working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

مدرسہ طلباءکی غیر نصابی سرگرمیوں کا شدت پسندی میں کردار

 

زیر نظر تحقیقی مطالعہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی ایک حالیہ کاوش ہے جس کو منصہ شہود پر لانے میں ڈاکٹر قبلہ ایاز اور سبوخ سید کی کاوشیں شامل ہیں ۔جنہوں نے جامعہ ابو حنفیہ پشاور،جامعہ جنیدیہ پشاور،جامعہ عصریہ پشاور، جامعہ نعیمیہ اسلام آباد اور جامعہ محمدیہ اسلام آباد کا دورہ کر کے وہاں کے طلبااور اساتذہ سے ان کی آرا معلوم کر کے ا س رپورٹ کوحتمی شکل دی ۔اس مطالعہ میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم طلبا کی غیر نصابی سرگرمیاں کیا ہیں اور کیا یہ شدت پسندی کی وجہ بن رہی ہیں ؟ اس مطالعہ کو ترتیب دینے میں محمد اسماعیل خان نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ (مدیر )

 

جب بھی کہا جاتا ہے کہ مدارس اپنے طلباء کی شکل میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں جس کے جواب میں مدارس کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ جو کوئی ملوث ہے اسے قرار واقعی سزا دیں مگر ان کی انفرادیذمہ داری مدارس پر عائد نہیں ہوتی۔ انتظامیہ اپنے دفاع میں کہتی ہے کہ شدت پسندی ان کی وجہ سے نہیں پھیل رہی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھرمسئلہ کیا ہے ؟

ایک عمومی بحث جو ہر دھماکے کے بعد ملک میں شروع ہو جاتی ہے وہ یہ کہ اس کے سراسر ذمہ دار مدارس یا مذہبی ادارے ہیں جو اس قسم کے لوگ تیار نہیں بھی کرتے تو ذہن سازیضرورکرتے ہیں جو حملوں کا موجب بنتے ہیں۔ مدارس کی انتظامیہ اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ کسی فرد کی ذمہ داری ادارے پر عائد نہیں ہوتی۔

یہ بحث عرصےسے جاری ہے مدارس کو عسکریت پسندی کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ حال ہی میں مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے معاملات بھی زیر بحث آرہے ہیں۔ 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اس سیکٹر کو بھی ضابطوں میں لانے کی بات کی گئی۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کاطریقہمربوط نہیں ہےبلکہ ایک وقتی نوعیت کا رد عمل ہے۔ مدارس کےبارے میں ریاستی حکام کو ایک ہی پالیسی اختیار کرنی چاہیے اور سب کو تاکید کرنی چاہیے کہ کہ وہ مدارس کو کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی سے الگ تھلگ کریں۔

اگرچہ مدارس کی عسکریت پسندی میں شمولیت کے حوالے سےحقائق متنازعہ ہیں مگر جو چیز متنازعہ نہیںوہ ان کی تفرقہ بازی ہے۔ اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی فرقہ وارانہ بنیادیں ہیں اور یہ اپنے اپنے فرقے کی تشہیر کرتے ہیں۔ کئی محققین نے مدارس اور جہادی مراکز کے آپس میں تعلقات بھی جوڑے ہیں۔ مدارس کی انتظامیہ اس بات کو خارج از امکان نہیں کہتی کہ کوئی طالب علم اپنی پڑھائی کے اوقات کے بعد عسکریت پسندی کی جانب مائل نہیں ہو سکتا۔

یہ مطالعہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ طلباء کے مشاغل مطالعہ کے اوقات کےبعد کیا ہوتے ہیں تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ کیا کوئی ایسی سرگرمیاں ہیں جو انھیں بعد ازاں عسکریت پسندی کی جانب راغب کرتی ہیں۔

ان سرگرمیوں کے جائزے کے لیے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز نےپشاور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والےپانچ مدارس کے 50 طلباء اور 16 اساتذہ کی رائے جانچی۔ یہ سروے اردوزبان میں کیا گیا۔

مدارس اور ان کا مکتب فکر درج ذیل ہے :

جامعہ ابو حنفیہ پشاور                  دیو بندی

جامعہ جنیدیہ پشاور                     بریلوی

جامعہ عصریہپشاور                     اہل ِ حدیث

جامعہ نعیمیہ اسلام آباد                 بریلوی

جامعہ محمدیہ اسلام آباد               دیو بندی

اسی عرصے میں سروے کے دوران کیے گئے دوروں میں ہمارے محققین نے مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ کئی موضوعات پر گفتگو کی تاکہ اس ماحول کا اندازہ لگایا جا سکے جس میں ان کی ذہنی پرداخت ہوتی ہے۔ اس گفتگو کے نتائج ِ فکر کو ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ایک الگ باب میں "مشاہدات " کے عنوان سے رقم کیا ہے۔

اہم نکات :

اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ کے مدارس میں زیر تعلیم طلباء کی اکثریت کا تعلق پٹھانخاندانوں سے ہے۔ مدارس میں مہیا کی گئی سہولیات ان کے گھروں اور بالخصوصکے پی کے اور فاٹا کےتنا زعات سے متاثرہ علاقوں میں دستیاب سہولتوں سے زیادہ ہیں۔

مدارس کے طلباء نہ صرف خاطر جمعی کے حامل ہیں بلکہ وہ جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس سے وہ مطمئن بھی ہیں۔ وہ نصاب تعلیم،طریقہ تدریس،تعلیم کا دورانیہ، مقاصد ِ تعلیم اور دوسرے امور کے بارے میں مکمل اطمینان رکھتے ہیں ان کی بعد از دوپہر سرگرمیاں جس میں وہ اپنےدوسرے طلباء ساتھیوں کے ساتھ ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں ہونے والی گفتگومیں تنقیدی زاویہ نگاہ کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ انہیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔ اس طرحوہ زندگی بھر برتری کے خول میں رہتے ہیں۔ وہ موضوعات جن پر وہ بالکل بات نہیں کرتے وہ سماج اور ان کی اپنی ذات سے متعلق ہے اس سے ایک بار پھریہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہان کی سوچ کس قدر محدود ہے۔

طلباء کی باہر کی دنیا کے بارے میں جانکاری بھی بہت کم ہے، مدارس جو کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم ہوئے ہیں وہاں تعلیم بھی یہی دی جارہی ہے۔ اور وہ لوگ جن سے یہ متاثر ہوتے ہیں ان کی شہرت بھی فرقہ وارانہ ہے۔

باہمی گفتگو میں یہ جن موضوعات پر تواتر کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہیں ان میں تعلیم،مذہب،عالمی صورتحال اور سیاست شامل ہیں۔ وہ ان امور پر اپنے ساتھی طلباء،اساتذہ اور سوشل میڈیا کے دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

طلباء کے خیال میں یہ موضوعات باہم منسلک ہیں۔ مدرسے کے طالب علم کا مطلب ہے کہ وہ طالب علم جو مذہب کی تعلیم حاصل کرتا ہے سروے میں بھی انہی دو موضوعاتمذہب اورتعلیم کا الگ الگاحاطہ کیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جب ان سے مذہب اور سیاست کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بھی الگ الگ نہیںہے۔ یہ بھی بات حیران کن ہے کہ وہ عالمی صورتحال کو بھی مذہب اور اپنے مدارس کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

