعات اور سرپرستی کے بغیر انتہائی کسمپرسی میں یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔لوگوں کے طعن و تشنیع اور ملامت کو خاطر میں لائے بغیر یہ مشن جاری ہے۔
دینی مدارس ایک پورا نظام اور نصاب تعلیم رکھتے ہیں اور قواعد و ضوابط کے مطابق یہ ادارے کام کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نظام بھی انسان ہی وضع کرتا ہے۔اس میں بھی نقائص ہوسکتے ہیں۔ان کمزوریوں کا ازالہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔یہ مسائل کیا ہیں جو دینی مدارس کو درپیش ہیں۔ہم یہاں ان کا ذکر کررہے ہیں۔
-1        دینی مدارسکا نصاب ایک خاص مقصد یعنی دینی رہنمائی، دعوت و تبلیغ اور اس کی اشاعت کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے۔اس نصاب کی تدریس سےوہ ذہنتیار ہو سکتے ہیں جو امام، خطیب، داعی، مبلغ، مدرس، مفتی اور دینی مرشد کے فرائض سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو یہ بہت بڑا میدان ہے جس کےلیے ہزاروں افراد کی ضرورت ہے جبکہ مجموعی اعتبار سے ہم بہت کم تعداد میں فضلاءتیار کر پاتے ہیں۔اس کے برعکس مدارس کو جو مسئلہ دریپش ہے وہ عصری مضامین کی تدریس ہے۔جس کا گلہ لوگ کرتے ہیں اور ان کا تقاضا ہے کہ دستیاب جملہ مضامین بھی پڑھائیں۔خاص کر سائنسی مضامین جس میں بیالوجی، کیمسٹری، ریاضی، انگریزی، وغیرہ۔حالانکہ تعلیم کی نفسیات سے آگاہی رکھنے والا یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ آج تعلیم مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں کئی کئی فیکلٹیاں اور کلیات بن چکے ہیں۔ضروری نہیں کہ ایک فیکلٹی میں پڑھا جانے والا مضمون دوسرے فیکلٹی میں بھی پڑھا جائے۔اسی طرح دینی تعلیم کا شعبہ ہے ضروری نہیں کہ اس میں پڑھائے جانے والے مضامین دیگر کلیات میں پڑھائے جائیں اور ان کے مضامین دینی مدارس میں پڑھائے جائیں۔یہ ایسی گرہ ہے کہ جتنا چاہے سلجھائیں۔تفصیلی بات سننے کے بعد پھر کہہ دیں گے کہ آخر انہیں سائنسی مضامین پڑھانے میں حرج کیا ہے؟
کوئی حرج نہیں اگر ہم میڈیکل کے طالب علم کو فتاویٰ عالمگیری پڑھا دیں یا اسی فدردی یا اصول فقہ کی الوجیز پڑھا دیں۔تب ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اسکا میدان نہیں؟ ارے نادانو! ایک دینی سکالر کےلیے ہی کیا ضروری ہے کہ وہ کیمسٹری یا بیالوجیپڑھے۔یہ اہم ترین مسئلہ ہے جس نے ارباب مدارس کو الجھا رکھا ہے اور ان کی صلاحیتیں تقسیم ہو کر رہ گئی ہیں۔بعض مدارس نے اس کا حل یہ نکالا کہ شام کی کلاسیں عصری مضامین کی تدریس کےلیے مخصوص کیں۔ لیکن نتیجہ مایوس کن۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق طلبہ کی سوچ بھی منتشر ہوگئی۔البتہ ایک حل جو کہ قابل عمل بھی ہے اور اس کے فوائد بھی نظر آئے کہ طلبہ کو ان مضامین پر مصنوعی لیکچرز دیئے جائیں جو نصاب کا حصہ تو نہیں لیکن معاشرے میں ان کی ضرورت ہے۔ مثلاً بینک کاری نظام،حصص(شیئرز) کا کاروبار، اس کا تعارف اور شرعی حقیقت،انشورنس بیمہ پالیسی،انتقال خون،اعضاءکی پیوند کاری،نقد ادھار کا کاروبار،جدید فتنے ان کا تعارف اور ان کا حل وغیرہ۔ایسی صورت میں بہت حد تک فضلاءمدارس دینیہ حالات سے باخبر ہو جاتے ہیں اور پیش آمدہ مسائل کا حل بھی پیش کرسکتے ہیں۔
