working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

فکرو نظر

مسلمانوں کے خلاف جنگ میں غیر مسلموں کا ساتھ دینے پر تکفیر

عمار خان ناصر

عمار خان ناصر کا شمار دور جدید کیتوانا آوازوں میں ہوتا ہے جو اسلام اور شریعت سے جڑے وہ مسائل جنہوں نے جدیدیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے انہیں نہ صرف جرات سے مخاطب کرتے ہیں بلکہ کوئی حیل و حجت رکھے بغیر موقف بھی پیش کرتے ہیں ۔تکفیر کا مسئلہ بھی انہی مسئلوں میں سے ایک ہے ۔زیر نظر مضمون میں اس کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے ۔ عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں وہ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے وائس پرنسپل اور ماہنامہ الشریعہ کے مدیربھی ہیں ۔(مدیر)
موجودہ مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے گروہوں کی طرف سے ایک اہم دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ان حکمرانوں نے بہت سی ایسی لڑائیوں میں کفار کے حلیف کا کردار ادا کیا ہے جو انھوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف شروع کی ہیں اور اسلامی شریعت کی رو سے یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا مرتکب کافر اور مرتد قرار پاتا ہے۔
یہ معاملہ شرعی نقطہ نظر سے تفصیل طلب ہے۔ اس ضمن میں بنیادی اور فیصلہ کن نکتے دو ہیں: ایک یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی باہمی جنگ میں لڑائی کا اصل باعث کیا ہے اور اس سے کس مقصد کا حصول کفار کے پیش نظر ہے؟ اور دوسرا یہ کہ غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے مسلمان، کس محرک کے تحت اس جنگ میں کفار کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں؟ اگر وجہ قتال نفس اسلام ہے، یعنی کفار صرف اس لیے مسلمانوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور انھیں اسلام سے برگشتہ کرنا یا اسلام کو مٹا دینا اس جنگ کا مقصد ہے، جبکہ جنگ میں غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کا محرک بھی اسلام کو زک پہنچانا ہے تو بلاشبہ یہ کفر ہے، اس لیے کہ کوئی مسلمان حالت ایمان میں یہ طرز عمل اختیار نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر لڑائی کی وجہ عام دنیاوی مفادات کا تصادم ہے اور کفار، مسلمانوں کے کسی علاقے پر قبضہ کرنے یا ان کی دولت ہتھیانے یا ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں جبکہ اس جنگ میں کچھ دوسرے مسلمان بھی کچھ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے، کفار کے ساتھ شریک جنگ ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس عمل کو فی نفسہ کفر نہیں کہا جا سکتا، اگرچہ اس کا مذموم اور قابل اجتناب ہونا واضح ہے۔ گویا لڑائی کا واقعاتی تناظر اور جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوںکی نیت اور ارادہ یہ طے کریں گے کہ ان کے اس عمل کی حیثیت کیا متعین کی جائے۔ اگر لڑائی کفر اور اسلام کے تناظر میں لڑی جا رہی ہے اور لڑائی میں شریک ہونے والے بھی اسی نیت سے لڑ رہے ہیں کہ اسلام بطور دین کمزور جبکہ کفر اس پر غالب ہو جائے تو بلاشبہ یہ عمل کفر وارتداد کے ہم معنی ہے، لیکن کفار اور مسلمانوں کے مابین ہر جنگ کو نہ تو کفر واسلام کی جنگ کہا جا سکتا ہے اور نہ یہ قرار دینا ممکن ہے کہ کسی دنیوی مفاد کے تناظر میں، جنگ میں کفار کا ساتھ دینے والے مسلمان فی نفسہ اسلام ہی کے دشمن ہیں اور ان میں اور کھلے کافروں میں کوئی فرق ہی باقی نہیں رہا۔