اگرچہ تعلیم جو وہ حاصل کر رہے ہیں اس کے بارے میں ان کا طرز مقلدانہ ہے مگر مدرسے کے باہر کے معاملات کے بارے میں وہ متنوع سوچ رکھتے ہیں وہ جن لکھاریوںکومتواتر پڑھتے ہیں یا جن رسائل کا وہ مطالعہ کرتے ہیں وہ یکساں طرز کے نہیں ہیں ان میں سے کچھ لکھاری شدت پسند ہیں جبکہ کچھ جدتپسند بھی ہیں۔ اگرچہ طلباء کے سوچنے کا انداز ایک جیسا ہے مگر پھر بھی کسی حد تک دنیا کے بارے میں ان کے خیالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اور وہ موضوعات جن پر وہ تبادلہ خیالات کرتے ہیں وہ بھی متنوعہو سکتے ہیں۔

زیادہ تر طلباء کے پسندیدہ مضامین قر آن و حدیث ہیں اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے ان کا مستقبلتابناک ہو سکتا ہے مثال کے طور پر اگر کوئی اچھا قاری ہے تو اس کو کسی مسجد میں امام کی نوکری با آسانی مل سکتی ہے۔ اس طرح ان کی اور یونیورسٹی طلباء کی ترجیحات ایک جیسیہی ہیں جوسائنس میں ڈگری حاصل کرتے ہیں تاکہ انہیں مستقبل میں بہتر مواقع مل سکیں۔ زیادہ تر طلباء جن سے سروے کیا گیا ان کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔ یہ عمرکا وہ دورانیہ ہے جس میں طلباء گریجویشن یا ماسٹر پروگرام میں کہیں بھی داخلہ لیتے ہیں۔

طلباء کے دن کا آغاز نماز ِ فجر سے ہوتا ہے۔ جس کے بعد وہ نصاب کا مطالعہ کرتے ہیں اکثریتی طلباء کے بقولاس کا دورانیہ آٹھ گھنٹوں تک ہو سکتا ہے۔ یہ نمازِ ظہر تک متواتر پڑھتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز عصر کی نماز کے بعد ہو تا ہے جو مغرب یا عشاء تک جاری رہتی ہیں۔

عصر کے بعد کے اوقات کا انحصار موسم کے حوالے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ موسمگرما کے مقابلے پر سردیوں میں یہ وقت بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے طلباء کو غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے بہت قلیل وقت ملتا ہے۔

مدرسہ کے طلباء کا اپنے استاد کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط ہے بالکل ویسے ہی جیسے وہ اپنے نصاب اور طریقۂ تدریس کے بارے میں مطمئن ہیں۔ استاد کے بارے میں ان کا تصور اتنا مضبوط ہے کہ اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا انھوں نے تقریباً ایک جیسا جواب دیا ہے۔ یونیورسٹی طلبا کے مقابلے پر مدرسے کے طالبعلموں کا اپنے استاد کے ساتھ تعلق زیادہ گہرا ہے۔

مدرسے کے طالبعلموں کے نزدیک استاد کے اسی بلند رتبے کی وجہ سےضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے کیونکہ وہی اس قابل ہیں کہ وہ انہیں سماجی ہم آہنگی کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اساتذہ اور مدارس کی انتظامیہ کہتی ہے کہ مدرسے عسکریت پسندی میں ملوث نہیں ہیں۔ یہ استاد انھیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ شدت پسند مواد سے دور رہیں اورا پنے فارغ اوقات میں بھی اس کے قریب نہ جائیں۔

 اگرچہ مدارس کے طلباء خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھتے ہیں لیکن ایسا ہر معاملے میں نہیں ہے۔ بلکہ کچھ موضوعات پر وہ بالکل ویسا ہی سوچتے ہیں جیسا کہ مدرسوں میں نہ پڑھنے والے طلباء سوچتے ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بکپر ویسی ہی رسائی حاصل ہے جیسی کہ دیگر طلباء کو ہے۔

ان کی سیاسی اور نظریاتی وابستگی بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ بالعموم عام پاکستانیوں کی ہے۔ مثال کے طور پر سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مدارس کے طلباء بھی اسلام آباد اور پشاور سے شائع ہونے والےصفِ اوّل کے وہی تین اخبارات پڑھتے ہیں جو دیگر عام شہری پڑھتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معلومات کے ذرائع یکساںنوعیت کے ہیں۔ یہ طلباء بھی اسی طرح معاشرے کا حصہ ہیں جس طرح کہ معاشرے میں اچھے افراد بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ کئی طلباء بھی ان شدت پسند کالم نگاروں کو اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح کے پاکستان کے دیگر لوگ جن کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوتی ہے کہ مدارس کے طلباء بھی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو عمومی طور پر پاکستانی معاشرے کی ہے جو ایسےہی شدت پسند کالم نگاروں کی جانب مائل ہے۔

یہ بات پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز کے ایک گزشتہ مطالعے میں بھی سامنے آ چکی ہے جو کہ 2009ء میں کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مدارس کی سیاسی وابستگیاں اسی طرح ہیںجیسی کی قوم کی مجموعی طور پر ہیں۔ اور اگر قومی سطح پر کوئی مفاہمت ہوتی ہے تو ا س کا اثر ان کے روئیوں پر بھی پڑتا ہے۔

تاہم یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ ان مدارس کے طلباء کی خاصی تعداد شدت پسند اخبارات اور کالم نگاروں کی طرف بھی رجحان رکھتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ طلباء کی رائے اپنے فرقے کا پرچار کرنے والے کالم نگاروں سے متاثر ہے۔ مثال کے طور پر دیوبندی مدارس کے طلباء دیوبندی مفکرین سے اور بریلوی مدارس کے طلباء بریلوی مفکرین سے متاثر ہیں۔ جس کی وجہ سے مدارس کا فرقہ وارانہ چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔

اسی طرح روزانہ کی سیاسی پیش رفت سے آگاہ ہونے کے لیے وہ صفِ اوّل کے اخبارات و جرائد کا ہی سہارا لیتے ہیں لیکن جب وہ ان معاملات کو گہرائی میں جا کر دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ رجحان رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ان میں کھوج کرید کا جذبہ ضرور ہے جو انہیں سیاق و سباق سے متعلق ہوتا ہے۔

مطالعاتی مشاہدات

پانچ مختلف مکاتب ِ فکر کے مدارس میں سروے کے دوران اساتذہ اور طلباء سے خوشگور ماحول میں جو بات چیت ہوئی اس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اپنے حلقوں میںسیاست،مذہب اور فرقہ وارانہ مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ یہ بات اس لیے حیران کن ہے کہ مدارس کے اساتذہ اور طلباء کےبارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔

اساتذہ اور طلباء دونوں ہی نصاب اور زیر مطالعہ کتابوں اور طرز تدریس سے مکملمطمئن ہیں۔ جس کے بعد یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں دوسرے اداروں سے یا ان کے نصاب سے کوئی سروکار نہیں ہے اور ابھی تک ان کا کسی دوسرے نصاب کے بارے میں علم بہت کم ہے۔
مزید بر آنکہ یہ کہ انھیں بار بار یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ وہ مذہبی تعلیم حاصل کر کے خدا اور اس کے رسول ﷺکے ہاں کتنی بڑی مقبولیت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔قرآنی آیات اور احادیث ِ مبارکہ یاد کرنے سے انھیں عالم یا علماء کہہ کر پکارا جاتا ہےجس سے ان کا مرتبہ بلند ہو تا ہے۔ مدارس کے ماحول میں نرگسیت کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ حتی ٰ کہ کچھ جدید مدارس میں بھی ایسے پوسٹرز اور بینر ز دیکھے جا سکتے ہیں جن میں ایسی قرآنی آیات و حدیث درج ہوتی ہیں جن میں خالص مذہبی تعلیم کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔

یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ طلباء اپنے مضامین کا انتخاب کرتے وقت قرآن،تفسیر اور حدیث پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ فقہ،کلام، منطق اور فلسفہ، معنی و بلاغت پر کم توجہ دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں علم کی دوقسمیں ہیں۔ وہ قرآن و حدیث کو سب سے برتر علوم ِ عالیہ قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے بعد دوسرے علوم کی توجیح ان کی روشنی میں کرتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ قر آن و حدیثکی تعلیم سے انہیں دوران ِ تعلیم یا اس کے بعد کسی مسجد میں امام کی ملازمت مل سکتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر مضامین اس سلسلے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ طرز عمل ایک طرح سے درست نہیں کیونکہ اس سے آپ دوسرے انسانی علوم (علم الکلام،منطق اور فلاسفی)کو نظر اندازکر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہبی حلقوں میں ناقدانہ طرز فکر کا عمل رک جاتا ہے اور وہ از خود اپنے قیاس سے اور مسائل کا جائزہ لیے بغیر ہی کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔

یہ چیز بھی سامنے آئی کہ ادبی ذوق کی تسکین کے لیے تھوڑی بہت توجہ دی جاتی ہے جس کا ثبوت سروے کے دوران بعض طلباء نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اشعار کا سہارا بھی لیا ہے۔ زیادہ تر شاعریمحبت بھرے مذہبی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے جبکہ کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں تھا جو فطرت،انسانی احساسات اور ان کا کرب،مصائب اور انسانیت کی دگر گوں حالت کااظہار کرتا ہو۔ ادبی ذوق کی عدم تسکین قومی اور عالمی منظرنامے میں منفی اظہار کا موجب بنتی ہے۔

سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ طلباء کا رجحان فقہ کی جانب بہت کم ہے۔ یہ مضمون مسلمانوں کی عمومی مذہبی اور دنیاوی امور میں رہنمائی کرتا ہے۔ یہ مضمون در حقیقت بہت مشکل، پیچیدہ اور دقت طلب ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب سے اہم مضمون ہے مگر اس کی جانب رجحان نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ مسائل جو زیادہ گہرے مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں وہ توجہ حاصل نہیں کر پاتے لیکن ان کی تعلیم طلباء کو حصول ملازمت میں مدد فراہم نہیں کرتی۔

مدارس کے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ تعلیمی امور پر تبادلہ خیال کرتے وقت ہمیں یہ احساس ہوا کہ وہ مختلف مسائل پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے وقت ذرہبرابر بھی نہیں چوکتے لیکن ایک چیز جس پر وہ سب متفق ہیں وہیہکہ اسلام اور مسلمان مغرب کی جانب سے محاصرے کا شکار ہیں اور وہ انمقبول مغالطوںکا بھی شکار ہیں جن کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مدارس ”مغرب فو بیا “کا شکار ہیں۔ اگرچہ یہ بیانیہ ان کے نصاب کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ باتیں وہ تب جانتے ہیں جب وہ بعد از دوپہر کو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے پیغامات پڑھتے ہیں۔ ان کے اندر تنقیدی زاویہ نگاہ کا فقداناس بات متقاضی ہے کہ ان کے ساتھ با معنی مکالمہ کیا جائے تاکہ وہ دنیا کے بارے میں اپنے خیالات کا جائزہ لے سکیں۔ ان کے مطالعہ میں تاریخ کا مضمون شامل نہیں ہے اس لیے وہ اپنے خیالات کا محاسبہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ جان سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کے آپس کے اختلافات،جھگڑے اور نئے علوم سے عدم آگاہی ہے۔

وہاں سروے کے دوران کیے جانے والوں دوروں سے یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ مدارس کے طلباء اپنے استاد کا ازحد احترام کرتے ہیں۔ یہ بات علاقائی اور مشرقی روایات کے تناظر میںلائقِ تحسین قرار دی جا سکتی ہےلیکن دوسری جانب اس کا منفی پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ وہ خود اعتمادی اور آزادی خیال سے محروم ہو جاتے ہیں۔

سفارشات:

اس سروےکے دوران کئی میدان سامنے آئے جن میں مدارس کےاساتذہ اور طلباء کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

           سول سوسائیٹی اور تحقیقی اداروںکو ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا پڑے گا تاکہ انہیں سوچنے اور سمجھنے کا ایک وسیع ماحول میسر آ سکے۔

           مدارس کے منتظمین کے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ انہیں دیگر تعلیمی نظامات اور تعلیمی روایات کی جانب بھی راغب کیا جا سکے۔

           اساتذہ اور طلباء کو مختلف قومی اور عالمی امور کے بارے میں مسلسل آگاہ کیا جائے۔

           وسیع سماجی پیرائے میں ان کے ساتھ سیمینارز اور ورکشاپوں کا اہتمام کیا جائے۔

           انھیں دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال سے باخبر رکھا جائے اور ان پر ان کی تنقیدی آراء کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

           اہم مسائل پر طلباء کے مابین تقریری مقابلے کرائے جائیں جس کے لیے انعامات اور دیگر ترغیبات کا اعلان کیاجائے تاکہ ان میں مختلف مسائل کی جانکاری کو رواج دیا جا سکے۔

           معروف شعرا کو بلوا کر ان کے درمیان مشاعرے اور بیت بازی کے مقابلے کروائے جائیں۔

           مدارس کے طلباء کے مابین کھیلوں کے مقابلے بھی کروائے جائیں۔

           مدارس میں تاریخ،سماج اور عالمی امور جیسے موضوعات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

           نفسیات کے بنیادی اصولوں کے بارے میں انہیں آگاہی فراہم کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ ایک انسان کے معمولات کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں۔

           انہیں ہم نصابی سر گرمیوں اور بعد از دوپہر سرگرمیوں جیسا کہ کتب بینی، ان ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں،مطالعاتی دوروں، مشاعروں اور مضمون نگاری کے مقابلوں کی جانبرغبت دلائی جائے۔

           مدارس کے اساتذہ پر توجہ دی جائے کیونکہ وہی اپنا طلباء میں مؤثر اور مثبت سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

سروےکے نتائج

جواب دہندگان کی عمریں

بہت سے طلباء جن سے سروے کے دوران رابطہ کیا گیا وہ اوائل جوانی کے ایام سے گزر رہے تھے۔

50 طلباء میں سے ایک ہی ایسا تھا جس کی عمر 25 سال کی تھی، کل طلباء میں سے آدھوں کی عمریں 21 اور 25 سال کے درمیان تھیںجبکہ 18 سے 20 سال کے طلباء کی تعداد 38 تھی، صرف دو طلباء ایسے تھے جن میں سے ایک کی عمر 18 سال سے کم تھی اور دوسرے کی 30 سال سے زائد تھی۔