-2        دینی مدارس کا دوسرا اہم مسئلہ نظام کی پابندی ہے۔وفاق المدارس السلفیہ ایک بہترین مربوط نظام رکھتا ہے اور وفاق سے منسلک اداروں کو اس کا پابند بناتا ہے۔مثلاً طلبہ کا داخلہ سکول میں مکمل کیا جائے اور باقاعدہ طلبہ(ریگولر سٹوڈنٹ) کی رجسٹریشن یکم محرم سے قبل کرائی جائے تاکہ تمام مدارس پورا سال داخلہ جاری نہ رکھیں اور یکسوہو کر تعلیم پر توجہ دیں اور طلبہ بھی استقامت و استقرار کے ساتھ مدرسے میں پڑھیں اور بار بار مدرسہ تبدیل نہ کریں لیکن بدقسمتی سے مدارس اس پر قائم نہیں رہتے اور بعض مدارس بار بار داخلہ جاری رکھتے ہیں جس سے دیگر نظام کے پابند مدارس ضرور متاثر ہوتے ہیں۔اس سے یہ خرابی بھی لازم آتی ہے کہ ایسے طلبہ جن کو اخلاقی کمزوریوں کے باعث مثلاً غیر حاضری،اسلامی آداب کی خلاف ورزی یا  بے راہ روی کی وجہ سے کوئی مدرسہ خارج کرتا ہے۔ یہ اسے گلے لگاتے ہیں اور اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے۔نظام کی پابندی تعلیم سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔مدارس اگر اس کا اہتمام کرلیں تو تعلیم میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوسکتا۔
-3        دینی مدارس لوگوں اور خاص کر طلبہ کے والدین کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔یہ اہم مسئلہ جو کہ مدارس کو درپیش ہے۔عام لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ دینی مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے الگ مخلوق ہیں۔ ہمارا ان سے کیا تعلق یا واسطہ ہے۔وہ کبھی  حالات معلوم کرنے صورتحال کو جاننے کی تکلیف نہیں کرتے۔ ان کی عدم دلچسپی مدارس میں کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوتا ہے۔اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ والدین جن کے بچے مدارس میں زیر تعلیم ہیں بہت کم ایسے ہوں گے جو خود رابطہ قائم کرکے بچے کی تعلیمی کارکردگی حاصل کریں۔ اکثریت والدین اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ بچہ دینی مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں لہٰذا وہ اچھے ماحول میں تعلیم و تربیت پارہا ہوگا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بچہ گھر جاتا ہے وقت پر واپس نہیں آتا۔بار بار بہانے بنا کر رخصت حاصل کرتا ہے۔کلاس میں حاضری کو یقینی نہیں بناتا۔ دیگر نظام کی پابندی نہیں کرتا۔کسی سیاسی یا عسکری تنظیم میں دلچسپی رکھتا ہے اور بغیر اجازت جلسوں میں چلا جاتا ہے۔اگر والدین خود تعلیمی ادارے سے رابطہ رکھیں تو وہ لمحہ بہ لمحہ حالات سے تاخیز ہوں گے اور بچے کی اصلاح میں دیر نہیں لگے گی لیکن والدین پورا پورا سال رابطہ نہیں کرتے اور اگر ادارہ خود حالات سے باخبر کرے تو بھی جواب نہیں دیتے۔تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ اگر بذریعہ فون بھی رابطہ کیا اور حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا تو ان کا رد عمل پرجوش نہیں ہوتا بلکہ اکثر یہ بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ آپ اسے مزید موقع دیں۔اگر یہ مدرسہ میں قابو نہ آیا تو ہمارے پاس ذرا بھی گنجائش نہیں۔اس قدر خوف اور گھبراہٹ وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ ناقابل اصلاح ہے۔
-4        مدارس کا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے وسائل بہت محدود ہوتے ہیں جبکہ مسائل تو وہی ہیں جو ایک معاشرے کو درپیش ہیں۔ضروریات زندگی مہنگی ہیں۔یوٹیلٹی بل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔طلبہ کی روزمرہ ضروریات جس میں خوراک،علاج،تعلیم،کتابیں جاری ہیں۔اساتذہ کی تنخواہوں،حق الخدمت دیگر ملازمین بغیر کسی رکاوٹ اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان حالات میں اہل مدارس کا یہ کارنامہ کسی جہاد سے کم نہیں کہ وہ مسلسل اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔اہل مدارس ان ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اہل ثروت سے مسلسل رابطہ میں ہیں۔دیہی علاقوں سے گندم،چاول،آلو وغیرہ حاصل کیا جاتا ہے اور بڑے حوصلے سے یہ آپریشن جاری رکھتے ہیں۔کسی دور میں مدارس کے نام وقف ہوتے تھے لیکن تقسیم کے وقت یہ وقف ضائع ہوگئے۔