اس حوالے سے فقہاءکا بیان کردہ یہ بنیادی اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر مسلمان کا کوئی قول یا عمل ایک سے زیادہ احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے بعض احتمال اس کی تکفیر کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ کچھ احتمال اسے تکفیر سے بچاتے ہوں تو اس کی نیت اور ارادہ فیصلہ کن ہوگا۔ اگر اس نے اس عمل کا ارتکاب ایسی نیت سے کیا ہو جو کفر کو مستلزم ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی، جبکہ اس کے برعکس صورت میں تکفیر سے گریز کیا جائے گا۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ”المحیط البرہانی“ میں ہے:
”یہ جاننا لازم ہے کہ اگر کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ احتمالات تکفیر کا تقاضا کرتے ہوں جبکہ صرف ایک احتمال تکفیر سے مانع ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسی احتمال کو اختیار کرے جو تکفیرسے مانع ہے۔ پھر اگر اس عمل کا ارتکاب کرنے والے کی نیت وہی احتمال ہو جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان شمار ہوگا، لیکن اگر خود اس کی نیت وہ احتمال ہو جو تکفیر کا موجب ہے تو ایسی صورت میں اسے مفتی کا فتویٰ کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اسے کہا جائے گا کہ وہ توبہ کر کے اس عمل سے رجوع کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ نکاح کی تجدید کرے۔“
”المحیط البرہانی“ میں اس اصول کے انطباق کی ایک عمدہ مثال بھی نقل کی گئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
”مسلمان اگر (جنگ میں) کسی قیدی کو گرفتار کریں اور اس ڈر سے کہ کہیں وہ (زبان سے) اسلام کا اقرار نہ کر لے، اس کے منہ کو کسی چیز سے بند کر دیں یا اسے مارنا شروع کر دیں تاکہ وہ مار سے بد حواس ہو جائے اور قبول اسلام کا اعلان نہ کر پائے تو ایسا کرنے والوں نے غلط کام کیا، لیکن اس سے وہ کافر نہیں ہو جائیں گے۔ شیخ الاسلام نے شرح السیر میں واضح کیا ہے کہ دوسرے کے کفر پر راضی ہونا صرف اس صورت میں کفر ہے جب ایسا کرنے والے کفر کو اچھا اور جائز سمجھتا ہو۔ لیکن اگر وہ کفر کو نہ تو جائز سمجھتا ہو اور نہ اسے پسند کرتا ہو، بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ ایک شریر اور طبعاً موذی کافر، کفر پر ہی مرے یا اسے قتل کر دیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے (ان اذیتوں کا جو اس نے مسلمانوں کودیں) انتقام لے تو اس نیت سے ایسا کرنے والا کافر نہیں ہوگا۔“
مذکورہ مثال میں دیکھیے، کچھ مسلمان ایک کافر کو کلمہ پڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں جس کا مطلب بظاہر یہ بنتا ہے کہ وہ اس کو کافر ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے اسلام قبول کرنے پر راضی نہیں۔ اب ظاہر کے اعتبار سے کسی کے کفر پر راضی ہونا اور اسے قبول اسلام سے روکنا کفر ہے، لیکن فقہاءیہ قرار دے رہے ہیں کہ یہاں چونکہ اسلام سے روکنے والوں کی نیت فی نفسہ کفر کو پسند کرنا اور اسے جائز سمجھنا نہیں، بلکہ وہ اس نیت سے ایسا کر رہے ہیں کہ ایک موذی اور شرپسند دشمن اللہ کے انتقام سے بچنے نہ پائے، اس لیے ان کے اس عمل کو ان کی نیت کا اعتبار کرتے ہوئے کفر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی اصول زیر بحث سوال کے حوالے سے بھی پیش نظر رہے تو صاف واضح ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کو صرف اسی صورت میں کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ فی نفسہ کفر کو اسلام کے مقابلے میں پسند کرتے ہوں اور اسلام پر کفر کو غالب کرنے کی نیت اور ارادے سے جنگ میں کفار کا ساتھ دے رہے ہوں۔ اگر ان کا محرک اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو فقہی اصول کے لحاظ سے انھیں محض مسلمانوں اور کفار کی لڑائی میں کفار کا ساتھ دینے کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مذکورہ اصولی نکتے کے علاوہ فقہی ذخیرے میں متعدد ایسے نظائر موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہاءاسلام مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کے ساتھ شرکت کو مطلقاً یعنی ہر حال میں کفر قرار نہیں دیتے، بلکہ ایسا کرنے والے مسلمانوں کومسلمان ہی شمار کرتے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض حالات میں اس کی باقاعدہ اجازت دیتے ہیں۔ یہاں چند اہم نظائر کا مطالعہ مفید ہوگا۔
۱۔         فقہاءکے مابین اس بات میں اختلاف ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دے تو اس کے خلاف جنگ میں کفار سے مدد لی جا سکتی ہے یا نہیں؟ ایک گروہ کے نزدیک ایسا کرنا درست نہیں، کیونکہ اس سے کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرنا لازم آتا ہے جو کہ شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ (یہاں یہ بات بطور خاص ذہن میں رہے کہ ممانعت کرنے والے فقہاءنے اس کی دلیل یہ نہیں بیان کی کہ ایسا کرنا فی نفسہ کفر ہے)۔ اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں باغیوں کے خلاف جنگ میں اہل حرب یا اہل ذمہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لشکر کی کمان اہل اسلام کے ہاتھ میں ہو اور وہ جنگ کی ترجیحات طے کرنے میں آزاد ہوں۔ سرخسی لکھتے ہیں:
”اس میں کوئی حرج نہیں کہ مسلمان حکومت، خوارج کے خلاف جنگ میں باغیوں کے کسی گروہ یا اہل ذمہ کی مدد حاصل کریں، بشرطیکہ مسلمان حکومت کا فیصلہ غالب ہو۔“
یہ اس صورت میں ہے جب مسلمان حکومت، باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے پر مجبور نہ ہو۔ اگر صورت حال ایسی پیدا ہو جائے کہ باغیوں کا زور توڑنے کے لیے مدد لینا ناگزیر ہو جائے تو یہاں دلچسپ صورت حال پید اہو جاتی ہے۔ فقہائے احناف تو اپنے اصول کے مطابق اس صورت میں باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے کو جائز قرار نہیں دیتے، چنانچہ سرخسی لکھتے ہیں:
”اگر باغی حکومت کے مقابلے میں غالب آ جائیں اور انھیں اہل شرک کے علاقے کی طرف دھکیل دیں تو اس حالت میں حکومت کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرے، کیونکہ اہل شرک کا اقتدار غالب ہے جبکہ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں کہ وہ مسلمان باغیوں کے خلاف اہل شرک کی مدد حاصل کریں۔“
لیکن فقہا کا دوسرا گروہ جو عام حالات میں باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے کو ناجائز کہتا ہے، ان میں سے بعض اہل علم مذکورہ صورت حال میں مجبوری کے تحت کفار کی مدد لینے کی اجازت دیتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن حزم تصریح کرتے ہیں کہ باغیوں کے خلاف کفار سے مدد لینے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب مسلمان خود باغیوں کے خلاف لڑنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ اگر حکومت اتنی کمزور ہو جائے کہ کفار کی مدد لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر اہل حرب یا اہل ذمہ کا سہارا لے کر اور ان کی مدد سے باغیوں کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ جن کفار سے وہ مدد لے رہے ہیں، ان کی طرف سے یہ خدشہ نہ ہو کہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی جان ومال کو نقصان پہنچائیں گے۔ لکھتے ہیں:
”ہمارے نزدیک یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب حکومت اپنے دفاع پر قادر ہو۔ اگر مسلمان ہلاکت کے قریب پہنچ جائیں اور حالت اضطرار سے دوچار ہو جائیں اور کوئی چارہ باقی نہ رہے تو پھر (باغیوں کے خلاف) اہل حرب کا سہارا لینے میں یا اہل ذمہ کے ساتھ مل کر دفاع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں،بشرطیکہ انھیں یہ یقین ہو کہ ان سے مدد لینے کے نتیجے میں وہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی جان ومال یا کسی حرمت پر دست درازی نہیں کریں گے۔“
۲۔         فقہاءاس کی بھی تصریح کرتے ہیں کہ اگر مسلمان باغی، حکومت کے خلاف جنگ میں کفار سے مدد لیں تو ایسا کرنے سے باغی، کافر نہیں ہو جائیں گے۔ چنانچہ امام شافعی لکھتے ہیں:
”اگر باغی، حکومت کے خلاف جنگ میں اہل حرب کی مدد حاصل کریں،جبکہ ان اہل حرب کے ساتھ اس سے پہلے حکومت نے صلح کا معاہدہ کر رکھا ہو تو اب نئی صورت حال میں حکومت کے لیے ان اہل حرب کے ساتھ جنگ کرنا اور انھیں قیدی بنانا جائز ہو جائے گا۔ .... اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر باغی، مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں اہل ذمہ کی مدد حاصل کریں تو ایسا کرنے والے اہل ذمہ کا معاہدہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ وہ (مسلمانوں کے خلاف) مسلمانوں ہی کے ایک گروہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔
یہی بات ابن قدامہ نے المغنی (ج ۹ مسئلہ ۱۸۰۷) میں اور امام نووی نے روضة الطالبین (ج ۷، ص ۰۸۲، ۱۸۲) میں لکھی ہے۔
دیکھ لیجیے، اس بحث میں بھی فقہائی، مسلمان حکومت کے خلاف کفار کی مدد سے جنگ کرنے والے باغیوں کو کافر قرار نہیں دیتے، بلکہ انھیں مسلمان شمار کرتے ہوئے ہی ان کے احکام بیان کرتے ہیں۔
مذکورہ نظائر کا تعلق اس صورت سے ہے جب مسلمانوں (حکومت یا باغیوں) کے خلاف جنگ کا بنیادی فریق خود مسلمان ہوں اور کفار کو اس جنگ میں ایک مددگار فریق کے طور پر شریک کیا جائے۔ اگر صورت حال اس کے برعکس ہو، یعنی مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اصل فریق کفار ہوں اور کچھ مسلمان ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تو فقہاءکی تصریحات کے مطابق اس سے بھی معاملے کی شرعی حیثیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اور ایسے مسلمان اس عمل کے بعد بھی مسلمان ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے چند تصریحات درج ذیل ہیں:
۳۔         علامہ ابن حزم نے تصریح کی ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی محارب گروہ اہل حرب کے ساتھ مل کر مسلمان باغیوں کا مال لوٹنے کے لیے ان پر حملہ کرے تو اس کے باوجود وہ مسلمان ہی رہے گا، البتہ دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان حملہ آوروں کے خلاف باغی مسلمانوں کا دفاع کریں۔ لکھتے ہیں:
”اگر اہل حرب کفار اور مسلمانوں میں سے کچھ محاربین، باغیوں پر حملہ کریں تو تمام اہل اسلام اور مسلمان حکمران پر لازم ہے کہ وہ باغیوں کی مدد کریں اور انھیں اہل کفر اور محاربین سے بچائیں کیونکہ یہ باغی مسلمان ہیں۔ جہاں تک (کفار کے ساتھ مل کر حملہ کرنے والے) مسلمان محاربین کا تعلق ہے تو (ان سے لڑنا اس لیے ضروری ہے کہ) وہ باغیوں کا مال چھین کران پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور ظلم سے روکنا واجب ہے۔“
۴۔         امام سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر کسی مرتد کا مسلمان غلام، کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو اور گرفتار ہو جائے تو اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے قیدی نہیں بنایا جائے گا بلکہ آزاد کر دیا جائے گا:
”اگر مرتد کا غلام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے دار الحرب سے نکلا ہو اور پھر مسلمان اسے پکڑ لیں تو اگر وہ مسلمان ہو تو اسے آزاد کر دیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے آقا کی مرضی کے برخلاف آیا ہے، اور اگر وہ غلام ذمی ہو تو جو لوگ اسے گرفتار کریں گے، وہ ان کی ملکیت بن جائے گا کیونکہ ذمی کا، مسلمانوں کے ساتھ قتال کرنا معاہدہ کو توڑ دیتا ہے۔“
یہاں واضح طور پر کفار کی طرف سے شریک جنگ ہونے والے مسلمان اور غیر مسلم غلام میں فرق کیا جا رہا ہے اور محض جنگ میں شریک ہونے کی بنا پر مسلمان غلام کو کافر اور مرتد شمار نہیں کیا جا رہا۔
۵۔         امام سرخسی لکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ کفار کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرے تو مسلمانوں کے لیے بھی ان کو جواباً قتل کرنا جائز ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا شمار مسلمانوں میں ہی ہوگا:
”اگر مسلمان، مشرکین کی صفوں میں کچھ مسلمانوں کو دیکھیں جن کے پاس ہتھیار ہوں تو اب یہ معلوم نہیں کہ وہ مجبوراً آئے ہیں یا اپنے اختیار سے، اس لیے مجھے یہ پسند ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکیں تو جب تک ان سے دریافت نہ کر لیں، ان کے خلاف لڑنے میں جلدی نہ کریں۔ اور اگر ان سے دریافت نہ کر سکتے ہوں تو بھی ان کے خلاف اقدام نہ کریں جب تک کہ انھیں اپنے خلاف لڑتا ہوا نہ دیکھ لیں۔ اس صورت میں ان سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (پہلے مرحلے پر انھیں قتل کرنا) اس لیے درست نہیں کہ ان کا مسلمان ہونا انھیں مسلمانوں ہی کے خلاف لڑنے سے روکتا ہے اور یہ بات مسلمانوں کو معلوم ہے، اس لیے جب تک معاملے کا اس کے برخلاف ہونا بالکل واضح نہ ہو جائے، ان کے محض مشرکوں کی صف میں کھڑے ہونے کی وجہ سے انھیں قتل کرنا جائز نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ جبراً لائے گئے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی مرضی سے آئے ہوں۔ اس لیے جب تک وہ صاف طور پر لڑائی میں شریک نہ ہو جائیں، ان کے خلاف جنگ سے گریز کرنا ہی اچھا ہے۔ البتہ دوسری صورت میں ان کے خلاف لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ مشرکین کی کمان میں (مسلمانوں کے خلاف) جنگ کرنا ان کے خون کو مباح کر دیتا ہے، اگرچہ وہ مسلمان ہی ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ باغیوں کی لڑائی کے سد باب کے لیے ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے، حالانکہ وہ مسلمان ہوتے ہیں۔“
مذکورہ تجزیے سے واضح ہے کہ فقہ وشریعت کے اصولوں اور اکابر فقہاءکی تصریحات کی روشنی میں مسلمانوں کے کسی گروہ کو محض اس وجہ سے مرتد اور کافر قرار دینے کا کوئی جواز نہیں کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دیا ہے۔ مسلمان کو کافر قرار دینا ایک بہت سنگین معاملہ ہے اور مختلف احتمالات رکھنے والے معاملے میں شریعت کی ترجیح یہی ہے کہ مسلمانوں کی تکفیر سے گریز کیا جائے۔ اس لیے جب تک قطعیت کے ساتھ یہ طے نہ ہو کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے چھیڑی گئی ہے اور یہ کہ کفار کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی نیت اور ارادہ بھی یہی ہے کہ اسلام کے مقابلے میں کفر کو غلبہ حاصل ہو، اس وقت تک اس عمل کو موجب کفر اور موجب ارتداد قرار دینا شرعی وفقہی لحاظ سے ایک سنگین جسارت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین وشریعت کا صحیح فہم نصیب فرمائیں۔ آمین