طلباء کی اکثریت عمر کی اس حد سے تعلق رکھتی تھی جس میں دنیا بھر کےطلباء چودہویں جماعت میں ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس عمر کے طلباء ثانوی درجے کے بعد تعلیم کے اس تیسرے درجے میں داخل ہوتے ہیں جس کے بعد عموماً انہیں عملی زندگی کی طرف قدم رکھنا ہوتا ہے۔

اساتذہ کی عمریں

زیادہ تر اساتذہ کی عمریں 30 سال سے زائد تھیں، جب عموماً طلباء اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور زیادہ تر اساتذہ ایسے ہی تھے جنہوں نے یہ عمل شروع ہی کیا تھا۔

تعلق کس علاقے سے ہے ؟

طلباء کی اکثریت جن سے سوالات پوچھے گئے ان کا تعلق پشتون علاقوں سے تھا۔ پشاور اور اسلام آباد کے پانچ مدارس میں یہ فارم برابر تقسیمکیے گئے تھے۔ جن میں سے 27 پشاور اور 23 اسلام آباد کے مدارس کے طلباء کو دیئے گئے۔ کل 50 میں سے 38 کا تعلق خیبر پختونخواہ کے پشتو بولنے والے علاقوں اور فاٹا سے تھا۔ یہ کل تعداد کا 76 فیصد بنتے ہیں جبکہ صرف 9 طلباء کا تعلق پنجاب سے تھا۔

نہ صرف یہ کہ پشاور کے تمام کے تمام طلباء کا تعلق پشتون علاقوں سے تھا بلکہ اسلام آباد کے مدارس میں جو کہ پنجاب سے قریب ہیں وہاںبھی زیادہ تعدادپشتون علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباءکی تھی۔ اسلام آباد میں پشتون علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی خاطر خواہ تعداد سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر کے مدارس میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد میں پشتون طلباء کی اکثریت ہو سکتی ہے۔ اس کا جائزہ لینے کے لیے الگ سے ایک مفصل مطالعے کے ضرورت ہے۔ یا پھر اس کی ایک اوروجہ اسلام آباد میں آبادی کے بدلتے ہوئے رجحانات کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے جہاں پچھلے سالوں میں پشتون آبادی تیزی کے ساتھ بڑھی ہے اور بالخصوص تنازعات سے متاثرہ علاقوں سے لوگو ں نے اسلام آباد کی جانب ہجرت کی ہے۔ فاٹا اور خیبر پختونخواہکے پشتون علاقوںسے ہجرت کرنے والے طلباء کے لیے ان کے آبائی علاقوں کی نسبتاسلام آباد ایک محفوظ جائے پناہ ہے۔ اسلام آباد کے مدارسان طلباء کو مقابلتاً بہتر سہولیات ِ زندگی مہیا کرتے ہیں جو پشتون علاقوں سے آنے والے ان طلباء کو اپنے گھروں میں میسر ہیں۔ لیکن اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو پنجاب میں مدرسوں کی اچھی خاصی تعداد ہے اس لیے پنجاب کے طلباء کو اسلام آباد کے مدارس میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اساتذہ کی تعداد کی صوبائی تقسیم

طلباء کی طرح اساتذہ کی اکثریت کا تعلق بھی خیبر پختونخواہ سے ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ جن مدارس کا نتخاب سروے کے لیے کیا گیا ان میں سے اکثریت کا تعلق انہی علاقوں سے تھا۔

نصاب

مضامین پر اطمینانکا اظہار

طلباء کو مدارس میں پڑھائے جانے والے مضامین پر کامل اطمینان ہے۔ 50 طلباء میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ ان سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ طلباء اپنے نصاب کو بہت برتر خیال کرتے ہیں شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ جیسا پڑھنا چاہتے ہیں ویسا سب کچھ اس نصاب میں موجود ہے۔

لیکن جب ان کی رائے مزید اسی طرح کے سوالات سے جانچی گئی اور جب ہمارے ماہرین نےمدارس میں جا کر ان سے گفتگو کی تویہ معلوم ہوا کہ اس اطمینان کی ایک وجہ ان کا وہ رویہ بھی ہے جس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ اطمینان ِ قلب رکھیں۔ دوسرے علوم کے بارے میں بہت کم جانکاری کی وجہ سے ان کے پاس اس تنقیدی نقطہ نظر کی کمی ہے جس میں وہ جان سکیں کہ ان کے نصاب میں کیا خوبیاں یا خامیاں ہیں۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ طلباء کو بتایا جاتا ہے کہ وہ طالب ہیں اور وہ ان لوگوں سے برتر ہیں جو طالب نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر اس کو جو ان جیسا نہیں ہے اس سے برتر خیال کرتے ہیں۔ یہ رویہ بعد میں ان میں نرگسیت کوپروان چڑھاتا ہے۔ کلاس کے بعد کی سرگرمیاں بھی انھیں مطمئن رکھتی ہیں۔ مدارس کے طلباء دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں مختلف باتیں زیر ِ بحث آتی ہیں۔ اس سرگرمی سے انہیں ایک دوسرے کی آراء کو جاننے اور اجتماعیت کی طرف راغب کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان میں مقلدانہ رویئے ہی پنپتے ہیں۔

کیا اساتذہ بھی مضامین سے مطمئن ہیں ؟

تمام اساتذہ جن سے سروے میں رابطہ کیا گیا وہ بھی طلباء کی طرح پڑھائے جانے والے نصاب سے مطمئن ہیں۔ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ اس سے مطمئن نہیں۔

پسندیدہ مضامین

زیادہ تر طلباء ان مضامین کو اپنے پسندیدہ قرار دیتے ہیں جو ان کو عملی زندگی میں مدد فراہم کرسکتے ہوں یا پھر پڑھنے میں آسان بھی ہوں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں جو مضامین مشکل ہیں وہ عملی زندگی میںکوئی خاص کامیابی کے مواقع کی جانب رہنمائی بھی نہیں کرتے۔

ہر طالب علم ایک سے زیادہ مضامین کا انتخاب کرتا ہے۔ 26 طلباء جو کہ کل کا 52 فیصد ہیں انھوں نے قرآن اور تفسیر کو اپنے پسندیدہ مضامین قرار دیا۔ اس کے بعد 19 طلباء وہ تھے جنھوں نے حدیث یا اصول ِ حدیث کوجن کا تعلق نبی کریم کے اقوال سے ہے انہیں اپنا پسندیدہ مضمون قرار دیا ہے۔مجموعی طورپر یہ دو مضامین 45 طلباء کے پسندیدہ مضامین ہیں۔

ان میں سے صرف 8 ایسے تھے جنہوں نے فقہ کو اپنا پسندیدہ مضمون قرار دیا تھا۔دو نے منطق اور فلسفہ کو جبکہ کسی ایک نے بھی علم الکلام کو پسندیدہ مضمون قرار نہیں دیا۔بنیادی مضمون جیسا کہ قرآن ہے وہ طلباء کو مساجد میں امام کی نوکری حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ قرآن کو حفظ کرنے یا پھر اس کی قرات کرنے سے بطور امام تعیناتی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جہاں وہ روزوں میں نماز تراویح کی ادائیگی سمیت مختلف سماجی تقریبات میں ختم ودعا کی تقریبات میں بھی اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی محلے کے بچوں کو قر آن کی تعلیم بھی دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب فرائض وہی ادا کر سکتا ہے جسے قرآن پاک حفظ ہو یا وہ اس کی قرأت کر سکتا ہو۔