بعد میں قائم ہونے والے مدارس کے پاس وقت نہیں ہیں۔اس کا حل تو یہی ہے کہ سرکار اس کا اہتمام کرے کیونکہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ بھی وطن کے بچے ہیں اور ان کا بھی یہ حق ہے کہ حکومت ان کی تعلیم کا بندوبست کرے۔اس کےلیے حکومت کو مشترکہ تجاویز بھی دی گئیں کہ اگر حکومت دینی مدارس کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہے تو وہ یوٹیلٹی بل خود ادا کرے۔اساتذہ کی تنخواہ اپنے ذمہ لے لیکن حکومت چونکہ ایسا کرنے میں سنجیدہ نہیں،لہٰذا یہ کام آج تک نہ ہوسکا۔
-5        مدارس کے اہم مسائل میں رجسٹریشن کا مسئلہ ہے۔کوئی بھی دینی مدرسہ اپنے قیام کے وقت ایک انتظامی باڈی تشکیل دیتا ہے جس کے تحت یہ کام کرتا ہے۔1860 ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے مدارس کی دراصل وہ انتظامی باڈی رجسٹرڈ ہوتی ہے اور رجسٹرڈ کرنے والا ادارہ دراصل وہی ہے جہاں ٹریڈز کمپیوٹر وغیرہ کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔بادی النظر میں یہ کوئی مستحسن قدم نہیں کہ دینی مدارس بھی ان کے ہاں رجسٹرڈ ہوں،عقل و دانش کا تقاضا تو یہی ہے کہ دینی مدارس تعلیمی ادارے ہیں۔لہٰذا ان کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم میں ہونی چاہیے۔جو اس بات کا جائزہ لے کر رجسٹرڈ کریں کہ واقعی یہ ادارہ تعلیم دینے کےلیے موزوں ہے لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں بہت سے کام الٹ ہوتے ہیں اور ان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ بھی شامل ہے۔مدارس رجسٹرڈ ہونا چاہتےہیں لیکن پیچیدہ طریقہ کار اور بلاوجہ سیکورٹی مراحل نے ان کا راستہ روک رکھا ہے۔سینکڑوں درخواستیں دائر ہو چکی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا۔دوسری طرف یہ واویلا کیا جاتا ہے کہ مدارس رجسٹریشن نہیں کرواتے۔
کون نہیں جانتا کہ گزشتہ7 ستمبر2015ءکو اتحاد تنظیمات مدارس کی ہائی کمان کا ایک اہم اجلاس وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی،وزیر داخلہ،وزیر تعلیم اور وزیر مذہبی امور کے ساتھ منعقد ہوا جس میں بنیادی مسائل میں رجسٹریشن کامسئلہ پیش ہوا۔اتفاق رائے سے رجسٹریشن کےلیے ایک فارم ڈیزائن کیا گیا اور وزارت داخلہ کو دے دیا گیا لیکن ایک سال بیت گیا۔ ابھی تک کسی صوبے نے اس پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے مدارس کی رجسٹریشن کے مسائل جوں کہ توں ہیں۔اور اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
-6        وفاق المدارس کے تحت جاری ہونے والی اسناد ثانویہ عامہ اور خاصہ جو کہ میٹرک ایف اے کے مساوی ہیں۔انہیں باقاعدہ تسلیم نہیں کیا گیا جبکہ حکومت سے متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔تمام وفاق اپنے نصاب میں عصری مضامین کو شامل کرنے کےلیے تیار ہیں اور فیڈرل بورڈ کے نصاب میں شامل انگلش،ریاضی اور اردو وغیرہ کو اپنے ہاں پڑھائیں گے بشرطیکہ حکومت تمام وفاق کے تحت قائم امتحانی بورڈز کو بھی باضابطہ بورڈ کا درجے دے دے۔ لیکن حکومت کا اصرار ہے کہ ان مضامین کا امتحان سرکاری بورڈ لے گا۔باقی امتحان آپ خود لیں۔ اس میں بہت ساری قباحتیں جن کی ہم نشاندہی کر چکے ہیں لیکن حکومت کے اپنے تحفظات ہیں جس کی وجہ سے یہ کام ابھی تک حل نہ ہوسکا۔ویسے بھی تعلیم اب صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے لہٰذا جب تک صوبائی حکومتیں اپنی رضا مندی ظاہر نہیں کرتی یہ مسئلہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔
-7        مدارس کا ایک حساس مسئلہ وہ معلومات ہیں جو مختلف ادارے(ایجنسیاں) ان سے حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان بھر میں موجود مدارس کے پاس ایک ایک دن میں کئی کئی ایجنسیاں آتی ہیں اور ایک جیسی معلومات یا مختلف فارم پُر کرواتی ہیں۔اہل مدارس ایک دن کئی مرتبہ بیسوں صفحات پر مشتمل معلومات انہیں دیتی ہیں جو کہ اہل مدارس کےلیے پریشانی کا باعث ہے،پھر یہ لوگ دفتری اوقات میں نہیں آتے بلکہ انہیںجب فرصت ہوتیہے تو چلے آتے ہیں اور انتہائی نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔اس ضمن میں بھی اعلیٰ سطحی اجلاس میں بات ہوئی اور بااتفاق طے پایا کہ ایک ڈیٹا فارم تشکیل دیا جائے جو تعلیمی سال کے آغاز پر ہر مدرسہ پُر کرکے رجسٹریشن آفس میں جمع کرادے۔جس حساس ادارے کو بھی کسی مدرسہ کے بارے میں معلومات درکار ہوں وہ وہاں سے حاصل کرلے لیکن یہ کا م بھی تاحال ناممکن ہے اور ڈیٹا فارم بھی اتفاق رائے سے ڈیزائن کرکے وزارت داخلہ کو دے چکے ہیں۔
-8        ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض وزراءیا سرکاری اہلکار ذرائع ابلاغ پر یہ فرماتے ہیں کہ نوے فیصد مدارس بالکل صحیح ہیں یا6فیصد مدارس ٹھیک نہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ آج تک ان مدارس کی نہ تو نشاندہی ہوئی اور نہ ہی ان کے خلاف ایکشن لیا گیا۔یہ دس یا چھ فیصد مدارس کون سے ہیں اور کہاں ہیں،آج تک معلوم نہ ہوسکا۔ وہ ذرائع ابلاغ جو اپنی آزادی کی آڑ میں دن رات اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہیںوہ لوگوں کو الو بناتے ہوئے”ہر پل باخبر“ کا نعرہ لگاتے ہیں آج تک ان مدارس کا کھوج نہ لگا سکے۔ ان کی وجہ سے ہر مدرسہ اس وقت تک شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ یہ مدارس عوام کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔اہل مدارس اور اس میں زیر تعلیم طلباء محب وطن ہیں۔
مدارس کے مسائل حل کرنے کےلیے قوت ارادی اور عزم کی ضرورت ہے۔سیاسی حکومت اگر مسئلہ حل کرنا بھی چاہتی ہے تو انہیں خوف زدہ کردیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ لوگ ناراض ہو جائیں گے جو مدارس کے سسٹم کو ہمیشہ کےلیے لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔یہی وہ قوتیں ہیں جو حکومت کو قدم قدم پر”ڈو مور“ کا حکم دیتی ہیں۔
ایک طبقہ افسران بالا میں موجود ہے جو ذہنی طور پر مدارس کے خلاف ہے اور نہیں چاہتاکہ مدارس کے ماحول سے پڑھ لکھ کر آنے والے کو عزت ملے اور وہ کسی بھی سطح پر سرکاری نوکری کرے لہٰذا ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جو مذاکرات حکومت سے ہوں انہیں سبوتاژ کریں اور ہر اجلاس میں نئے لوگ شامل کردیں تاکہ وہ حالات سے بے خبر ہو۔ اور کسی بھی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک مدارس کے مسائل حل نہیں ہوئے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی توقع ہے۔اس کےلیے سیاسی قوت کی ضرورت ہے اور جو حکومت یہ کرے گی،مدارس کے مسائل از خود حل ہوتے چلے جائیں گے۔
ہم یہاں ان تمام قوتوں کو بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ مدارس کے اہم مسائل کو سنجیدہ لیں۔یہ لوگ پاکستان کے معزز شہری ہیں اور محب وطن ہیں جو کچھ بھی کررہے ہیں یہ وطن عزیز کی سلامتی کےلیے ہے۔ان کا کوئی قدم ایسا نہیں جس سے فرقہ واریت یا دہشتگردی کی حوصلہ افزائی ہو۔مدارس نہایت خاموشی سے تعلیم و تعلّم میں مصروف ہیں۔ ان کے ہاں زیر تعلیم طلبہ کسی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے جو خلاف ضابطہ ہو۔ایسی صورت میں بلاوجہ انہیں پریشان کرنا اور طلبہ میں خوف و ہراس پھیلانا قانوناً،اخلاقاً اور شرعاً درست نہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صاحبان اقتدار اور عملا ًقانون کی بالادستی قائم کرنے والی قوتیں انصاف سے کام لیں گی اور مدارس کو ان کا بنیادی حق دیں گی اور انہیں پرامن ماحول میںکام کرنے کی اجازت دیں گی۔