وہ مضامین جن کا تعلق انسانی مطالعہ سے ہے جن میں فلسفہ اور منطق شامل ہیں اور جو طلباء میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں ان کی طرف رجحان بہت کم ہے۔ اسی طرح فقہ کا مضمون جو کہ معاشرے کی رہنمائی میں اہم کردار رکھتا ہے ان کی جانب بھی ان دو مضامین کے مقابلے پر بہت کم رجحان ہے۔ کیونکہ منطق اور فلسفہ کو سمجھنے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مطالعہ میں ہمیں مختلف ماہرین نے بتایا کہ یہ مضامین طلباء کو فارغ التحصیل ہونے کے بعد روزگار کی فراہمی میں کوئی مدد بھی فراہم نہیں کرتے جس کی وجہ ان مضامین کو پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔

مضامین کے انتخاب میںمدارس کے طلباء کے رجحاناتاور مدارس سے باہر عمومی طلباء کے رجحانات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ مدارس سے باہر کے طلباء بھی سائنس کے مضامین کی طرف ہی رجحان رکھتے ہیں جو ان کی پیشہ وری میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ چونکہ مدارس کے طلباء کی عمریں 20 سال کے اوائل میں ہی ہوتی ہیں اس لیے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ مدارس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھ رہے ہیں جو عملی زندگی ان سے تقاضا کرتی ہے۔ تاہم ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ مضامین کا نتخاب کرتے ہیں تو اس سے ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ مدارس کے طلباء کی دنیا کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب معاشرہ اپنی رہنمائی کے لیے امام صاحبان کی طرف دیکھتا ہے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اکثر امام صاحبان کو ان مسائل کی جانکاری ہی نہیں ہوتی۔ چونکہ فقہی امور پر متضاد آراءملتی ہیں ا سلیے فہم ِ دین محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سےنزاعی کیفیت رہتیہے۔ قرآن و حدیث میں بنیادی معاملات کے بارے میں تو بتایا گیا ہے مگر ان کی تفصیل کے لیے فقہ کی جانب دیکھا جاتا ہے۔

اساتذہ کے پسندیدہ مضامین

جو مضامین اساتذہ کے پسندیدہ ہیں تقریباًوہی طلباء کے بھی ہیں ماسوائے علم الکلام کے جس کے بارے میں 19 اساتذہ نے کہا کہ وہ ان کے پسندیدہ مضامین میں سے ہے۔

ذہنی تشفی

غالب اکثریت یہ گمان کرتی ہے کہ ان کا نصاب ان کی ذہنی اور عقلی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ 46 طلباء نے اس کی تصدیق کی ہے۔ صرف دو نے کہا کہ نصاب ان کی عقل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جبکہ دو نے جواب نہیں دیا اس طرح 92 فیصد نے نصاب کو اپنی ذہنی اور عقلی ضروریات سے ہم آہنگ قرار دیا۔

پڑھائی کا دورانیہ

طلباء کو مطالعہ کے لیے روزانہ آٹھ گھنٹے دیے جاتے ہیں جو ایک دن کا ایک تہائی بنتے ہیں۔

طلباء کو عموماًروزانہ آٹھ گھنٹے پڑھائی کرنا ہوتی ہے۔ 42 فیصد طلباء نے بھی یہی جواب دیا جبکہ کچھ نے کہا کہ 5،6یا 7 گھنٹے، اس طرح 88 فیصد طلباء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی پڑھائی کے اوقات روزانہ آٹھ گھنٹے ہی ہیں۔ بہت کم نے جواب دیا کہ ان کی پڑھائی کے اوقات آٹھ یا نو گھنٹے روزانہ ہیں۔ ممکن ہے کہ مختلف مدارس میں پڑھائی کا یہ دورانیہ مختلف ہو۔

طلباء کی اکثریت نے بتایا کہ وہ روزانہ آٹھ گھنٹے پڑھتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک دن کا ایک تہائی اس مقصد کے لیے صرف کرتے ہیں۔عموماً وہ پڑھائی کا آغاز علی الصبحہینماز کے بعد کرتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے برعکس مدارس کے طلباء کو صبح سویرے پڑھائی شروع کرنی پڑتی ہے اور اسی نسبت سے ان کو چھٹی بھی جلد ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً آدھا دن انہیں غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مل جاتا ہے۔

اساتذہ پڑھانے کے دورانیہ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

یہ بات بھی بڑی دلچسپ کہ اساتذہ کہتے ہیں کہ پڑھائی کا روزانہ کا دورانیہ چھ گھنٹے یا اس سے بھی کم ہے۔ (طلباء کا خیال ہے کہ یہ آٹھ گھنٹے ہے )اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ دوپہر کے وقت جب انہیں وقفہ دیا جاتا ہے تو اساتذہ اس وقت کو شمار نہیں کرتے جبکہ طلباء اس دورانیے کو بھی شمار کرتے ہیں۔

پڑھائی کے دورانئے پر اظہار ِ اطمینان

اسی طرح کے ایک ملتے جلتے سوالکے جواب میں طلباء کی اکثریت یعنی 50 میں سے 48 اس بات سے مطمئن ہیں کہ ان کی پڑھائی کے اوقات صحیح ہیں۔ یہ کل کا تقریباً 96 فیصد بنتا ہے اور صرف چار فیصد اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ مدارس کے طلباء اس بات پر اعتراض نہیں کرتے کہ انہیں کیا پڑھایا جاتا ہے اور کتنا پڑھایا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ صحیح ہو رہا ہے اور انہیں اپنے اساتذہ اور ان کی جانب سے پڑھائی پر کس قسم کےاعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔

اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ سے خوش ہیں۔ یہ تعظیمانہ رویہ ان کے فرائض میں سب سے اہم ہے۔ کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ استاد کا احترام کس قدر اہم ہے۔ اور اس احترام کے لیے وہ اساتذہ کے پاؤں بھی چھوتے ہیں اور ان کے سامنے اپنا سر بھی جھکاتے ہیں۔

جن اساتذہ سے یہ سوال کیا گیا ان میں سے طلباء سے بھی زیادہ اکثریت نے پڑھائی کے دورانیہ پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔

غیر نصابی سر گرمیاں

 جب ان اسے پوچھا گیا کہ کیا ان کے مدارس میں غیر نصابی سر گرمیاں ہوتی ہیں ؟ تو زیادہ تر کا جواب ہاں میں تھا۔ اور کچھ نے اس سلسلے میں تجاویز بھی دیں۔ ۔44طلباء نے کہا کہ ان کے مدرسہ میں ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی ہیںجبکہ صرف چار نے کہا کہ نہیں ہوتیں۔ گویا 88 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

اساتذہ کیا کہتے ہیں ؟

اساتذہ کی اکثریت نے بھی یہی کہا کہ یہ سرگرمیاں ہوتی ہیں جبکہ اوسط کے لحاظ سے طلباء کے ساتھ ان کا فرق صرف تین فیصد ہے جو کہتے ہیں کہ مدارس میں یہ سرگر میاں ہوتی ہیں۔

پڑھائی کے بعد کی سرگرمیاں

زیادہ تر طلباء اس کے بعدکھیلوں کی سرگرمیوں،مطالعے یا پھر کمپیوٹر کے استعمال میں مصروف ہوتے ہیں جس میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گفت و شنید کرتے ہیں ۔ 24 فیصد نے کہا کہ وہ کھیلوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ صرف چار فیصد نے کہا کہ وہ کھیلوں کی کسی تنظیم سے بھی منسلک ہیں۔22فیصد نے کہا کہ وہ اپنا فارغ وقت مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاید کوئی ایک آدھ ہی طلبہ ایسا ہو جو ان سب سرگرمیوں کا حصہ بن سکتا ہو۔تقریباً 20 فیصد کمپیوٹر سے منسلک ہوتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کی جانب ان کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ان کی سرگرمیاں بھی سکولوں کی طلباء سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ مدارس کے طلباء موبائل کی طرف کم رجحان رکھتے ہیں جبکہ وہ مطالعے کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔

اساتذہ کیا کہتے ہیں ؟

یہ بات ایک بار پھر سامنے آئی کہ ان کے نتائج بھی وہی ہیں جو طلباء کے ہیں۔ یعنی اکثریت کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے اس کے بعد انٹر نیٹ،کمپیوٹر، مطالعہ اور ورزش بھی ان کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔

غیر نصابی سرگرمیوں کا دورانیہ

پڑھائی کے اوقات میں غیر نصابی سرگرمیوں کا دورانیہ ایک گھنٹے سے زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر طلباء نے کہا کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں نماز عصر کے بعد حصہ لیتے ہیں جو مغرب کی نماز یا پھر عشاء کی نماز تک جاری رہتی ہیں۔ عصر سے مغرب کا دورانیہ موسم کے حوالے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ سردیوں میں یہ دورانیہ بہت کم ہوتا ہے جہاں طلباء کو ایسی سرگرمیوں کے بہت کم مواقع ملتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے کمروں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ عموماً گرمیوں کا موسم ہی ان کی غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے سب سے موزوں ٹھہرتا ہے جب وہ کھیلوں کے ساتھ مطالعہ،گپ شپ اور دوسری سرگرمیاں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے ، سر انجام دیتے ہیں۔

جو چیز خصوصیت سےسامنے آئی وہ یہ ہے کہ مدارس کے طلباء پڑھائی کا آغاز نماز فجر کے بعد کرتے ہیں اور یہ دورانیہ ظہر تک جاری رہتا ہے، عصر کے بعد وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ ظہر اور عصر کے درمیان وہ آرام کرتے ہیں۔

اساتذہ کیا کہتے ہیں ؟

یہاں متضاد آراء سامنے آئی ہیں۔ کیا یہ دورانیہ دو گھنٹوں سے زائد ہے جیسا کہ زیادہ تر طلباء نے کہا ہے یا پھر یہ اس سے کم ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دورانیہ عصر کی نماز کے بعد کا ہے جو موسم کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ دورانیہ سردیوں میں کم اور گرمیوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

طلباء زیادہ تر جو موضوعات زیر بحث لاتے ہیں ان میں تعلیم،عالمی صورتحال اور مذہب شامل ہیں۔مذہبی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ آتا ہے کہ وہ کیوں مذہب اور تعلیم پر گفتگو کرتے ہیں۔ 29 طلباء نے کہا کہ وہ تعلیمی امور پر گفتگو کرتے ہیں 15 نے کہا کہ وہ مذہبی مسائل پر بات کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ موضوعات فرقہ وارانہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مدرسوں کے طلباء کے لیے چونکہ تعلیم مذہبیفرائض میں سے ہے اس لیے وہ مذہب کی تعلیم کو ہیفرض جانتے ہیں۔

اسی طرح وہ عالمی صورتحال میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ یا ان کا مذہب ایسا ہے جس پر سب کی توجہ ہے۔ 21 طلباء نے کہا کہ وہ دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ عالمی صورتحال پر بھی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنی یا اپنے خاندانی امور پر بات نہیں کرتے۔ صرف دو نے اس سوال کا ہاں میں جواب دیا۔ اس حوالے سے انہیں دنیا کی تو فکر ہے مگر اپنی نہیں۔ایک بار پھر یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ باطنی طور پر اپناتنقیدی جائزہ لینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ اپنے معاشرتی مسائل پر بھی کم توجہ دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے بھی کہاجا چکا ہے کہ وہ الگ تھلگ ہو چکے ہیں جہاں ان کی توجہ خود پر زیادہ ہے۔ انھوں نے واضح طور پر جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے ان میں مذہب،تعلیم،عالمی صورتحال شامل ہیں۔

اساتذہ کی رائے

دوسروں کی طرح اساتذہ بھی انہی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جن پر طلباء کرتے ہیں۔ 12 اساتذہ نے کہا کہ وہ دوسرے موضوعات کے ساتھ مذہبی موضوعات پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔

سیاسی وابستگی

24 طلباء جو کل طلباء کو 48 فیصد بنتے ہیں انھوں نے کہا کہ وہ سیاسی،فرقہ وارانہ یا مذہبی جماعتوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔یہ پاکستان کی مجموعی اوسط سے زیادہ کی تعداد ہے جہاں ووٹ ڈالنے کی شرح 40 فیصد سے بھی کم رہتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ رجحان پاکستانی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جہاں پر سیاسی وابستگی کا یہی رجحان ہے۔ تاہم ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جو اپنی سیاسی وابستگی کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ کئی نے برملا طور پر یہ کہا کہ وہ جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ہیں جو کہ دیو بند مسلک کی ایک جماعت ہےجو ملکی سطح پر سرگرم ہے۔ ایک بار پھر یہ بات سامنے آئی کہ ان کی سیاسی وابستگیوں کا رجحان پاکستان کے مجموعی رجحان سے مختلف بالکل نہیں ہے۔اگرچہ مجموعی طور پر وہ مذہبی جماعتوں کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔لیکن جو ان کے ممبر ہوں انہیں ان جماعتوں کے لیے باقاعدہ وقت نکالنا پڑتا ہے۔

سیاست میں شرکت کے بارے میں اساتذہ کیا کہتے ہیں ؟

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا کا استعمال

غالب اکثریت یعنی 78 فیصد سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے۔ صرف 10 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے اس کاا ستعمال کبھی نہیںکیا۔ لیکن یہ 10 فیصد جو کہ سوشل میڈیا کا ستعمال نہیں کرتے وہ بھی ایس ایم ایس کا استعمال بہت شوق سے کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود کو سوشل میڈیا سے بالکل الگ تھلگ نہیں کرنا چاہتے۔

 

اساتذہ سوشل میڈیا کا استعمال کیسے کرتے ہیں ؟

طلباء کی طرح اساتذہ بھی سوشل میڈیا کا وسیع استعمال کرتے ہیں۔ صرف چار نے کہا کہ وہ اس کا استعمال نہیں کرتے یا شاید وہ اسے استعمال کرنے میں سہولت محسوس نہیں کرتے۔

سوشل میڈیا کے آلات اور قسمیں

ایس ایم ایس کے بعد وہ سب سے زیادہ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔32طلباء نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا میں فیس بک کا استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ 20 نے کہا کہ وہ ایس ایم ایس کا استعمال کرتے ہیں۔ ایس ایم ایس کا طریقہ کافی عرصے سے مروجہ ہے اور اسے ہر فون سے کیا جا سکتا ہے اس لیے اس کے استعمال کی وجہ سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی ایسا کرتی ہے۔لیکن فیس بک کے لیے کمپیوٹر یا انٹر نیٹ کا کنکشن درکار ہوتا ہے۔ اس لیے مدارس کے جو طلباء اس کااستعمال کرتے ہیں انہیں یہ سہولت میسر ہے۔ اس لیے کلاس روم کے بعد سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کا استعمال کر کے انہیںمصروف رکھا جا سکتا ہے۔

ایک بار پھر وہی نتایج سامنے آئے جو کہ طلباء کے تھے کہ اساتذہ کی اکثریت بھی ایس ایم ایس کے بعد فیس بک کا استعمال کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پر صرف کیا گیا وقت

طلباء کی اکثریت یعنی 26 طلباء نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال ایک گھنٹے سے بھی کم وقت کے لیے کرتے ہیں۔ یہ وقت کم یا زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا انحصار کلاس روم کے بعد دستیاب وقت اور ان کی اپنی ضرورت پر ہے۔اس کے علاوہ 9 طلباء ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ وہ اس مقصد کے لیے دو گھنٹے صرف کرتے ہیں جبکہ تین نے کہاکہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال تین گھنٹوں تک کرتے ہیں۔

اساتذہ سوشل میڈیا پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں ؟

اساتذہ کی اکثریت بھی سوشل میڈیا کے لیے ایک گھنٹے سے کم وقت صرف کرتی ہے۔ اس سے قبل طلباء میں بھی یہی رجحان سامنے آیا تھا۔

سوشل میڈیا پر زیر بحث موضوعات

ان موضوعات میں ان کی غیر نصابی سرگرمیاںبھی شامل ہیں۔طلباء کی اکثریت یعنی 25 طلباء نے کہا کہ وہ تعلیمی موضوعات پر بات کرتے ہیں 16 نے کہا کہ عالمی صورتحال پر جبکہ 10 نے کہا کہ وہ مذہبی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔ چونکہ تعلیمی اور مذہبی موضوعات میں یکسانیت ہے اس لیے کل 36 طلباء نے ان پر بات کی۔ عالمی صورتحال پر بات کرنے والوں کی تعداد 16 تھی جبکہ 10 طلباء نے کہا کہ وہ سیاست پر بات کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر 26 میں سے دو نے کہا کہ وہ دیگر موضوعات پر بھی بات کرتے ہیں۔ اس مطالعہ سے وابستہ ماہرین کی یہ رائے ہے کہ عالمی امور کے بارے ان طلباء کی رائے پر سوشل میڈیا اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ایسا میدان ہے جہاں بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

اساتذہ عالمی صورتحال کے ساتھ ساتھ تعلیمی معاملات بھی زیر بحث لاتے ہیں اس کے بعد سیاست اور مذہبی معاملات بھی ان کی گفتگو میں شامل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ بھی وہی رجحان رکھتے ہیں جو طلباء کا ہے۔

سوشل میڈیا پر دوست کس قسم کے ہیں ؟

ان طلباء کے دوست بھی ان کے ہم جماعت،ہم مدرس یا پھر دوسرے مدارس کے طلباء ہی ہیں۔تاہم کچھ کے دوستوں میں دوسرے لوگ یا دوسرے عقائد یا مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔

اساتذہ کئی افراد جن میں دوسرے فرقے اور مدارس کے لوگ بھی شامل ہیں ان کے ساتھ سوشل میڈیا پر تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی دوستیاں دوسرے عقائد کے ماننے والوں سے بہت کم ہیں۔

میڈیا تک رسائی

اخبارات

تقریباً 42 طلباء جو کہ 84 فیصد بنتےہیں وہ باقاعدگی سےاخبارات پڑھتے ہیں۔ تین طلباء نے کہا کہ وہ بالکل نہیں پڑھتے۔ چار نےجواب نہیں دیا (جبکہ ایک کا جواب صحیح طریقے سے درج نہیں کیا گیا )۔

جو طلبا اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کی اکثریت تقریباً 16 طلبا پشاور سے شائع ہونے والا اخبار مشرق پڑھتے ہیں۔ جبکہ اس کے بعد 13 طلباء پشاور سے ہی شائع ہونے والے اخبار آج کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ جبکہ دس نے کہا کہ وہ جنگ کا مطالعہ کرتے ہیں جو کہ اسلام آباد اور پشاور سے شائع ہوتا ہے۔ جنگ،مشرق اور آج بڑے اخبارات ہیں لیکن کسی خاص فکری رجحان کے طرف دار نہیں ہیں۔ جو طلباء مشرق اور آج کا مطالعہ کرتے ہیں وہ بھی ایک عمومی رجحان ہی ہے کیونکہ پشاور کے زیادہ تر پشتون آج ہی پڑھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آج اور مشرق پشاور کے مقامی اخبارات ہیں۔ اس طرح یہ رجحان بھی معاشرے کے عمومی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اور وہ بھی اخبارات پڑھنےاور سوشل میڈیاکے استعمال میں ویسا ہی رجحانرکھتے ہیں جیسا کہ عام لوگو ںکا ہے۔ اسی طرح معلومات کے ذرائع بھی ایک جیسے ہی ہیں۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ طلباء بھی عمومی رجحان رکھتے ہیں۔قابل ذکر تعداد ایسے طلباء کی بھی ہے جو کہ شدت پسند اخبار مثلاً "ضرب ِ مومن " کا مطالعہ کرتے ہیں۔ان طلباء کی تعداد سات تھی۔یہ رجحان خطرے کی نشاندہی کرتا ہے جس کا سدباب کیا جانا چاہئے۔ابھی تک مدارس میں طلباء ایسے اخبارات پڑھ رہے ہیں۔

اسی دوران مدارس میں مختلف آراء بھی سامنے آتی ہیں کہ کچھ عمومی رجحان کے مطابق اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور کچھ کا رجحان شدت پسند میڈیا کی جانب ہے۔

اساتذہ کیا پڑھتے ہیں ؟

رسائل و جرائد

اخبارات کے ساتھ ساتھ طلباء کی اکثریت رسائل و جرائدکا بھی باقاعدگی سے مطالعہ کرتی ہے۔ تقریباً 37 طلباء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے۔8 نے نفی میں جوب دیا اور 8 نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ان جرائدکے موضوعات مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان کا انتخاب بھی مفصل ہے۔ سات نے کہا کہ وہ "الحق" پڑھتے ہیں جبکہ چھ نے کہا کہ وہ "حق چار یار" پڑھتے ہیں۔اس کے بعد " الشریعہ " اور " فکر و نظر " کا نمبر آتا ہے جس کو پڑھنے والوں کی تعداد تین ہے۔ " صحیفہ اہل حدیث " پڑھنے والوں کی تعداد بھی تین ہے۔ میگزین کے مطالعہ کے حوالے سے طلباء دو متضاد سمتوں میں گامزن ہیں۔ "الشریعہ" اور "فکر و نظر " شائستہ مزاج رکھتے ہیں جبکہ "حق چار یار "شدت پسند اور فرقہ وارانہ رجحان رکھتا ہے۔یہ دو مختلف رجحان اس بات کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ مدارس کے اندر سے طلباء کو مختلف رجحان کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی آراء میں کوئی یکسانیت بھی نہیں ہے۔

یہ اندرونی تنوع اس بات کا بھی عکاس ہے کہ وہاں سیاسی اور فرقہ وارانہ وابستگی کے زاویئے الگ الگ ہیں۔ طلباء جرائد کے مطالعے کے وقت ان کی فرقہ وارانہ وابستگی کوبھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ " صحیفہ اہل حدیث " اہل حدیث مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔

جب طلباء کے اخبارات پڑھنے کے رجحان کا تقابل ان کے جرائد پڑھنے سے کیا جاتا ہے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ روزانہ کے معاملات سے آگاہی کے لیے صفِ اوّلکے اخبارات کا ہی مطالعہ کرتے ہیں لیکن جب وہ کسی چیز کا گہرائی میں جا کر مشاہدہ کرنا چاہیں تو پھر وہ اس کا جائزہ اپنی سیاسی اور فرقہ وارانہ وابستگی کے پس منظر میں لیتے ہیں۔جس کی مثال یہ ہے کہ کچھ جدید جرائد پڑھتے ہیں اور کچھ شدت پسند۔یہ رجحان یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ طلباء کے سوچنے کے انداز کو کس طرح جرائد متاثر کرتے ہیں اگر جدت پسند جرائد سامنے آئیں تو طلباء کی سوچ بدل سکتی ہے۔ سیاست کی جانب ان کی دلچسپی بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ معاشرہ انہیں اس جانب راغب کر کے ان کی تنقیدی سوچ کو جلا بخش سکتاہے۔

اساتذہ کون سے جرائد پڑھتے ہیں ؟

طلباء کی ایک بڑی تعداد یعنی 41 طلباء نے کہا کہ وہ اساتذہ سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں جبکہ صرف 4 نے کہا کہ وہ رابطہ نہیں رکھتے اور 5 نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ طلباء کی بڑی تعداد اپنے اساتذہ سے رابطہ رکھتی ہے جبکہ یونیورسٹی کے طلباء کا اپنے اساتذہ سے رابطہ کم ہوتا ہے کیونکہ وہ یونیورسٹی کے اوقات کے بعد رابطے میں نہیں رہتے لیکن مدارس کے اساتذہ سے رابطہ ممکن ہوتا ہے بالخصوص نماز عصر کے بعد وہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کا اساتذہ کے ساتھ قریبی تعلق یہ ظاہر کرتا ہے کہ اساتذہ ان کے خیالات کی تشکیل اور دنیا کے بارے میں ان کی رائے کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اس لیے سول سوسائیٹی کو اساتذہ کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہئے۔

اساتذہ طلباء کے ساتھ اپنے روابط کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

تمام اساتذہ جنہوں نے جوابات دیئے انھوں نے کہا کہ وہ اپنے طلباء سے قریبیرابطہ رکھتے ہیں۔استاد اور طلباء کے رشتے کی پائیداری کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ طلباء اپنے نصاب اور طرز تدریس سے مطمئن ہیں۔

باہمی گفتگو میں زیر بحث آنے والے موضوعات

جب طلباء سے یہ دریافت کیاگیا کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ کیا گفتگو کرتے ہیں تو 20 طلباء نے کہا ان کی گفتگو میںدیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ تعلیمی موضوعات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے طلباء سے جب پوچھا گیا تھا کہ وہ آپس میں کن موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں تو ان کا جواب بھی یہی تھا۔تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ عالمی سیاست، ملکی سیاست،مذہب اور فقہ کے موضوعات بھی زیر بحث لاتے ہیں۔

گفتگو کے موضوعات میں مدارس کے طلباء مذہب اور سیاست دونوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے پر دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء اگر سیاست میں دلچسپی رکھتے بھی ہیں تو وہ مذہبی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس طرح مدارس کے طلباء دونوں میدانوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔

اساتذہ نے طلباء کی دی ہوئی رائے کے مطابق ہی بات کی تاہم ایک اور موضوع جس کا انہوں نے اضافہ کیا وہ کرادر سازی کا تھا۔ اساتذہ نے کہا کہ وہ اس پر بہت زور دیتے ہیں۔

طلباء اساتذہ کے باہمی میل جول کا دورانیہ

زیادہ تر طلباء یعنی 16 نے کہا کہ وہ اساتذہ کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھتے ہیں جو روزانہ ایک گھنٹے تک کا ہوتا ہے۔ 7 طلباء نے کہاکہ یہ دورانیہ سات گھنٹوں کا ہے 4 نے کہا کہ دو گھنٹوں کا ہے جبکہ 11 نے کہا کہ اس کا انحصار ضرورت پر ہے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مدارس کے طلباء کا اساتذہ کے ساتھ مسلسل رابطہ ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے پر سکولوں میں یہ رابطہ بہت کم ہے۔طلباء اور اساتذہ کے رابطے کے بارے میں اس رپورٹ میں پہلے بھی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ اس رابطے سے طلباء پرکافی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ وہ انہیں پڑھائی کے بعد بھی وقت دیتے ہیں۔

اس بارے میں اساتذہ کیا کہتے ہیں ؟

اساتذہ کی ایک بڑی تعداد یعنی 11 نے کہا کہ وہ پڑھائی کے اوقات کے بعد طلباء سے گفتگو کرتے ہیں یہ دورانیہ ایک گھنٹے یا اس سے کم ہو سکتا ہے۔اس مسلسل باہمی رابطے سے دونوں کے درمیان ایک پائیدار رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔

پسندیدہ شخصیات،کالم نگار اور رائے ساز

اس سروے میں اساتذہ اور طلباء سے ان کی پسندیدہ شخصیات کے بارے میں بھی پوچھا گیا جن میں اخبارات کے کالم نگار اور رسائل و جرائدکے لکھاری شامل تھے۔ اگرچہ اس میں انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا تاہم وہ کئی ایک کی نشاندہی کر سکتے تھے۔مدارس کے طلباء نے اس سلسلے میں متنوع شخصیات کا ذکر کیا۔ اگرچہ کچھ کا رجحان شدت پسند لکھاریوں کی طرف ہے جبکہ کچھ جدت پسندوں کی جانب رجحان رکھتے ہیں۔ اگرچہ طلباء کا سوچنے کا انداز یکساں ہے مگر پھر بھی دنیا کے بارے میں ان کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان کے اندر موجود یہ تنوع ایک مثبت اشارہ ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ مدارس کے طلباء کچھ شدت پسند لکھاریوں کو بھی پسند کرتے ہیں یہ لکھاری یا تو مذہب کی توجیح ایک محدود دائرے میں کرتے ہیں یا پھر ریاستی حیثیت کو محدود سطح پر دیکھتے ہیں۔لیکن یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مدارس کے طلباء ان مشہور لیکن شدت پسند لکھاریوں کو بھی بہت سے دیگر پاکستانیوں کی طرح پسند کرتے ہیں۔ اس سے ایک بات پھر یہ بات سامنے آئی کہ مدارس کے طلباء بھی عمومی معاشرتی چلن سے ہی منسلک ہیں جہاں کئی شدت پسند لکھاریوں کے قاری بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن ایک اور بات جو یہاں سامنے آئی وہ طلباء کا فرقہ وارانہ رجحان بھی ہے یعنی وہ اس لکھاری کو پسند کرتے ہیں جو ان کے فرقے سے منسلک ہو۔ دیوبندی طلباء دیو بندی لکھاریوں سے جبکہ بریلوی طلباء بریلوی لکھاریوں سے متاثر ہیں۔ جس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ مدارس اپنے اپنے فرقے کی ترویج کرتے ہیں۔

 

اساتذہ کی پسندیدہ شخصیات

انگریزی سے ترجمہ: سجاد اظہر


خصوصی فیچر